• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح حدیث کے بالمقابل کسی امام کے قول پر اعتماد؟ (انتظامیہ)

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
انسان کوکسی بات کو تول کربولناچاہئے۔ جذباتیت اشتعال اورعجلت میں اکثراسی طرح کی غلطی ہوتی ہے کسی چیز کو کسی ایک جماعت کی جانب منسوب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس جماعت کے ارکان اس کا عمومی طورپر اعتراف کرتے ہوں۔ ورنہ اس کی جانب نسبت کرنا غلط بات ہوگی۔
تول کر بولنے کی نصیحتیں صرف دوسروں کے لئے کیوں؟ کیا آپ دیانتداری اور سچائی سے مستثنیٰ ہیں جو جب چاہیں جیسے چاہیں مغالطہ دیتے، کذب بیانی کرتے ہیں؟

انس نضر حفظہ اللہ نے جو بات کہی وہ سولے آنے سچ ہے اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں۔والحمداللہ

اصول کرخی حنفیوں کے مذہب کے اصول کی کتاب ہے اور اس میں جو خصوصی دو اصول بیان کئے گئے ہیں کہ حنفی مذہب میں قول امام کے خلاف نہ حدیث قبول کی جاتی ہے نہ قرآن کی آیت۔ اس پر تمام حنفیوں کا اتفاق ہے اور ان کا عمل اس پر دال ہے تفصیل دیکھئے یہاں: جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں!!!

آپ نے اس اصول کو فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ قراردیاہے جب کہ میرے علم کے مطابق یہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔
آپکا تقلیدی علم اور آپکی ذاتی رائے ہمارے نزدیک ٹکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتیں۔ آپ وضاحت کریں کہ حنفی و دیوبندی مذہب میں آپ کی حیثیت کیا ہے کہ ہم آپکی ذاتی رائے کو قبول کریں۔ آپ کم ازکم پانچ مستند دیوبندی علماء کی عبارات پیش کریں جس میں وضاحت کی گئی ہو کہ اصول کرخی کے مذکورہ بالا دو اصول امام کرخی کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں جس سے دیوبندی لاتعلقی اور براءت کا اظہار کرتے ہیں اور اس رائے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ اگر آپ دیوبندی یا متعدد حنفی علماء سے ایسی کوئی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ان اصولوں پر نہ صرف حنفیوں، دیوبندیوں، بریلویوں کا اتفاق و اتحاد ہے بلکہ ان کا عمل بھی ان کے ان شرمناک اصولوں کا غماز ہے۔

جب آپ اپنے بارے میں یہ بات پسند نہیں کرتے کہ کسی ایک عالم کے خیال کو جس کو دیگر علماء نے قبول نہیں کیا ہو اپنی جماعت کی جانب عمومی طورپر منسوب کیاجائے تویہی طرز عمل دوسروں کے ساتھ بھی ہوناچاہئے ۔عدل وانصاف اورشرافت کا یہی تقاضاہوتاہے۔
عدل و انصاف اور شرافت کا مظاہرہ اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے۔والحمداللہ
امام کرخی کے ان یہودیانہ اصولوں کو حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے ہاں تلقی بلقبول حاصل ہے۔اس کا ایک ادنی ثبوت جمشید دیوبندی کا یہ مضمون ہے: امام ابوالحسن کرخی کا اصول اورغلط فہمیوں کا جواب

اس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دیوبندیوں کے نزدیک یہ دونوں نزاعی اصول تو درست ہیں لیکن ان کا وہ مفہوم درست نہیں جو مخالفین ان اصولوں سے کشید کرتے ہیں۔ اگر یہ اصول محض امام کرخی کی زاتی رائے پر مشتمل ہوتے تو انکی تاویل، توضیح، تشریح کی ضرورت مقلدوں کو ہرگز پیش نہ آتی محض اتنا کہہ دینا کافی ہوتا کہ یہ کرخی کی ذاتی رائے ہے ہم ان کی اس یہودیانہ رائے سے بے زار ہیں۔

یہ حنفی مذہب کے مسلمہ اصول ہیں جس کا واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ حنفی ان کا انکار تو نہیں کرتے لیکن ان اصولوں کی باطل تاویلات سے بھی باز نہیں آتے۔ اس کا ایک مظاہر یہاں بھی دیکھیں: حنفی مذہب کے دو شیطانی اصول
اس مضمون کے مطالعے سے آپ کو یہ بھی علم ہوجائے گا کہ جمشید جیسے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ان اصولوں کا یہ مطلب نہیں جو اہل حدیث لیتے ہیں بلکہ وہ مطلب صحیح ہے جو مقلدین رکیک اور بعید تاویلات کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مقلدین کے بیان کردہ ایسے تمام مطالب مردود اور باطل ہیں بلکہ ان اصولوں کا حقیقی معنی وہی ہیں جو ان جملوں کے ظاہر سے معلوم ہوتے ہیں جس کی تصدیق مقلدین کا قرآن و حدیث کے بارے میں روا رکھے جانے والاعملی رویہ بھی کرتا ہے۔


