• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح حدیث کے بالمقابل کسی امام کے قول پر اعتماد؟ (انتظامیہ)

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
سيدنا ابن عباس﷜ فرماتے ہیں:

يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء أقول: قال رسول الله، وتقولون: قال أبو بكر وعمر

کہ ’’قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسنا شروع ہوجائیں، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اور تم (جواب میں) کہتے ہو کہ ابو بکر وعمر نے کہا۔‘‘
جہاں تک میری تحقیق ہے ان الفاظ کے ساتھ کتب روایت میں کوئی روایت نہیں ملتی۔ حضرت ابن تیمیہ نے فتاوی میں انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیاہے لیکن کتب روایت وحدیث میں حضرت ابن عباس کے ساتھ دوسرے الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ اوراس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناچاہئے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضرت عروہ نے کہے۔
انہوں نے کہا
هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله وأتبع لها منك
الفقیہ والمتفقہ
اورپھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابن عباس سے حضرت عروہ جس مسئلہ پر بحث کررہے تھے وہ متعہ کا مسئلہ تھا اوراب یہ تقریبااجماعی مسئلہ ہوچکاہے کہ متعہ حرام ہے۔
اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اگرکوئی شخص حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی عالم کی بات پیش کرتاہے تواس کو فورامعارضہ تسلیم نہیں کرلیناچاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اس عالم کے اعلم افہم ہونے کی بنائ پر اس پر زیادہ اعتماد کررہاہے۔ گویااصل مسئلہ اعتماد کاہے۔

دوسرے یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی حدیث پیش کررہاہو وہ نفس مسئلہ میں بھی مصیب اوربرسرحق ہو ۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ حدیث منسوخ یاموول ہو یاپھر اس نے حدیث کا معنی ومطلب سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہو بہرحال اگر ہمارے اہل حدیث حضرات اسی پر کماحقہ غورکرلیں تو بہت سارے نزاعی مسائل کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک میری تحقیق ہے ان الفاظ کے ساتھ کتب روایت میں کوئی روایت نہیں ملتی۔ حضرت ابن تیمیہ نے فتاوی میں انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیاہے لیکن کتب روایت وحدیث میں حضرت ابن عباس کے ساتھ دوسرے الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ اوراس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناچاہئے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضرت عروہ نے کہے۔
انہوں نے کہا
هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله وأتبع لها منك
الفقیہ والمتفقہ
محترم بھائی! اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے اصلاح کی کہ متذکرہ بالا الفاظ بعینہٖ ثابت نہیں۔

لیکن!

کیا یہ مفہوم بھی ثابت نہیں؟؟؟

کیا یہ الفاظ بھی ثابت نہیں کہ والله ما أراكم منتهين حتى يعذبكم الله، أحدثكم عن رسول الله، وتحدثونا عن ابي بكر وعمر

اگر یہ مفہوم ثابت ہے تو مقصود تو حاصل ہے۔ پھر اعتراض کیسا؟؟؟

ویسے جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اسی الفقيه والمتفقه میں حافظ بغدادی ﷫ اگلا کلام بھی پڑھ لیتے کہ

قلت: قد كان أبو بكر وعمرُ على ما وصفهما به عروة إلا أنه لا ينبغي أن يُقَلَّدَ أحدٌ في ترك ما ثبتت به سنة رسول اللهﷺ ... الفقيه والمتفقه: 1 / 378

اوراس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھناچاہئے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضرت عروہ نے کہے۔
انہوں نے کہا
هما والله كانا أعلم بسنة رسول الله وأتبع لها منك
الفقیہ والمتفقہ
اورپھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابن عباس سے حضرت عروہ جس مسئلہ پر بحث کررہے تھے وہ متعہ کا مسئلہ تھا اوراب یہ تقریبااجماعی مسئلہ ہوچکاہے کہ متعہ حرام ہے۔
اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اگرکوئی شخص حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی عالم کی بات پیش کرتاہے تواس کو فورامعارضہ تسلیم نہیں کرلیناچاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اس عالم کے اعلم افہم ہونے کی بنائ پر اس پر زیادہ اعتماد کررہاہے۔ گویااصل مسئلہ اعتماد کاہے۔

دوسرے یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی حدیث پیش کررہاہو وہ نفس مسئلہ میں بھی مصیب اوربرسرحق ہو ۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ حدیث منسوخ یاموول ہو یاپھر اس نے حدیث کا معنی ومطلب سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہو بہرحال اگر ہمارے اہل حدیث حضرات اسی پر کماحقہ غورکرلیں تو بہت سارے نزاعی مسائل کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
نہیں بھائی! پہلی بات تو بالکل ثابت نہیں ہوتی۔ آپ یہاں سے تقلید ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالانکہ

