• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ عبد اللہ شہزاد حادثے کا شکار ہوگئے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
الشیخ حافظ عبداللہ شہزاد رحمہ اللہ تعالیٰ (متعلم مدینہ یونیورسٹی ) 6فروری بروز سوموار کو مدینہ منورہ میں ایک سانحہ میں شہید ہو گے انا للہ و انا الیہ راجعون ’’ کی نماز جنازہ مسجد نبوی الشریف میں بعد از نماز مغرب امام صالح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ نے ادا کروائی اور ان کو البقیع قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔ آج گردو نواح کی درج ذیل مساجد میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
متوفی کا آبائی گاؤں حسین خانوالہ چک نمبر 8 پتوکی
شیخ الحدیث ابو نعمان بشیر صاحب
جامعہ لاہور الاسلامیہ مرکز البیت العتیق لاہور
ڈاکٹر حمزہ المدنی صاحب
جامع لاہور الاسلامیہ مرکز بیت التوحید لاہور
مولانا مرزا عمران حیدر صاحب
مرکز امام بخاری کوٹ لکھپت لاہور
مولانا زکریا چیمہ صاحب
مرکز سلمان فارسی جوہر ٹاون لاہور
مولانا اسحاق طاہر صاحب
جامع مسجد اسحاق یوکے سنٹر لاہور
مولانا مفتی عطاء الرحمن علوی ٰ صاحب
جامع عمر بن عبدالعزیز لاہور
علامہ زبیر احمد ظہیر صاحب
مرکزی جامع مسجد حسین اہلحدیث کرول وال گاؤں لاہور
حضرت مولانا خورشید احمد خلیق صاحب
جامع مسجد التوحید اہلحدیث شاد باغ لاہور
الشیخ قاری عبدالمتین اصغر صاحب
جامع مسجد الرحمن اہلحدیث عیز بھٹی لاہور
مولانا عارف شاہ صاحب
جامع مسجد المنور اہلحدیث لاہور
مولانا راشد محمود صاحب
جامع مسجد قلعہ والی کوٹ لکھپت لاہور
قاری محمد شفقت صاحب
جامع مسجد بیت الرحمن اہلحدیث الرحمن سٹی لاہور
حضرت مولانا عبدالمنان صاحب
مرکز جامع مسجد بلال کوٹ عبدالمالک لاہور
قاری سیف اللہ الزایاد المدنی
جامع مسجد مرکز الصدیق اہلحدیث سادات ٹاؤن لاہور
حضرت مولانا عبدالمنان صاحب
جامع مسجد تقویٰ اہلحدیث کرول بھاٹی لاہور
مولانا قاری محمد ندیم صاحب
مرکز جامع مسجد ریاض الجنہ اہلحدیث علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
الشیخ مولانا محمد شفیع طاہر صاحب
جامع مسجد البدر اہلحدیث منصورہ بازار لاہور
مولانا مبشر علی حسن صاحب
مرکز جامع مسجد الحبیب اہلحدیث اتفاق ٹاؤن لاہور
قاری المقری اسد اللہ صاحب
جامع مسجد منڈی عثمان والا قصور
مولانا عبدالستار صاحب
جامع مسجد محمدی فورٹ عباس
مولانا اکرم طارق صاحب
جامع مسجد دارلسلام فورٹ عباس
مولانا اخلاق صاحب
جامع مسجد المنار فورٹ عباس
مولانا ریاض ابوبکر صاحب
جامع مسجد مصب بن عمیر 311 مروٹ
مولانا عبدالخاق صاحب
مرکز صوت القرآن چشتیاں
مولانا عثمان فاروقی صاحب
مرکز الفلاح الاسلامی منڈی واربٹن
حافظ ذاکر الرحمن صدیقی صاحب
جامع مسجد اللہ والی حافظ والا
حافظ عمران تبسم
جامع مسجد التوحید فورٹ عباس
حافظ صدیق صاحب
جامع مسجد سمیرہ فورٹ عباس
شیخ الطیف صاحب
مرکزی جامع مسجد النور تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ
مولانا حافظ یعقوب صاحب
مرکز ی جامع مسجد التوحید و جامع شمس الہدیٰ اہلحدیث ڈسکہ
مولانا عبدالغفور طاہر صاحب
جامع مسجد نمرہ اہلحدیث ننکانہ صاحب
مولانا قاری عبدالرؤف صاحب
مرکزی جامع مسجد اہلحدیث جوہر آباد والے
الشیخ القاری حبیب اللہ صاحب
مرکزی جامع مسجد عائشہ صدیقہ اہلحدیث مین بازار ابیٹ آباد
مولانا سرفراز صاحب
مرکزی جامع مسجد مکرم اہلحدیث و جامع اسلامیہ سلفیہ ماڈل ٹاؤن گجرانوالہ
قاری المقری احسان اللہ اولکھ صاحب
جامع مسجد اہلحدیث اسحاق پورہ سانگلہ حل
مولانا شاہ فیصل صاحب
جامع مسجد الہدیٰ اہلحدیث کوٹ سرور
محترم جناب سیف اللہ صاحب
جامع مسجد علی بن ابی طالب فیروز الہ بازار
