• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ عزیر شمس اب حفظہ اللہ سے رحمہ اللہ ہو گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شیخ عزیر شمس اب حفظہ اللہ سے رحمہ اللہ ہو گئے۔
إنا لله وإنا إليه راجعون

یہ جماعت اہل حدیث کا ہی نہیں پوری دُنیائے اسلام کا بہت بڑا علمی خسارہ ہے. بر صغیر کے پائے کے محققین اور اسکالرز کی فہرست شیخ عزیر شمس کے ذکر کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی. اللہ مغفرت فرمائے، تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کی وفات ہمیں یہ درس بھی دے رہی ہے کہ علم و تحقیق کبھی نہیں مرتے، اخلاق و کردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں. شیخ نے اپنے حسن اخلاق، تواضع، علم دوستی، علم و تحقیق سے خاص و عام سب کا دل جیتا. آج ہر وہ شخص جو شیخ کے بارے میں ادنیٰ معلومات بھی رکھتا تھا ان کی وفات کی خبر سے غمزدہ ہے، شیخ سے براہ راست استفادہ کرنے والے تو سخت صدمے کی حالت میں ہیں. اپ کی وفات سے امت میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ دور دور تک پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے.

عبدالغفار سلفی حفظہ اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بحث وتحقیق کا آفتاب غروب ہو گیا

مخدومی شیخ عزیر شمس کی وفات حسرت آیات ملک و ملت جماعت وجمعیت بلکہ عالم اسلام کاخسارہ ھے آپ رحمہ اللہ اس ذرہ بے مقدار سے جامعہ میں ایک جماعت آگے تھے شیخ رح کے رفقاء درس میں شیخ صلاح الدین مقبول ،شیخ رفیع احمد، دکتور بدرالزمان، دکتورعبد القیوم حفظہم اللہ اور جہاں تک مجھے یاد ہے دکتور رضاء اللہ محمد ادریس رحمہ اللہ کے اسماء گرامی بطور خاص نہاں خانۂ معلومات میں محفوظ ہیں جامعہ کی تاریخ کی یہ وہ جماعت ھے جس نے نہ صرف جامعہ کو شہرت کے ثریا تک پہنچا دیا بلکہ تحقیق کی دنیا کو نئی نئی وسعتیں دیں اور جو جہاں بھی گیا آفتاب و ماہتاب بن کے چمکا۔
تیمیائی ذخیرۂ تحقیق اور آزادیاتی نگارشات سے پوری اکیڈمک کائنات کو روشناس کروایا جزاھم اللہ
شیخ عزیر اپنی جامعہ کی زندگی میں اور طالب علموں سیے ہٹ کر رہتے سہتے تھے موٹا جھوٹا کرتا پاجامہ بلا کنگھی کے بال ٹوپی سے بےنیاز سر ہاتھ میں ہر وقت کو ئی نہ کوئی کتاب ندوۃ الطلبہ کی لائبریری کی چھوٹی بڑی شاید ہی کو ئی کتاب ھو جو آپکی نظر سے نہ گذری ہو شہر بنارس اور رام نگر کے شخصی مکتبات تک کو زمانہ طالبعلمی میں ہی پڑھ چکے تھے سیدھی سادی طبیعت ہر کسی سے طلاقت وجہ کے ساتھ ملنا چلنا شیخ الحدیث زادگی کا نہ پندار اور نہ ہی علمی رفعت کا غرہ بے جا صحت مند جسم میں طاقت ور دماغ طلعت محمود کے سر میں غزلیں پڑھتے أسبوعی انجمنوں میں ارتجالی تقاریر کے ذریعہ اپنی باری نبھاتے صحیح بخار ی کے دروس میں احباب جماعت کی طرف سے وارد اعتراضات کے جوابات خود دینے کی کوشش فرماتے شیخ الحدیث رحمہ اللہ کبھی منع فرماتے اور کبھی جواب کی معقولیت پر داد سے نوازتے اب کہا ں ہیں ایسے پڑھنے اور پڑھانے والے۔

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ھے زلف ایاز میں ،،

