اس کے لیے جن محققین نے مصنف کی تحقیق کی ہے ان کے مقدمات دیکھیے جو نسخوں کے بارے میں ہیں۔
مصنف ابن شیبہ کے راوی تو مشہور معروف ہیں ، شیخ محمد عوامہ کا مقدمہ طائرانہ نظر سے دیکھا انہوں نے بھی یہ ہی لکھا ہے ۔ کتب الفہارس و الأثبات میں بھی ائمہ نے متصل اسانید ذکر کی ہیں ، اور سند میں موجود جتنے لوگ ہیں ، سب کے تراجم متوفرو میسر ہیں ، بطور مثال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی المعجم المفہرس سے سند ملاحظہ فرمائیں :
أنبأنا أبو علي الفاضلي عن يونس بن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن مكي عن أبي القاسم بن بشكوال أنبأنا عبد الرحمن بن محمد بن عتاب أنبأنا أبو عمر بن عبد البر أنبأنا أبو عمر أحمد بن عبد الله الباجي عن أبيه عن عبد الله ابن يونس القبري عن بقي بن مخلد عن أبي بكر بن أبي شيبة ( المعجم المفہرس ص 50 ، 51 )
بقی بن مخلد ، ابن عبد البر ، ابن بشکوال جیسے ائمہ اعلام تو بالکل واضح ہیں لیکن ان سے ہٹ کر بھی میں نہیں سمجھتا کوئی ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ نہیں ملتا ۔
میں اس سلسلے میں مسلکی بحث کی خاطر یہ بات نہیں کر رہا اس لیے آپ کا کوئی رد نہیں کروں گا۔ ایک علمی رائے پیش کر رہا ہوں صرف۔
ہم بھی اپنے تئیں تو علمی ہی پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ و اللہ الموفق
بل لم يكن للفقهاء علم بعد القرآن سواه، ولا كانت قد دونت كتب الفقه أصلا.
لیکن ذہبی کے ہی ایک قول سے یہ نتیجہ خراب ہوجاتا ہے کہ فقہ کی یہ امامت تب تک حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کسی شخص کو حدیث پر مہارت نہ ہو (یہ ذہبیؒ کے قول کا مفہوم ہے)۔
دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ۔
دوسری بات آپ نے جو فہم اخذ کیا ہے ، اس سے کوئی یہ بھی مرا د لے سکتا ہے کہ امام صاحب کو فقہ کا بھی علم نہیں تھا ، کیونکہ حدیث کے بغیر فقہ ممکن نہیں ، اور حدیث امام صاحب کے پاس تھی نہیں ۔
جس طرح یہ نتیجہ عجیب سے لگتا ہے اسی طرح وہ بھی عجیب ہے جس تک آپ پہنچے ہیں کہ امام صاحب نے چونکہ مسائل میں رائے رکھتے تھے ، اور یہ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ امام صاحب حدیث کا علم رکھتے تھے ۔
گویا کسی مسئلہ کی صحت کے لیے کہا جاتا ہے کہ ضرور امام صاحب کے پاس حدیث پہنچنی ہوگی ، اور محدث ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ امام صاحب صاحب مسائل تھے ۔
میں نے اسی لیے پہلے گزارش کی تھی اس طرح کے ظن و تخمین کی ضرورت تب پڑے ، جب امام صاحب کے متعلق واضح اور صریح اقوال موجود نہ ہوں ۔
آپ جس انداز سے غور و فکر کر رہے ہیں ، اس سے امام صاحب کی امامت حدیث تو ثابت ہونے نہیں والی ، الٹا ان کی فقاہت پر کلام کرنے والوں کا موقف مضبوط ہوگا ۔ حالانکہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ۔
ہم یہاں ایک اور تعبیر کر سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے پاس احادیث کا ذخیرہ یادداشت میں تو تھا لیکن وہ آگے روایت کرنے میں ضعیف تھے۔ اس صورت میں چونکہ یادداشت میں احادیث یا ان احادیث سے نکلنے والا حکم موجود ہوتا تھا اس لیے انہوں نے فقہ کا یہ استنباط کر لیا۔
لیکن اس میں پھر ایک مسئلہ ہے کہ قوت بیان ان کی مسلم ہے۔ تو ایسا شخص یادداشت میں موجود حدیث کو بیان کرنے میں کیسے لڑکھڑا سکتا ہے؟ اور فقہ بھی ان کا مسلم ہے تو اگر روایت بالمعنی کریں تو وہ تو قبول ہے ہی۔
تو یہ مسائل ہیں یہ کہنے میں کہ وہ امام فقہ تو تھے لیکن حدیث میں ضعیف تھے۔ اگر ان کا کوئی حل آپ کے ذہن میں ہو تو ارشاد فرمائیے گا۔
جی وہ تو میں نے عرض کردیا ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں جو نصوص ان کے سامنے ہوتی تھیں ، ان میں تفقہ کے اعتبار سے یکتا تھے ، البتہ روایت حدیث میں ضعیف تھے ۔
ایک عام آدمی تو جو کچھ علماء جرح و تعدیل نے کہا اور کسی نے ان متفرق اقوال کا نتیجہ نکال لیا اسے آنکھیں بند کرکے تقلیدا قبول کر لیتا ہے۔ لیکن ہم تو ان چیزوں کو چھلنی سے گزار سکتے ہیں تو ہم اپنی عقل کو بند کیوں کریں؟
آپ چھلنی سے گزار لیں ، لیکن منکرین حدیث کی طرح نہیں ، محققین کی طرح ۔ متقدم کے قول کی غلطی واضح کریں ، متقدم کے قول پر تنقید کے لیے یہ کافی نہیں کہ میری عقل یا معلومات اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ۔
متقدمین نے امام صاحب کو قلیل الحدیث یا ضعیف الحدیث کہا ہے ، آپ ان کی سند سے مرویات کثیرۃ پیش کرسکتے ہیں ، امام صاحب کے معاصرین کی متابعات سے ان کی صحت روایت کو بھی دلیل بنا سکتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
پھر کچھ چیزوں کا تعلق خبر او رمشاہدے سے ہوتا ہے ، صدیوں بعد آنے والی چھلنی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کی بیان کردہ خبر یا مشاہدے کو بلا کسی حجت و برہان رد کردے۔