اب آپ کے سامنے دوراستے ہیں

ایک تیسری شکل یہاں بچتی ہے اور بہت عام ہے ۔

وہ یہ کہ مولویانہ کٹھ حجتی سے کام لیں۔

ویسے ہمیں امید ہے کہ آنجناب اوپر کی دونوں شقوں پر ہی اکتفاء کریں گے اورتیسرے شق کی نوبت نہیں آئے گی۔ والسلام
اب ندوی صاحب کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو اپنے دعوے کا مستند حنفی و دیوبندی علماء سے ثبوت یا پھر اس بات کا اقرار کہ یہ حنفی مذہب کے اصول ہیں۔ تیسرا مہذب راستہ ہے خاموشی اور چوتھا راستہ مقلدوں کا مرغوب عملی مظاہرہ میں نہ مانوں یا اپنے اکابرین کی طرح یہ کہنا حق تو یہی ہے لیکن میں اس لئے قبول نہیں کرسکتا کہ میرے مذہب کے خلاف ہے اور مجھ پر حنفی مذہب کی وفاداری واجب ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں توندوی صاحب کویہی مشورہ دوں گاکہ وہ شاہد نذیر صاحب کی باتوں کے جواب میں قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کریں کہ لغو سے اعراض کیاجائے اورجاہلین کو صاحب سلامت کہہ کربات ختم کرلی جائے۔ اورجوواقعی اعتراض ہواس کا جواب دیاجائے۔
باذوق صاحب نے موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہی ہے ۔ ہم بھی موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہہ لیناچاہتے ہیں۔
انتظامیہ نے جوعنوان قائم کیاہے وہ نہایت نامناسب ہے اورمسلکی تعصب کا آئینہ دار ہے۔اس کاکوئی دوسرامناسب عنوان قائم کرناچاہئے تھایہ عنوان قائم کرکے انتظامیہ نے ٧٥فیصد معاملہ اپنی جانب کرلیاہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
اصول کرخی حنفیوں کے مذہب کے اصول کی کتاب ہے اور اس میں جو خصوصی دو اصول بیان کئے گئے ہیں کہ حنفی مذہب میں قول امام کے خلاف نہ حدیث قبول کی جاتی ہے نہ قرآن کی آیت۔ اس پر تمام حنفیوں کا اتفاق ہے اور ان کا عمل اس پر دال ہے تفصیل دیکھئے یہاں: جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں!!!
السلام علیکم،
میں زیادہ نہیں جانتا لیکن حنفی مذہب میں قول امام کے خلاف حدیث قبول نہ کرنے پر تمام حنفیوں کا متفق ہونا میرے نزدیک محل نظر ہے۔ دیوبندیوں کے ایک معتبر اور بڑے عالم مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں:
"متبحر عالم سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رتبہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس اور تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کی زیر نگرانی عرصہ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں اور وہ کسی مسئلے میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہو اور ان کے طرز تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشتر علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایسے "متبحر فی المذہب" نے مسئلے کے تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش کر لی ہو تو ایسی صورت میں وہ حدیث صحیح کی بناء پر اپنے امام کے قول کو چھوڑ سکتا ہے۔۔ ۔ "
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 94 تا 108 کی بحث ملاحظہ ہو)
آپ کے ایک تھریڈ " جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں" میں اس کتاب کا حوالہ دیکھنے کے بعد میں نے اس کا مطالعہ کیا تھا اور سچی بات ہے دیوبندیوں کا موقف سمجھنے میں مجھے اس سے بڑی مدد ملی ہے۔
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ مسلکا میں دیوبندی نہیں ہوں لیکن جب سلفیت کا کوئی پیروکار اس قسم کے الزامات فریق مخالف پر لگائے تو اسے سمجھائے بغیر رہا نہیں جاتا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135)