دماغ کا وسعت پذیر ارتقاء جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ پہونچ کر بحر لاساحل بن گیا محبط وحی کے بابرکت دیار سے علم وعمل دونوں میں برکت ہو ئی پھرفیوض کا ایسا فیضان ہوا کہ پوری علم وتحقیق کی دنیا سیراب ہوگئ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
کتب نادرہ ،مخطوطات بطور خاص شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اورانکے تلمیذ رشید أمام ابن قیم کے گہرے اثرات آپکی فکر وتحقیق پر مرتب ہوئے مخطوطات کی تلاش وجستجو میں کن کن ملکوں اور کہاں کہاں کی لائبریوں کا سفر فرمایا آپکی علمی رحلات ایک مستقل اور دلچسپ موضوع ہےعلمی اسفار کے تحفوں کو پوری دقت نظر سے چھان پھٹک کر اہل علم کے خوان یغما پر سجا دیاگیا اور '' صلاۓ عام ھے یاران نکتہ داں کےلیے ''پڑھکر زیر لب مسکرائے اور سجدہ شکر بجالائے نہ مصنفی پر ناز اور نہ ہی داد تحقیق کی طلب،
داد وتحسین سے بے نیاز اپنی دنیا میں مست قلندر کا نا م عزیر شمس ھے۔
سیرۃ النعمان کے مصنف مولانا شبلی نعمانی اس کتاب کی تصنیف تک مورخ ،شاعر ،متکلم اورادیب ہونے کے باوصف غالی قسم کے حنفی تھے أمام ابن تیمیہ کی نگارشات سے اس حد تک متاثر ہو ۓ کہ فرمایا میں نے
تو اپنا ہاتھ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ہاتھ میں رکھدیا
علامہ شبلی کے فکری اعتدال کے پیچھے امام موصوف کا گہر بار قلم ہے اس سر بستہ راز سے پردہ عزیر شمس نے اپنے ایک مقالے کے ذریعہ ہٹایا فللہ درہ
'' فقہ أہل الحدیث '' ایک قائم بالذات فقہ ہے اسکی نشر واشاعت کے لئے ہرآن تیار دکھائی پڑے اور
''فقہ اصحاب الرای '' کی خامیوں کی نشان دہی میں کوی دقیقہ فروگزاشت نہیں فرمایا مستند و معتبر کتابوں کے حوالوں سے فقہ أہل الحدیث کی ایسی ترجمانی کی کہ معترضین کے دانتوں میں پسینے آگئے کسکو مجال جو شمسی دلائل و براہین کے مقابلے میں آکر اپنی قامت کو با لشتی بناتا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپکی حریت فکر کے داعی ومنادآپکے تعارف کا ایک روشن باب ہے
شیخ موصوف کو محدثین جیسا بلا کا حافظہ ملا تھا
اعیان عالم کا سن تولد ووفات سب ازبر، پٹنہ کی خدا بخش لائبریری میں غالباً مرزا غالب پر کوئی توسیعی پروگرام تھا آپ بھی صف نعال میں موجود تھے مقالہ نگاروں نے سنین کی تعیین میں جہاں جہاں غلطیاں کیں تھیں دلائل کی روشنی میں ایسی گفتگو کی سب اس فنا فی العلم کو بس دیکھتے رہ گئے کہاں ملیں گی اب اس طرح کی چلتی پھر تی لائبرییاں ۔۔۔
شیخ عزیر شمس اب ہمارے درمیان نہیں رہے پر آپکا علمی تراث توھے اسکی نشر واشاعت کا اہتمام اوراس مشن کو آگے بڑھانے کی سعی وکوشش یہی سچی عقیدت ومحبت ہے اللہم اغفر لہ ارحمہ

عبد الرحیم امینی
( پرنسپل جامعہ دارالہدیٰ یوسف پور)


17/10/2022
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہمارے شیخ - محمد عزیر شمس رحمہ اللہ
ثناءاللہ صادق تیمی
