• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعہ مسلمان کا بھائی کیسے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
شیعہ کا کلمہ لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل یعنی ہم کلمہ میں تین گواہیاں دیتے ہیں۔ اللہ ایک ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور علی (ع) اللہ کے ولی اور وصی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں اور بغیر کسی فاصلہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ہیں۔
اب ہم ان تینوں گواہیوں پر قرآن سے صریح حکم ثابت کرتے ہیں۔
قرآن مجید پارہ نمبر 6 سورۃ المائدہ کی آیہ 55 میں ارشاد ہوتا ہے۔انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین امنو الذین یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون
ترجمہ:۔ سوائے اس کے نہیں کہ تم لوگوں کا اللہ ولی ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ ایمان والے جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور بحالتِ رکوع زکٰوۃ دیتے ہیں۔
اس آیت میں بھی تین گواہیاں بیان ہو رہی ہیں دو تو واضح ہیں تیسری مخفی ہے مگر اتنی مخفی بھی نہیں کہ صاحبِ عقل انسان کو سمجھ نہ آئے اب ذرا اہلِ سنت کی درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت دراصل حضرت علی علیہ اسلام کی شان میں نازل ہوئی۔
1:۔ تفسیر جامع البیان ابنِ جریر طبری مطبوعہ دارالمعارف مصر جلد 10 صفحہ 225
2:۔ تفسیر حافظ ابنِ کثیر دمشقی مطبوعہ مصر جلد 3 صفحہ 329
3:۔ تفسیرِ خازن مطبوعہ مصر جلد اول صفحہ 506
4:۔ تفسیر درمنثور سیوطی مطبوعہ مصر جلد 2 صفحہ 293
5:۔ تفسیرِ حسینی (فارسی) مطبوعہ نولکشور لکھنو جلد اول صفحہ 150
6:۔ تفسیرِ قادری (اردو ترجمہ تفسیر حسینی) مکتبہ مصطفائی کشمیری بازار لاہور جلد اول صفحہ 245
7:۔ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند حنبل مطبوعہ مصر جلد 5 صفحہ 38
اب تیسری گواہی بھی ہمیں مل گئی یعنی علی ولی اللہ تو اب ذرا ناصبی حضرات اپنے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
شیعہ کا کلمہ لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل یعنی ہم کلمہ میں تین گواہیاں دیتے ہیں۔ اللہ ایک ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور علی (ع) اللہ کے ولی اور وصی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں اور بغیر کسی فاصلہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ہیں۔
اب ہم ان تینوں گواہیوں پر قرآن سے صریح حکم ثابت کرتے ہیں۔
قرآن مجید پارہ نمبر 6 سورۃ المائدہ کی آیہ 55 میں ارشاد ہوتا ہے۔انما ولیکم اللہ و رسولہ والذین امنو الذین یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃ وھم راکعون
ترجمہ:۔ سوائے اس کے نہیں کہ تم لوگوں کا اللہ ولی ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ ایمان والے جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور بحالتِ رکوع زکٰوۃ دیتے ہیں۔
اس آیت میں بھی تین گواہیاں بیان ہو رہی ہیں دو تو واضح ہیں تیسری مخفی ہے مگر اتنی مخفی بھی نہیں کہ صاحبِ عقل انسان کو سمجھ نہ آئے اب ذرا اہلِ سنت کی درج ذیل کتب میں ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت دراصل حضرت علی علیہ اسلام کی شان میں نازل ہوئی۔
1:۔ تفسیر جامع البیان ابنِ جریر طبری مطبوعہ دارالمعارف مصر جلد 10 صفحہ 225
2:۔ تفسیر حافظ ابنِ کثیر دمشقی مطبوعہ مصر جلد 3 صفحہ 329
3:۔ تفسیرِ خازن مطبوعہ مصر جلد اول صفحہ 506
4:۔ تفسیر درمنثور سیوطی مطبوعہ مصر جلد 2 صفحہ 293
5:۔ تفسیرِ حسینی (فارسی) مطبوعہ نولکشور لکھنو جلد اول صفحہ 150
6:۔ تفسیرِ قادری (اردو ترجمہ تفسیر حسینی) مکتبہ مصطفائی کشمیری بازار لاہور جلد اول صفحہ 245
7:۔ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند حنبل مطبوعہ مصر جلد 5 صفحہ 38
اب تیسری گواہی بھی ہمیں مل گئی یعنی علی ولی اللہ تو اب ذرا ناصبی حضرات اپنے
السلام و علیکم -


إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر55
اس کے شان نزول میں مفسرین کرام نے اس کے شان نزول مختلف بیان کیے گئے ہیں۔
نمبر1۔ چنانچہ تفسیر ابن جریر جلد چہارم، صفحہ 186 مطبوعہ بیروت، میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ بنی خزرج سے حضر ت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں تمھاری دوستی کو چھوڑتا ہوں ، کیوں کہ میں اللہ عز وجل و رسول اللہ ﷺ اور مومنین کو دوست رکھتا ہوں۔
نمبر 2۔ تفسیر روح المعانی صفحہ176/6 میں اس آیت کے تحت ایک اور روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو ان کی قوم نے ان سے بائیکاٹ کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن سلام بہت پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی، انما ولیکم اللہ ۔۔۔
نمبر3۔ جب کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان 210/2پر بھی موجود ہے جس کی عبار ت یہ ہے ۔ وقال الکلبی نزلت فی عبد اللہ بن سلام اصحابہ لما اسلموا فقطعت

سوره مائده آیه 55 اس آیت میں ولی بمعنی دوست استعمال ہوا ہے لہٰذا قطعی طور پر اس کا شان نزول حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ہے۔ جبکہ تفسیر در منثور صفحہ518/2مطبوعہ بیروت، میں اس آیت کا پہلا شان نزول ہی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
Salam Alaikum
I send my reply through Mohaddus email
Kindly check my reply Thank You for your response
 
شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
بسمہ سبحانہ و بذکر ولیہ
تفسیر آیہٴ ولایت سنی تفاسیر كی روشنی میں
میر مراد علی خان
پہلی حدیث
تفسیر آیہٴ ولایت سنی تفاسیر كی روشنی میں:
مولائے كائنات امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام كی ولایت اور بلا فصل خلافت و امامت پر قرآن كریم سے كئی دلائل پیش كئے گئے ہیں مگر كچھ آیتیں ایسی ہیں جن كی حیثیت امامت و خلافت كے موضوع پر شق القمر سے زیادہ محكم ہے۔ یعنی یہ آیتیں وہ ہیں جو ہمارے مولاؑ كی شان میں نازل ہوئی ہیں اور انكی ولایت، امامت اور خلافت پر دلالت كر رہی ہیں اور تمام شیعہ اور سنی علماء ان پر متفق ہیں سوائے چند متعصب اور متكبر افراد كے جن كے انكار كی بنیاد عصبیت و عناد و لجاجت پر مبنی تھی۔ ایسی ہی چند آیتوں میں ایك آیہ ولایت ہے۔
سورۃ المائدہ: آیہ 55
تمہارا ولی صرف اللہ ہے اسكا رسول ہے اور وہ صاحبان جو نماز قائم كرتے ہیں اور حالت ركوع میں زكوۃ دیتے ہیں۔
آیئے! اس مضمون میں ہم اہل سنت كی تفاسیر میں سے چند روایات نقل كرتے ہیں جو اس آیہٴ مباركہ كے ذیل میں درج كی گئی ہیں۔
پہلی حدیث
مشہور و معروف مفسر قرآن احمد بن محمد ثعلبی اپنی تفسیر ‘‘اَلْكَشْفُ وَ الْبَيَانُ’’ میں تحریر فرماتے ہیں كہ سدی، عتبۃ بن ابی حكیم اور غالب بن عبد اللہ سے منقول ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ كے قول ‘‘إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهٗ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ’’ سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں كیونكہ جب مسجد میں حالت ركوع میں تھے ایك سائل آپ كے پاس سے گذرا تو آپؑ نے اپنی انگشتری اسے عطاكی۔
پھر ثعلبی لكھتے ہیں: ہمیں ابو الحسن محمد بن القاسم الفقیہ نے خبردی عبد اللہ بن احمد الشعرانی سے، انہوں نے ابو علی احمد بن علی بن رزین سے، انہوں نے مظفر بن حسن الانصاری سے، انہوں نے السری بن علی الورّاق سے، انہوں نے یحی بن عبد الحمید الحمانی سے، انہوں نے قیس بن ربیع سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے عبایہ بن الربعی سے اور انہوں نے نقل كیا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے جبكہ آپ زمزم كے كنارے تشریف فرما تھے اور كہہ رہے تھے ‘‘قال رسول اللہ’’ جب ایك شخص جو عمامہ پہنے ہوئے تھا اور عمامہ سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا كھڑا ہوا۔ اب جو جو ابن عباس كہتے تھے ‘‘قال رسول اللہ’’ وہ شخص دہراتاتھا ‘‘قال رسولُ اللہِ’’ (یعنی وہ ابن عباس كے قول كی تائید كرتا جاتا تھا كہ ہاں یقیناً یہ حدیث رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے)۔
ابن عباس نے دریافت كیا: میں تمہیں خدا كا واسطہ دیتا ہوں تم كون ہو؟ اس شخص نے اپنے چہرے پر سے نقاب ہٹائی اور كہنے لگا: اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ مجھے پہچانتا ہے۔ اور جو مجھے نہیں پہچانتا ہے تو وہ جان لے كہ میں جندب بن جنادہ البدری ابوذر الغفاری ہوں۔ میں نے پیغمبر ﷺ سے سنا ہے ورنہ میرے دونوں كان بہرے ہوجائیں اور میں نے پیغمبرﷺ كو دیكھا ہے ورنہ میری دونوں آنكھیں اندھی ہو جائیں۔ میں نے یہ سنا كہ آپ ؐ نے فرمایا: علی علیہ السلام نیكوكار افراد كےرہبر ہیں كفار كے قاتل ہیں، جس نے علی علیہ السلام كی نصرت كی اسكی مدد كی جائیگی اور جس نے علی علیہ السلام كو چھوڑ دیا ، اسے چھوڑ دیا جائیگا۔’’
جان لوكہ ایك روز میں نے رسول اللہﷺ كے ساتھ نماز ظہر پڑھی۔ ایك سائل نے مسجد میں آكر سوال كیا مگر كسی نے اسے كچھ نہ دیا سائل نے اپنے ہاتھوں كو آسمان كی طرف بلند كیا اور كہنے لگا
‘‘پروردگارا! تو گواہ رہنا كہ میں نے رسول اللہﷺ كی مسجد میں سوال كیا مگر مجھے كسی نے كچھ نہ دیا۔’’ اس وقت علی علیہ السلام حالت ركوع میں تھے۔ آپؑ نے اپنے داہنے ہاتھ كو سائل كی طرف بڑھا دیا اور اس ہاتھ كی انگلی میں انگشتری تھی۔ سائل آپؑ كی طرف بڑھا اور آپ كی انگلی سے انگشتری اُتار لی یہ واقعہ پیغمبرؐ كے حضور میں انجام پایا۔ جب آنحضرت ؐ نماز سے فارغ ہوئے آپؐ نے اپنے سر اقدس كو آسمان كی طرف بلند كیا اور فرمایا: پروردگارا! موسیٰ نے تجھ سے سوال كیا ‘‘میرے رب! میرے سینے كو میرے لئے كشادہ كردے میرے امر كو میرے لئے آسان بنادے، میری زبان كی گرہ كو كھول دے تاكہ یہ لوگ میری بات سمجھ سكیں۔ اور میرے خاندان سے میرے بھائی ہارون كو میرا وزیر معین فرما۔ انكے ذریعہ میری كمر كو مضبوطی عطا كر اور انہیں میرے امر میں شریك قرار دے۔’’
(سورہ طہ: آیۃ 25-32)۔ اس پر تونے انكے لئے جواب میں وحی فرمائی ‘‘عنقریب ہم آپ كے بازوؤں كو تقویت پہونچائینگے آپ كے بھائی كے ذریعہ اور تم دونوں كو غلبہ دیں گے بسبب ہماری نشانیوں كے جس كی بنا پر فرعونی تم تك پہنچ ہی نہ سكیں گے۔’’ (سورہ قصص: آیۃ35) پروردگارا! میں محمدﷺ تیرا نبی اور تیرا برگزیدہ ہوں۔ پروردگارا! میرے سینے كو میرے لئے كشادہ كردے میرے امر كو آسان بنا، میرے خاندان میں سے علی كو میرا جانشین مقرر فرما اور انكے ذریعہ میری كمر كو مضبوطی عطا فرما۔
جناب ابوذر نقل كرتے ہیں: ابھی رسول اللہ ﷺ كی بات مكمل بھی نہ ہوئی تھی كہ جبرئیل علیہ السلام آپ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمدﷺ پڑھئے! آپؐ نے دریافت كیا: كیا پڑھوں؟ جبرئیل علیہ السلام كہا: پڑھئے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ [1]؎
دوسری حدیث