قرآن کریم اور صحیح وصریح احادیث مبارکہ کے بالمقابل کسی بڑے سے بڑے عالم (خواہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں) کی بھی بلا دلیل بات (تقلید) قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

حیرت کی بات ہے کہ آپ نے خود ہی سیدنا ابن عباس﷜ کے اس فرمان کا سیاق وسباق ذکر کیا ہے کہ یہ متعہ کے بارے میں ہے، اور متعہ کے نسخ کی احادیث مبارکہ بالکل واضح اور معروف ہیں جن کی بناء پر ہی شیخین نے اس سے منع کیا ہوا تھا، نہ کہ دلائل کے بغیر ہی ذاتی آراء کی بناء پر!!!

امام ذہبی﷫ فرماتے ہیں: مَا قصد عُرْوَة مُعَارَضَةَ النَّبِيِّ ﷺ بِهِمَا، بَلْ رَأَى أَنَّهُمَا مَا نهيَا عَنِ المُتْعَة إِلاَّ وَقَدِ اطّلَعَا عَلَى نَاسِخ ... سیر أعلام النبلاء:15 / 243

آپ کی دوسری بات ایک حد تک صحیح ہے کہ ہر حدیث خواہ وہ منسوخ ہو یا وہ صحیح تو ہو لیکن اس سے غلط مفہوم اخذ کیا جا رہا ہو، اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ درج بالا مسئلے میں سیدنا ابن عباس﷜ کا منسوخ حدیث سے استدلال ہے۔

لیکن اس کیلئے بالکل غیر جانبداری سے حدیث کو دلائل کے ساتھ منسوخ ثابت کرنا ہوگا۔ نہ کہ صرف ظن وتخمین کی بناء پر یہ حکم لگانا ہوگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہو۔ کیونکہ ’حق‘ کے بالمقابل گمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
فرمانِ باری ہے: ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴾ ... سورة يونس: ٣٦
کہ ’’اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔‘‘

مزید تفصیل کیلئے [URL="http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%AD%D9%86%D9%81%DB%8C-%D9%85%DA%A9%D8%AA%D8%A8-%D9%81%DA%A9%D8%B1-155/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8C%D9%B0-%D8%A8%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%D9%85%D8%AF%D8%AA-%D8%B1%D8%B6%D8%A7%D8%B9%D8%AA-1329/index4.html#post7677"]یہ لنک[/URL] ملاحظہ کریں!

لیکن اگر اصل مقصود امام کی بات کو ثابت کرنا ہو۔ اور امام کے قول کے خلاف ہر آیت قرآنی یا حدیث مبارکہ کے بارے میں پہلے سے ہی یہ عقیدہ رکھ لیا جائے (کہ منسوخ ہے یا مؤول، جیسا کہ فقۂ حنفیہ کا معروف قاعدہ ہے، خواہ وہ منسوخ یا مؤول نہ بھی ہو۔) تو یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔

واللہ اعلم!
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
حیرت کی بات ہے کہ آپ نے خود ہی سیدنا ابن عباس� کے اس فرمان کا سیاق وسباق ذکر کیا ہے کہ یہ متعہ کے بارے میں ہے، اور متعہ کے نسخ کی احادیث مبارکہ بالکل واضح اور معروف ہیں جن کی بناء پر ہی شیخین نے اس سے منع کیا ہوا تھا، نہ کہ ذاتی آراء کی بناء پر!!!
اگرحضرت عروہ کو بذات خود اس کا علم ہوتاکہ متعہ کو حضور نے منسوخ کردیاہے تو وہ حضور کا قول وفعل پیش کرتے یاحضرات شیخین کے طرز عمل کو دلیل بناتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ حضورپاک کا قول وفعل پیش کرتے ۔ لیکن سیاق حدیث سے صاف معلوم ہورہاہے کہ ان کو اس سلسلے میں نسخ کا علم نہ تھا لیکن انہوں نے حضرت شیخین کے اپنامستدل بنایا۔ اورحافظ ذہبی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حضرت حضرت عروہ کا یہ گمان تھا کہ حضرت شیخین نے جو منع کیاہے توان کے پاس نسخ کی دلیل ہوگی یعنی حضرت عروہ کو نسخ کی حدیثوں کا علم نہیں تھا لیکن حضرات شیخین کی حضور پاک سے محبت اوران کی اتباع شدید کو دیکھتے ہوئے ان کا خیال تھاکہ متعہ سے روکنے کے پیچھے ضرور کوئی دلیل ہوگی ۔
اسی طرح اگرکوئی شخص کسی حدیث کے فہم میں کسی مجتہد کے اعلم افہم ہونے کو اپنی دلیل بناتاہے تواس کو مخالفت حدیث نہیں سمجھاجاناچاہئے۔ والسلام
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جہاں تک میری تحقیق ہے ان الفاظ کے ساتھ کتب روایت میں کوئی روایت نہیں ملتی۔
یہ کیا غضب کردیا میرے بھائی! مقلد اور تحقیق! نہ کوئی آندھی آئی نہ طوفان!
کیا آپ کو نہیں معلوم کہ بے عقل مسلمان مقلد بنتا ہی اس لئے ہے کہ جاہل ہوتا ہے نہ قرآن سمجھ سکتا ہے نہ حدیث۔ حدیث کی طرف تو رجوع بھی نہیں کرسکتا کجا یہ کہ حدیث کی تحقیق کرے۔ توبہ توبہ!
’’رجوع الی الحدیث وظیفہ مقلد نہیں ‘‘( احسن الفتاوی ۳/۵۰)