میرے لیے قلم چلانا اتنا مشکل کبھی نہیں رہا ۔ شیخ کا نام لکھتا ہوں ، دل بے چین ہوجاتا ہے ، آنسو چھلک جاتے ہیں اور آگے کچھ لکھ نہیں پاتا۔ کمپیوٹر کھولتا ہوں ، کئی منٹوں کی جد وجہد کے بعد بند کردینا پڑتا ہے۔ آپ کی اچانک موت نے ہم سب کو سکتے میں ڈال دیا ،عالم اسلام کی پوری علمی دنیا سوگواراور گواہ ہے کہ واقعی موت العالمِ موت العالم کا منظر کیا ہوتا ہے ۔ جہاں جہاں تحریریں شائع ہورہی ہیں ، پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ، محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، آنسو بہتے جاتے ہیں اور دعائیں جاری رہتی ہیں ۔ مستقل اپنے شیخ رحمہ اللہ کے اہل خانہ کے ساتھ ہوں ، انہیں کیا تسلی دے پاؤں ، خود دل کی حالت بیان سے باہر ہے لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا :ان العین تدمع و القلب یحزن و لا نقول الا ما نرضی ربنا، انا للہ و انا الیہ راجعون ، و انا بفراقک " یا شیخنا " لمحزونون ۔
ہمارے شیخ حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے دار فانی سے دار بقاء کو کوچ کرگئے ۔ کہا کرتے تھے کہ جب تک مکہ سے نکالا نہ جاؤں ، جاؤں گا نہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے استدلال کرتے کہ مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے کہا تھا کہ اگر میں نکالا نہ جاتا تو نہ نکلتا ۔اللہ نے آپ کی دعا کو اس اندازمیں قبول کیا کہ سدا کے لیے مکہ مکرمہ کو آپ کی آرام گاہ بنادیا ۔
دار عالم الفوائد کے بند ہونے کے بعد کئی ممالک سے معتبر لوگوں نے رابطہ کرکے بڑی بڑی تنخواہوں اور سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ آپ کو بلانا چاہا لیکن آپ نے یہ طے کیا کہ آپ مکہ مکرمہ نہیں چھوڑیں گے ۔
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے
میں نہ ابھی اس پوزیشن میں ہوں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ میں آپ کی علمی و تحقیقی اور ادبی و فکری حیثیت و بصیرت پر گفتگو کروں ، الحمد للہ پوری دنیا اس سے آگاہ اور معترف ہے ، نہ اس کی ضرورت ہے کہ میں آپ کے اخلاق عالیہ کے بارےمیں کچھ لکھوں کہ الحمد للہ یہاں بھی کیفیت وہی ہے کہ ہر ہر فرد جس نے جہاں سے بھی آپ کو دیکھا ہے ، جانا ہے ، ملاقات کی ہے ، ساتھ گزارا ہے ، کام کیا ہے ،کوئی معاملہ کیا ہے ، وہ آپ کے بلند اخلاق کی گواہی دے رہا ہے ۔
زبان خلق کو نقارہ خدا کہیے
یہاں اس روا روی میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن سے ہمارے شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت پر کچھ روشنی پڑسکتی ہے، باضابطہ تحریریں ان شاءاللہ تعالی ضرور لکھوں گا ۔
(1)۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ حقیقی معنوں میں فنا فی العلم تھے ، آپ کی زندگی میں یہ وقت کبھی نہيں آیا جب حصول علم کے شوق میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو اور نئی چيزیں جاننے کےمعاملے میں وہ کسی طرح کے تکلف کے روادار رہے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جامع العلوم و الفنون تھے ، آپ جس علمی موضوع پر شیخ سے بات کرتے وہ آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ۔ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا کہ کسی آدمی کی ایسی بھی یادداشت اور ایسی بھی ہمہ گير نظر ہوسکتی ہے ۔ پہلی ملاقات ہوئی تو شیخ کی گفتگو کی گہرائی ، علمیت اور پختگی نے حیرت میں ڈالا اور جب اللہ نے مستقل یہ راہ نکال دی کہ آپ سے ملاقاتوں پر ملاقاتیں ہوں تو علم غزیر اور وسیع معلومات کے ساتھ آپ کے اخلاق عالیہ نے نہ صرف حیرت میں ڈالا بلکہ اپنا گرویدہ و اسیر کرلیا ۔ ہم اکثر سوچتے اور باتیں کرتے کہ کیا اس علم و بصیرت اور فکر ونظر کا حامل شخص اس قدر متواضع ، سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے دور بھی ہوسکتا ہے ؟آپ علم وبصیرت اور اخلاق وکردار ہر دواعتبار سے اللہ کی نشانیوں سے میں سےتھے ۔