اہل سنت كے معتبر مصنف رزین نے اپنی كتاب ‘‘اَلْجَمْعُ بین الصحاح السنۃ’’ میں آیہ ولایت كے ذیل میں صحیح نسائی سے نقل كیا ہے كہ ابن سلام كی روایت ہے كہ میں رسول اللہ ﷺ كی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض كی ‘‘كچھ لوگ ہماری شدت سے مخالفت صرف اس بنا پر كرتے ہیں كہ ہم نے اللہ اور اسكے رسول كی تصدیق كی۔ وہ لوگ قسم كھاتے ہیں كہ وہ ہم سے بول چال بھی بند كر دیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ بعد از ایں حضرت بلالؓ نے اذان ظہر دی۔ لوگوں نے نماز شروع كی ركوع اور سجدے كے درمیان تھے كہ سائل نے سوال كیا اور علی نے اپنی انگشتری ركوع كے عالم میں دی۔ سائل نے رسول اللہ ﷺ كو خبردی جس كے بعد رسول اللہﷺ نے ان دو2؍ آیتوں كی تلاوت فرمائی۔’’[2]
تیسری حدیث
موفق بن احمد نے امیر شام معاویہ اور عمرو بن العاص كے درمیان جو مكاتبہ ہوا تھا اسے نقل كرتے ہوئے لكھا ہے كہ عمرو بن العاص نے جواب میں تحریر كیا: اے معاویہ! تو جانتا ہے كہ اللہ كی كتاب میں علی ؑكے متعدّد فضائل شامل ہیں كہ جن میں كوئی علی ؑ كا شریك نہیں ہے۔ مثلاً‘‘یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ’’ ‘‘جو نذر پوری كرتے ہیں (سورہ انسان: آیہ 7)
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رَاكِعُوْنَ[3]
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتَابُ مُوْسٰى اِمَامًا وَّرَحْمَةً[4]
كیا جو شخص جو اپنے رب كی طرف سے دلیل پر ہو اور اسكے ساتھ اللہ كی طرف كا گواہ بھی ہو اور اس كے پہلے موسیٰ كی كتاب گواہی دے رہی ہے جو قوم كیئے پیشوا اور رحمت تھی؟
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ
مومنین میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے كیا تھا اسےسچا كر دكھایا۔[5]
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلاَّ االْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى[6]
كہہ دیجئے كہ میں اس پر (یعنی رسالت پر) تم سے كوئی اجر نہیں چاہتا مگر میرے رشتہ داروں كی محبت كے۔[7]
جب یہ آیت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب كی شان میں نازل ہوئی، تو شاعر رسول اكرمﷺ حسان بن ثابت نے فی البدیہ یہ قصیدہ پڑھا
أَبَا حَسَنٍ تَفْدِيكَ نَفْسِي وَ مُهْجَتِي وَ كُلُّ بَطِي‏ءٍ فِي الْهَوَا وَ مُسَارِعٍ‏
أَ يَذْهَبُ مَدْحِي وَ الْمُحَبِّرُ ضَائِعٌ وَ مَا الْمَدْحُ فِي جَنْبِ الْإِلَهِ بِضَائِعٍ‏
فَأَنْتَ الَّذِي أَعْطَيْتَ إِذْ كُنْتَ رَاكِعاً فَدَتْكَ نُفُوسُ الْقَوْمِ يَا خَيْرَ رَاكِعٍ‏
فَأَنْزَلَ فِيكَ اللَّهُ خَيْرَ وَلَايَةٍ وَ بَيْنَهَا فِي مُحْكَمَاتِ الشَّرَائِع‏
اے ابو الحسن! میری جان اور میرا خون آپ پر قربان ہو
اور ہر وہ شی جو ہوا میں اڑرہی ہو یا سیر كر رہی ہو
كیا میری مدح اور میری نوشتا رضائع ہوگی؟
نہیں ! اللہ كی راہ میں مدح كبھی ضائع نہیں ہوتی۔
آپ وہی ہیں جنہوں نے حالت ركوع میں عطا فرمایا
پورے قوم كی جانیں آپ پر قربان ہو، اے بہترین ركوع كرنے والے
پس اللہ نے آپ كے لئے بہترین ولایت نازل كی
اور انكے درمیان شریعت كے واضع قوانین موجود ہیں۔[8]
علاوہ از این، اہل سنت كے نامور عالم، الحافظ الكبیر عبید اللہ بن عبد اللہ بن احمد، جو اَلْحَاكم الصكافی كے نام سے معروف ہیں، نے اپنے كتاب شواہد التنزیل میں تقریباً 25 روایات نقل كی ہیں كہ یہ آیت مباركہ مولائے كائنات امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام كی شان میں نازل ہوئی ہے.
ان تمام اظہر من الشمس دلائل كے باوجود، كچھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس حقیقت سے انكار كیا ہے اور لوگوں كے دل و دماغ میں یہ وسوسہ پیدا كرتے ہیں كہ یہ تفسیر شیعوں كہ ایجاد كردہ ہے۔ ایسے ہی ایك شخص كا نام ہے احمد بن عبد الحلیم بن تیمیہ (جو ابن تیمیہ كے نام سے جانا جاتا ہے) اپنی كتاب ‘‘منہاج السنۃ’’ كے صفحہ 156 پر وہ لكھتا ہے:
قَدْ وَضَعَ بَعْضُ الكذّابين حَدِيْثًا مُفْتَرىً أنَّ هٰذِهِ الآيٰةَ : ‘‘اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رَاكِعُوْنَ’’ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ لَمَّا تَصَدَّقَ بِخَاتِمِهٖ فِي الصَلوٰةِ وَ هٰذَا كِذْبٌ بِاِجْمَاعِ اَهْلِ العِلْمِ بالنَّقْلِ.
كچھ جھوٹوں نے یہ حدیث گڑھی ہے كہ یہ آیت اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رَاكِعُوْنَ علی كی شان میں نازل ہوئی ہے اس وقت جب آپ نے نماز میں اپنی انگشتری صدقہ كے طور سے عطا كی تمام علمائے حدیث اس پر متفق ہیں كہ یہ جھوٹ ہے۔ (ابن تیمیہ كا قول تمام ہوا)۔
افتخار علماء اہل التشیع، علامہ مجاہد اكبر شیخ عبد الحسین امینیؒنے اپنی گرانقدر كتاب ‘‘الغدیر’’ میں اس بیہودہ اور بے بنیاد كا جواب دیا ہے۔ [9]
حقیقت یہ ہے كہ تعصب اور ہٹ دہرمی انسان كی آنكھوں پر اس طرح پردہ ڈال دیتی ہے كہ وہ حقائق ثابتہ سے انكار كرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ گمان كرنے لگتا ہے كہ وہ احادیث كہ جنہیں ائمہ احادیث اور حفّاظ كرام نے اپنی معتبر كتابوں میں نقل كیا ہے اور جنكی اسناد كی انتہا امیر المومنین علی بن ابی طالب ‘ابن عباس’ ابو ذر’ عمّار، جابر الانصاری، ابو رافع، انس بن مالك، مسلمہ بن كہیل اور عبد اللہ بن سلام جیسے صحابہ اور سلف صالح پر ہوتی ہے، كہیں اسے جھوٹ اور جعلی قرار دیتا ہے۔ یقیناً ابن تیمیہ كا یہ دعویٰ بھی اسكے بقیہ تمام دعووں كی طرح غلط اور بے بنیاد ہے اور جس میں اس نے یہ دعوی كرلیا ہے كہ تمام علماء كا اس پر اجماع ہے، نہ جانے زمین كے كس گڈھے میں اسنے وہ علماء پائے كہ جن كا اس حدیث كے جعلی ہونے پر اتفاق ہے!