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ماشاء اللہ عبداللہ حیدر بھائی، اللہ آپ کو مزید انصاف سے کام لینے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
آپ نے تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب کا اقتباس پیش کیاٌ
"بیشتر علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایسے "متبحر فی المذہب" نے مسئلے کے تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش کر لی ہو تو ایسی صورت میں وہ حدیث صحیح کی بناء پر اپنے امام کے قول کو چھوڑ سکتا ہے۔۔ ۔"
ذرا اس متبحر فی المذہب عالم کی تعریف پیش کریں گے؟ نیز فقہاء احناف میں سے اس کی چند مثالیں پیش کر دیجئے اور ساتھ وہ ایک دو مسئلہ باحوالہ پیش کر دیجئے جس میں اس مجتہد فی المذہب نے "تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش" کے بعد صحیح حدیث کی بنا پر قول امام کو چھوڑ دیا گیا ہو۔
یاد رہے کہ میں اس بات کے خلاف نہیں بلکہ اس بات کے بالکل حق میں ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ بات واضح ہو جائے اور واقعی انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں۔ نیز کاش کے ان الفاظ میں جو دھوکہ ہے اس کو پہچاننے کی کوشش بھی کر لی جائے کہ کسی کے قول پر غور و فکر کے بغیر یقین کر لینا ہی انصاف ہے؟ کیا کوئی ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرے گا کہ
جس شخص کے بارے میں مجتہد فی المذہب کا دعویٰ کیا جا رہا ہو گا کیا وہ پیدا ہوتے ہی اس درجہ پر تھا یا پہلے مقلد تھا بعد میں اس درجہ کو پہنچا؟
جب تک وہ صرف مقلد تھا تو خود احناف کے بلکہ تقی عثمانی صاحب کے بقول بھی اس پر امام کے خلاف حدیث پر عمل ممنوع تھا، گمراہی کا باعث تھا۔ وہ کون سا ایسا کورس تھا جس کے کرنے کے بعد اچانک اس مقلد کو یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ مجتہد فی المذہب ہے اور وہ حدیث کے مقابلے میں امام کے قول کو چھوڑ بھی دے تو صحیح ہے؟
کیا کوئی امتیازی لکیر ایسی بتائی جائے گی جس کے پیچھے امام کے مقابل حدیث ماننا گمراہی اور جس کے آگے حدیث چھوڑنا گمراہی ہے؟
آج کے دور میں ان تین علماء کے نام پیش کر دیں جو اس درجہ "مجتہد فی المذہب" پر فائز ہوں۔
امید ہے ان سوالات پر بھی غور کیا جائے گا۔
شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن مشہور و معروف ہے اس پر اگر کوئی ان شیعہ اکابرین کی کوئی بات پڑھ لے جو بطور تقیہ اس بات سے انکاری تھے تو انصاف کے تقاضے کیا یہ کہتے ہیں کہ شیعہ کو تحریف قرآن کا مرتکب قرار دینے والے محض الزام ہی دے رہے ہیں اور شیعہ تو اس الزام سے پاک ہیں۔ اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے، آمین۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135)
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میں توندوی صاحب کویہی مشورہ دوں گاکہ وہ شاہد نذیر صاحب کی باتوں کے جواب میں قرآن کریم کی ہدایت پر عمل کریں کہ لغو سے اعراض کیاجائے اورجاہلین کو صاحب سلامت کہہ کربات ختم کرلی جائے۔
میں بھی ندوی اور جمشید صاحب کو قرآن کی ہدایت پر عمل کا مفید مشورہ دونگا کہ جہالت اور جاہلوں سے اجتناب کرتے ہوئے تقلید اور تقلیدی مذہب کے موجدوں سے کنارہ کشی اخیتار فرمالیں۔ اللہ کی جانب سے وہ ہدایت نصیب ہوگی جس میں تقلیدی جہالت کے اندھیرے نہیں ہونگے صرف روشنی ہوگی۔ان شاء اللہ

