السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے اس اصول کو فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ قراردیاہے جب کہ میرے علم کے مطابق یہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔
اب آپ کے سامنے دوراستے ہیں
ایک تیسری شکل یہاں بچتی ہے اور بہت عام ہے ۔
وہ یہ کہ مولویانہ کٹھ حجتی سے کام لیں۔
ویسے ہمیں امید ہے کہ آنجناب اوپر کی دونوں شقوں پر ہی اکتفاء کریں گے اورتیسرے شق کی نوبت نہیں آئے گی۔ والسلام
کچھ عرصہ قبل اصول کرخی کے فقہ حنفیہ میں مقبول ہونے پر ایک تحریر اردو مجلس پر لکھی تھی اسی کو یہاں پیش کیئے دیتا ہوں! اس پر کوئی اعتراض ہو تو اسے ضرور پیش کیجئے گا!
اور میاں ندوی صاحب! آپ ذرا پرائیوٹ میں ہی اپنے ہم مسلک اہل الرائے ، جمشید میاں سے بھی مشورہ کر لیں، انہوں نے اسے فورم پر ایک تحریر لکھی ہے، جس میں اصول کرخی کی لغت و شرح کے اعتبار سے نا قابل قبول تشریح پیش کی ہے، اور اصول کرخی کا دفاع کیا ہے۔ اور یہ اصول فقہ حنفیہ میں مقبول نہیں اور صرف آپ کے امام کرخی کی رائے ہوتی تو میاں جمشید جیسے "طحاوی دوراں" کبھی اس کا دفاع نہ کرتے، بلکہ آپ کی طرح کہہ دیتے کہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔
ویسے ایک کام کیجئے ذرا جمشید میاں سے آپ اس بات پر اسی تھریڈ میں بحث کر لیں کہ آیا آپ کا موقف کہ یہ آپ کے امام کرخی کی ذاتی رائے ہے اور فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ نہیں یا آپ کے "طحاوی دوراں" کی بات صحیح ہے۔ ہم تو اس بات کی دلیل رکھتے ہیں کہ یہ فقہ حنفیہ کا معروف ہی نہیں بنیادی قاعدہ ہے!
تو لیجئے جناب وہ دلائل بھی حاضر خدمت ہیں:
درس فقہ حنفیہ ۔سبق اول:
فقہ حنفیہ کو سمجھنے کے لئے آپ کو فقہ حنفیہ کے اصول سمجھنا ضروری ہے۔ ہم درس فقہ حنفی کے پہلے سبق میں فقہ حنفیہ کا اہم ترین اصول بیان کریں گے۔جو امام ، امام ابوالحسن کرخی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے رسالہ " اصول الکرخی" میں تحریر کیا ہے ۔ جس سے آپ کو فقہ حنفیہ کی بنیاد سمجھ آجائے گی ۔ ان شاءاللہ!