مولانا قاری عبدالمنان صاحب
مرکزی جامع مسجد مبارک اہلحدیث نوشیرہ ورکاں حافظ آباد
حضرت مولانا عرفان صدیقی صاحب
جامع مسجد اکرم اہلحدیث گوجرانوالہ
الشیخ مولانا مزقیل صاحب
جامع مسجد بلال اہلحدیث کینٹ گجرانوالہ
قاری المقری سہیل صاحب
جامع مسجد التوحید گجو متہ لاہور
حضرت مولانا قاری یسین صاحب
جامع مسجد قباء اہلحدیث الحمد ٹاؤن نزد موٹر وئے فیصل آباد
مولانا محمد آفتاب محمدی صاحب
مرکزی جامع مسجد اہلحدیث ہری پور ہزارہ
مولانا خورشید صاحب
منقول​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
رحل عبد اللہ و بقی أثرہ

میں نے جب حفظ شروع کیا ، اس وقت شیخ عبد اللہ شہزاد کلیۃ القرآن کی دوسری کلاس میں تھے ، پھر پتہ نہیں کب وہ جامعہ رحمانیہ سے مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ میں چلے گئے ، کافی سال گزرنے کے بعد جامعہ رحمانیہ میں ہونے والے ایک پروگرام میں انہیں دیکھا ، استاد محترم شفیع طاہر صاحب حفظہ اللہ نے انہیں باصرار اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا ، پتہ چلا ستیانہ سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کا داخلہ ہوگیا تھا، چھٹیوں میں مادر علمی کی زیارت اور اساتذہ کرام کو ملنے آئے ہوئے ہیں ۔
پھر کچھ عرصہ بعد ہم جامعہ اسلامیہ میں آگئے ، آتے ہی ابتدا میں ہی جن لوگوں سے شناسائی ہوئی ، ان میں شیخ عبد اللہ شہزاد تھے ، سات سال گزر گئے ، چند دن پہلے اچانک حادثے کی اطلاع ملی تو پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہونا شروع ہوگئیں ۔
سمجھ نہیں آرہی ، بات کہاں سے شروع کروں ؟ کیا ذکر کروں اور کیا نہ کروں ؟
نیکی ، تقوی ، زہد و ورع ، محنتی ہونا تو ان کا سب کے ہاں مسلم ہے ، مسلمان بھائی کو اچھی نصیحت اور اس کی خیرخواہی پر وہ جس قدر توجہ کرتے تھے ، اس پر بھی ہمارے جیسے بہت سارے لوگ گواہ ہیں ۔
جس انداز سے ان کی محتاط طبیعت تھی ، جس سادہ مزاجی سے وہ رہتے تھے ، جس نے دیکھا نہیں ، یہی سمجھتا ہے کہ شاید چہرے سے خشکی و یبوست ٹپکتی ہوگی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں جب بھی دیکھا ، اکثر اوقات ہونٹوں پر سنجیدہ مسکان نظر آئی ۔
کمپیوٹر میں کوئی پروگرام کروانے کے لیے ، ٹائپنگ وغیرہ یا کسی کتاب کے متعلق معلومات کے لیے کئی دفعہ میرے کمرے میں تشریف لے آیا کرتے تھے ، ہمیشہ مکمل ادب و احترام کے ساتھ مخاطب ہوتے ، آتے ہوئے یا فون ملاتے ہوئے ہمیشہ اوقات کا خیال رکھتے کہ کہیں دوسرے کے آرام میں مخل نہ ہوں ۔
پتہ چلتا کہ کسی طالبعلم کا کوئی مسئلہ ہے ، اور وہ حل کرسکتے ہیں ، اس میں پوری کوشش کرتے ، مشایخ کے دروس کی طرف رہنمائی کرتے ، صوم و صلاۃ کے خود تو پابند تھے ہی ، دوسروں کو بھی مناسب انداز میں توجہ دلاتے ۔
فیملی مدینہ منورہ میں لانے سے پہلے جامعہ میں رہائش پذیر تھے ، ان کے اوقات اور ٹائم ٹیبل دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور رشک آتا ۔
عام دنوں مسجد نبوی لے جانے والی گاڑیاں عصر کے بعد جاتی ہیں ، لیکن جمعہ والے دن جمعہ کے لیے بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے ، طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد جمعہ پڑھ کر کھانا کھانے یا جامعہ واپس آجاتے ہیں یا پھر ادھر ادھر بازار میں چلے جاتےہیں ، عبد اللہ بھائی اور ان کے بعض رفقاء کا طریقہ کار انوکھا تھا ، جب جمعہ کے لیے جاتے ، تھوڑی بہت روٹی ساتھ ہی لے جاتے ، جمعہ کے بعد وہیں کسی مناسب جگہ دو لقمے لگا کر پھر وہیں عبادت میں یا لائبریری میں مشغول ہوجاتے ۔
