4b. Aap ne kuch ghair mutaaliq baatain poochein hain unka jawab ho jaye lekin yaad rahe k asal baat 'tarjeeh bukhari' kahin in ghair zaroori baton ki nazar na ho jaye.
ahadees wahi ghair matloo hain jo hum tak bawasta e ummmat pohonchi hain. Aur ahadees k hadees hone ya na hone ka faisla ALLAH k PAK NABI SAW ne hamain bataya hai. Hadees ka mafhoom hai (mukammal hawala zahan main nahi)
' qareeb hai k log tere pas meri taraf se mukhtalif ahadees le kar ayen ge tu jo un main se quran aur meri sunnat k mawafiq hoga wo meri taraf se hai aur jo quran aur meri sunnat k mawafiq na ho wo meri taraf se nahi hai' (kifaya-khateeb)
جب آپ نے تسلیم کر لیا کہ آپ محدثین کے اصولوں کو نہیں مانتے (کیونکہ ان میں آپس میں اختلاف ہے) تو پھر یہ سوالات غیر متعلّق کیسے ہوگئے؟؟ یہ تو بالکل موضوع کے عین متعلّق سوال ہیں۔
یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ احادیث مبارکہ کو وحی (غیر متلو یا وحی خفی) تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا کریں!
جب آپ احادیث مبارکہ کو وحی تسلیم کرتے ہیں تو لازماً آپ اسے محفوظ بھی سمجھتے ہوں گے۔
آپ نے آج کسی حدیث مبارکہ کے صحیح یا ضعیف ہونے کا معیار یہ بیان کیا ہے کہ جو حدیث کتاب وسنت کے مطابق ہو وہ صحیح ہے اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہو وہ صحیح نہیں۔
یہ معیار قرآن کریم اور صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
اس کیلئے آپ نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ حدیث سخت ضعیف ہے۔
دیکھئے:
1 - سيأتيكم عني أحاديث مختلفة فما جاءكم موافقا لكتاب الله ولسنتي فهو مني وما جاءكم مخالفا لكتاب الله ولسنتي فليس مني الراوي: أبو هريرة المحدث: الدارقطني - المصدر: سنن الدارقطني - الصفحة أو الرقم: 3/450
خلاصة حكم المحدث: [فيه] صالح بن موسى ضعيف لا يحتج بحديثه
2 - سيأتيكم عني أحاديث مختلفة ، فما جاءكم موافقا لكتاب الله ولسنتي فهو مني ، وما جاءكم مخالفا لكتاب الله ولسنتي فليس مني
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الضعيفة - الصفحة أو الرقم: 1069
خلاصة حكم المحدث: ضعيف جداً
3 - إنها ستأتيكم عني أحاديث مختلفة فما أتاكم موافقا لكتاب الله وسنتي فهو مني وما أتاكم مخالفا لكتاب الله ولسنتي ليس مني
الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن عدي - المصدر: الكامل في الضعفاء - الصفحة أو الرقم: 5/106
خلاصة حكم المحدث: غير محفوظ
4 - إنها ستأتيكم عني أحاديث مختلفة ، فما أتاكم موافقا لكتاب الله وسنتي فهو مني ، وما أتاكم مخالفا لكتاب الله وسنتي فليس مني
الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن القيسراني - المصدر: ذخيرة الحفاظ - الصفحة أو الرقم: 2/1007
خلاصة حكم المحدث: [فيه] صالح الطلحي متروك الحديث
5 - ستأتيكم أحاديث مختلفة عني ، فما أتاكم موافقا لكتاب الله وسنتي فهو مني ، وما أتاكم مخالفا لذلك فليس هو مني
الراوي: أبو هريرة المحدث: الذهبي - المصدر: ميزان الاعتدال - الصفحة أو الرقم: 2/302
خلاصة حكم المحدث: [فيه] صالح بن موسى بن عبد الله ضعيف
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
اگر
کوئی موضوع روایت کتاب وسنت کے مطابق ہو تو کیا آپ کے نزدیک وہ روایت صحیح ہوگی؟
ویسے بھی ہر شخص اپنے موقف کو کتاب وسنت کے مطابق ہی سمجھتا ہے، اگر کوئی شخص اپنے موقف پر کوئی موضوع روایت پیش کرے اور دعویٰ کرے کہ یہ روایت کتاب وسنت کے مطابق ہے تو کیا آپ اس کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں گے؟؟؟
نہیں میرے بھائی! قرآن کریم نے تو الگ معیار بیان کیا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق کوئی خبر اسی وقت ہی علم کا فائدہ دے گی جب اسے بیان کرنے والا فاسق نہ ہو (بلکہ ثقہ ہو) فرمانِ باری ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ٦ ﴾ ۔۔۔ الحجرات
معلوم ہوا کہ فاسق کی خبر جہالت کا فائدہ دیتی ہے۔
اور یہ معلوم ہوا کہ کسی خبر سے اسی وقت علم کا فائدہ حاصل ہوگا اسے بیان کرنے والے تمام لوگ ثقہ ہوں، اگر کچھ ثقہ ہوں اور باقی فاسق تب بھی علم کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
یہ معلوم ہوا کہ کسی خبر سے اسی وقت علم حاصل ہوگا جب اسے بیان کرنے والے راویوں کے درمیان انقطاع نہ ہو۔ اگر انقطاع ہوگا تو معلوم نہ ہوگا کہ درمیان والا راوی فاسق ہے یا ثقہ؟
گویا ثابت ہوا کہ کسی خبر پر اسی وقت اعتماد کیا جا سکتا ہے، جب اتصال سند ہو اور اسے بیان کرنے والے سارے راوی ثقہ ہوں۔