آئیے ان علماء اور انكی كتابوں پر ایك مختصر نظر كرتے ہیں جنہوں نے اپنی كتابوں اور تصانیف میں اس شان نزول كی تائید كی ہے كہ یہ آیت علی بن ابی طالب علیہ السلام كی شان میں نازل ہوئی ہے۔اس مقالے کے آخری صفحہ نام کتاب مصنف اور جلد اور صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔
تیسری صدی ہجری كے علماء:
1۔ القاضی الواقدی (207 ؁ھ)
2۔ حافظ الصنعانی (211 ؁ھ)
3۔ حافظ ابن ابی شیبہ الكوفی (239؁ھ)
4۔ ابو جعفر الاسكافی المعتزلی (240؁ھ)
5۔ حافظ ابو محمد الكشی (249؁ھ)
6۔ ابو سعید الاسبح الكوفی (257؁ھ) اور دیگر بہت سارے علماء۔
چوتھی صدی ہجری كے علماء
1۔ حافظ نسائی اپنی صحیح میں (303؁ھ)
2۔ مشہور مؤرخ و مفسر محمد بن جریر طبری (310؁ھ)
3۔ ابن البی حاتم الزازی (328؁ھ) وغیرہ
پانچویں صدی ہجری كے علماء
1۔ حافظ ابوبكر شیرازی (407؁ھ)
2۔ حافظ ابن مردویۃ الاصفہانی (416؁ھ)
3۔ ابو اسحاق الثعلبی (427؁ھ)
4۔ حافظ ابو نعیم الاصفہانی (430ھ)
5۔ الماوردی الفقیہ الشافعی (450؁ھ)
6۔ حافظ ابوبكر البیہقی (458؁ھ)
7۔ حافظ ابو بكر الخطیب ابغدادی الشافعی (463؁ھ)
8۔ حافظ ابو الحسن الواحدی النیشابوری (468؁ھ) وغیرہ
چھٹی صدی كے علماء
1۔ الفقیہ ابو الحسن علی بن محمد الكیا الطبری الشافعی (504؁ھ)
2۔ حافظ الفراء البغوی الشافعی (516؁ھ)
3۔ ابو الحسن رز بن العبدری الاندلسی (535؁ھ) اپنی كتاب الجمع بین الصحاح الست نقل از صحیح النسائی
4۔ ابو القاسم جار اللہ الزمخشری الحنفی (538؁ھ)
5۔ حافظ سمعانی الشافعی (562؁ھ)
6۔ الامام القرطبی (567؁ھ)
7۔ ابن عسا كرد مشقی (571؁ھ)
8۔ حافظ ابن جوزی حنبلی (597؁ھ) وغیرہ
(ہم نے یہاں نہایت اختصار سے كام لیا ہے جو قارئین كرام تفصیلات كے خواہاں ہیں، انہیں چاہیئے كہ كتاب الغدیر سے رجوع كریں)
تیسری صدی سے لیكر چھٹی صدی تك اتنے بزرگ مرتبہ علماء ‘فقہاء’ متكلمین، محدثین، مفسرین، مورخین، وغیرہ نے اتفاقی و اجماعی طور پر نقل كیا ہے كہ یہ آیت كریمہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام كی شان میں نازل ہوئی ہے، بات كو ثابت كرنے كی ذمہ داری مدّعی پر ہوتی ہے۔ جب ابن تیمیہ نے اتنا بڑا دعویٰ كیا تو بات كو ثابت كیوں نہیں كیا؟ یہ بات ملحوظ خاطر رہے كہ اہل سنت كے بڑے علماء اور جید فقہاء و مفسرین نے ابن تیمیہ كے خود اسلام پر شك كیا ہے اور كچھ نے تو باقاعدہ اسكے كفر كا اعلان كیا ہے جس كی تفصیلات انشاء اللہ كبھی اور ۔ افسوس یہ ہے كہ آج ابن تیمیہ كے حامیوں نے اسے شیخ الاسلام جیسے لقب سے نوازا ہے اور اس كے فاسد و باطل نظریات كو اپنی زندگی كا مركز بنا لیا ہے۔اس کی وجہ صرف بغض علی ابن ابی طالب ہے۔
آخر میں یہ بات بے جانہ ہوگی كہ جو لوگ سلف صالح كی پیروی كا دم بھرتے ہیں وہ در حقیقت جید صحابہ كی روایت و اقوال كوردّ كر كے اپنی ہوائے نفس كی بات منوانا چاہتے ہیں۔
[1] تفسیر ثعلبی، ذیل سورہ مائدہ: آیہ 55
[2] الجمع بین الصحاح الستۃ، تیسرا جزء نقل از صحیح مسلم
[3] سورہ مائدہ: آیہ 55
[4] سورہ ہود: آیہ 17
[5] سورہ احزاب: آیۃ 23
[6] سورہ شوریٰ: آیہ 23
[7] مناقب الخوارزمی، ص 200
[8] مناقب الخوارزمی، ص 265، كفایت الطالب، حافظ الكنجی الشافعی، باب 61، ص 228
[9] رجوع كیجئے الغدیر، ج 3، ص 156
ایک اور دشمن علی ابن طالب حميد الدين عبد الحميد الآلوسي اپنی کتاب (نثر اللئالي على نظم الأمالي) ص 169
اس آیت ولایت کے بارے میں یہ لکھتا ہے کہ یہ آیت جیسا کہ لوگوں نے سمجھ رکھا یے تنہا حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ تمام انصار و مہاجرین کی شان میں نازل ہوئی ہے اُن میں حضرت علی علیہ السلام ایک فرد ہیں کیونکہ اس آیت مبارکہ میں ’’ الذین‘‘ صیغہ جمع استعمال ہوا ہے یہ اکیلے کے لئے کیسے مقصود ہوسکتی ہے۔ ۱۶۹ص
اس دشمن علی علیہ السلام نے یہاں تک لکھا کہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی۔ عداوت کی شددت نے یہ فراموش کردیا کہ ہر عمومی حکم میں دوسروں کے لئے شوق کی غرض سے بلیغ تر انداز گفتگو اختیار کرکے فرد خالص کے کارنامے کو موکد(certain )کیا جاتا ہے۔اس کی مثالیں قرآن مجید میں بے شمار ہیں مثلاً:
1 - الذين قالوا إن الله فقير ونحن أغنياء (آل عمران: 181)یعنی اللہ نے ان لوگوں کا قول سُنا جنھوں نے یہ کہا اللہ یقناً محتاج ہے ۔ در حالانکہ یہ قول بن اخطب کا تھا یا بعض مفسرین نہ کہا کہ یہ قول نفخاص بن عازورا نامی شخص کا تھا مگر قرآن نے صیغہ جمع کا استعمال کیا۔
2 - ومنهم الذين يؤذون النبي ويقولون هو أذن (التوبة: 61)اور ان لوگوں میں وہ بھی ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت جلاس بن سوید یا نبتل یا عتاب کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ سب منافق تھے ملاحظہ ہو :تفسير القرطبي 8: 192، تفسير، الخازن 2: 253، الإصابة 3: 549.
3۔ والذين يبتغون الكتاب مما ملكت أيمانكم فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا (النور: 33) نزلت في صبيح مولى حويطب بن عبد العزى، ۔یعنی اور تمہارے لعنڈی اور غلام جو مکاسب کی خواہش رکہتے ہیں۔ یہ آیت صبیح مولٰی حویطب کے بارے میں ناز ہوئی۔أخرجه ابن مندة وأبو نعيم والقرطبي كما في تفسيره 12. 244، أسدالغابة 3: 11، الإصابة 2: 176.
4 إن الذين يأكلون أموال اليتامى
ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا (النساء: 10) قال مقاتل بن حبان:
نزلت في مرثد بن زيد الغطفاني. (تفسير القرطبي 5: 53، الإصابة 3:397۔بے شک وہ لوگ جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں یہ مرثد بن زید کے بارے میں نازل ہوئی۔ تفسیر قرطبی ، الاصابہ۔ مذکور
اس طرح کئی مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا درحالانکہ ایک ہی شخص تھا۔
حوالات:
القاضي أبو عبد الله محمد بن عمر المدني
۱۔الواقدي 207، كما في (ذخاير العقبى) 102.
2 - الحافظ أبو بكر عبدالرزاق الصنعاني المتوفى 211، كما في تفسير ابن كثير 2 ص 71 وغيره
عن عبد الوهاب بن مجاهد عن مجاهد عن ابن عباس.
3 - الحافظ أبو الحسن عثمان بن أبي شيبة الكوفي المتوفى 239 في تفسيره.
4 - أبو جعفر الاسكافي المعتزلي المتوفى 240، في رسالته التي رد بها على الجاحظ
5 - الحافظ عبد بن حميد الكشي أبو محمدالمتوفى 249، في تفسيره كما في (الدر المنثور)
6 - أبو سعيد الأشج الكوفي المتوفى 257، في تفسيره عن أبي نعيم فضل بن دكين عن موسى بن
قيس الحضرمي عن سملة بن كهيل، والطريق صحيح رجاله كلهم ثقات
7 -الحافظ أبو عبد الرحمن النسائي صاحب السنن المتوفى 303، في صحيحه.
8 - ابن جرير الطبري المتوفى 310، في تفسيره 6 ص 186 بعدة طرق
9ابن أبي حاتم الرازي المتوفى 327، كما في تفسير ابن كثير، والدر
المنثور، وأسباب النزول للسيوطي، أخرجه بغير طريق ومن طرقه أبوسعيد الأشج بإسناده الصحيح الذي أسلفناه
10 - الحافظ أبو القاسم الطبراني المتوفى 360، في معجمه الأوسط
11 - الحافظ أبو الشيخ أبومحمد عبد الله بن محمد الأنصاري المتوفى 369، في تفسيره
12 -الحافظ أبو بكر الجصاص الرازي المتوفى 370، في (أحكام القرآن) 2 ص542. رواه من عدة طرق
13 - أبو الحسن علي بن عيسى الرماني المتوفى384 / 2 في تفسيره
14 - الحاكم ابن البيع النيسابوري المتوفى 405في معرفة أصول الحديث 102. 15 - الحافظ أبو بكر الشيرازي المتوفى407 / 11. في كتابه فيما نزل من القرآن في أمير المؤمنين.
16 -الحافظ أبو بكر ابن مردويه الاصبهاني المتوفى 416، من طريق سفيان الثوري عن أبي سنان سعيد بن سنان البرجمي عن الضحاك عن ابن عباس.إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات، ورواه بطريق آخر قال: إسناد لا يقدحبه. وأخرجه ؟ بطرق أخرى عن أمير المؤمنين وعمار وأبي رافع.
17 - أبو إسحاق الثعلبي النيسابوري المتوفى 427 / 37 في تفسيره عن أبي ذر كما مر بلفظه ج 2 ص 52
. 18 - الحافظ أبو نعيم الاصبهاني المتوفى 430 (فيما نزل من القرآن في علي) عن عمار. وأبي رافع. وابن عباس. وجابر. وسلمة بن كهيل
19 - أبو الحسن الماوردي الفقيه الشافعي المتوفى 450، في تفسيره.
20 - الحافظ أبو بكر البيهقي المتوفى 458، في كتابه (المصنف)
21 - الحافظ أبو بكر الخطيبالبغدادي الشافعي المتوفى 463، في (المتفق)
22 - أبو القاسم زين الاسلام عبد الكريم بن هوازن النيسابوري المتوفى 465 في تفسيره
23- الحافظ أبو الحسن الواحدي النيسابوري المتوفى 468، في (أسباب النزول) ص 148
24 - الفقيه ابن المغازلي الشافعي المتوفى 483 في(المناقب) من خمسة طرق
25 - شيخ المعتزلة أبو يوسف عبد السلام بن محمد القزويني المتوفى 488، في تفسيره الكبير قال الذهبي: إنه يقع في ثلاث مائة جزء
26 - الحافظ أبو القاسم الحاكم الحسكاني المتوفى 490، عن ابن عباس وأبي ذر وعبد الله بن سلام.
27 - الفقيه أبوالحسن علي بن محمد الكيا الطبري الشافعي المتوفى 504، في تفسيره،
واستدل به على عدم بطلان الصلاة بالفعل القليل، وتسمية الصدقةالتطوع بالزكاة كما في تفسير القرطبي
28 - الحافظ أبو محمد الفراءالبغوي الشافعي 516 في تفسيره (معالم التنزيل) هامش الخازن 2 ص 55.
29 - أبو الحسن رزين العبدري الأندلسي المتوفى 535، في الجمع بين الصحاح الست نقلا عن صحيح النسائي.
30 - أبو القاسم جار الله الزمخشري الحنفي المتوفى 538 في (الكشاف) 1 ص 422 وقال: فإن قلت:كيف صح أن يكون لعلي رضي الله عنه واللفظ لفظ جماعة ؟ !قلت: جئ به على لفظ الجمع وإن كان السبب فيه رجلا واحدا ليرغب الناس في مثل فعله فينالوا مثل ثوابه.
31 - الحافظ أبو سعدالسمعاني الشافعي المتوفى 562 في (فضائل الصحابة) عن أنس بن مالك.
32 - أبو الفتح النطنزي المولود 480، في (الخصايص العلوية) عن ابن عباس وفي (الابانة) عن جابر الأنصاري
33 - الإمام أبو بكر ابن سعدون القرطبي المتوفى 567، في تفسيره 6 ص 221.
34 - أخطب الخطباءالخوارزمي المتوفى 568، في (المناقب) 178 بطريقين. وذكر لحسان فيه شعرا أسلفناه ج 2 ص 58.
35 - الحافظ أبو القاسم ابن عساكر الدمشقي المتوفى 571، في تاريخ الشام بعدة طرق
36 - الحافظ أبو الفرج ابن الجوزي الحنبلي المتوفى 597، كما في (الرياض) 2 ص 227 و (ذخاير
العقبى) 102.
37 - أبو عبد الله فخر الدين الرازي الشافعي المتوفى606 في تفسيره 3 ص 431 عن عطا عن عبد الله بن سلام وابن عباس وأبي ذر
38 - أبو السعادات مبارك ابن الأثير الشيباني الجزري الشافعيالمتوفى 606 في (جامع الأصول) من طريق النسائي.
39 - أبو سالم محمدبن طلحة النصيبي الشافعي المتوفى 662 ؟ ؟، في (مطالب السئول) ص 31بلفظ أبي ذر
40 - أبو المظفر سبط ابن الجوزي الحنفي المتوفى 654،في (التذكرة) ص 9 عن السدي وعتبة وغالب بن عبد الله. 41 - عز الدين ابن أبي الحديد المعتزلي المتوفى 655، في شرح نهج البلاغة 3 ص 275.
42 - الحافظ أبو عبد الله الكنجي الشافعي المتوفى 658، في (كفايةالطالب) ص 106 من طريق عن أنس بن مالك وفيه أبيات لحسان بن ثابت رويناها ج 2 ص59، ورواه في ص 122 من طريق ابن عساكر، والخوارزمي، وحافظ العراقين، و أبي نعيم، والقاضي أبي المعالي، وذكر لحسان شعرا غير
الأبيات المذكورة ذكرناه ج 2 ص 47 نقلا عن سبط ابن الجوزي