چونکہ میں بھی کلیۃ الحدیث میں ہی تھا ، کئی بار وہاں ملاقات ہوجاتی ، ایک بار مجھے ملے ، میں شلوار قمیص پہنے ہوئے تھا ، حیرانی سے کہنے لگے : آپ ماجستیر میں ہو کر بھی ثوب (جبہ) وغیرہ نہیں پہنتے ۔ اس وقت تو مجھے زیادہ سمجھ نہ آئی ، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ واقعتا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔
فیملی کو یہاں بلانا تھا ، کوئی مناسب رہائش نہیں مل رہی تھی ، ان سے کہیں تذکرہ کیا ، مجھے کہنے لگے ، پریشان نہ ہوں ، اللہ تعالی ضرور کوئی اچھا سبب لگائے گا ، پھر کہا کہ ٹائم نکالیں ، میں آپ کو گاڑی (اس وقت میرے پاس گاڑی نہیں تھی) ساتھ لے چلوں گا ، کہیں نہ کہیں کوئی شقہ ( فلیٹ) مل ہی جائے گا ۔
گاہے ایسا بھی ہوا ، پڑھائی کے بعد جامعہ سے گھر جاتے وقت دیکھا تو کہا : آئیں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں ۔
مستقل مزاج کافی تھے ، ماجستیر کا رسالہ لکھ رہے تھے ، مسجد نبوی میں کسی جگہ لیپ ٹاپ گم ہوگیا ، مجھے ایک یو ایس بی دی ، کہنے لگے ، اس میں میری بحث کا کچھ حصہ پی ڈی ایف میں محفوظ ہے ، اگر ممکن ہو تو اسے یونیکوڈ میں واپس لے آئیں ، میں نے کافی کوشش کی ، لیکن ٹیکسٹ اس حالت میں واپس آیا کہ اسے درست کرنے پر جتنا وقت مطلوب تھا ، اس سے کم وقت میں اسے دوبارہ نئے سرے سے لکھا جاسکتا تھا ۔ میں نے صورت حال سے آگاہ کیا ، کہنے لگے کوئی بات نہیں ، میں دوبارہ لکھ لوں گا ۔
یو ایس بی واپس کرتے کرتے دو تین ماہ گزر گئے ، متحمل مزاج تھے ، جب دو تین ماہ بعد میں انہیں مسجد نبوی لائبریری میں ملا ، تاخیر پر معذرت کی ، کہنے لگے ، کوئی بات نہیں ، کام چل رہا تھا ، میرے پاس اس کا متبادل موجود تھا ۔
جب سے میں ماجستیر میں ہوا ، رسالہ کے لیے موضوع اختیار کرنا ، پھر اسے پاس کروانا ، پھر جلد از جلد کام شروع کرنا ، اس حوالے سے بہت توجہ دلایا کرتے تھے ، کہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ کام نپٹالیں ، ورنہ لیت و لعل کرتے سارا وقت گزر جاتا ہے ، اور پھر آخری ایک سال یا چند مہینوں میں کام مکمل کرنے کی دوڑ میں طالبعلم صحیح لکھ نہیں پاتا ۔
ہمارے ایک استاد محترم تھے ، ان کی عادت تھی پنجابی میں بات کرتے ہوئے اردو بولنا شروع کردیتے ، پھر اردو سے پنجابی میں آجاتے ۔ شیخ عبد اللہ بھی بعض اوقات ایسے ہی کرتے تھے ، بعض لوگوں کے ہاں یہ عیب سمجھا جاتا ہے ، لیکن میں نے انہیں محسوس کیا وہ اس طرح کی چیزوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔
تقریبا ایک ماہ پہلے مجھ سے رابطہ کیا ، کہنے لگے کچھ ٹائپنگ کرنی ہے ، میں نے کہا ٹھیک ہے ، اوراق لے کر میرے پاس آئے ، ٹائپنگ مکمل کرکے جب شروع میں نام لکھنے کی باری آئی تو میں نے سوچا شاید یہ ان کی اپنی ذاتی بحث ہوگی ، لیکن مجھے اس لیے نہیں بتارہے ، تاکہ میں ٹائپنگ کا معاوضہ لینے میں کوئی پس و پیش نہ کروں ۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا ، ان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا ، وہ اس سارے معاملے میں صرف جذبہ خیرخواہی اور تعاون علی البر و التقوی کے تحت دلچسپی لے رہے تھے ۔ ان کی اس طرح کی پوشیدہ نیکیاں پتہ نہیں کتنی ہوں گی ؟ اللہ ان کے لیے زاد آخرت بنائے ۔
منگل کے دن بعد از مغرب مسجد نبوی میں ان کا جنازہ تھا ، مغرب کی اذان ہوئی ، عجیب و غریب کیفیت طاری تھی ، چند دن پہلے یہاں جمعے جماعتیں ادا کرنے والے ، ہر نماز کے بعد ’ الصلاۃ علی الأموات ‘ کی صدا سن کر نماز جنازہ میں شریک ہونے والے ، لائبریری سے نماز کی ادائیگی کے لیے نیچے آنے والے ، ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے نمازیں ادا کرنے والے عبد اللہ شہزاد نہیں جانتے تھے ، کہ کچھ ہی دن بعد لوگ ان کی نماز جنازہ کے لیے مسجد نبوی آئیں گے ، ان کے لیے لائبریری سے نیچے اتریں گے ، ڈیوٹی سے وقت بچاکر ان کے جنازہ میں شریک ہوں گے ۔