اورجوواقعی اعتراض ہواس کا جواب دیاجائے۔
چونکہ ہمارے سوالوں کا مقلدوں کے پاس کوئی جواب نہیں اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ہمارا کوئی اعتراض ان کے نزدیک ’’واقعی اعتراض‘‘ کے دائرے میں نہیں آئے گا۔ تو یہ ایک اچھا بہانہ ہے فرار کا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ نے اس اصول کو فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ قراردیاہے جب کہ میرے علم کے مطابق یہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔

اب آپ کے سامنے دوراستے ہیں



ایک تیسری شکل یہاں بچتی ہے اور بہت عام ہے ۔

وہ یہ کہ مولویانہ کٹھ حجتی سے کام لیں۔

ویسے ہمیں امید ہے کہ آنجناب اوپر کی دونوں شقوں پر ہی اکتفاء کریں گے اورتیسرے شق کی نوبت نہیں آئے گی۔ والسلام
کچھ عرصہ قبل اصول کرخی کے فقہ حنفیہ میں مقبول ہونے پر ایک تحریر اردو مجلس پر لکھی تھی اسی کو یہاں پیش کیئے دیتا ہوں! اس پر کوئی اعتراض ہو تو اسے ضرور پیش کیجئے گا!
اور میاں ندوی صاحب! آپ ذرا پرائیوٹ میں ہی اپنے ہم مسلک اہل الرائے ، جمشید میاں سے بھی مشورہ کر لیں، انہوں نے اسے فورم پر ایک تحریر لکھی ہے، جس میں اصول کرخی کی لغت و شرح کے اعتبار سے نا قابل قبول تشریح پیش کی ہے، اور اصول کرخی کا دفاع کیا ہے۔ اور یہ اصول فقہ حنفیہ میں مقبول نہیں اور صرف آپ کے امام کرخی کی رائے ہوتی تو میاں جمشید جیسے "طحاوی دوراں" کبھی اس کا دفاع نہ کرتے، بلکہ آپ کی طرح کہہ دیتے کہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔
ویسے ایک کام کیجئے ذرا جمشید میاں سے آپ اس بات پر اسی تھریڈ میں بحث کر لیں کہ آیا آپ کا موقف کہ یہ آپ کے امام کرخی کی ذاتی رائے ہے اور فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ نہیں یا آپ کے "طحاوی دوراں" کی بات صحیح ہے۔ ہم تو اس بات کی دلیل رکھتے ہیں کہ یہ فقہ حنفیہ کا معروف ہی نہیں بنیادی قاعدہ ہے!
تو لیجئے جناب وہ دلائل بھی حاضر خدمت ہیں:
درس فقہ حنفیہ ۔سبق اول:
فقہ حنفیہ کو سمجھنے کے لئے آپ کو فقہ حنفیہ کے اصول سمجھنا ضروری ہے۔ ہم درس فقہ حنفی کے پہلے سبق میں فقہ حنفیہ کا اہم ترین اصول بیان کریں گے۔جو امام ، امام ابوالحسن کرخی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے رسالہ " اصول الکرخی" میں تحریر کیا ہے ۔ جس سے آپ کو فقہ حنفیہ کی بنیاد سمجھ آجائے گی ۔ ان شاءاللہ!
فقہ حنفیہ کا بنیادی اصول:
الاصل : ان كل آية تخالف قول اصحابنا فانها تحمل على النسخ او على الترجيح والاولى ان تحمل على التاويل من جهة التوفيق۔
بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے اسکو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا پھر اسکو مرجوع سمجھا جائے گا (یعنی فقہا احناف قول کو ترجیح دینگے) اور بہتر یہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیت اسکو تاویل پر محمول کیا جائے (یعنی قرآن کی آیت کی تاویل کر لی جائے) تا کہ دونوں میں تطبیق ہو جائے۔
فقہ حنفیہ کے طالب علمو ! اگر آپ ابن نجیم کی طرح فقیہ العصر بننا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا اصول کو صحیح طورپر سمجھ لیجئے۔ فقیہ حنفیہ کے اس اصول میں مندرجہ ذیل باتیں مذکور ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک بات ایک اصول و قاعدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

۱:۔ قرآن کی آیات فقہاء احناف اقوال کے مخالف ہوتی ہیں۔
کھبی غلطی سےبھی یہ بات زبان سے نہ نکل جائے کہ فقہا احناف کا قول قرآن کے خلاف ہے۔ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ آپ اگر علم الجبر والمقابلہ اور علم طبعیات سے واقف ہیں تو آپ کو یہ بات سمجھنا آسان ہوگی۔ کہ پہلے ایک سمت کو معیار قرار دیا جاتا ہے ۔ اور پھر اس کی مخالف کو مخالف سمت تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فقہ حنفیہ میں پہلے اپنے فقہا کو معیار قرار دیا گیا ہے، اب اس کی مخالفت کرنا والا مخالف قرار دیا جائے گا۔ جیسا کہ اصول کرخی کے اس اصول کی عبارت میں ہے، "ان كل آية تخالف قول اصحابنا" بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے۔ تو اس عبارت میں قرآن کی آیت کی فقہ حنفیہ سے مخالفت کا تذکرہ ہے۔ کوئی یوں نہ کہے کہ " اگر ہمارے اصحاب کا قول قران کی آیت کے مخالف آجائے"۔ کیونکہ اس میں فقہا احناف کی تحقیر و توہین لازم آتی ہے۔ اور یہ فقہ حنفیہ میں قطعی جائز نہیں۔ قرآن کی تحقیر و توہین کی تو اضطراری کیفیت فقہ حنفیہ جائز ہے۔ جیسا کہ علاج کے لئے قرآن کو نکسیر کے خون (جو کہ فقہ حنفیہ میں ناپاک ہے)، اور پیشاب سے لکھنا بھی جائز ہے۔ یہ سبق بعد میں تفصیل سے پڑھایا جائے گا۔ فالوقت صرف اشارہ مقصود تھا۔ فقہا احناف کی تحقیر سے بڑھ کر اضطراری کیفیت اور کیا ہو سکتی ہے!! لہذا یوں کبھی نہ کہا جائے کہ" فقہا احناف کا قول قرآن کے خلاف ہے"، بلکہ اسی طرح کہا جائے کہ قرآن کی آیت فقہا احناف کے خلاف ہے۔

