شیخ عبد الحنان سامرودی، حفظہ اللہ۔ تعارف
ہم درست کر دیں گے تو لوگوں کی تصحیح ممکن نہیں ہوگی۔۔۔!!! اور غلطیاں دہرائی جاتی رہیں گی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعدہْ، کچھ احباب نے شیخ صاحب کا تعارف کرنے کو کہا تھا :
شیخ صاحب ہندوستان کے ایک علمی گھرانے جلیل القدر عالم عبد الجلیل سامرودی صاحب کے پوتے ہیں، جن کا شمار جماعت غربائے اہل حدیث کے اکابر علما میں ہوتا ہے۔ موصوف کئی کتب کے مصنف بھی ہیں اور خصوصا مشکوٰۃ شریف پر ایک تحقیقی کام بھی کیا ہے لیکن اب تک وہ طبع نہیں ہوسکی۔
شیخ عبد الحنان سامرودی صاحب بھی اسی گھر کے چشم و چراغ ہیں لہٰذشیخ بھی علم و عمل اور زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ حفظ کے بعد شیخ صاحب نے جامعہ ستاریہ الاسلامیہ سے دینی علوم کا فیض حاصل کیا، اور اس کے بعد مختلف مقامات پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت بھی طارق روڈ کے دو تین مساجد میں صبح فجر کے بعد تفسیر اور صحیح بخاری کی کلاسیں بلا ناغہ جاری تھیں، جو کہ ایک بار قراآن مجید کی تفسیر ایک بار رحمان مسجد میں پایہ تکمیل تک پہنچ گئی تھی۔ اور اس کے بعد ایک منارہ مسجد میں یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔
دارالحدیث رحمانیہ میں کافی عرصہ استاد کی حیثیت سے رہے اور بعد میں مفتی اور شیخ الحدیث کی مسند پر بھی براجمان ہوئے۔ چونکہ شیخ موصوف سیاسی چالبازی، بلاوجہ کی تعریف و خوشنودی کو بالکل پسند نہیں فرماتے اس لئے کچھ سیاسی عناصر کو ایسے علما برے لگتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائے۔ لہٰذا شیخ نے وہاں کی مسند کو صرف سیاسی بے ہودگی کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
شیخ صاحب ایک حکومتی اسکول میں بھی تدریس کرتے ہیں۔ اور جو سانحہ پیش آیا وہ بھی اسی اسکول میں پیش آیا جہاں آپ تدریس کر رہے تھے۔
شیخ نے اس وقت کچھ کتب پر بھی کام کیا ہے۔ ان شا اللہ وقت ملنے پر ان کی تفصیل پر یہاں شائع کرونگا۔