جہاں تک میری تحقیق ہے ان الفاظ کے ساتھ کتب روایت میں کوئی روایت نہیں ملتی۔ حضرت ابن تیمیہ نے فتاوی میں انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیاہے لیکن کتب روایت وحدیث میں حضرت ابن عباس کے ساتھ دوسرے الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ اوراس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناچاہئے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضرت عروہ نے کہے۔
انہوں نے کہا
هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله وأتبع لها منك
الفقیہ والمتفقہ
محترم بھائی! اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے اصلاح کی کہ متذکرہ بالا الفاظ بعینہٖ ثابت نہیں۔
لیکن!
کیا یہ مفہوم بھی ثابت نہیں؟؟؟
کیا یہ الفاظ بھی ثابت نہیں کہ
والله ما أراكم منتهين حتى يعذبكم الله، أحدثكم عن رسول الله، وتحدثونا عن ابي بكر وعمر
اگر یہ مفہوم ثابت ہے تو مقصود تو حاصل ہے۔ پھر اعتراض کیسا؟؟؟
ویسے جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اسی
الفقيه والمتفقه میں حافظ بغدادی اگلا کلام بھی پڑھ لیتے کہ
قلت: قد كان أبو بكر وعمرُ على ما وصفهما به عروة إلا أنه لا ينبغي أن يُقَلَّدَ أحدٌ في ترك ما ثبتت به سنة رسول اللهﷺ ... الفقيه والمتفقه: 1 / 378
اوراس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناچاہئے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضرت عروہ نے کہے۔
انہوں نے کہا
هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله وأتبع لها منك
الفقیہ والمتفقہ
اورپھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابن عباس سے حضرت عروہ جس مسئلہ پر بحث کررہے تھے وہ متعہ کا مسئلہ تھا اوراب یہ تقریبااجماعی مسئلہ ہوچکاہے کہ متعہ حرام ہے۔
اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اگرکوئی شخص حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی عالم کی بات پیش کرتاہے تواس کو فورامعارضہ تسلیم نہیں کرلیناچاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اس عالم کے اعلم افہم ہونے کی بنائ پر اس پر زیادہ اعتماد کررہاہے۔ گویااصل مسئلہ اعتماد کاہے۔
دوسرے یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی حدیث پیش کررہاہو وہ نفس مسئلہ میں بھی مصیب اوربرسرحق ہو ۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ حدیث منسوخ یاموول ہو یاپھر اس نے حدیث کا معنی ومطلب سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہو بہرحال اگر ہمارے اہل حدیث حضرات اسی پر کماحقہ غورکرلیں تو بہت سارے نزاعی مسائل کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
نہیں بھائی!
پہلی بات تو بالکل ثابت نہیں ہوتی۔ آپ یہاں سے تقلید ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالانکہ
قرآن کریم اور صحیح وصریح احادیث مبارکہ کے بالمقابل کسی بڑے سے بڑے عالم (خواہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں) کی بھی بلا دلیل بات (تقلید) قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
حیرت کی بات ہے کہ آپ نے خود ہی سیدنا ابن عباس کے اس فرمان کا سیاق وسباق ذکر کیا ہے کہ یہ متعہ کے بارے میں ہے، اور متعہ کے نسخ کی احادیث مبارکہ بالکل واضح اور معروف ہیں جن کی بناء پر ہی شیخین نے اس سے منع کیا ہوا تھا، نہ کہ دلائل کے بغیر ہی ذاتی آراء کی بناء پر!!!
امام ذہبی فرماتے ہیں:
مَا قصد عُرْوَة مُعَارَضَةَ النَّبِيِّ ﷺ بِهِمَا، بَلْ رَأَى أَنَّهُمَا مَا نهيَا عَنِ المُتْعَة إِلاَّ وَقَدِ اطّلَعَا عَلَى نَاسِخ ... سیر أعلام النبلاء:15 / 243
آپ کی
دوسری بات ایک حد تک صحیح ہے کہ ہر حدیث خواہ وہ
منسوخ ہو یا وہ صحیح تو ہو لیکن اس سے
غلط مفہوم اخذ کیا جا رہا ہو، اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ درج بالا مسئلے میں سیدنا ابن عباس کا منسوخ حدیث سے استدلال ہے۔
لیکن اس کیلئے بالکل غیر جانبداری سے حدیث کو دلائل کے ساتھ منسوخ ثابت کرنا ہوگا۔ نہ کہ صرف ظن وتخمین کی بناء پر یہ حکم لگانا ہوگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہو۔ کیونکہ ’حق‘ کے بالمقابل گمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
فرمانِ باری ہے:
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴾ ... سورة يونس: ٣٦
کہ ’’اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔‘‘
مزید تفصیل کیلئے
[URL="http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%AD%D9%86%D9%81%DB%8C-%D9%85%DA%A9%D8%AA%D8%A8-%D9%81%DA%A9%D8%B1-155/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8C%D9%B0-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%D9%85%D8%AF%D8%AA-%D8%B1%D8%B6%D8%A7%D8%B9%D8%AA-1329/index4.html#post7677"]یہ لنک[/URL] ملاحظہ کریں!
لیکن اگر اصل مقصود امام کی بات کو ثابت کرنا ہو۔ اور امام کے قول کے خلاف ہر آیت قرآنی یا حدیث مبارکہ کے بارے میں
پہلے سے ہی یہ عقیدہ رکھ لیا جائے (کہ منسوخ ہے یا مؤول، جیسا کہ فقۂ حنفیہ کا معروف قاعدہ ہے، خواہ وہ منسوخ یا مؤول نہ بھی ہو۔) تو یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔
واللہ اعلم!