عبد اللہ شہزاد پھر بھی بہت خوش نصیب اور قسمت والے تھے ، دنیا سے گئے تو ہر شخص کی زبان پر ان کے اعمال صالحہ اور سیرت حسنہ کا تذکرہ تھا ، ہم جماعتوں نے ان کے نیکی و تقوی کی گواہی دی ، لائبریری میں ساتھ بیٹھنے والوں نے ان کا تذکرہ خیر کیا ، اساتذہ کرام خبر کی وفات سن کر دھاڑیں مار کر روئے ، ہم وطنوں نے ان کے حسن معاشرت و خوش خلقی کا اعتراف کیا ، یہ سب دیکھ کر بے ساختہ زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے ہیں ’ رحل عبد الله و بقي أثره ‘ جو کہ سعودیہ کے ایک معروف خطیب اور واعظ کی تقریر کا عنوان ہے ۔ عبد اللہ چلے گئے ، لیکن بہترین زندگی اور اچانک موت کی شکل ہمارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئے ، کہ پتہ نہیں کہاں کس وقت زندگی کی شام ہوجائے گی ، لہذا ہر وقت کوشش کرنی چاہیے ، دنیا کی فانی زندگی میں الجھنے کی بجائے کچھ ایسا کیا جائے جس سے آخرت سلجھتی رہے ۔
حافظ خضر حیات​
 
Last edited:
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
رحل عبد اللہ و بقی أثرہ

میں نے جب حفظ شروع کیا ، اس وقت شیخ عبد اللہ شہزاد کلیۃ القرآن کی دوسری کلاس میں تھے ، پھر پتہ نہیں کب وہ جامعہ رحمانیہ سے مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ میں چلے گئے ، کافی سال گزرنے کے بعد جامعہ رحمانیہ میں ہونے والے ایک پروگرام میں انہیں دیکھا ، استاد محترم شفیع طاہر صاحب حفظہ اللہ نے انہیں باصرار اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا ، پتہ چلا ستیانہ سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کا داخلہ ہوگیا تھا، چھٹیوں میں مادر علمی کی زیارت اور اساتذہ کرام کو ملنے آئے ہوئے ہیں ۔
پھر کچھ عرصہ بعد ہم جامعہ اسلامیہ میں آگئے ، آتے ہی ابتدا میں ہی جن لوگوں سے شناسائی ہوئی ، ان میں شیخ عبد اللہ شہزاد تھے ، سات سال گزر گئے ، چند دن پہلے اچانک حادثے کی اطلاع ملی تو پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہونا شروع ہوگئیں ۔
سمجھ نہیں آرہی ، بات کہاں سے شروع کروں ؟ کیا ذکر کروں اور کیا نہ کروں ؟
نیکی ، تقوی ، زہد و ورع ، محنتی ہونا تو ان کا سب کے ہاں مسلم ہے ، مسلمان بھائی کو اچھی نصیحت اور اس کی خیرخواہی پر وہ جس قدر توجہ کرتے تھے ، اس پر بھی ہمارے جیسے بہت سارے لوگ گواہ ہیں ۔
جس انداز سے ان کی محتاط طبیعت تھی ، جس سادہ مزاجی سے وہ رہتے تھے ، جس نے دیکھا نہیں ، یہی سمجھتا ہے کہ شاید چہرے سے خشکی و یبوست ٹپکتی ہوگی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں جب بھی دیکھا ، اکثر اوقات ہونٹوں پر سنجیدہ مسکان نظر آئی ۔
کمپیوٹر میں کوئی پروگرام کروانے کے لیے ، ٹائپنگ وغیرہ یا کسی کتاب کے متعلق معلومات کے لیے کئی دفعہ میرے کمرے میں تشریف لے آیا کرتے تھے ، ہمیشہ مکمل ادب و احترام کے ساتھ مخاطب ہوتے ، آتے ہوئے یا فون ملاتے ہوئے ہمیشہ اوقات کا خیال رکھتے کہ کہیں دوسرے کے آرام میں مخل نہ ہوں ۔
پتہ چلتا کہ کسی طالبعلم کا کوئی مسئلہ ہے ، اور وہ حل کرسکتے ہیں ، اس میں پوری کوشش کرتے ، مشایخ کے دروس کی طرف رہنمائی کرتے ، صوم و صلاۃ کے خود تو پابند تھے ہی ، دوسروں کو بھی مناسب انداز میں توجہ دلاتے ۔
فیملی مدینہ منورہ میں لانے سے پہلے جامعہ میں رہائش پذیر تھے ، ان کے اوقات اور ٹائم ٹیبل دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور رشک آتا ۔