43 -القاضي ناصر الدين البيضاوي الشافعي المتوفى 685، في تفسيره 1 ص345، وفي (مطالع الأنظار) ص 477، 479.
44 - الحافظ فقيه الحرم أبوالعباس محب الدين الطبري المكي الشافعي المتوفى 694، في (الرياض
النضرة) 2 ص 227 و (ذخاير العقبى) ص 102 من طريق الواحدي،والواقدي، وابن الجوزي، والفضايلي
45 - حافظ الدين النسفي المتوفى701 / 10، في تفسيره 1 ص 496 هامش تفسيره الخازن
46 - شيخ الاسلام الحموي المتوفى 722، في (فرايد السمطين) وذكر شعر حسان فيه.
47 -علاء الدين الخازن البغدادي المتوفى 741، في تفسيره 1 ص 496.
48 -شمس الدين محمود بن أبي القاسم عبد الرحمن الاصبهاني المتوفى 746 / 9في شرح التجريد الموسوم بتسديد (1) العقايد. وقال بعد تقريراتفاق المفسرين على نزول الآية في علي: قول المفسرين لا يقتضي اختصاصها به واقتصارها عليه. م
49 - جمال الدين محمد بن يوسف الزرندي المتوفى 750، في (نظم درر السمطين)]
50 - أبو حيان أثيرالدين الأندلسي المتوفى 754، في تفسيره (البحر المحيط) 3 ص 514.
51- الحافظ محمد بن أحمد بن جزي الكلبي المتوفى 758، في تفسيره(التسهيل لعلوم التنزيل) ج 1 ص 181
52 - القاضي عضد الأيجي الشافعي المتوفى 756، في (المواقف) 3 ص 276
53 - نظام الدين القمي النيسابوري، في تفسيره (غرائب القرآن) 3 ص 461
. 54 - سعد الدين التفتازاني الشافعي المتوفى 791، في (المقاصد) وشرحه 2 ص 288، وقال بعد تقرير إطباق المفسرين على نزول الآية في علي:قول المفسرين: إن الآية نزلت في حق علي رضي الله عنه لا يقتضي اختصاصها به واقصارها عليه.
55 - السيد شريف الجرجاني المتوفى 816،في شرح المواقف.
56 - المولى علاء الدين القوشجي المتوفى 879، في شرح التجريد وقال بعد نقل الاتفاق عن المفسرين على أنها نزلت في أمير المؤمنين: وقول المفسرين: إن الآية نزلت في حق علي إلى آخركلام التفتازاني.
57 - نور الدين ابن الصباغ المكي المالكي المتوفى855،في (الفصول المهمة) 123.
58 - جلال الدين السيوطي الشافعي المتوفى 911، في (الدر المنثور) 2 ص 293 من طريق الخطيب، وعبدالرزاق، وعبد بن حميد، وابن جرير، وأبي الشيخ، و وابن مردويه عن ابن عباس. ومن طريق الطبراني، وابن مردويه عن عمار بن ياسر ومنطريق أبي الشيخ والطبراني عن علي عليه السلام: ومن طريق ابن أبي حاتم، وأبي الشيخ، وابن عساكر عن سلمة بن كهيل. ومن طريق ابن جريرعن مجاهد والسدي وعتبة بن حكيم. ومن طريق الطبراني، وابن مردويه،وأبي نعيم، عن أبي رافع ورواه في [أسباب نزول القرآن] ص 55 من غيرواحد من هذه الطرق ثم قال: فهذه شواهد يقوي بعضها بعضا. وذكره في (جمع الجوامع) كما في ترتيبه 6 ص 391 من طريق الخطيب عن ابن عباس،وص 405 من طريق أبي الشيخ وابن مردويه عن أمير المؤمنين عليهالسلام
59 - الحافظ ابن حجر الأنصاري الشافعي المتوفى 974، في(الصواعق) 24
60 - المولى حسن چلبي في شرح المواقف.
61 - المولى مسعود الشرواني في شرح المواقف.
62 - القاضي الشوكاني الصنعاني المتوفى 1250 في تفسيره.
63 - شهاب الدين السيد محمود الآلوسي الشافعي المتوفى 1270، في تفسيره 2 ص 329
64 - الشيخ سليمان القندوزي الحنفي المتوفى 1293، في (ينابيع المودة) 212.
65 - السيد محمد مؤمن الشبلنجي في (نور الأبصار) 77.
66 ۔الشيخ عبدالقادر بن محمد السعيد الكردستاني المتوفى 1304، في [تقريب المرام في شرح تهذيب الكلام] للتفتازاني 2 ص 329 ط مصر،
67۔غایۃ الاوطار ترجمہ دُر المختار جلد اول مترجم خرم علی مطبع نامی نول کشور لکھنو باب کتاب ال صلوٰۃ ما یفسد الصلواۃ صفحہ 308
قول مختار میں اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی انگوٹھی نماز کے اندر دی اللہ تعالی نے اُس کی تعریف کی اس آیت میں ( ویوتون الزکواۃ وہم راکعون) یعنے دیتے ہیں خیرات اُس وقت میں کہ وہ رکوع کرتے ہوں( کذا فی الطحاوی)۔
حديث عن أنس بن مالك أن سائلا أتى المسجدوهو يقول: من يقرض الملي الوفي وعلي عليه السلام راكع يقول بيده خلفه للسائل أي اخلع الخاتم من يدي. قال رسول الله: يا عمر ؟ وجبت.قال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما وجبت ؟ !. قال: وجبت له الجنةوالله، وما خلعه من يده حتى خلعه الله من كل ذنب ومن كل خطيئة.
قال: فما خرج أحد من المسجد حتى نزل جبرئيل بقوله عز وجل: إنماوليكم الله ورسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتونالزكاة وهم راكعون. فأنشأ حسان بن ثابت يقول: أبا حسن تفديك نفسي ومهجتي * وكل بطئ في الهدى ومسارع أيذهب مدحي والمحبين ضايعا ؟ ! *
وما المدح في ذات الإله بضايع فأنت الذي أعطيت إذ أنت راكع * فدتك نفوس القوم يا خير راكع بخاتمك الميمون يا خير سيد * ويا خير شار ثم يا خير بايع فأنزل فيك الله خير ولاية *
متن حدیث : انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک سائل مسجد میں آیا اور صدا لگائی : ہے کوئی وفادار دولت مند جو قرض دے؟۔
اس وقت علی (علیہ السلام) حالت رکوع میں تھے، اشارہ کا کہ میری انگوٹھی ہاتھ سے لے لے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر سے فرمایا: واجب ہوگئی۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا؟۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے : واللہ جنت اُس پر واجب ہوگئی جیسے ہی اُس نے انگوٹھی ہاتھ سے لی اللہ نے تمام چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دئے۔ انس کہتے ہیں کہ ابھی لوگ مسجد سے باہر بھی نہیں ہوئے تھے کہ آیہ ولایت نازل ہوئی:انما ولیکم اللہ۔ اس وقت حسان بن ثابت نے پانچ اشعار اس بارے میں کہے۔ اے ابولحسن ؑ ! تم پر میری جان قربان اور ہر سائق ہدایت تم پر صدقے ہوجائے، کیا میری اور تما م دوستوں کی مدح ضائع ہوجائے گی؛ اللہ کی مدح تو ضائع ہونے والی نہیں۔ آپ ؑ نے حالت رکوع میں انگوٹھی دی ، اے بہترین راکع ! آپ پر تمام اُمت کی جانیں قربان ، اے بہترین خریدار، اے بہترین فروخت کرنے والا ! ۔ پھر آپ کے لئے اللہ نے آیہ ولایت نازل فرمائی۔
