’فہم سلف ‘ کے حوالے سے واٹس ایپ کے ایک علمی مجموعہ میں ہونے والا ایک مباحثہ
ایک صاحب نے کسی کو کہا :
’ آپ کے کیا کہنے !آپ کے لیے تو فہمِ اسلاف ویسے ہی ایک دم چھلا بن چکا ہے ،معذرت کے ساتھ ‘ ۔
ان کا آگے سے جواب :
’ جی اور جس سیاق میں فہم سلف کے دم چھلے کا تذکرہ کیا گیا اسے بھی یاد رکھیے ، کہکہنے والا کہتا ہے جو مسئلہ آپ نے کتاب وسنت سے استنباط کیا ہے ہم اسے اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک سلف میں سے کسی نے یہ مسئلہ اخذ نہ کیا ہو۔ اگر سلف نے کیا تو درست وگرنہ غلط ۔ایسے میں ہم ان تقلیدی سلفیوں کو منہج سلف کا غلط معنى سمجھنے پر یہ الفاظ کہتے ہیں۔
اور اسی طرح کہنے والا کہتا ہے :قرآن حدیث میں تو یہ بات ہے چونکہ فلاں سلف نے اسکی مخالفت کی ہے لہذا قرآن وحدیث کے نص کے عموم یا اطلاق کو سلف کے طرز عمل کی وجہ سے مقید یا خاص مانا جائے۔ یا سلف کے عمل کو قرینہ صارفہ بنایا جائے۔ایسے میں اسے دم چھلا نہ کہیں تو کیا کہیں ۔‘
ہشام صاحب نے کہا :
’ فہم سلف خلاف نص مقبول نا کبھی تھی نا ہی کبھی ہو گی ۔جمیع صحابہ کا فہم بھی حضرت ابوبکر نے ایک نص سے مسترد کر دیا تھا لشکر اسامہ روانگی والی باتیں شاید تقلیدی سلفیوں کے لیے قصہ پارینہ بن چکی ہیں ۔‘
رفیق صاحب کہتے ہیں :
’ منکرین زکاۃ کے خلاف جہاد کی نص موجود تھی ( اس لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کا فہم) رد کردیا ‘
ہشام صاحب مزید کہتے ہیں :
’ یہ پتہ نہیں دین میں جبری طور پر ایک نیا ماخذ ایجاد کرنے پر کیوں زود دیا جا رہا ہے۔ ‘
’ دور حاضر سے پہلے آج تک کسی نے ہر عمل صحابی کو حجت نا کہا نا مانا یہ دور جدید ہی کا کوئی شاخسانہ ہے۔ ‘
رفیق صاحب کہتے ہیں :
’ويسے فہم سلف یا منہج سلف کا رٹہ لگانے والے اصول فقہ کی کسی بھی کتاب سے مآخذ شریعت پڑھ لیں تو اپنا سا منہ لے کے رہ جائیں ۔‘
ہشام صاحب :
’ اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم میں فہم سلف کو جبری ڈالنے کا نقصان اور حمیازہ ایک دن بھگتنا پڑے گا عمل صحابی کو بھی وحی بنا دیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ‘
رفیق صاحب :
’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خوارج سے مناظرہ اور مسئلہ فہم صحابہ
کچھ لوگ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خوارج سے مناظرہ کو دلیل بناتے ہیں کہ انہوں نے خوارج سے کہا تھا:
’’میں مہاجرین وانصار اور دامادِ رسول کی طرف سے آیا ہوں اور تمہیں اصحاب رسول کے بارے میں بتانے آیا ہوں (کہ وہ کیسی عظیم ہستیاں ہیں کہ) ان کی موجودگی میں وحی نازل ہوئی ، انہی کے بارے میں ہوئی اور وہ اس کی تفسیر کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ [تم میں ان میں سے کوئی نہیں ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں تاکہ ان کا پیغام تم تک پہنچاؤں اور تمہارا پیغام ان تک پہنچاؤں۔] ‘‘
اورچونکہ انہوں نے صحابہ کی انکے علاوہ پہ فوقیت بیان کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابی کا فہم حجت و دلیل ہے۔
جبکہ ایسا نہیں ! کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی افضلیت و فوقیت ضرور بتائی لیکن یہ نہیں کہاچونکہ وہ تم سے افضل و اشرف ہیں لہذا انکی بات ماننا تم پہ واجب ہے۔ بلکہ خوارج کی تاویلات اور اشکالات کا جواب وحی الہی سے ہی دیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
میں نےپوچھا: ’’بتاؤ رسول اللہﷺ کے چچا زاد، داماد اور آپﷺ پر سب سے پہلے اسلام لانے والے پر تمہیں کیا اعتراض ہے؟ حالانکہ نبی کریمﷺ کے تمام صحابہ انہی کے ساتھ ہیں۔‘‘
کہنے لگے: ’’ہم ان پر تین اعتراض ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بتاؤ کون کون سے ہیں؟‘‘
کہنے لگے:
انہوں نے دین کے معاملہ میں انسانوں کو ثالث مانا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ
حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ [الأنعام: 57]
اللہ کے اس فرمان کے بعد لوگوں کا فیصلہ سے کیا تعلق؟!