فقہ حنفیہ کا بنیادی اصول:
الاصل : ان كل آية تخالف قول اصحابنا فانها تحمل على النسخ او على الترجيح والاولى ان تحمل على التاويل من جهة التوفيق۔
بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے اسکو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا پھر اسکو مرجوع سمجھا جائے گا (یعنی فقہا احناف قول کو ترجیح دینگے) اور بہتر یہ ہے کہ اپنی پوری صلاحیت اسکو تاویل پر محمول کیا جائے (یعنی قرآن کی آیت کی تاویل کر لی جائے) تا کہ دونوں میں تطبیق ہو جائے۔
فقہ حنفیہ کے طالب علمو ! اگر آپ ابن نجیم کی طرح فقیہ العصر بننا چاہتے ہیں تو مندرجہ بالا اصول کو صحیح طورپر سمجھ لیجئے۔ فقیہ حنفیہ کے اس اصول میں مندرجہ ذیل باتیں مذکور ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک بات ایک اصول و قاعدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
۱:۔ قرآن کی آیات فقہاء احناف اقوال کے مخالف ہوتی ہیں۔
کھبی غلطی سےبھی یہ بات زبان سے نہ نکل جائے کہ فقہا احناف کا قول قرآن کے خلاف ہے۔ ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ آپ اگر علم الجبر والمقابلہ اور علم طبعیات سے واقف ہیں تو آپ کو یہ بات سمجھنا آسان ہوگی۔ کہ پہلے ایک سمت کو معیار قرار دیا جاتا ہے ۔ اور پھر اس کی مخالف کو مخالف سمت تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فقہ حنفیہ میں پہلے اپنے فقہا کو معیار قرار دیا گیا ہے، اب اس کی مخالفت کرنا والا مخالف قرار دیا جائے گا۔ جیسا کہ اصول کرخی کے اس اصول کی عبارت میں ہے،
"ان كل آية تخالف قول اصحابنا" بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف آجائے۔ تو اس عبارت میں قرآن کی آیت کی فقہ حنفیہ سے مخالفت کا تذکرہ ہے۔ کوئی یوں نہ کہے کہ " اگر ہمارے اصحاب کا قول قران کی آیت کے مخالف آجائے"۔ کیونکہ اس میں فقہا احناف کی تحقیر و توہین لازم آتی ہے۔ اور یہ فقہ حنفیہ میں قطعی جائز نہیں۔ قرآن کی تحقیر و توہین کی تو اضطراری کیفیت فقہ حنفیہ جائز ہے۔ جیسا کہ علاج کے لئے قرآن کو نکسیر کے خون (جو کہ فقہ حنفیہ میں ناپاک ہے)، اور پیشاب سے لکھنا بھی جائز ہے۔ یہ سبق بعد میں تفصیل سے پڑھایا جائے گا۔ فالوقت صرف اشارہ مقصود تھا۔ فقہا احناف کی تحقیر سے بڑھ کر اضطراری کیفیت اور کیا ہو سکتی ہے!! لہذا یوں کبھی نہ کہا جائے کہ" فقہا احناف کا قول قرآن کے خلاف ہے"، بلکہ اسی طرح کہا جائے کہ قرآن کی آیت فقہا احناف کے خلاف ہے۔
۲:۔ فقہا احناف کےاقوال وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔
فقہ حنفیہ کی رو سے حدیث سے قرآن کا نسخ نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی قرآن کے کسی حکم پر حدیث سے کوئی اضافہ کیا جاسکتا۔ (یہ سبق بھی بعد میں تفصیل سے پڑھایا جائے گا۔) لیکن فقہا احناف کے قول کی بنیاد پر قرآن کی آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ احادیث تو ثقہ رواۃ الحدیث سے با سند مروی ہونے کے با وجود بھی "ظنی" ہیں ،جبکہ فقہا احناف کے اقوال بلاسند درج ہونے کے باوجود بھی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہیں۔ لہذا اگر قرآن کی کوئی آیت فقہا احناف کے قول کے خلاف آئے تو اس آیت کو منسوخ قرار دیا جائے گا۔
۳:۔ قرآن کی آیت کی کا نسخ ،تطبیق کے نا ممکن ہونے کی صورت میں ہے۔
