• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تقلید

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تقلید کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے کہ امتی کے ایسے قول پر عمل کرنا جو قرآن و حدیث سے ٹکرائے۔ اور اسے گناہ کبیرہ کہا جاتا ہے۔
١- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جمعہ کی دوسری آذان شروع ہوئی ۔ غالبا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ثابت نہیں ۔ تو دوسري آذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قول پر شروع کی گئی جو ایک امتی کا قول ہے تو کیا اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تقلید کروانے اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ تقلید کرنے کے مرتکب نہ ہوئے ۔
٢- نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن سات قرآت میں جائز قرار دیا ۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کے قول پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک قرآت باقی رکھی گئی ۔ کیا یہ امتی کے قول پر عمل اور تقلید نہیں ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
١- حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جمعہ کی دوسری آذان شروع ہوئی ۔ غالبا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ثابت نہیں ۔ تو دوسري آذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قول پر شروع کی گئی جو ایک امتی کا قول ہے تو کیا اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تقلید کروانے اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ تقلید کرنے کے مرتکب نہ ہوئے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نماز کے لیے دو اذانیں تو ثابت تھیں لیکن جمعہ کے لیے ثابت نہیں تھیں۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فجر کے لیے طلوع فجر سے کچھ ہی دیر پہلے حضرت بلال رضی الہ عنہ اذان دیا کرتے تھے تا کہ لوگ اٹھ کر نماز کی تیاری وغیرہ کر لیں اور پھر دوسری اذان طلوع فجر کے وقت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مصلحت کے تحت ایک نماز کے لیے دو اذانوں کی مثال موجود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اصل کو سامنے رکھتے ہوئے اسی مصلحت کے تحت کہ لوگوں کی نماز ضائع نہ ہو، جمعہ کے لیے دو اذانوں کا طریقہ رائج کیا۔ لہذا یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقلید نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

آج بھی وہی مصلحت جمعہ کی نماز کے لیے دو اذانوں کی متقاضی ہے یا نہیں؟ اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔ شیخ بن باز اور شیخ صالح العثیمین رحمہما اللہ کے نزدیک آج بھی جمعہ کے لئے دو اذانیں دینا پسندیدہ عمل ہے جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک مصلحت کے ختم ہو جانے کے سبب سے دو اذانیں درست نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
٢- نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن سات قرآت میں جائز قرار دیا ۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کے قول پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک قرآت باقی رکھی گئی ۔ کیا یہ امتی کے قول پر عمل اور تقلید نہیں ہے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراآت ختم نہیں کی تھیں یہ ان کے بارے غلط فہمی ہے (اور وہ کر بھی کیسے سکتے تھے؟؟) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اصل کارنامہ امت کو ایک قراءت پر جمع کرنے کا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل کارنامہ امت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا ہے۔ اسی لیے رسم عثمانی کی مخالفت ناجائز ہے اور یہ رسم عثمانی ایسا تھا جو تمام مستند اور صحیح قراءات کا جامع تھا۔
 
Top