میں نے پوچھا: اور کیا بات ہے؟
انہوں نے کہا: انہوں نے لڑائی کی اور قتل کیا لیکن نہ کسی کو قیدی بنایا، نہ مال غنیمت حاصل کیا۔ اگر مخالفین کفار تھے تو انہیں قید کرنا اور ان کا مال لوٹنا حلال تھا ۔ اور اگر وہ مؤمن تھے تو ان سے لڑنا ہی حرام تھا۔‘‘
میں نے پوچھا: اور کیا بات ہے؟
انہوں نے کہا: ’’اپنے آپ کو امیر المؤمنین کہلوانے سے روک دیا۔ اگر وہ مؤمنوں کے امیر نہیں ہیں تو پھر لا محالہ کافروں کے امیر ہیں۔ ‘‘
میں نے کہا: ’’اچھا، یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہارے سامنے قرآن کریم کی کوئی محکم آیت پڑھوں یا نبی کریمﷺ کی سنت تمہیں بتاؤں، جس کا تم انکار نہ کر سکو، تو اپنے موقف سے رجوع کرلو گے؟‘‘
کہنے لگے: ’’کیوں نہیں! ‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے پہلے اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’دین کے معاملہ میں لوگوں کو ثالث مانا ‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يٰٓاَيُّها الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ * وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَــزَاۗءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ
اے ایمان والو! تم حالت احرام میں شکار نہ مارو۔ اور جس نے جان بوجھ کر شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار کے ہم پلہ جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں۔
[المائدۃ: 95]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے بارے میں فرمایا:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا
اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ۔ [النساء: 35]
میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: بتاؤ! لوگوں کی جانیں بچانے اور ان کی آپس میں صلح کے وقت لوگوں کے فیصلے کی زیادہ ضرورت ہے یا چوتھائی درہم کی قیمت رکھنے والے خرگوش معاملہ میں ؟
کہنے لگے: ’’یقیناً لوگوں کی جانوں کو بچانے اور آپس میں صلح کروانے میں (زیادہ ضرورت ) ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’پہلے اعتراض کا تسلی بخش جواب مل گیا؟‘‘
کہنے لگے: ’’بےشک۔‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’مخالفین سے لڑائی تو کی لیکن نہ قیدی بنایا، نہ مال غنیمت حاصل کیا۔‘‘ تو بتاؤ! کیا اپنی والدہ عائشہ کو قیدی بنانا پسند کرتے ہو؟ کیا اسے بھی ایسے ہی لونڈی بنا کر رکھنا جائز سمجھتے ہو جیسے دوسری لونڈیوں کو؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو تم کافر ہو۔ اور اگر یہ سمجھتے ہو کہ وہ مؤمنوں کی ماں نہیں ہے تو تب بھی تم کافر ہو اور دائرہ اسلام سے خارج ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
بلاشبہ نبی ﷺ مومنوں کے لئے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم ہیں اور آپﷺ کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں ۔ [الأحزاب: 6]
اب تم دو گمراہیوں کے درمیان لٹکے ہوئے ہو۔ جس کو چاہو، اختیار کرلو۔ تم لوگ گمراہی کے گہرے غار میں دھنس چکے ہو۔
تمہارا یہ اعتراض بھی ختم ہوا؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’جی ہاں!‘‘
میں نے کہا: ’’جہاں تک تمہارے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ’’سیدنا علی نے اپنے نام کے ساتھ امیر المؤمنین نہیں لکھوایا‘‘ تو رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر قریش سے اس بات پر صلح کی کہ ان کے درمیان ایک معاہدہ تحریر ہوجائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لکھو: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہﷺ نے کیا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگے: ’’اگر ہم یہ مانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو کبھی بھی آپ کو بیت اللہ سے روکتے، نہ آپ سے لڑائی کرتے۔ لہٰذا محمد بن عبد اللہ لکھوائیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! یقیناً میں اللہ کا سچا رسول ہوں، اگرچہ تم مجھے جھٹلاتے ہو، لیکن خیر,علی! محمد بن عبد اللہ لکھو۔‘‘
تو رسول اللہﷺ تو علی سے بدرجہا بہتر ہیں۔
