محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
دیکھے میں آپ کو جواب دیتا ہوں، لیکن گفتگو سے جائیے گا نہیں پھر؟
یہ کیا ہے ؟؟؟؟یہ نام نہاد مفاہمتی اس وقت کہاں ہوتے ہیں، جب رافضی محدث فورم پر صحابہ کو بھونک رہا ہوتا ہے۔ جب سعودیہ عرب والوں کو کافر کہہ رہا ہوتا ہے۔
میں نے کہا کہ سعودیہ نے جب سے حدود اللہ اور اسلام کا اپنے ملک میں نفاذ کیا ہے تب سے وہاں برکتیں سمٹ آئی ہیں
اس پر رافضی نے آیت کا مفہوم پیش کیا کہ "کافروں کا زمین میں چلنا پھرنا تمہیں تعجب میں نہ ڈال دے"
اس وقت کہاں تھے یہ مصلحین۔۔۔ لیکن جب کوئی اہل حدیث دعوت دیتا ہے تب یہ ساری مفاہمت کی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔۔۔ اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین
محترم بھائی جہاں تک محترم یوسف ثانی بھائی کے تھریڈ کی اصلاح کا تعلق ہے اور آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم وہاں سے بھاگتے ہیں کہ نہیں یا کیسے اصلاح کرتے ہیں تو اب اوپر تھریڈ کی اس موقع پر اصلاح کرنا ایک مصنوعی عمل لگے گا بعد میں کبھی فرصت میں یہ کام بھی ہو سکتا ہے البتہ آپ کی فرمائش کے لئے میں محترم یوسف بھائی کے ہی ایک اور دھاگے کا لنک دے دیتا ہوں جس کے اندر میں نے اصلاح کی کوشش کی ہےعبدہ
حافظ طاہر اسلام عسکری
آپ کی پوسٹ کا جواب تو میں بعد میں دوں گا، ان شاءاللہ، ابھی آپ دونوں کو ایک تھریڈ کی طرف توجہ کرانا چاہتا ہوں یہاں جا کر صاحب تھریڈ کی اصلاح کریں، تاکہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا طریقہ کار تو غلط ہے آپ کیسے اچھے انداز سے اصلاح کرتے ہیں۔ اور میں آپ دونوں سے سیکھ بھی لوں گا ان شاءاللہ
http://forum.mohaddis.com/threads/علامہ-اسید-الحق-قادری-گولی-کا-نشانہ-بن-گئے.21021/#post-165266
محترم بھائی یہ بات پڑھ کر ہنسی آ گئی کہ محترم یوسف بھائی کے پاس کون سا اثرورسوخ ہے جو کہ مجھے یا استادِ محترم کو مجبور کر رہا ہے محترم بھائی ہم نے آپ کی نیت پر شک نہیں کیا بلکہ آپکی نیک نیتی کی گواہی دی البتہ آپ کی دعوت کے زیادہ فائدہ مند ہونے کے لئے کچھ مشورے دیے پس آپ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم پر کسی کا اثرو رسوخ اللہ کے مقابلے میں غالب آ سکتا ہے کیونکہ مجھے اثرو رسوخ والی بات پر ناراضگی کی بجائے ہنسی آ جاتی ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امینعبدہ
اب دیکھتے ہیں کہ اللہ کے دین کی غیرت جوش مارتی ہے یا صاحب تھریڈ کا اثر و رسوخ غالب آتا ہے۔
اس تھریڈ میں بنیادی طور سے تین سوالات اٹھائے گئے ہیںشیعہ حضرات کی کتابوں میں جو کہانیاں لکھی ہیں ان مین سے ایک کہانی وہ بھی ہے جسے کلینی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں ائمہ علیھم السلام جانتے ہیں کہ وہ کب مرین گے اور کہاں مرین گےاور اپنے اختیار سے مریں گے:
"باب:أن الائمة يعلمون متى يموتون، وانهم لا يموتون الا باختيار منهم’ (اصول الکافی للکلینی:ج1،ص158)
اور اسی طرح علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں ایک حدیث بیان کی ہے کہ کوئی امام ایسا نھیں ہے جو فوت ھوا ھو بلکہ ان سے ہر ایک مقتول ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو ہے
شیعہ حضرات سے ہم یہ سوال کرنا پسند کریں گے کہ اگر آپ کے امام علم غیب سےآگاہ تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ انھیں کھانے کے لیے دسترخان پر کیا پیش کیا جا رہا ہے،لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بات بھی ان کے سابقہ علم مین تھی کہ یہ زہریلا کھانا ہے جس سے بچناواجب ہے علم کے باوجود ان کا اس کھانا اور کو کھانے سے پرہیز نہ کرناتو خود کشی ہے کیوں کہ انھوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانا سے آپ کو لقمے اجل بنایا ہے گویا وہ خود کشی کرنے حالاں کہ نبی کریم نے اس بات سے متنبہ فرما دیا ہے کہ خود کشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے کیا شیعہ حضرات اپنے ائمہ کے اس انجام سے راضی ہیں۔
لیکن آپ حضرات تو یہ مانتے ہیں:ویسے تو وہابی حضرات ان تینوں معاملات کو انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی نہیں مانتے
ٹھیک ہے، آپ کو لفظ "بھونک رہا ہوتا ہے" پر اعتراض ہے، تو میں معذرت کرتا ہوں، یہ میری غلطی تھی جو میں نے جذبات میں لکھا، کیونکہ مجھے نام نہاد مفاہمتیوں پر بہت زیادہ غصہ تھا۔یہ کیا ہے ؟؟؟؟
کیا ایسی کا نام حسن اخلاق ہے ؟؟؟