۲:۔ فقہا احناف کےاقوال وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔
فقہ حنفیہ کی رو سے حدیث سے قرآن کا نسخ نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی قرآن کے کسی حکم پر حدیث سے کوئی اضافہ کیا جاسکتا۔ (یہ سبق بھی بعد میں تفصیل سے پڑھایا جائے گا۔) لیکن فقہا احناف کے قول کی بنیاد پر قرآن کی آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ احادیث تو ثقہ رواۃ الحدیث سے با سند مروی ہونے کے با وجود بھی "ظنی" ہیں ،جبکہ فقہا احناف کے اقوال بلاسند درج ہونے کے باوجود بھی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہیں۔ لہذا اگر قرآن کی کوئی آیت فقہا احناف کے قول کے خلاف آئے تو اس آیت کو منسوخ قرار دیا جائے گا۔

۳:۔ قرآن کی آیت کی کا نسخ ،تطبیق کے نا ممکن ہونے کی صورت میں ہے۔
قرآن کی آیات کا نسخ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے منسوخ کیا ہے۔ بلکہ اس لئے ہے کہ اگر تطبیق ناممکن ہو ، اورتطبیق دینا ہی اولی ہے۔ اب اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ حنفی علماء قرآن کی آیت اور فقہا احناف کے اقوال میں تطبیق نہ دے سکیں۔ اور فقہ الاسلامی کے پیروکار ان کا ناطقہ بند کردیں، اس صورت میں قرآن کی آیت کو منسوخ قرار دے کر کم از کم بزعم خویش فقہ الاسلامی کے پیروکار کے اعتراضات کا جواب دیا جاسکتا ہےاور اس طرح فقہا احناف کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اب جب آپ کسی آیت کو منسوخ قرار دے دیں گے تو وہ آیت آپ پر کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پیش نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن کسی آیت کو منسوخ قرار دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اکثر وہی آیات احناف کو دوسرے مسائل میں دلیل بنانے کی حاجت پڑ جاتی ہے۔ لہذا اولیٰ یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کے معنی اور مفہوم میں تاویل کی جائے اور اس آیت کے معنیٰ ومفہوم کو توڑ مڑوڑ کر فقہا احناف کے قول کے مطابق کر دیا جائے۔ لیکن یاد رہے، کہ فقہا احناف کے اقوال کو بالکل بھی حرف نہ آنے آنے پائے۔ فقہا احناف کے اقوال اسی جگہ قائم و دائم رہیں گے۔ صرف قرآن کی آیت کے معنیٰ کو تبدیل کیا جائے گا۔ اور اسی لئے علماء احناف کو علم الکلام اور فلسفہ کا ماہر بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ علم الکلام اور فلسفہ کو برئے کار لاتے ہوئے ، قرآن کی آیت کے معنی ٰ و مفہوم کوپھیر سکیں اور فقہا احناف کے اقوال کے ہم معنیٰ بنا سکیں۔

کچھ نا سمجھ حنفی بڑے بڑے علماء کے ناموں اور القابوں پر اپنا یوزر نام مثلا" الطحاوی" رکھ کر انٹرنیٹ فورمز میں فقہ حنفیہ کی نمائندگی کرتے ہیں مگریا تو وہ اس اصول سے ہی واقف نہیں ہوتے اگر واقف ہوتے ہیں تو وہ اسے فقہ حنفیہ کا شاذ اصول سمجھتے ہیں، اور فقہ حنفیہ کی نسبت لوگوں میں یہ بتلاتے ہیں کہ فقہ حنفیہ میں اس اصول کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ تمام باتیں ایسے لوگوں کی فقہ حنفیہ سے انتہائی درجہ کی جہالت کا ثبوت ہے۔ فقہ حنفیہ کے اس اصول کے معتبر اور معمول بہ ہونے کے بہت سے دلائل و شواہد ہیں۔ مگر اتنا بتلا دینا ہی کافی ہے کہ فقہ حنفیہ کا یہ اصول فقہ حنفیہ کے بہت بڑے امام ، امام ابوالحسن الکرخی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے رسالہ " اصول الکرخی" میں تحریر کیا ہے ، اور اس پر امام ابو منصور ماتریدی رحمۃاللہ علیہ ، جن کے احناف عقیدہ اور اصول میں پیروکار ہیں، کے پیروکارخاص، امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے حواشی تحریر کیئے ہیں۔ اور اس اصول کو قبول کیا ہے۔ لہذا آج کا کوئی انٹرنیٹ کا صارف جو خود کو حنفی گردانتا ہو وہ تو کیا کسی حنفی دارلعلوم کا استاد ، یا اگر دارلعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ بھی اس کا انکار کریں تو ،ان کے انکار کی کوئی وقعت نہیں۔