عام دنوں مسجد نبوی لے جانے والی گاڑیاں عصر کے بعد جاتی ہیں ، لیکن جمعہ والے دن جمعہ کے لیے بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے ، طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد جمعہ پڑھ کر کھانا کھانے یا جامعہ واپس آجاتے ہیں یا پھر ادھر ادھر بازار میں چلے جاتےہیں ، عبد اللہ بھائی اور ان کے بعض رفقاء کا طریقہ کار انوکھا تھا ، جب جمعہ کے لیے جاتے ، تھوڑی بہت روٹی ساتھ ہی لے جاتے ، جمعہ کے بعد وہیں کسی مناسب جگہ دو لقمے لگا کر پھر وہیں عبادت میں یا لائبریری میں مشغول ہوجاتے ۔
چونکہ میں بھی کلیۃ الحدیث میں ہی تھا ، کئی بار وہاں ملاقات ہوجاتی ، ایک بار مجھے ملے ، میں شلوار قمیص پہنے ہوئے تھا ، حیرانی سے کہنے لگے : آپ ماجستیر میں ہو کر بھی ثوب (جبہ) وغیرہ نہیں پہنتے ۔ اس وقت تو مجھے زیادہ سمجھ نہ آئی ، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ واقعتا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔
فیملی کو یہاں بلانا تھا ، کوئی مناسب رہائش نہیں مل رہی تھی ، ان سے کہیں تذکرہ کیا ، مجھے کہنے لگے ، پریشان نہ ہوں ، اللہ تعالی ضرور کوئی اچھا سبب لگائے گا ، پھر کہا کہ ٹائم نکالیں ، میں آپ کو گاڑی (اس وقت میرے پاس گاڑی نہیں تھی) ساتھ لے چلوں گا ، کہیں نہ کہیں کوئی شقہ ( فلیٹ) مل ہی جائے گا ۔
گاہے ایسا بھی ہوا ، پڑھائی کے بعد جامعہ سے گھر جاتے وقت دیکھا تو کہا : آئیں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں ۔
مستقل مزاج کافی تھے ، ماجستیر کا رسالہ لکھ رہے تھے ، مسجد نبوی میں کسی جگہ لیپ ٹاپ گم ہوگیا ، مجھے ایک یو ایس بی دی ، کہنے لگے ، اس میں میری بحث کا کچھ حصہ پی ڈی ایف میں محفوظ ہے ، اگر ممکن ہو تو اسے یونیکوڈ میں واپس لے آئیں ، میں نے کافی کوشش کی ، لیکن ٹیکسٹ اس حالت میں واپس آیا کہ اسے درست کرنے پر جتنا وقت مطلوب تھا ، اس سے کم وقت میں اسے دوبارہ نئے سرے سے لکھا جاسکتا تھا ۔ میں نے صورت حال سے آگاہ کیا ، کہنے لگے کوئی بات نہیں ، میں دوبارہ لکھ لوں گا ۔
یو ایس بی واپس کرتے کرتے دو تین ماہ گزر گئے ، متحمل مزاج تھے ، جب دو تین ماہ بعد میں انہیں مسجد نبوی لائبریری میں ملا ، تاخیر پر معذرت کی ، کہنے لگے ، کوئی بات نہیں ، کام چل رہا تھا ، میرے پاس اس کا متبادل موجود تھا ۔
جب سے میں ماجستیر میں ہوا ، رسالہ کے لیے موضوع اختیار کرنا ، پھر اسے پاس کروانا ، پھر جلد از جلد کام شروع کرنا ، اس حوالے سے بہت توجہ دلایا کرتے تھے ، کہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ کام نپٹالیں ، ورنہ لیت و لعل کرتے سارا وقت گزر جاتا ہے ، اور پھر آخری ایک سال یا چند مہینوں میں کام مکمل کرنے کی دوڑ میں طالبعلم صحیح لکھ نہیں پاتا ۔
ہمارے ایک استاد محترم تھے ، ان کی عادت تھی پنجابی میں بات کرتے ہوئے اردو بولنا شروع کردیتے ، پھر اردو سے پنجابی میں آجاتے ۔ شیخ عبد اللہ بھی بعض اوقات ایسے ہی کرتے تھے ، بعض لوگوں کے ہاں یہ عیب سمجھا جاتا ہے ، لیکن میں نے انہیں محسوس کیا وہ اس طرح کی چیزوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔
تقریبا ایک ماہ پہلے مجھ سے رابطہ کیا ، کہنے لگے کچھ ٹائپنگ کرنی ہے ، میں نے کہا ٹھیک ہے ، اوراق لے کر میرے پاس آئے ، ٹائپنگ مکمل کرکے جب شروع میں نام لکھنے کی باری آئی تو میں نے سوچا شاید یہ ان کی اپنی ذاتی بحث ہوگی ، لیکن مجھے اس لیے نہیں بتارہے ، تاکہ میں ٹائپنگ کا معاوضہ لینے میں کوئی پس و پیش نہ کروں ۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا ، ان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا ، وہ اس سارے معاملے میں صرف جذبہ خیرخواہی اور تعاون علی البر و التقوی کے تحت دلچسپی لے رہے تھے ۔ ان کی اس طرح کی پوشیدہ نیکیاں پتہ نہیں کتنی ہوں گی ؟ اللہ ان کے لیے زاد آخرت بنائے ۔