بنیادی طور پر یہ بات سمجھنے کی ہے، اور میں ایک دوسرے تھریڈ میں بھی آپ کو یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ انبیاء و رسل علیھم السلام کے پاس وحی نازل ہوتی ہے، اور وحی میں جس چیز کی بھی اللہ تعالیٰ چاہے خبر دے دے، نبی اور رسول وہی اپنی امت کو بتا دیتے ہیں، اب ہم میں سے کوئی انسان سال بعد آنے والے وقت کی خبر تو دور کی بات یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ شام کو ہم کس صورتحال میں ہوں گے، لیکن انبیاء اور رسول جیسے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے حالات بذریعہ وحی بتا دئیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:انبیاء علیہم السلام جانتے ہیں کہ کب اس دنیا سے رخصت ہونگے
انبیاء علیہم السلام جانتے ہیں کہ ان کا کہاں وصال ہوگا
دعا النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فاطمةَ عليها السلامُ في شكواه الذي قُبض فيه، فسارَّها بشيءٍ فبكتْ، ثم دعاها فسارَّها بشيءٍ فضحكتْ، فسألناها عن ذلك، فقالت سارَّني النبيُّ صلى الله عليه سلم : أنه يُقبضُ في وجعِه الذي تُوفي فيه، فبكيتُ، ثم سارَّني فأخبرني أني أولُ أهلِ بيتهِ يتبعه، فضحكتُ .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4433
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ داؤد راز
مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، میں یہ سن کر رونے لگی۔ دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کو اپنے وصال کا معلوم تھا اس لئے ارشاد فرمایا کہ"" میرا وصال اسی مرض میں ہو جائے گا ""
اور دوسری بات یہ کہ رسول اللہﷺ نے اپنی صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمہ کے دنیا سے رخصت ہونے کا علم بھی تھا اور یہ حضرت فاطمہ سے یہ ارشاد فرمایا کہ" میرے اہل بیت میں سب سے پہلےتم وصال فرما کر مجھ سے آ ملوں گی" ۔
جب یہ معلوم ہے رسول اللہﷺ کا وصال مدینہ منورہ میں بیماری سے ہوگا
یہ مفہوم آپ نے کہاں سے کشید کیا، اس کی کوئی دلیل بھی دیں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ آپ کے اس موقف کے پیچھے کیا کیا دلائل ہیں۔ جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:تو رسول اللہﷺ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا وصال کہاں ہوگا
اس روایت سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے، کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی وفات کا علم ہو جاتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی وفات کا وقت اور جگہ بھی لوگوں کو بتا دیتے، جہاں تک اوپر روایت کی بات ہے، تو اس سے پہلے میں نے یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھا تھا جس میں ان کے زبردست فہم کی بات کی گئی تھی، کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آیت (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ) کی تلاوت کی تو دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین خوش ہو گئے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے، رونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پیار کرتے تھے اور ساری زندگی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت اور فرمانبرداری میں گزاری اسی لئے انہوں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کی تلاوت کرنے سے یہ مفہوم لیا، اور یہاں بھی یہ بات زہن نشین رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کی نسبت کوئی بدعقیدگی اختیار نہ کی جائے کہ معاذاللہ ان کو بھی وفات کا علم ہو جاتا تھا، یہ ایک فہم ہے، جیسے ایک شخص اگر ہنس ہنس کر اپنے دکھ کر چھپانے کی کوشش کر رہا ہوں تو اکثر لوگ اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ شخص ہنس تو رہا تھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کو بہت دکھ ہے، تو یہ ایک فہم ہے جس سے کوئی عقیدہ گھڑ لینا عقل مندی نہیں۔یہ تو ہوا رسول اللہﷺ کے علم کا مختصر احوال لیکن جب میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے ایک عجیب و غریب صورت حال کا سامنا ہوتا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت عمر بھی پہلے ہی جانتے تھے کہ اب رسول اللہﷺ کا وصال ہونے والا ہے
كان عمرُ بنُ الخطابِ رضيَ اللهُ عنه يُدني ابنَ عباسٍ، فقال له عبدُ الرحمنِ بنِ عوفٍ : إنَّ لنا أبناءٌ مثلُه، فقال : إنه مَن حيث تعلمُ : فسأل عمرُ ابنَ عباسٍ عن هذه الآيةِ : { إِذَا جَاءَ نَصْرُاللهِ وَالفَتْحُ } فقال : أجَلُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أعلمَه إياهُ، فقال : ما أعلم منها إلا ما تعلمُ .