(2) یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ محقق اور ماہر تراث ابن تیمیہ اور تراث ابن قیم تھے اور اس معاملے میں پوری دنیا نے آپ کی امتیازی حیثیت کو قبول کیا اور بجا طور پر اس کا اعتراف کیا لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ آپ کی علمی حیثیتوں کا یہ ایک جزء تھا ۔ آپ قرآن ، علوم قرآن ، حدیث ، علوم حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، عقیدہ ، سیرت ، تاریخ ، لغت ،تہذیب و ثقافت، شعر و ادب ،عروض ، حکمت ، منطق اور فلسفہ وغیرہ تمام علمی سرمایے کے مالہ اور ماعلیہ سے نہ صرف یہ کہ واقف تھے بلکہ اس معاملے میں حیرت انگيز استحضار رکھتے تھے ۔ زمانی ترتیب کے ساتھ آپ کو مختلف علوم وفنون کی کتابیں مع ان کے مولفین کے ازبر تھیں ، آپ کو یہ تک یاد تھا کہ کون سی کتاب کب ، کہاں سے شائع ہوئی اور کس کا کون سا ایڈیشن کہاں کہاں دستیاب ہے اور کس مولف نے کس مولف سے کس درجے میں کیا کیا استفادہ کیا ہے ۔ جب کبھی کسی عالم یا اسکالر کا نام لیتے تو تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کے ساتھ لیتے ۔ ہم حیرت سے منہ تکتے رہ جاتے اور آپ کو دیکھ کر محدثین کے تعجب خيزواقعات پر یقین اور بھی پختہ ہوجاتا۔
(3) آپ کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کو کسی سے کوئی حسد نہیں تھا ، کسی کو اس کی خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے ، کسی پرکوئی ایسی تنقید نہیں کرتے جو اس کے سامنے نہیں کرسکتے ہوں ، مثبت رائے کا اظہار کھل کر کردیتے اور منفی رائے محفوظ رکھتے ۔ہم نے اپنے احباب اور معاصرین کی خوبیوں کا ایسا اعتراف نہ کے برابر کہیں اور پایا ۔ہم اپنے جوش اور کم علمی میں جب کوئی ایسی بات کہتے جس میں نادانی اور خوش فہمی کا عنصر زیادہ ہوتا اور وہ حقائق کی غلطی نہیں ہوتی تو صرف مسکراکر جیسے بتا دیتے کہ ہمارا جوش بول رہا ہے یا کسی شخصیت کے بارے میں کوئی مبالغہ آمیز رویہ ہوتا تو باتوں کو دوسری طرف موڑ کر یہ اشارہ دے دیتے کہ ہم مبالغہ کے شکار ہو رہے ہیں ۔
(4) آپ اسلام کے عالم تھے ، ہر قسم کے تعصبات سے دور ۔ علم کی وسعت فکر و بصیرت میں اور اسلام کی وسعت اخلاق میں واضح نظر آتی تھی ۔مسلک و مشرب ، ملک و علاقہ ، برادری یا زبان کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں تھا۔سلفی تھے تحزب پسند نہيں ، اہل حدیث ہونے میں ٹھوس تھے اور حقیقی معنوں میں اسلاف کی راہ پر گامزن ۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس کے داعی تھے البتہ اس معاملے میں انصاف کی کمی اور اسلوب کی سختی و درشتی کو ناپسند فرماتے تھے ۔اس بات پرزور زیادہ تھا کہ اچھے اسلوب میں حق کی دعوت کو پوری دنیا میں عام کیا جائے، دین کے غلبہ اور اسلام کی سربلندی کی تمنا رکھتے تھے اور پوری امت کا غم ڈھوتے تھے ۔حقیقی معنوں میں ہمارے قائد تھے ۔