منگل کے دن بعد از مغرب مسجد نبوی میں ان کا جنازہ تھا ، مغرب کی اذان ہوئی ، عجیب و غریب کیفیت طاری تھی ، چند دن پہلے یہاں جمعے جماعتیں ادا کرنے والے ، ہر نماز کے بعد ’ الصلاۃ علی الأموات ‘ کی صدا سن کر نماز جنازہ میں شریک ہونے والے ، لائبریری سے نماز کی ادائیگی کے لیے نیچے آنے والے ، ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے نمازیں ادا کرنے والے عبد اللہ شہزاد نہیں جانتے تھے ، کہ کچھ ہی دن بعد لوگ ان کی نماز جنازہ کے لیے مسجد نبوی آئیں گے ، ان کے لیے لائبریری سے نیچے اتریں گے ، ڈیوٹی سے وقت بچاکر ان کے جنازہ میں شریک ہوں گے ۔
عبد اللہ شہزاد پھر بھی بہت خوش نصیب اور قسمت والے تھے ، دنیا سے گئے تو ہر شخص کی زبان پر ان کے اعمال صالحہ اور سیرت حسنہ کا تذکرہ تھا ، ہم جماعتوں نے ان کے نیکی و تقوی کی گواہی دی ، لائبریری میں ساتھ بیٹھنے والوں نے ان کا تذکرہ خیر کیا ، اساتذہ کرام خبر کی وفات سن کر دھاڑیں مار کر روئے ، ہم وطنوں نے ان کے حسن معاشرت و خوش خلقی کا اعتراف کیا ، یہ سب دیکھ کر بے ساختہ زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے ہیں ’ رحل عبد الله و بقي أثره ‘ جو کہ سعودیہ کے ایک معروف خطیب اور واعظ کی تقریر کا عنوان ہے ۔ عبد اللہ چلے گئے ، لیکن بہترین زندگی اور اچانک موت کی شکل ہمارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئے ، کہ پتہ نہیں کہاں کس وقت زندگی کی شام ہوجائے گی ، لہذا ہر وقت کوشش کرنی چاہیے ، دنیا کی فانی زندگی میں الجھنے کی بجائے کچھ ایسا کیا جائے جس سے آخرت سلجھتی رہے ۔
حافظ خضر حیات​
جزاک اللہ خیر ۔ آپ نے تو رلادیا ۔ جس شخص کا نہ نام سنا نادیکھا اس سے محبت ہوگئی ہے مجھے.
اللہ ان کو اور ہمیں جنت الفردوس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقین وشہداء کے ساتھ اکھٹا کرے۔آمین
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
116
ہمارے انتہائی پیارے بهائی اور دوست محمد عبد اللہ شہزاد حناکیہ ( ریاض روڈ پر ایک جگہ ) کے قریب ایک حادثے میں وفات پاگئے ہیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون . اللہ تعالٰی انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
شیخ احسان الہی ظہیر ، فاضل جامعہ رحمانیہ ، متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ​
إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ‎‎
اللہ ان کے درجات کو بلند کرے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
رحل عبد اللہ و بقی أثرہ

میں نے جب حفظ شروع کیا ، اس وقت شیخ عبد اللہ شہزاد کلیۃ القرآن کی دوسری کلاس میں تھے ، پھر پتہ نہیں کب وہ جامعہ رحمانیہ سے مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ میں چلے گئے ، کافی سال گزرنے کے بعد جامعہ رحمانیہ میں ہونے والے ایک پروگرام میں انہیں دیکھا ، استاد محترم شفیع طاہر صاحب حفظہ اللہ نے انہیں باصرار اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا ، پتہ چلا ستیانہ سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ان کا داخلہ ہوگیا تھا، چھٹیوں میں مادر علمی کی زیارت اور اساتذہ کرام کو ملنے آئے ہوئے ہیں ۔
پھر کچھ عرصہ بعد ہم جامعہ اسلامیہ میں آگئے ، آتے ہی ابتدا میں ہی جن لوگوں سے شناسائی ہوئی ، ان میں شیخ عبد اللہ شہزاد تھے ، سات سال گزر گئے ، چند دن پہلے اچانک حادثے کی اطلاع ملی تو پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہونا شروع ہوگئیں ۔
سمجھ نہیں آرہی ، بات کہاں سے شروع کروں ؟ کیا ذکر کروں اور کیا نہ کروں ؟