آپ فورا تحقیق سے سچی توبہ کرکے اپنے تقلیدی مذہب کی تجدید کریں۔ تحقیق کا نا قابل معافی جرم کرتے ہوئے آپ کو امام ابوحنیفہ کی عزت کا بھی ذرہ برابر خیال نہ آیا؟؟؟!!! احادیث کی تحقیق تو آپ کے امام نے بھی کبھی نہیں کی تھی اب ان کا مقلد یہ کام کرے گا تو دنیا کیا کہے گی کہ مقلد اپنے امام سے علم اور تحقیق میں آگے بڑھ گیا۔ کیا یہ ابوحنیفہ کی کم علمی پر طعن نہیں ہوگا؟ اور جو جگ ہنسائی ہوگی وہ علیحدہ! میرے بھائی اگر آپ کو اپنی عزت کا کچھ خیال نہیں تو کم ازکم اپنے امام کے محدود علم کا ہی کچھ خیال فرمائیں اور تحقیقات سے باز آجائیں۔

آپ غیرمقلد ہوکر اپنی تحقیقات پیش کرسکتے ہیں لیکن مقلد ہوتے ہوئے آپکی قسمت میں جہالت کے ساتھ زندہ رہنا اور جہالت میں ہی وفات پا جانا ہے۔ آپ اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں اور اپنی تحقیق سے رجوع فرمائیں۔
آپکا مخلص و خیرخواہ اور آپکے جواب کا منتظر شاہد نذیر
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اسلوب کلام سے صرف نظر کرتے ہوئے بات بہت عمدہ اور قیمتی بیان کی ہے کہ تقلید اور تحقیق اجتماع نقیضین ہے جو ممتنع ہے، اس کے باوجود لوگ معلوم نہیں کیوں اور کیسے انہیں جمع کر لیتے ہیں؟
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
امام کے قول کے خلاف ہر آیت قرآنی یا حدیث مبارکہ کے بارے میں پہلے سے ہی یہ عقیدہ رکھ لیا جائے (کہ منسوخ ہے یا مؤول، جیسا کہ فقۂ حنفیہ کا معروف قاعدہ ہے، خواہ وہ منسوخ یا مؤول نہ بھی ہو۔) تو یہ بالکل غلط اور باطل ہے۔
انسان کوکسی بات کو تول کربولناچاہئے۔ جذباتیت اشتعال اورعجلت میں اکثراسی طرح کی غلطی ہوتی ہے کسی چیز کو کسی ایک جماعت کی جانب منسوب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس جماعت کے ارکان اس کا عمومی طورپر اعتراف کرتے ہوں۔ ورنہ اس کی جانب نسبت کرنا غلط بات ہوگی۔

البانی صاحب عورت کے چہرہ کو پردہ میں شامل نہیں مانتے لیکن عمومی طورپر علمائے اہل حدیث اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ لہذا اگر اس کو یوں بیان کیاجائے کہ علمائے اہل حدیث عورت کے چہرہ کو پردہ میں شامل نہیں مانتے توآپ اس کو غلط بیانی سے تعبیر کریں گے اورکہیں گے کہ یہ صرف البانی صاحب کی ذاتی رائے ہے۔ دوسرے علما اس سے متفق نہیں ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے بعض فتاوی میں قادیانیوں کے پیچھے نماز جائز ہونے کی بات کہی ہے۔ اس کو بھی آپ مولانا کا ذاتی خیال قراردیں گے اورعلمائے اہل حدیث کی جانب عمومی نسبت کو پسند نہیں کریں گے۔
جب آپ اپنے بارے میں یہ بات پسند نہیں کرتے کہ کسی ایک عالم کے خیال کو جس کو دیگر علماء نے قبول نہیں کیا ہو اپنی جماعت کی جانب عمومی طورپر منسوب کیاجائے تویہی طرز عمل دوسروں کے ساتھ بھی ہوناچاہئے ۔عدل وانصاف اورشرافت کا یہی تقاضاہوتاہے۔