(5) علم کے ساتھ اہل علم اور طلبۃ العلم سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ اس راہ میں جب کوئی جس قسم کی مدد چاہتا بغیر کسی تاخیر یا کوتاہی کے اس کی مدد کرتے اور یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ سامنے والا کون ہے ، کہاں کا ہے اور کس مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہر ایک کو اس کے حسب حال علمی مشوروں اور رہنمائیوں سے نوازتے ۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کسی آفس میں اسی انتظار میں مستعد بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی کسی علمی کام کےلیے آئے گا تو اسے جھٹ کرکے دے دیں گے ۔اس معاملے میں ایسی مستعدی تھی کہ ہم صرف حیرت ہی کرسکتے تھے۔ موٹی موٹی کتابوں کا مراجعہ کبھی ایک شب میں تو کبھی ایک دو نشست میں کرکے دے دیتے ، علمی رہنمائی بیٹھے بیٹھے کاغذ پر لکھ کر دے دیتے اور ہم جیسا آدمی بس دیکھتا رہ جاتا۔علمی کاموں کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کا ایسا طریقہ تھا کہ ہر کہ ومہ کو اپنے سلسلے میں خوش فہمی لاحق ہوسکتی تھی ، حوصلہ شکنی جیسے جانتے ہی نہیں تھے ۔
(6) آپ بے ضرر تھے ، کسی کے بارے میں کوئی غلط خیال نہيں پالتے تھے ، ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے ۔ علمی معاملے میں لوگوں کی مدد تو خیر کرتے ہی تھے ، سماجی اورعام زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی ہر ممکن مدد کرتے تھے ۔ آپ اس اعتبار سے بھی حیرت انگيز طور پر نفع بخش سماجی آدمی کی حیثیت رکھتے تھے ۔اللہ نے یہ کمال کی خوبی دی تھی کہ ہر کسی سے اس کی سطح پر اتر کر بات کرتے تھے ۔ اس لیے عام آدمی یہ سوچ بھی نہیں پاتا تھا کہ شیخ کتنے بڑے آدمی ہیں ، اس سلسلے کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ آپ کو کبھی اس کی کوئی طلب بھی نہیں رہی ۔لگتا تھا کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے جیسے آپ نے اپنی علمی،ادبی ، فکری شخصیت کو کہیں اتار کر رکھ دیا ہے اور خالص ایک عام سے انسان ہیں جو راہ چلتے کسی بھی شخص کو سلام کرتاہے اور بغیر کسی تکلف کے اپنا کام کرتاہے۔ہمیں پرانا گھر بدل کر نیا لینا تھا ، آپ کو پتہ چلا تو بغیر کسی تکلف کے ساتھ نکل گئے ، پورے محلے میں گھومے ، کئی گھر دیکھا ، بالآخر دوسرے دن شیخ ہی نے نیا والا گھر دلوایا۔گھر کے عمر رسیدہ محافظ نے شیخ پر بھروسہ ا ور آپ سے محبت کی بنیاد پر یہ گھر دیا ،اس نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ہمیں اس سچائی سے آگاہ کیا ۔"لا نعرفک و لکن نثق بالشیخ و نحبہ و کانہ ابنی "۔