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4430
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ داؤد راز
حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ (یعنی ابن عباس) کو (مجالس میں) اپنے قریب بٹھاتے تھے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عو ف رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا کہ اس جیسے تو ہمارے بچے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ طرز عمل جس وجہ سے اختیا رکیا، وہ آپ کو معلوم بھی ہے؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے اس آیت (یعنی) ((اذا جاء نصر اللہ والفتح)) کے متعلق پوچھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے (آیت میں) اسی کی اطلاع دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو تم نے بتایا وہی میں بھی اس آیت کے متعلق جانتا ہوں۔
اب اگر اس روایت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اذا جاء نصر اللہ والفتح آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ اس سے مراد رسول اللہﷺ کا دنیا سے رخصت ہونا ہے ۔ یعنی رسول اللہﷺ کے وصال کا علم تو حضرت عمر اور ابن عباس کو بھی پہلے ہی سے تھا ۔
جی ہاں! اسے انبیاء علیھم السلام کا خاصہ کہا جا سکتا ہے، یہ کسی عام انسان کے لئے نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انبیاء علیھم السلام کو زندگی اور موت کا اختیار تھا کیونکہ زندگی اور موت کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے (تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١﴾ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾) اور یہاں سے بریلوی عقائد کی بھی نفی ہوتی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کے لئے موت نہیں ، کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ) تو اس سے ثابت ہوا کہ تمام انسانوں نے بشمول انبیاء و رسل علیھم السلام نے فوت ہونا ہے، اور باقی صرف اللہ کی ذات ہے (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾...سورۃ الرحمن)انبیاء علیہم السلام اپنے اختیار سے اس دنیا سے رخصت ہونگے
لا يموتُ نبيٌّ حتى يُخيَّر بين الدنيا والآخرةِ، فسمعتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول في مرضه الذي مات فيه، وأخذته بُحَّةً، يقول : ( { مَعَ الذِينَ أَنعَمَ اللهُ عَلَيهِمْ } ) . الآية، فظننتُ أنه خيرٌ .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4435
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ داؤد راز
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سنا، آپ اپنے مرض الموت میں فرما رہے تھے، آپ کی آواز بھاری ہو چکی تھی۔ آپ آیت ((مع الذین انعم اللہ علیہم الخ)) کی تلاوت فرما رہے تھے (یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعا م کیا ہے) مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے
بھائی میں مانتا ہوں آپ کی بات۔۔۔ بالکل آپ نے درست بات کی ہے۔۔۔ لیکن ہر وقت ، ہر تھریڈ میں آدمی اپنی زہنیت کے مطابق دوسروں پر تنقید کر کے اسے اصلاح کا نام دیں تو میں اس چیز کے خلاف ہوں۔ اب ذرا غور کریں۔طرز کلام اور اسلوب بیان میں ذرا اختلاف کی وجہ سے اس قدر غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ اس سے خود ہمارا اپنا نقصان اور ہماری دعوت پر اثر پڑتا ہے ۔
اور دعوت کے نتائج برعکس برآمد ہوتے ہیں بقول شخصے
مجھے تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کچھ ہوں ، ٹوٹا کچھ ہے
مطلب باطل کو نیچا دکھانے میں اسلوب میں ذرا احتیاط نہ ہونے کی وجہ سے دعوت حق متأثر ہوتی ہے ۔
موصوف کو ہم نبوی دور کے کئی واقعات بھی بتا سکتے ہیں، تو کیا موصوف انہیں بھی "منفی طرزِ عمل" سے تعبیر کریں گے۔ نعوذباللہناپسند اس لئے کیا کہ اس طرح کے "منفی طرز عمل" سے کسی بھی مسلک کے افراد کو کبھی بھی "اپنے درست راستے" پر نہیں لایا جاسکتا۔