تنبیہ: نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے اس اصول کے حاشیہ میں فقہ الاسلامی کے حوالے سے ناسخ و منسوخ کی امثال ذکر کیں ہیں، جس میں وحی سے وحی کا نسخ بتلایا گیا ہے۔ یہ امثال فقہ االسلامی والوں کو بتلانے کے لئے لکھیں گئیں ہیں کہ فقہ السلامی میں بھی ناسخ و منسوخ ہے۔ تا کہ اس طرح فقہ الاسلامی کے پیروکار کو اس مسئلہ میں ٹال دیا جائے، کہ ناسخ و منسوخ تو کوئی اختلافی مسئلہ نہیں، اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ بھی فقہ السلامی کی طرح ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں۔ فقہ حنفیہ کے طالب علمو!آپ امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی رحمۃاللہ علیہ آپ لوگوں کے لئے آئیڈیل بنائیں، دیکھیں کس طرح وہ اس بات کو گول کر گئے کہ فقہ الاسلامی میں قرآن و حدیث کا نسخ قرآن و حدیث کی بنیاد پر ہوتا ہے، جبکہ فقہ حنفیہ کے اس اصول میں قرآن میں نسخ کی بنیاد فقہا حنفیہ کے اقوال ہیں۔

فقہ حنفیہ کے مطابق احادیث میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوتے ہیں:
۱:۔ بیان قرآن
۲:۔ بالکل ایک نئے حکم کے بیان میں جس سے قرآن کا کوئی تعارض نہیں
۳:۔ قرآن کے کسی حکم کو مغیر کرنے کےلئے

فقیہ حنفیہ کے میں تیسری قسم کی احادیث ، جو قرآن کا حکم مغیر کر تی ہیں مقبول نہیں۔ کیونکہ فقہا احناف کے نزدیک یہ نص قرآن پر زیادتی ہے۔ شیخ ابوالحسن کرخی رحمۃ للہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے قرآن کی آیت منسوخ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ زانی کو کوڑں کی سزا کے ساتھ جلاوطنی کی بھی سزا کو ملا لینا قرآنی سزا کو منسوخ کردیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تہمت کی حد اسی کوڑوں کے ساتھ بیس اور ملائے جائیں۔
اسی اصول کی بیناد پر فقہا احناف نے بہت سی صحیح احادیث کا انکار کر دیا، جن میں سے تین درج ذیل ہیں:
۱) وضو اور غسل میں نیت کے ضروری ہونے کی حدیث
۲) نماز کا اختتام سلام پھیرنے سے کرنا لازم ہونا
۳) نماز کے ہر ہر رکن میں اطمینان کا واجب ہونا

لیکن جب فقہا احناف کے اقوال قرآن پر زیادتی کرے جو فقہ حنفیہ کے نزدیک نسخ ہے، اس صورت میں فقہا احناف کے اقوال کے مطابق خواہ کوئی حدیث ہو یا نہ ہوفقیہ حنفیہ میں قران پر وہ زیادتی اور نسخ قبول کیا جاتا ہے۔
دونوں صورتوں کی دو دو امثال پیش کرتے ہیں جس سے فقیہ حنفیہ سے متعلق آپ کے سوال کا جواب انتہائی واضح ہو جائے گا۔

فقہ حنفیہ کے نزدیک قرآن کا نسخ فقہا احناف کے اقوال سے جب حدیث کی موافقت شامل ہے۔
۱) وطن میں اقامت ہونے کی حالت میں رہن رکھنے کا جواز حالانکہ قرآن مین رہن کا جواز اسی وقت ہے جب کہ انسان حالت سفر میں ہو۔ چونکہ فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، فقہ حنفیہ میں جائز ہے، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔
۲) جب لونڈی آزاد ہو جائے تو اس کا جو نکاح غلام سے ہوا ہے اس کی بابت اسے اختیار ہے اگر چاہے تو فسخ کر دے یعنی توڑ دے۔ چونکہ یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، فقہ حنفیہ میں جائز ہے، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔

فقہ حنفیہ کے نزدیک قرآن کا نسخ فقہا احناف کے اقوال سے جبکہ وہ احادیث سے ثابت بھی نہیں ہے۔
۱) وتر کو واجب قرار دینا، جبکہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ۔ لیکن یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔ فقہ حنفیہ کا یہی مؤقف ہے کہ وتر واجب ہے۔
۲) مہر کی کم سے کم مقدار کا دس درہم ہونا۔ جبکہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ۔ لیکن یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔ فقہ حنفیہ میں کم سے کم مہر دس درہم ہی ہے۔
مندرجہ بالا تحریر سے یہ واضح ہے کہ فقہ حنفیہ میں حدیث کی بنیاد پر تو قرآن کا نسخ نہیں ہوتا مگر فقہا احناف کے اقوال کی بنیاد پر ہو جاتا ہے۔

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
میں زیادہ نہیں جانتا لیکن حنفی مذہب میں قول امام کے خلاف حدیث قبول نہ کرنے پر تمام حنفیوں کا متفق ہونا میرے نزدیک محل نظر ہے۔
آپ کے اس بیان سے آپکا سلفی مسلک میرے نزدیک محل نظر ہوگیا ہے۔ جب آپ زیادہ نہیں جانتے تو آپ کو اس مسئلہ میں اپنی رائے دینے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔ اگر کسی مسئلہ میں کسی مذہب کے قابل اعتماد لوگ اتفاق کرلیں اور اکثریت ان کی تردید بھی نہ کرتی ہو تو اس مسئلہ کو اس مذہب کے تمام لوگوں کی جانب ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ اگر اس مذہب کا ایک آدھ غیرمعتبر شخص اس مسئلہ کو نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جمہور کے مقابلے میں کچھ لوگوں کا اختلاف کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ہم ندوی کی طرح محترم عبداللہ حیدر صاحب سے بھی گزارش کریں گے وہ مرد میدان بنیں اور چند مستند حنفی یا دیوبندی علماء سے امام کرخی کے قرآن وحدیث کے متعلق بنائے گئے ان دو اصولوں سے براءت اور ان کی تردید ثابت کردیں۔ اگر آپ نے دیوبندیوں کی وکالت کا بیڑا اٹھایا ہی ہے تو ان کی وکالت کا حق ادا کرتے ہوئے دلائل بھی سامنے لائیں گول مول باتوں کے ذریعے باطل کا دفاع کرکے اپنے مسلک کو مشکوک تو نہ بنائیں۔

دیوبندیوں کے ایک معتبر اور بڑے عالم مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں:
"متبحر عالم سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رتبہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس اور تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کی زیر نگرانی عرصہ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں اور وہ کسی مسئلے میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہو اور ان کے طرز تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشتر علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایسے "متبحر فی المذہب" نے مسئلے کے تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش کر لی ہو تو ایسی صورت میں وہ حدیث صحیح کی بناء پر اپنے امام کے قول کو چھوڑ سکتا ہے۔۔ ۔ "
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 94 تا 108 کی بحث ملاحظہ ہو)
آپ کے ایک تھریڈ " جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں" میں اس کتاب کا حوالہ دیکھنے کے بعد میں نے اس کا مطالعہ کیا تھا اور سچی بات ہے دیوبندیوں کا موقف سمجھنے میں مجھے اس سے بڑی مدد ملی ہے۔
مجھے یہ بیان کرتے ہوئے بہت افسوس ہورہا ہے کہ عبداللہ حیدر صاحب نے دیانت و امانت کی دھجیاں اڑا دی ہیں انہیں یہ بیان دیتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہاں جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں!!! پر بھی عبداللہ حیدر صاحب نے بعینہ یہی اعتراضات کئے تھے جس کے دندان شکن جواب ہم نے موصوف کو وہیں دے دئے تھے اور جن کے جواب الجواب پر عبداللہ حیدر صاحب عاجز اور ساکت تھے۔

ہمارے جن اعتراضات کے جواب آپ آج تک نہیں دے سکے انہیں اعتراضات کو یہاں پھر دہرا دینا دیانت و امانت کا خون کرنا نہیں؟؟؟ دیوبندیت کا ایسا بھی کیا اندھا دفاع کہ انسان اخلاقیات بھی بھول جائے!

یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ مسلکا میں دیوبندی نہیں ہوں
معاف کیجئے گا عبداللہ حیدر صاحب آپ کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ آپ تقلیدی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔انسان کی تحریر اس کے اقوال اور کردار ہی اس کے مسلک و مذہب کے حقیقی گواہ اور ترجمان ہوتے ہیں۔ آپ کا انداز تحریر ہی آپکی سوچ اور نہج کا عکاس ہے۔ زبان سے تو قادیانی بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن کیا کوئی ان کے نظریات کو نظر انداز کرکے صرف ان کے بیان پر یقین کرکے انہیں مسلمان تسلیم کر لیتا ہے؟!