سورۃ المائدۃ: آیۃ ۵۵
إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ للَّہُ وَرَسُولُہُ وَا لَّذِینَ آمَنُواْ ا لَّذِینَ یُقِیمُونَ لصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ۔
ایمان والو !بس تمھارا ولی اﷲ ہے اور اُس کا رسولؐ اور صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواۃ دیتے ہیں۔
روی عن عبداﷲ بن سلام قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ قلت یا رسول أنا رأیت علیاً تصدق بخاتمہ علی محتاج وہو راکع، فنحن نتولاہ. وروی عن أبی ذر رضی اﷲ عنہ أنہ قال: صلیت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یوماً صلاۃ الظہر، فسأل سائل فی المسجد فلم یعطہ أحد، فرفع السائل یدہ إلی السماء وقال: الّلہم أشہد أنی سألت فی مسجد الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم فما أعطانی أحد شیئاً، وعلی علیہ السلام کان راکعاً، فأومأ إلیہ بخنصرہ الیمنی وکان فیہا خاتم، فأقبل السائل حتی أخذ الخاتم بمرأی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم،
وأخرج الخطیب فی المتفق عن ابن عباس قال : تصدق علی بخاتمہ وہو راکع، فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم للسائل " من اعطاک ہذا الخاتم ؟ قال : ذاک الراکع، فأنزل اﷲ ’’ إنما ولیکم اﷲ ورسولہ " .
وأخرج عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وأبو الشیخ وابن مردویہ عن ابن عباس فی قولہ : إنما ولیکم اﷲ ورسولہ . . . : الآیۃ . قال : نزلت فی علی بن أبی طالب .
وأخرج الطبرانی فی الأوسط وابن مردویہ عن عمار بن یاسر قال : " وقف بعلی سائل وہو راکع فی صلاۃ تطوع، فنزع خاتمہ فاعطاہ السائل، فأتی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاعلمہ ذلک، فنزلت علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہذہ الآیۃ : إنما ولیکم اﷲ ورسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاۃ ویؤتون الزکاۃ وہم راکعون : فقرأ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی أصحابہ، ثم قال : من
کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ " .
وأخرج أبو الشیخ وابن مردویہ عن علی بن أبی طالب قال " نزلت ھذہ الآیۃ علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی بیتہ : إنما ولیکم اﷲ ورسولہ والذین : إلی آخر الآیۃ . فخرج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فدخل المسجد، جاء واالناس یصلون بین راکع وساجد وقائم یصلی، فإذا سائل فقال : یا سائل، ہل أعطاک أحد شیئا ؟ قال : لا، إلا ذاک الراکع - لعلی بن أبی طالب - أعطانی خاتمہ " .
وأخرج ابن أبی حاتم وأبو الشیخ وابن عساکر عن سلمۃ بن کہیل قال : تصدق علی بخاتمہ وہو راکع، فنزلت إنما ولیکم اﷲ الآیۃ
وأخرج ابن جریر عن مجاہد فی قولہ إنما ولیکم اﷲ ورسولہ . . الآیۃ نزلت فی علی بن أبی طالب، تصدق وہو راکع .
وأخرج ابن جریر عن السدی وعتبۃ بن حکیم مثلہ .
وأخرج ابن مردویہ من طریق الکلبی عن أبی صالح عن ابن عباس قال : أتی عبد اﷲ بن سلام ورہط معہ من أہل الکتاب نبی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عند الظہر، فقالوا یا رسول اﷲ، ان بیوتنا قاصیۃ لا نجد من یجالسنا ویخالطنا دون ہذا المسجد، وإن قومنا لما رأونا قد صدقنا اﷲ ورسولہ وترکنا دینہم أظہروا العداوۃ وأقسموا ان لا یخالطونا ولا یؤاکلونا، فشق ذلک علینا، فبیناہم یشکون ذلک إلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، إذ نزلت ہذہ الآیۃ علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : إنما ولیکم اﷲ ورسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاۃ ویؤتون الزکاۃ وہم راکعون : ونودی بالصلاۃ صلاۃ الظہر، وخرج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقال : أعطاک أحد شیئا ؟ قال : نعم . قال : من ؟ قال : ذاک الرجل القائم . قال : علی أی حال أعطاکہ ؟ قال : وہو راکع . قال : وذلک علی بن أبی طالب، فکبر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عند ذلک وہو یقول : ومن یتول اﷲ ورسولہ والذین آمنوا فإن حزب اﷲ ہم الغالبون. ( المائدۃ الآیۃ ۵۶ ) .
یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ اور اہل سنت موافق و مخالف حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی جب کہ حضرت علی ؑ نے حالت رکوع میں زکواۃ کے طور پر اپنی انگوٹھی سائل کو دی۔ الدر المنثور، تفسیر کبیر۔ ،المعالم التنزیل وغیرہ۔
وہ جنہوں کے خون میںبنی امیہ کا نمک ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت عبد بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی
ملاحظہ ہو:ا
وأخرج ابن المنذر عن الشعبی ؓ قال: ما نزل فی عبد اﷲ بن سلامؓ شیء من القرآن.۔تفسیر الدر المنثور، الثعلبی، تفسیر فتح القدیر۔ وغیرہ۔ابن المنذر نے الشعبی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں عبد اﷲ ابن سلام کی شان میں کوئی آیت ہی نازل نہیں ہوئی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اے شیعہ سچ سچ بتانا 12 اماموں میں سے یہ عمل کس کی سنت ہے؟