(7)آپ لوگوں سے تعلقات برابری کی سطح پر رکھتے تھے ۔ ہمیں یہ جان کر تو حیرانی ہوتی ہی کہ بہت سے کمر عمر طلبہ ، علماء اور احباب آپ کو "عزیر بھائی " کہتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھ میں آتا تھا کہ آپ کس درجے میں متواضع انسان تھے ۔ علمی بحث و مباحثہ میں بھی یہی رویہ تھا ، کسی سے بات کرتے ہوئے اسے یہ احساس قطعا نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ ان سے "بڑے " ہیں ۔ خالص دلیل و برہان کی روشنی میں باتیں کرتے ، سنتے اور سناتے ۔بحث برائے بحث نہیں کرتے تھے ، کسی موضوع سے متعلق گفتگو ختم بھی ہوجاتی تو بعد میں کہی ہوئی باتوں کا باضابطہ استناد لکھ کر پیش کردیتے ۔ہماری مکہ آمد کے پہلے ہی سال کی بات ہے ،ہمارے عزیز دوست مولانا نور عالم سلفی کے برادر نسبتی ایک موقع سے مکہ آئے ہوئے تھے ، ہم ، وہ اور شیخ ہم کلام تھے ، تابعین میں سے ایک بزرگ کے کسی واقعے کے بارےمیں بات ہورہی تھی ، میں نے اس واقعے کی توثیق کی ، کچھ ادبی کتابوں کا حوالہ بھی دیا ، شیخ نے واقعے کے ثبوت سے انکار کیا ، ہم نے پھر بھی اصرار کیا ، باتیں پھرکسی اور طرف مڑ گئیں ۔ ہم سمجھے کہ مجلس ختم اور باتیں بھی ختم ۔ دوسرے دن عصر کی نماز کے بعد شیخ نے فون کیااور تشریف لائے ۔ ہاتھ میں ایک ورقہ تھا ، جس میں اس واقعے کے عدم ثبوت کے ناقابل انکار دلائل قلم بند تھے !!!
(8) ہمارے شیخ انتہائی درجے میں بامروت تھے ۔لاکھ کوشش ہوتی کہ شیخ اپنا کوئی سامان اٹھانے کی اجازت دے دیں ، نہیں دیتے ۔ ہاں الٹا مددکرنے کے معاملے میں پیش پیش رہتے ۔ کبھی کبھی اتنی شرمندگی ہوتی کہ کہا نہیں جاسکتا ۔مخدوم ہونا کسی شکل میں گوارا نہیں تھا ۔ کسی قسم کی کوئی مالی مدد کسی سے قبول نہیں کرتے ، کتابیں منگواتے اور اتنے اصرار سےقیمت چکانےکی کوشش کرتے کہ یہ شکایت کرنی پڑتی کہ شیخ ہمیں پرایا کررہے ہیں ۔کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے شیخ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی اتنے ہی اچھے تھے جتنے باہر کے لوگوں کے ساتھ تھے ۔ ہر ممکن ان کی بھی خدمت کرتے اور ان سے خدمت لینے سے بچنا چاہتے ۔الحمد للہ اہل خانہ سے بہت خوش رہتے تھے ۔ ہم نے آٹھ سال کی اس رفاقت میں کبھی کوئی منفی بات آپ کی زبان سے اہل خانہ سے متعلق نہیں سنی ، جب کہ ہمارے تعلقات علمی ہونے کے ساتھ گھریلو بھی رہے ۔
(9) القاب وآداب کو شدید ناپسند کرتے تھے ۔ جب کبھی کسی پروگرام میں آپ کا تعارف پیش کرنے کےلیے کھڑا ہوتا ، سلیقے اور تہذیب سے مبالغہ سےپاک تعارف پیش کرتا لیکن آپ اپنی ناپسندیدگی کا باضابطہ اظہار کرتے اور اس ناپسندیدگی میں کہیں سےکوئی دکھلاوا نہیں ہوتا ۔ہمارا دل گواہی دیتا کہ شیخ کو واقعی یہ چيزیں پسند نہیں ۔ بعد میں ،میں شکایت کرتا کہ میں نے کون سی غلط یا مبالغہ آمیزبات کہی تھی لیکن آپ کا اصرار قائم رہتا۔
(10) لباس و پوشاک سے لے کر پوری زندگی کا ڈھب انتہائی درجے میں سادہ تھا ۔ بغیر کسی تکلف کے زمین پر بیٹھ جاتے ۔ ظاہر و باطن میں ایسی مطابقت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔اکثر ہمیں یہ سعادت ملتی کہ گزارش کرنے پر گھرتشریف لے آتے ۔ ایلاف ، الہام نانا کہہ کر چمٹ جاتیں ، خوب دلارتے ، اپنے ہاتھ سے دونوں کو کھلاتے ، اخلاق کی یہ بلندی کس کے حصے میں آتی ہے ، ہم دونوں میاں بیوی یادکرتے ہیں اور آنسو کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں ،بسا اوقات شیخ الہام کی اگلی ہوئی چيزیں بغیر کسی تکلف کے کھالیتے !!