جب سلفیت کا کوئی پیروکار اس قسم کے الزامات فریق مخالف پر لگائے تو اسے سمجھائے بغیر رہا نہیں جاتا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135)
اگر آپ یہ کہتے کہ آپ دیوبندیت کا دفاع کئے بغیر نہیں رہ سکتے تو زیادہ صحیح اور حقیقی ہوتا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اگرکوئی شخص حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی عالم کی بات پیش کرتاہے تواس کو فورامعارضہ تسلیم نہیں کرلیناچاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اس عالم کے اعلم افہم ہونے کی بنائ پر اس پر زیادہ اعتماد کررہاہے۔ گویااصل مسئلہ اعتماد کاہے۔
یہی بات تو ہم آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ کہ علماء مقلدین بالخصوص حنفی علماء مقلدین قطعی قابل اعتماد نہیں ہیں! علماء مقلدین اعلم و افہم نہیں بلکہ اس کے برعکس ہیں۔ اور اگر وہ اعلم و افہم ہوتے تو بھلا تقلید ہی کیوں کرتے؟ رہی بات کہ جس کی وہ تقلید کرتے ہیں، یعنی کہ حنفی مقلدین کے امام اعظم تو ان کے اقوال کو قبول کرنے میں بہت سی باتیں مانع ہیں۔ اول تو ان کے اقوال ان نا قابل اعتبار حنفی مقلدین سے بلا سند منقول ہیں، اور منقول بھی صرف اقوال ہیں، دلائل تو منقول ہی نہیں، اور یہ ناقابل اعتبار جو خود مقلدین ہیں اپنے امام اعظم کے اقوال کے دلائل تراشنے کی کوشش کیا کرتے ہیں!! فتدبر!!
دوسرے یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی حدیث پیش کررہاہو وہ نفس مسئلہ میں بھی مصیب اوربرسرحق ہو ۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ وہ حدیث منسوخ یاموول ہو یاپھر اس نے حدیث کا معنی ومطلب سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہو بہرحال اگر ہمارے اہل حدیث حضرات اسی پر کماحقہ غورکرلیں تو بہت سارے نزاعی مسائل کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
جی جناب! بات تو آپ کی صحیح ہے مگر آپ نے اس کا اطلاق غلط کیا ہے۔
"کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا" والا معاملہ فقہ حنفیہ میں ہے، فقہ الاسلامی میں نہیں!!
اب تقلید پر ہی ان حنفی مقلدین کے بزعم خویش دلائل کو دیکھ لیجئے!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کچھ عرصہ قبل اصول کرخی کے فقہ حنفیہ میں مقبول ہونے پر ایک تحریر اردو مجلس پر لکھی تھی اسی کو یہاں پیش کیئے دیتا ہوں! اس پر کوئی اعتراض ہو تو اسے ضرور پیش کیجئے گا!
ہمیں اس تحریر پر یہ اعتراض ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ سچائی پر مبنی ہے۔ ابن داود آپ کو کم ازکم ان گلابی سلفی حضرات کے حساس جذبات کا ضرور خیال کرنا چاہیے تھا جن کا دل اس اظہر من الشمس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگر آپ کو اتنی کڑوی تحریر پیش ہی کرنا تھی تو کم ازکم اس میں حنفیوں کا کچھ جھوٹا احترام، جھوٹی تعریف اور ناجائز دفاع بھی شامل کرتے تاکہ تحریر کی شدت میں کچھ کمی آتی اور ہمارے بھائیوں کے ہاضمے بھی خراب نہ ہوتے۔ بہرحال غلطی انسانوں ہی سے ہوتی ہے آئندہ خیال رکھئے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
شاہد نذیر بھائی،
ہر بات کے کہنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ہم آپ کی کہی گئی بات یا موقف سے قطع نظر، آپ کے لب و لہجہ کی درستگی کے لئے آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ فورم پر مخاطب جو بھی ہو اس سے محفل کے آداب گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کی جائے۔ آپ کے لب و لہجہ میں طنز و طعن اور مخاطب کے لئے تحقیر پائی جاتی ہے، جس کیلئے کئی دفعہ آپ سے گزارش کی جا چکی ہے کہ اس پر کنٹرول کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا اور طالب نور بھائی کا موقف کم و بیش ہر مسئلے میں ایک سا ہے، اس کے باوجود ہمیں کبھی اس قسم کی کوئی گزارش طالب نور بھائی سے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
یہ ایک عمومی درخواست ہے، برائے مہربانی اسے کسی خاص واقعہ یا بات چیت کے تناظر میں نہ سمجھئے گا۔
پیشگی شکریہ۔
والسلام
 
Top