محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم قارئین کرام!
دین کی قدر اُن لوگوں کو زیادہ ہوتی ہے جو اپنے سابقہ ادیان و مسالک کو چھوڑ کر اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی انہی میں سے گردانے۔ آمین۔
آج ایک نئے مضمون کے ساتھ حاضر ہوں۔
شاکر بھائی بھی اس مضمون کے شائق تھے۔ سو آج سے ان شاء اللہ یہ مضمون آپ کی نظر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کو ان الفاظ کے ساتھ شروع کیا:
الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ نبینا الامین ،و اٰلہ الطیبین الطاہرین،والتابعین لہم باحسا ن الیٰ یوم الدین ۔
اما بعد!
بے شک ہر مسلمان اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ زندگی موت کے ساتھ ختم ہو جانے والی ہے، پھر اس کا ٹھکانا یا تو جنت ہو گا یا جہنم ہو گا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کا شمار اہل جنت میں سے ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے کام سر انجام دے جو اللہ عز و جل کی رضا مندی کا باعث بنیں اور ہر ایسے کام سے دور رہے جس سے اس نے منع کیا ہے اور جو اسے اللہ تعالیٰ کے غصے میں ڈالنے والے اور پھر اس کی سزا کا مستحق بنانے والے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے پروردگار کی اطاعت کی حرص رکھتا اور ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اس کے قریب کر دے۔ یہ تو عامۃ الناس مسلمانوں کا طریقہ کار ہے تو ان کے خاص لوگوں کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
بے شک زندگی جیسا کہ معلوم ہے کہ اس میں بہت سے راستے ہیں اور دھوکے کے وافر مواقع ہیں، عقل مند وہ انسان ہے جو اس راستے پر چلے جو اسے جنت تک پہنچا دے اگرچہ وہ راستہ مشکل ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس راستے کو چھوڑ دے جو جہنم کو جانے والا ہو اگرچہ وہ آسان اور میسر بھی کیوں نہ ہو۔
یہ رسالہ جو کہ ایک بحث کی شکل پر ترتیب دیا گیا ہے جسے میں نے اپنی زبان سے بولا اور اپنی انگلیوں کی پوروں سے لکھا ہے، جس سے میرا مقصود محض اللہ کی رضا اور اپنے بھائیوں کا نفع ہے جب تک کہ میں زندہ رہوں، اس سے قبل کہ کفن میں لپیٹ دیا جاؤں۔
محترم قارئین کرام!
دین کی قدر اُن لوگوں کو زیادہ ہوتی ہے جو اپنے سابقہ ادیان و مسالک کو چھوڑ کر اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی انہی میں سے گردانے۔ آمین۔
آج ایک نئے مضمون کے ساتھ حاضر ہوں۔
شاکر بھائی بھی اس مضمون کے شائق تھے۔ سو آج سے ان شاء اللہ یہ مضمون آپ کی نظر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کو ان الفاظ کے ساتھ شروع کیا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ نبینا الامین ،و اٰلہ الطیبین الطاہرین،والتابعین لہم باحسا ن الیٰ یوم الدین ۔
اما بعد!
بے شک ہر مسلمان اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ زندگی موت کے ساتھ ختم ہو جانے والی ہے، پھر اس کا ٹھکانا یا تو جنت ہو گا یا جہنم ہو گا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کا شمار اہل جنت میں سے ہو ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے کام سر انجام دے جو اللہ عز و جل کی رضا مندی کا باعث بنیں اور ہر ایسے کام سے دور رہے جس سے اس نے منع کیا ہے اور جو اسے اللہ تعالیٰ کے غصے میں ڈالنے والے اور پھر اس کی سزا کا مستحق بنانے والے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے پروردگار کی اطاعت کی حرص رکھتا اور ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اس کے قریب کر دے۔ یہ تو عامۃ الناس مسلمانوں کا طریقہ کار ہے تو ان کے خاص لوگوں کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
بے شک زندگی جیسا کہ معلوم ہے کہ اس میں بہت سے راستے ہیں اور دھوکے کے وافر مواقع ہیں، عقل مند وہ انسان ہے جو اس راستے پر چلے جو اسے جنت تک پہنچا دے اگرچہ وہ راستہ مشکل ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس راستے کو چھوڑ دے جو جہنم کو جانے والا ہو اگرچہ وہ آسان اور میسر بھی کیوں نہ ہو۔
یہ رسالہ جو کہ ایک بحث کی شکل پر ترتیب دیا گیا ہے جسے میں نے اپنی زبان سے بولا اور اپنی انگلیوں کی پوروں سے لکھا ہے، جس سے میرا مقصود محض اللہ کی رضا اور اپنے بھائیوں کا نفع ہے جب تک کہ میں زندہ رہوں، اس سے قبل کہ کفن میں لپیٹ دیا جاؤں۔