(11)بالعموم مغرب اور عشاء کی نمازوں میں ملاقات ہوتی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھتے کہ ثناءاللہ ہے یا نہیں ،نظرآجا تو چہرے پر بشاشت کی لکیریں پھیل کر محبت وشفقت سے ہمیں مالا مال کردیتیں ، پھر دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ، دوسری نمازوں میں بھی ملاقات ہوتی تو کیفیت یہی رہتی البتہ مغرب و عشاء کی طرح باتوں کا وقت کم رہتا۔نظر نہیں آتا تو ام عبد اللہ ( اللہ پاک انہیں صبر جمیل کی توفیق ارزانی کرے ) سے استفسار کرتے کہ سب خیریت تو ہے ، ثناءاللہ آج کل نظر نہيں آرہے !!!
(12) عشاء کی نماز ادا کررہا تھا جب ام عبداللہ کے نمبر سے بار بار فون آنا شروع ہوا ۔ ہمیں لگا کہ شاید ام ایلاف سے بات کرنا چاہ رہی ہیں ۔بتایا گيا کہ شیخ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، ثناءاللہ بابو کو جلد بھیجیں ۔ہمارے ساتھ مولانا محمد علی تیمی مدنی تھے ، انہیں ساتھ لیا کہ وہ گاڑی ڈرائیو کرنا جانتے ہیں ، بھاگے بھاگے پہنچے ، ہمار ے شیخ زمین پر دراز تھے ، شیخ نبیل سندھی موجود تھے ، ہاتھ پکڑا ، سانسوں کے چلنے کی کیفیت معلوم کرنے کی کوشش کی ، ادھر ڈاکٹر فاروق صاحب بھی تھے ، ان کی طرف امید و مایوسی کی عجیب وغریب کیفیت میں دیکھتے ہوئے بڑھا ، انہوں نے بتایا کہ وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو اس کیفیت میں کیا جاسکتا ہے ، شیخ کی روح پرواز کرچکی ہے ، ہمارے تو پاؤں تلے زمین کھسک گئی ۔زندگی میں اس سے پہلے ایسے صدمے سے کبھی دوچار نہيں ہوا ۔شیخ میرے لیے مکہ مکرمہ میں باپ کے درجے میں تھے ۔ یہ احساس یتیمی دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے ، ایسے ایسے لمحے ، یادیں ، باتیں ، نصیحتیں اور حسب ضرورت شفقت آمیز خفگیاں ہیں کہ دل بے قابو ہوجاتا ہے ، آنکھیں تنہائی پاتے ہی بہہ پڑتی ہیں اور زبان پر دعائیں جاری ہوجاتی ہیں ۔
غفراللہ لشیخنا و رحمہ و ادخلہ فسیح جناتہ و الھم ذویہ و اھلہ الصبر والسلوان
 
Top