اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
خضر بھائی۔ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ امام مالک، ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد وغیرہ سب فقہ کے بھی امام تھے۔ ان کی امامت تسلیم بھی ہے اور سر آنکھوں پر بھی۔ لیکن دو چیزوں کا ان میں اور ابو حنیفہؒ میں فرق تھا۔ ایک تو ابو حنیفہؒ مدون اول ہیں اور جب کسی چیز کی تدوین ابتداء ہوتی ہے تو اس پر وہ محنت ہوتی ہے جو بعد میں نہیں ہوتی۔دوسری چیز دونوں کے طرز کا فرق ہے جسے ہم اہل الرائے اور اہل الحدیث کے طرز کا فرق قرار دیتے ہیں۔ اہل الرائے کا طرز یہ تھا کہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کی تمام نصوص سے ایک اصول اخذ کرنا اور پھر اس پر بے شمار مسائل کا استنباط کرنا اور اس درمیان میں جو نصوص وغیرہ آئیں ان پر غور کرنا۔ اہل الحدیث کا طرز یہ تھا کہ جو نصوص مسئلہ پوچھتے وقت یا دوران درس سامنے آئیں ان سے مسئلے کا استنباط کر کے پھر اس پر رک جانا، مزید مسائل کا استنباط نہیں کرنا۔ امام مالک کا اعراقی انت والا قول تو معروف ہے۔امام مالک ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، شافعی ، احمد وغیرہ سب فقہ کے بھی امام تھے ، لیکن فقہ میں مشغولیت ان کی محدثانہ شان پر اثرا انداز نہ ہوئی ، البتہ یہ کمال ہوا کہ امام ابو حنیفہ کی فقہ میں مشغولیت ان کو حدیث میں ضعف کے درجہ تک لے گئی ، اور صورت حال یہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تک تانیب الخطیب میں خطیب کا بہانہ بناکر صحابہ سے لیکر علماء عظام پر لعن طعن نہ کیا جائے ، امام صاحب کی محدثانہ شان کا اظہار نہیں ہوتا ۔
نعمانی صاحب اور اشماریہ صاحب آپ کے اور ہمارے درمیان محل نزاع ہی یہ ہے کہ آپ قیاس اور رائے وہاں وہاں استعمال کرتے ہیں ، جہاں جہاں ہمارے نزدیک اس کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔
اہل رائے اور اہل حدیث کا یہ اختلاف پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ و للناس فیما یعشقون مذاہب ۔
تو ظاہر ہے اہل الحدیث کا تعلق نصوص اور احادیث سے تھا، وہ انہی کو پڑھتے پڑھاتے تھے اور اس کے ضمن میں استنباط کرتے تھے تو ان کی محدثانہ شان بنی۔
لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہما اللہ کے اصول آج تک کیوں نہیں ملتے؟ ان کے مذاہب آگے کیوں نہیں چلے؟
اور اسی طرح کبھی یہ غور کیا کہ امام شافعی اور امام احمد کے کتنے مسائل میں اپنے ہی دو قول ملتے ہیں؟ امام شافعی کی فقہ قدیم اور جدید میں کتنا فرق ہے اور امام احمد کے ایک ہی مسئلے میں بسا اوقات چار اقوال کیوں مل جاتے ہیں؟ ایک شخص اگر عمل کرنا چاہے تو کس قول پر کرے؟؟؟ ایک حدیث سے ایک مسئلہ کا استنباط اور دوسری سے اس کے خلاف استنباط تضاد اور تعارض کو ثابت نہیں کرتا؟
ہم (معذرت کے ساتھ) آپ حضرات کی طرح سطحی اعتراضات نہیں کرتے ورنہ میں چاہوں تو ان کی کتب سے حوالے دے کر انہیں فقہ میں وہیں ثابت کرسکتا ہوں جہاں آپ امام ابو حنیفہ کو حدیث میں ثابت کرتے ہیں۔ لیکن میں وہ کام کرتا ہوں جس کا ضرر نہ ہو اور نفع مجھے سمجھ میں آ رہا ہو اور جو حق ہو۔ وللناس فیما یعشقون مذاہب۔
آج آپ حضرات کتنی چیزوں میں آرڈر دے کر تیاری کرواتے ہیں اور پے منٹ آن ڈیلیوری کرتے ہیں؟ آپ کو پتا ہے کہ "فقہ اہل الحدیث" کے ان تین جلیل القدر ائمہ کے نزدیک یہ جائز نہیں اور آپ حرام کھاتے ہیں؟
صرف احناف کا اصول استحسان اس کی گنجائش دیتا ہے۔
بیع عینہ کے بارے میں کبھی کتاب الام میں امام شافعیؒ کی حدیث عائشہ رض کی تاویل دیکھی ہے صرف قیاس کی بنیاد پر؟
بہرحال ایک ذہن جب بن چکا ہو کہ کہ فلاں سو فیصد درست ہے اور فلاں نہیں تو پھر بھلا کوئی کیا کرسکتا ہے۔ و اللہ الموفق۔
مجھے خود اس کی تلاش ہے۔ @ابن عثمان بھائی۔گزارش کروں گا کہ اگر مسانید ابی حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق آپ کے پاس کوئی مفید مواد ہو تو ضرور عنایت فرمائیں ۔ خاص کر عبد الرشید نعمانی صاحب کے مقدمہ کی طرف ایک بھائی نے اشارہ کیا ہے ۔