نیکی ، تقوی ، زہد و ورع ، محنتی ہونا تو ان کا سب کے ہاں مسلم ہے ، مسلمان بھائی کو اچھی نصیحت اور اس کی خیرخواہی پر وہ جس قدر توجہ کرتے تھے ، اس پر بھی ہمارے جیسے بہت سارے لوگ گواہ ہیں ۔
جس انداز سے ان کی محتاط طبیعت تھی ، جس سادہ مزاجی سے وہ رہتے تھے ، جس نے دیکھا نہیں ، یہی سمجھتا ہے کہ شاید چہرے سے خشکی و یبوست ٹپکتی ہوگی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں جب بھی دیکھا ، اکثر اوقات ہونٹوں پر سنجیدہ مسکان نظر آئی ۔
کمپیوٹر میں کوئی پروگرام کروانے کے لیے ، ٹائپنگ وغیرہ یا کسی کتاب کے متعلق معلومات کے لیے کئی دفعہ میرے کمرے میں تشریف لے آیا کرتے تھے ، ہمیشہ مکمل ادب و احترام کے ساتھ مخاطب ہوتے ، آتے ہوئے یا فون ملاتے ہوئے ہمیشہ اوقات کا خیال رکھتے کہ کہیں دوسرے کے آرام میں مخل نہ ہوں ۔
پتہ چلتا کہ کسی طالبعلم کا کوئی مسئلہ ہے ، اور وہ حل کرسکتے ہیں ، اس میں پوری کوشش کرتے ، مشایخ کے دروس کی طرف رہنمائی کرتے ، صوم و صلاۃ کے خود تو پابند تھے ہی ، دوسروں کو بھی مناسب انداز میں توجہ دلاتے ۔
فیملی مدینہ منورہ میں لانے سے پہلے جامعہ میں رہائش پذیر تھے ، ان کے اوقات اور ٹائم ٹیبل دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور رشک آتا ۔
عام دنوں مسجد نبوی لے جانے والی گاڑیاں عصر کے بعد جاتی ہیں ، لیکن جمعہ والے دن جمعہ کے لیے بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے ، طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد جمعہ پڑھ کر کھانا کھانے یا جامعہ واپس آجاتے ہیں یا پھر ادھر ادھر بازار میں چلے جاتےہیں ، عبد اللہ بھائی اور ان کے بعض رفقاء کا طریقہ کار انوکھا تھا ، جب جمعہ کے لیے جاتے ، تھوڑی بہت روٹی ساتھ ہی لے جاتے ، جمعہ کے بعد وہیں کسی مناسب جگہ دو لقمے لگا کر پھر وہیں عبادت میں یا لائبریری میں مشغول ہوجاتے ۔
چونکہ میں بھی کلیۃ الحدیث میں ہی تھا ، کئی بار وہاں ملاقات ہوجاتی ، ایک بار مجھے ملے ، میں شلوار قمیص پہنے ہوئے تھا ، حیرانی سے کہنے لگے : آپ ماجستیر میں ہو کر بھی ثوب (جبہ) وغیرہ نہیں پہنتے ۔ اس وقت تو مجھے زیادہ سمجھ نہ آئی ، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ واقعتا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔
فیملی کو یہاں بلانا تھا ، کوئی مناسب رہائش نہیں مل رہی تھی ، ان سے کہیں تذکرہ کیا ، مجھے کہنے لگے ، پریشان نہ ہوں ، اللہ تعالی ضرور کوئی اچھا سبب لگائے گا ، پھر کہا کہ ٹائم نکالیں ، میں آپ کو گاڑی (اس وقت میرے پاس گاڑی نہیں تھی) ساتھ لے چلوں گا ، کہیں نہ کہیں کوئی شقہ ( فلیٹ) مل ہی جائے گا ۔
گاہے ایسا بھی ہوا ، پڑھائی کے بعد جامعہ سے گھر جاتے وقت دیکھا تو کہا : آئیں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں ۔
مستقل مزاج کافی تھے ، ماجستیر کا رسالہ لکھ رہے تھے ، مسجد نبوی میں کسی جگہ لیپ ٹاپ گم ہوگیا ، مجھے ایک یو ایس بی دی ، کہنے لگے ، اس میں میری بحث کا کچھ حصہ پی ڈی ایف میں محفوظ ہے ، اگر ممکن ہو تو اسے یونیکوڈ میں واپس لے آئیں ، میں نے کافی کوشش کی ، لیکن ٹیکسٹ اس حالت میں واپس آیا کہ اسے درست کرنے پر جتنا وقت مطلوب تھا ، اس سے کم وقت میں اسے دوبارہ نئے سرے سے لکھا جاسکتا تھا ۔ میں نے صورت حال سے آگاہ کیا ، کہنے لگے کوئی بات نہیں ، میں دوبارہ لکھ لوں گا ۔
یو ایس بی واپس کرتے کرتے دو تین ماہ گزر گئے ، متحمل مزاج تھے ، جب دو تین ماہ بعد میں انہیں مسجد نبوی لائبریری میں ملا ، تاخیر پر معذرت کی ، کہنے لگے ، کوئی بات نہیں ، کام چل رہا تھا ، میرے پاس اس کا متبادل موجود تھا ۔