آپ نے اس اصول کو فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ قراردیاہے جب کہ میرے علم کے مطابق یہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔

اب آپ کے سامنے دوراستے ہیں

1یاتو دیگر حنفی فقہاء اوراصولین کی عبارت سے اسی اصول کو ثابت کریں ۔
2یاپھر اپنی بات کے غلط ہونے کوتسلیم کریں
ایک تیسری شکل یہاں بچتی ہے اور بہت عام ہے ۔

وہ یہ کہ مولویانہ کٹھ حجتی سے کام لیں۔

ویسے ہمیں امید ہے کہ آنجناب اوپر کی دونوں شقوں پر ہی اکتفاء کریں گے اورتیسرے شق کی نوبت نہیں آئے گی۔ والسلام
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ویسے ہمیں امید ہے کہ آنجناب اوپر کی دونوں شقوں پر ہی اکتفاء کریں گے اورتیسرے شق کی نوبت نہیں آئے گی۔
موضوع سے ہٹ کر بات کرنے پر معذرت مگر ۔۔۔۔ یہ لب و لہجہ نجانے کیوں مجھے کچھ مانوس سا محسوس ہوتا ہے۔ :)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
موضوع سے ہٹ کر بات کرنے پر معذرت مگر ۔۔۔۔ یہ لب و لہجہ نجانے کیوں مجھے کچھ مانوس سا محسوس ہوتا ہے۔ :)
جی ہاں! جانی پہچانی شخصیت جمشید صاحب عرف الطحاوی اور غزالی فورم کے بانی یا پھر جمشید صاحب ہی کا کوئی دوست جو کہ ان کے اسلوب سے متاثر ہے۔ واللہ اعلم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگرحضرت عروہ کو بذات خود اس کا علم ہوتاکہ متعہ کو حضور نے منسوخ کردیاہے تو وہ حضور کا قول وفعل پیش کرتے یاحضرات شیخین کے طرز عمل کو دلیل بناتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ حضورپاک کا قول وفعل پیش کرتے ۔ لیکن سیاق حدیث سے صاف معلوم ہورہاہے کہ ان کو اس سلسلے میں نسخ کا علم نہ تھا لیکن انہوں نے حضرت شیخین کے اپنامستدل بنایا۔ اورحافظ ذہبی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حضرت حضرت عروہ کا یہ گمان تھا کہ حضرت شیخین نے جو منع کیاہے توان کے پاس نسخ کی دلیل ہوگی یعنی حضرت عروہ کو نسخ کی حدیثوں کا علم نہیں تھا لیکن حضرات شیخین کی حضور پاک سے محبت اوران کی اتباع شدید کو دیکھتے ہوئے ان کا خیال تھاکہ متعہ سے روکنے کے پیچھے ضرور کوئی دلیل ہوگی ۔
اسی طرح اگرکوئی شخص کسی حدیث کے فہم میں کسی مجتہد کے اعلم افہم ہونے کو اپنی دلیل بناتاہے تواس کو مخالفت حدیث نہیں سمجھاجاناچاہئے۔ والسلام
اگر کسی کو نص کا علم نہ ہو اور اسی لاعلمی میں اس کے منہ سے خلاف نص بات نکل جائے تو بہتر یہی ہے کہ اس کی مذمت میں اپنی زبان اور قلم کو روک لیا جائے اور حسن ظن سے کام لیا جائے کیونکہ ایسا شخص اس صورت میں کہ اس نے دیدہ دانستہ نص کی مخالفت نہیں کی ہمارے حسن ظن کا بہت زیادہ مستحق ہے۔ یہ توضیح اور تشریح اور لوگوں کے حق میں تو پیش کی جاسکتی ہے لیکن اسے ابوحنیفہ کے حق میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم نے پوسٹ نمبر ٤ پر جو ابوحنیفہ کا کلام نقل کیا ہے اس میں ابوحنیفہ نے کسی بھی حسن ظن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی بلکہ علم آجانے کے بعد دیدہ دانستہ ایک جلیل القدر صحابی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جن سے محبت جزو ایمان ہے، کو شیطان قرار دیا۔ یہ ابوحنیفہ کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر دشنام طرازی کا اور ان سے بغض اور نفرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مذکورہ روایت اپنے معنوں پر واضح ہے جو کسی مقلد کی باطل تاویل کی محتاج نہیں۔
 
Top