یہ اعتراض بھی ختم ہوا؟‘‘
کہنے لگے: ’’جی ہاں۔‘‘
یہ گفتگو سن کر بیس ہزار خارجیوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور باقی چار ہزار رہ گئے جو قتل کر دیے گئے۔
(مصنف عبد الرزاق: 18678)
اس قصہ میں کتنا واضح ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انکے ہر اعتراض کا جواب قرآن وسنت سے دیا۔ سیدنا رضی اللہ عنہ کے محض صحابی ہونے کی وجہ سے انکی حمایت نہیں کی بلکہ انکے موقف پہ دلیل ہونے کی وجہ سے انکا ساتھ دیا۔
اسی طرح خوارج نے جب ان کو عمدہ لباس زیب تن کیے ہوئے دیکھا تو فوراً اعتراض جڑ دیا۔اس پر سیدنا عبد اللہ بن عباس نے انہیں دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’اس سوٹ کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کررہے ہو؟ حالانکہ میں نے رسول اللہﷺ کو تو اس سے بھی اچھے سوٹ پہنے دیکھا ہے۔ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ
آپﷺ ان سے پوچھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں، انہیں کس نے حرام کردیا ؟ [الأعراف: 32]
(المستدرك على الصحيحين:7368)
یعنی یہ آیت مباح زینت کی حِلَّت بتانے کےلیے نازل ہوئی ہے تو کیسے تم اس کی مخالفت کرتے ہو اور اسے حرام ٹھہراتے ہو؟
الغرض مناظرہ ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے فہم صحابہ کی حجیت پہ دلیل لینا بالکل غلط ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے اس مناظرہ میں صرف اور صرف وحی الہی کو ہی حجت و دلیل بنایا ہے۔‘
ہشام صاحب :
’ پھر کئی مرتبہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئ ہے ہر باطل کا بھی سلف ہوتا ہے۔ ‘
رفیق صاحب :
’ غیر وحی کو وحی کے برابر قرار دینا فتنہ عظیمہ ہے۔ ‘
ہشام صاحب :
’ ہم کن دلائل کی بنیاد پر انہے قائل کریں نہیں تم اپنا سلف چھوڑو ہمارے سلف کو پکڑو۔ ‘
’ جب انہیں یہ کہا جاتا کہ تم ڈیڑھ دوسو سال بعد والا سلف پکڑو تو با آسانی کہ سکتے ہیں کہ ہمارے لیے ابو حنیفہ (رحمہ اللہ) ٹھیک ہیں اگر سلف ہی پکڑنا سیدھی دعوت ہونی چاہیے قرآن اور سنت دین مکمل دین اکمل کامل حیات نبی میں ہیں ۔ ‘
مطیع صاحب :
’اہل حدیث بھی تقلید کی طرف لڑھک رہے ۔۔دیکھیے کتنے سال لگتے ۔ ‘
ہشام صاحب :
’ دوسرا ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ یارو تیرہ سو سال پہلے والے۔کی بجائے چودہ سو سال پہلے والے کی مان لو۔ ‘
رفیق صاحب :
’ نبی محترم صلى اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر سلف ہیں
نعم السلف أنا لک ،انکے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کو جی کرتا ہی نہیں !
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
پھر جو اٹھ گئی سو اٹھ گئی جو رہ گئی سو رہ گئی ‘
ہشام صاحب :
’ عجیب ترین بات ہے 1300 سال 1200 سال پرانے سلف کی مانو۔ کیوں بھائی چودہ سو سال پہلے والے میں نعوذ باللہ کوئی عیب تھا جو اسکی نا مانیں نبی کی بات سلف سے کہیں زیادہ آسان سیدھی سادھی ہے اور یہ دین مبہم نہیں کہ چل سو چل سلسلہ ہی ہے۔ ‘
’ سلف سے پہلے والے صحابہ اور تابعین بے چارے تو بلا سلف ہی دنیا سے چلے اللہ ہی خیر کرے۔ ‘
رفیق صاحب ’ فہم سلف ‘ کے متعلق لکھتے ہیں :
’ یہ تقلید کی تمہید ہے۔ جس میں سادہ لوح نوجوان پھنس چکے ہیں۔ ‘
ہشام صاحب :
’ مکمل پھنسا لیا گیا اور بعض شیوخ سادگی میں انکے ہمنوا ہیں۔ ‘
’ تقلید کا دیباچہ ہی یہ ہے نبی کی آراء میرے سلف کی عینک سے پڑھو ۔اس کے علاوہ تقلید کچھ نہیں۔ ‘
مطیع صاحب :
’ حیرت ہوتی ۔۔ اور جو منہج اہل حدیث کی بات کرے اس کو اسلاف کا دشمن سمجھ رہے ۔۔ آئمہ اربعہ کے اقوال پیش کرتے ھم کہ وہ نص کے آ جانے پر اپنی بات کو ترک کرنے کی تلقیں کرتے تھے مگر خود چند عرب علماء کے لئے تاویلیں تراشتے۔ ‘
’اور ایک منظم سازش لگتی کہ اہل حدیث کی اولاد کو دفاع نبی سے ہٹا کر دفاع سلف پر لگا دو۔ ‘
ہشام صاحب :
’رافضیوں بے چارے ویسے ہی بدنام ہوگئے عبد اللہ بن سبا انکا بھی سلف تو تھا ہی ہر باطل کا پاک پوتر سلف موجود ہے اسکی نظر میں یہ کونسی دعوت ہے سلف کی پیروی کرو کیوں بھائی تیرے سلف کی کیوں کروں میرا سلف تجھ سے اعلی اور پرانا ہے۔ ‘