قرآن کی آیات کا نسخ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے منسوخ کیا ہے۔ بلکہ اس لئے ہے کہ اگر تطبیق ناممکن ہو ، اورتطبیق دینا ہی اولی ہے۔ اب اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ حنفی علماء قرآن کی آیت اور فقہا احناف کے اقوال میں تطبیق نہ دے سکیں۔ اور فقہ الاسلامی کے پیروکار ان کا ناطقہ بند کردیں، اس صورت میں قرآن کی آیت کو منسوخ قرار دے کر کم از کم بزعم خویش فقہ الاسلامی کے پیروکار کے اعتراضات کا جواب دیا جاسکتا ہےاور اس طرح فقہا احناف کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اب جب آپ کسی آیت کو منسوخ قرار دے دیں گے تو وہ آیت آپ پر کسی مسئلہ میں دلیل کے طور پیش نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن کسی آیت کو منسوخ قرار دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اکثر وہی آیات احناف کو دوسرے مسائل میں دلیل بنانے کی حاجت پڑ جاتی ہے۔ لہذا اولیٰ یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کے معنی اور مفہوم میں تاویل کی جائے اور اس آیت کے معنیٰ ومفہوم کو توڑ مڑوڑ کر فقہا احناف کے قول کے مطابق کر دیا جائے۔ لیکن یاد رہے، کہ فقہا احناف کے اقوال کو بالکل بھی حرف نہ آنے آنے پائے۔ فقہا احناف کے اقوال اسی جگہ قائم و دائم رہیں گے۔ صرف قرآن کی آیت کے معنیٰ کو تبدیل کیا جائے گا۔ اور اسی لئے علماء احناف کو علم الکلام اور فلسفہ کا ماہر بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ علم الکلام اور فلسفہ کو برئے کار لاتے ہوئے ، قرآن کی آیت کے معنی ٰ و مفہوم کوپھیر سکیں اور فقہا احناف کے اقوال کے ہم معنیٰ بنا سکیں۔
کچھ نا سمجھ حنفی بڑے بڑے علماء کے ناموں اور القابوں پر اپنا یوزر نام مثلا" الطحاوی" رکھ کر انٹرنیٹ فورمز میں فقہ حنفیہ کی نمائندگی کرتے ہیں مگریا تو وہ اس اصول سے ہی واقف نہیں ہوتے اگر واقف ہوتے ہیں تو وہ اسے فقہ حنفیہ کا شاذ اصول سمجھتے ہیں، اور فقہ حنفیہ کی نسبت لوگوں میں یہ بتلاتے ہیں کہ فقہ حنفیہ میں اس اصول کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ تمام باتیں ایسے لوگوں کی فقہ حنفیہ سے انتہائی درجہ کی جہالت کا ثبوت ہے۔ فقہ حنفیہ کے اس اصول کے معتبر اور معمول بہ ہونے کے بہت سے دلائل و شواہد ہیں۔ مگر اتنا بتلا دینا ہی کافی ہے کہ فقہ حنفیہ کا یہ اصول فقہ حنفیہ کے بہت بڑے امام ، امام ابوالحسن الکرخی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے رسالہ " اصول الکرخی" میں تحریر کیا ہے ، اور اس پر امام ابو منصور ماتریدی رحمۃاللہ علیہ ، جن کے احناف عقیدہ اور اصول میں پیروکار ہیں، کے پیروکارخاص، امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے حواشی تحریر کیئے ہیں۔ اور اس اصول کو قبول کیا ہے۔ لہذا آج کا کوئی انٹرنیٹ کا صارف جو خود کو حنفی گردانتا ہو وہ تو کیا کسی حنفی دارلعلوم کا استاد ، یا اگر دارلعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ بھی اس کا انکار کریں تو ،ان کے انکار کی کوئی وقعت نہیں۔
تنبیہ: نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے اس اصول کے حاشیہ میں فقہ الاسلامی کے حوالے سے ناسخ و منسوخ کی امثال ذکر کیں ہیں، جس میں وحی سے وحی کا نسخ بتلایا گیا ہے۔ یہ امثال فقہ االسلامی والوں کو بتلانے کے لئے لکھیں گئیں ہیں کہ فقہ السلامی میں بھی ناسخ و منسوخ ہے۔ تا کہ اس طرح فقہ الاسلامی کے پیروکار کو اس مسئلہ میں ٹال دیا جائے، کہ ناسخ و منسوخ تو کوئی اختلافی مسئلہ نہیں، اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ بھی فقہ السلامی کی طرح ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں۔ فقہ حنفیہ کے طالب علمو!آپ امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی رحمۃاللہ علیہ آپ لوگوں کے لئے آئیڈیل بنائیں، دیکھیں کس طرح وہ اس بات کو گول کر گئے کہ فقہ الاسلامی میں قرآن و حدیث کا نسخ قرآن و حدیث کی بنیاد پر ہوتا ہے، جبکہ فقہ حنفیہ کے اس اصول میں قرآن میں نسخ کی بنیاد فقہا حنفیہ کے اقوال ہیں۔