جب سے میں ماجستیر میں ہوا ، رسالہ کے لیے موضوع اختیار کرنا ، پھر اسے پاس کروانا ، پھر جلد از جلد کام شروع کرنا ، اس حوالے سے بہت توجہ دلایا کرتے تھے ، کہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے یہ کام نپٹالیں ، ورنہ لیت و لعل کرتے سارا وقت گزر جاتا ہے ، اور پھر آخری ایک سال یا چند مہینوں میں کام مکمل کرنے کی دوڑ میں طالبعلم صحیح لکھ نہیں پاتا ۔
ہمارے ایک استاد محترم تھے ، ان کی عادت تھی پنجابی میں بات کرتے ہوئے اردو بولنا شروع کردیتے ، پھر اردو سے پنجابی میں آجاتے ۔ شیخ عبد اللہ بھی بعض اوقات ایسے ہی کرتے تھے ، بعض لوگوں کے ہاں یہ عیب سمجھا جاتا ہے ، لیکن میں نے انہیں محسوس کیا وہ اس طرح کی چیزوں کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔
تقریبا ایک ماہ پہلے مجھ سے رابطہ کیا ، کہنے لگے کچھ ٹائپنگ کرنی ہے ، میں نے کہا ٹھیک ہے ، اوراق لے کر میرے پاس آئے ، ٹائپنگ مکمل کرکے جب شروع میں نام لکھنے کی باری آئی تو میں نے سوچا شاید یہ ان کی اپنی ذاتی بحث ہوگی ، لیکن مجھے اس لیے نہیں بتارہے ، تاکہ میں ٹائپنگ کا معاوضہ لینے میں کوئی پس و پیش نہ کروں ۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا ، ان کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا ، وہ اس سارے معاملے میں صرف جذبہ خیرخواہی اور تعاون علی البر و التقوی کے تحت دلچسپی لے رہے تھے ۔ ان کی اس طرح کی پوشیدہ نیکیاں پتہ نہیں کتنی ہوں گی ؟ اللہ ان کے لیے زاد آخرت بنائے ۔
منگل کے دن بعد از مغرب مسجد نبوی میں ان کا جنازہ تھا ، مغرب کی اذان ہوئی ، عجیب و غریب کیفیت طاری تھی ، چند دن پہلے یہاں جمعے جماعتیں ادا کرنے والے ، ہر نماز کے بعد ’ الصلاۃ علی الأموات ‘ کی صدا سن کر نماز جنازہ میں شریک ہونے والے ، لائبریری سے نماز کی ادائیگی کے لیے نیچے آنے والے ، ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے نمازیں ادا کرنے والے عبد اللہ شہزاد نہیں جانتے تھے ، کہ کچھ ہی دن بعد لوگ ان کی نماز جنازہ کے لیے مسجد نبوی آئیں گے ، ان کے لیے لائبریری سے نیچے اتریں گے ، ڈیوٹی سے وقت بچاکر ان کے جنازہ میں شریک ہوں گے ۔
عبد اللہ شہزاد پھر بھی بہت خوش نصیب اور قسمت والے تھے ، دنیا سے گئے تو ہر شخص کی زبان پر ان کے اعمال صالحہ اور سیرت حسنہ کا تذکرہ تھا ، ہم جماعتوں نے ان کے نیکی و تقوی کی گواہی دی ، لائبریری میں ساتھ بیٹھنے والوں نے ان کا تذکرہ خیر کیا ، اساتذہ کرام خبر کی وفات سن کر دھاڑیں مار کر روئے ، ہم وطنوں نے ان کے حسن معاشرت و خوش خلقی کا اعتراف کیا ، یہ سب دیکھ کر بے ساختہ زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے ہیں ’ رحل عبد الله و بقي أثره ‘ جو کہ سعودیہ کے ایک معروف خطیب اور واعظ کی تقریر کا عنوان ہے ۔ عبد اللہ چلے گئے ، لیکن بہترین زندگی اور اچانک موت کی شکل ہمارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئے ، کہ پتہ نہیں کہاں کس وقت زندگی کی شام ہوجائے گی ، لہذا ہر وقت کوشش کرنی چاہیے ، دنیا کی فانی زندگی میں الجھنے کی بجائے کچھ ایسا کیا جائے جس سے آخرت سلجھتی رہے ۔
حافظ خضر حیات​
’ موصوف رحمہ اللہ مرکز الدعوہ السلفیہ ستیانہ بنگلہ فیصل آباد میں ہمارے کلاس فیلو تھے...
جو اوصاف آپ نے مدینہ کے رہائشی عبد اللہ شہزاد کے بیان کیے ہیں, بعینہ وہی اس وقت کے عبد اللہ شہزاد کے بھی تھے... واقعی اپنے تمام اوصاف حسنہ میں مستقل مزاج تھے۔ ‘
حافظ ابو یحیی نورپوری​
’ بہت عمدہ لکھا خضر بھائی آپ نے.بلاشبہ آپ کے لکھے سے بھی ہم نے انہیں زیادہ نیک پایا. اللہ تعالی ہماری گواہی قبول کرتے ہوے ہمارے اس بھائی اور شیخ کو جنتوں کا مہمان بنائے ۔ ‘
شیخ ہاشم یزمانی​
 
Top