کمزور دل والے نہ دیکھیں

لنک




1235992_780323065366723_5293877032014653124_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شیعہ-مسلمان-کا-بھائی-کیسے-؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

شیعہ مذہب میں کئی فرقے ہیں انہیں رافضی بھی کہا جاتا ہے یہ اپنے آپ کو محبّان علی رضی اللہ عنہ اور محبّان اہلیت کہتے ہیں ۔شیعہ کے تمام فرقے خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت کو نا ماننے پر متّفق ہیں ۔

یہی نہیں بلکہ حضرات شیخین حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و معاویہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھلے عام گالیاں دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کی مستند کتب میں بھی کئی کفریہ کلمات موجود ہیں ۔


ہم آپکے سامنے ان کے کفر یہ کلمات کی فہرست انہی کی مستند کتب سے پیش کرتے ہیں ۔
___________________

عقیدہ :اللہ تعالیٰ کبھی کبھی جھوٹ بھی بولتا ہے اور غلطی بھی کرتاہے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :اصولِ کافی جلد 1صفحہ نمبر 328یعقوب کلینی )

عقیدہ :موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔

(بحوالہ :حیات القلوب جلد 3صفحہ نمبر 10:مصنف :مرزابشارت حسین )

عقیدہ :جمع قرآن جو بعد از رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاگیا اصولاً غلط ہے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :ہزار تمہاری دس ہماری ص 560عبدالکریم مشتاق کراچی )

عقیدہ :امام مہدی رضی اللہ عنہ جب آئیں گے تو اصلی قرآن لے کر آئیں گے ۔(معاذاللہ )

(بحوالہ :احسن المقال جلد 2ص336صفدر حسین نجضی )

عقیدہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عائشہ سے حالتِ حیض میں جماع کرتے تھے ۔

(بحوالہ :تحفہ حنفیہ ص72غلام حسین نجضی جامع المنتظر )

عقیدہ :تمام پیغمبرزندہ ہوکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ماتحت ہوکر جہادکریں گے ۔(معاذاللہ )

(بحوالہ :تفسیر عیاشی جلد اول ص 181)

عقیدہ :حضرت یونس علیہ السلام نے ولا یتِ علی کو قبول نہ کیا جسکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :حیات القلوب جلد اول ص459مصنّف :ملا باقر مجلس مطبوعہ تہران )

عقیدہ :مرتبہ امامت مرتبہ پیغمبری سے بالا تر ہے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :حیات القلوب جلد سوم ص 2ملا مجلس مطبوعہ تہران )

عقیدہ :بارہ امام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بقیہ تمام انبیاءکے اُستاد ہیں ۔(معاذاللہ )

(بحوالہ :مجموعہ مجالس ص 29صفدر ڈوگرا سرگودھا )

عقیدہ :حضرت ابو بکر و عمر و عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ترک کردینے کی وجہ سے مرتد ہوگئے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ:اصولِ کافی جلد اول حدیث 43ص420مطبوعہ تہران طبع جدید )

عقیدہ :حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے بے حیا اور بے غیرت تھے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :نور الایمان ص75امامیہ کتب خانہ لاہور )

عقیدہ :حضرت ابو بکر و عمر و عثمان کی خلافت کے بارے میں جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے یہ خلافت حق ہے وہ عقیدہ بالکل گدھے کے عضو تنا سل کی مثل ہے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :حقیقت فقہ حنفیہ ص 72غلام حسین نجضی )

عقیدہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تین صحابہ کے علاوہ باقی سب مرتد ہوگئے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :روزہ کا فی جلد 8ص245حدیث 341)

عقیدہ :حضرت عباس اور حضرت عقیل ذلیل النفس اور کمزور ایمان والے تھے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :حیات القلوب جلد 2ص618مطبوعہ تہران طبع جدید )

عقیدہ :معاویہ کی ماں کے چار یار تھے اسلئے سنّی چار یار کا نعرہ لگاتے ہیں ۔

(معاذ اللہ )
(خصائل معاویہ ص34مصنف :غلام حسین نجضی لاہور )

عقیدہ :عائشہ طلحہ و زبیر واجب القتل تھے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :کتاب بغاوتِ بنو امیّہ و معاویہ ص 474مصنف :غلام حسین نجضی )

عقیدہ :حضرت عائشہ کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ شریعت و شیعت ص 45مصنف :عرفان حید ر عابدی کرادمی )

عقیدہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر و باطن میں تضاد تھا ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :تفسیر عیاشی جلد 2ص 101از:محمد بن مسعود عیاشی )

عقیدہ :اللہ تعالیٰ نے پیغام رسالت دیکر جبرائیل کو بھیجا کہ علی رضی اللہ عنہ کو پیغام رسالت دو لیکن جبرائیل بھول کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گئے ۔(معاذ اللہ )

(بحوالہ :انوار نعمانیہ ص237از:نعمت اللہ جبرائری )

عقیدہ :جس نے ایک دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برابر۔جس نے دو دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے برابر۔جس نے تین دفعہ کیا اسکا درجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر۔جس نے چار دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے برابرہو جاتاہے ۔ (معاذاللہ )

(بحوالہ:برہانِ متعہ ثوابِ متعہ ص 52)

عقیدہ :شیعہ مذہب کا کلمہ اسلامی کلمہ کے خلاف ہے شیعہ مذہب کا کلمہ یہ ہے ۔

”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ علی ولی اللّٰہ وصی رسول اللّٰہ و خلیفۃ بلا فصل “

ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ،یہی علی اللہ کے ولی اور رسول کے بلافصل خلیفہ ہیں ۔

یہ کفر یات شیعہ مذہب کی کچھ کتابوں سے لئے ہیں ورنہ شیعہ مذہب کی کتب لا تعداد کفریات سے بھری ہوئی ہیںجن کو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں ۔
 
Top