فقہ حنفیہ کے مطابق احادیث میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوتے ہیں:
۱:۔ بیان قرآن
۲:۔ بالکل ایک نئے حکم کے بیان میں جس سے قرآن کا کوئی تعارض نہیں
۳:۔ قرآن کے کسی حکم کو مغیر کرنے کےلئے
فقیہ حنفیہ کے میں تیسری قسم کی احادیث ، جو قرآن کا حکم مغیر کر تی ہیں مقبول نہیں۔ کیونکہ فقہا احناف کے نزدیک یہ نص قرآن پر زیادتی ہے۔ شیخ ابوالحسن کرخی رحمۃ للہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے قرآن کی آیت منسوخ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ زانی کو کوڑں کی سزا کے ساتھ جلاوطنی کی بھی سزا کو ملا لینا قرآنی سزا کو منسوخ کردیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تہمت کی حد اسی کوڑوں کے ساتھ بیس اور ملائے جائیں۔
اسی اصول کی بیناد پر فقہا احناف نے بہت سی صحیح احادیث کا انکار کر دیا، جن میں سے تین درج ذیل ہیں:
۱) وضو اور غسل میں نیت کے ضروری ہونے کی حدیث
۲) نماز کا اختتام سلام پھیرنے سے کرنا لازم ہونا
۳) نماز کے ہر ہر رکن میں اطمینان کا واجب ہونا
لیکن جب فقہا احناف کے اقوال قرآن پر زیادتی کرے جو فقہ حنفیہ کے نزدیک نسخ ہے، اس صورت میں فقہا احناف کے اقوال کے مطابق خواہ کوئی حدیث ہو یا نہ ہوفقیہ حنفیہ میں قران پر وہ زیادتی اور نسخ قبول کیا جاتا ہے۔
دونوں صورتوں کی دو دو امثال پیش کرتے ہیں جس سے فقیہ حنفیہ سے متعلق آپ کے سوال کا جواب انتہائی واضح ہو جائے گا۔
فقہ حنفیہ کے نزدیک قرآن کا نسخ فقہا احناف کے اقوال سے جب حدیث کی موافقت شامل ہے۔
۱) وطن میں اقامت ہونے کی حالت میں رہن رکھنے کا جواز حالانکہ قرآن مین رہن کا جواز اسی وقت ہے جب کہ انسان حالت سفر میں ہو۔ چونکہ فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، فقہ حنفیہ میں جائز ہے، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔
۲) جب لونڈی آزاد ہو جائے تو اس کا جو نکاح غلام سے ہوا ہے اس کی بابت اسے اختیار ہے اگر چاہے تو فسخ کر دے یعنی توڑ دے۔ چونکہ یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، فقہ حنفیہ میں جائز ہے، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔
فقہ حنفیہ کے نزدیک قرآن کا نسخ فقہا احناف کے اقوال سے جبکہ وہ احادیث سے ثابت بھی نہیں ہے۔
۱) وتر کو واجب قرار دینا، جبکہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ۔ لیکن یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔ فقہ حنفیہ کا یہی مؤقف ہے کہ وتر واجب ہے۔
۲) مہر کی کم سے کم مقدار کا دس درہم ہونا۔ جبکہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ۔ لیکن یہ بھی فقہا احناف کو اقوال سے یہ ثابت ہے ، گو کہ فقہ حنفیہ کی رو سے یہ قرآن پر زیادتی اور نسخ ہے۔ فقہ حنفیہ میں کم سے کم مہر دس درہم ہی ہے۔
مندرجہ بالا تحریر سے یہ واضح ہے کہ فقہ حنفیہ میں حدیث کی بنیاد پر تو قرآن کا نسخ نہیں ہوتا مگر فقہا احناف کے اقوال کی بنیاد پر ہو جاتا ہے۔
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