السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
یہ بھی آنجناب کے روایتی’’اہل زبان ‘‘ہونے کی ایک اورنشانی وعلامت ہے‘‘ کہ آپ نے دومختلف عبارتوں میں بزعم خود تناقض فرض کرلیاہے
ارے میاں ندوی! اپنے ماسٹر کا نام تو بتایئے گا جس نے آپ کو اردو پڑھائی ہے، اور اسکول کا نام بھی بتلا دیں، تا کہ ہم لوگوں کو متنبہ کر سکیں کہ نہ اس اسکول اور نہ اس ماسٹر کے پاس بچوں کو بھیجیں، ورنہ ان کا حال ان ندوی میاں جیسا ہی ہوسکتا ہے!!
امام غزالی کی جانب اس کتاب کی نسبت کے صحیح ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے ۔ ہرایک نے اس کی جانب نسبت کو صحیح قراردیاہے۔
یہ کس نے کہا کہ یہ اس کتاب کی نسبت امام غزالی سے ہونے میں شک کیا گیا ہے؟؟ ذرا وہ عبارت تو پیش کیجئے!!
ابھی اسی تحریر کے آخر میں آپ اس کتاب کی نسبت امام غزالی سے ہونے میں ایک کھپ ڈالیں گے!! ارے میاں ندوی صاحب ! مراقبہ کی حالت میں لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں فرمایا کریں!!
جہاں تک امام ابوحنیفہ کے بارے میں قلیل العربیہ اورلیس مجتھدا کی بات ہے تواس کے بارے میں بعض علماء بلکہ اکثر کایہی کہناہے کہ چونکہ یہ تصنیف ابتدائے شباب کی تھی جب وہ جدل ومناظرہ کے شائق تھے لہذا اس وقت انہوں نے ایسالکھا
ارے میاں! ابھی پھر آپ نے کہا ہے کہ امام ابو حنیفہ کو "قلیل العربیہ" (یہاں آپ کی تصحیح کر دوں کہ عبارت میں قلیل العربیہ نہیں بلکہ "
لا يعرف اللغة" ہے) اور"
فلم يكن مجتهدا"
امام غزالی نے لکھا!!
یہاں آپ نے قبول کیا کہ امام غزالی نے آپ کے امام اعظم کے بارے میں
لکھا کہ آپ کے امام کو عربی لغت سے معرفت نہیں تھی اور وہ مجتہد نہیں تھے!!
لیکن جب توفیق الہی نے دستگیری کی اور ان کو ائمہ متبوعین کے مقامات رفیع کا علم ہواتوانہوں نے اس سے رجوع کرلیااوررجوع پردلیل یہ ہے کہ انہوں نے اس کے بعد المستصفی لکھی اوراس میں امام ابوحنیفہ کی شان کے خلاف ایک بھی لفظ نہیں لکھا۔
ارے میاں ندوی! یہ سبق بھی آپ کو تفصیل سے پڑھا دیں گے،!!!مگر اس سبق سے پہلے آپ نے فیصلہ کرنا ہے جس کا سوال کیا گیا ہے!!
اس کے بعد احیاء علوم الدین لکھی اوراس میں امام ابوحنیفہ کی شان میں وہی کچھ لکھاجوان کے بلند مقام کے مناسب ہے۔
امام ابو حنیفہ کا مقام کتنا بلند اور کن معاملات میں ہے ، یہ سبق تو وقتا وفوقتا پڑھایا جاتا رہے گا، اس کی فکر نہ کریں!!
اوراس پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب سنجیر کے دربار میں ان سے ان کی اس عبارت کے بارے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے واضح طورپر کہاکہ میں ان کو فن فقہ میں انتخاب روزگار خیال کرتاہوں اورمیراان کے بارے میں وہی اعتقاد ہے جوکچھ میں نے احیاء علوم الدین میں لکھاہے۔
یعنی کہ آپ اس سے بھی یہی دلیل قائم کرنا چاہتے ہین کہ یہ عبارت جو موضوع بحث ہے امام غزالی نے تحریر کی!
بعض شافعی علماء نے المنخول کی عبارت کو امام غزالی کی جانب صحیح مانتے ہوئے زیربحث جملہ کو صرف مدخولہ اورزبردستی کا داخل کیاہوابتایاہے۔
ارے ندوی میاں! یہ ہی تو ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ زیر بحث جملہ جب مدخولہ اور زبردستی کا داخل کیا ہوا ہے، یعنی کہ یہ جملہ امام غزالی کا نہیں۔ اور جب یہ جملہ امام غزالی کا ہے ہی نہیں تو
جب سنجیر کے دربار میں ان سے ان کی اس عبارت کے بارے میں سوال کیاگیا
اب بقول آپ کے یہ جملہ ہی ان کا نہیں تو سنجیر کے دربار میں اس سوال کا ہونا ہی محال ہے!! اور پھر وہ ابتدائے شباب ، گرمی خون، جدل و مناطرۃ، یہ ساری باتیں ہی بے معنی!!!
اورامام ابوحنیفہ کے حاسدین کیلئے نہ یہ کل بڑی بات تھی کہ دوسروں کی کتابوں میں اپنی بات داخل کردیں اورنہ ہی آج یہ بڑی بات ہے۔ وہ کل بھی اپنی یہ حرکتیں دوہرایاکرتے تھے اورآج بھی اپنے انہی اسلاف کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
ارے میاں ! آپ کے امام اعظم میں ایسی خوبی تھی کون سی جس پر کوئی حسد کرتا!! ہاں عبرت حاصل کرنے کے لئے آپ کے امام اعظم کی "سیرت" کا مطالعہ کرنا چاہئے!! کہ حدیث کی معرفت کے بغیر فتویٰ بازی کرنے سے کیسی کیسی ہفوات زبان پر صادر ہوتی ہیں!! اور مقلدین حنفیہ اپنے امام اعظم کے نقش قدم پر بڑی خوبی سے گامزن ہیں، اس کا ثبوت، فتاویٰ ہندیہ اور فتاویٰ شامی میں دیکھا جا سکتا ہے!!
فقہ حنفی عجبی ، فتاوی حنفی عجبی
فتاوی ہندی عجبی، فتاوی شامی عجبی
آنجناب نے اہل زبان ہونے کی بناء پر جویہ سمجھ رکھاہے ملحقہ اورزبردستی کا اشارہ پوری کتاب کی جانب ہے وہ نہایت غلط ہے۔ صحیح اہل زبان کی صحبت اختیار کریں توشاید اردو میں لکھی باتیں آنجناب کی سمجھ میں صحیح طورپر آئیں گی۔
ارے میاں ندوی!یہ آپ نے اپنی بے سرو پا قیاس آرائی کی ہے، ہم تو اس عبارت کو بھی ملحقہ نہیں سمجھتے، اور یہ عبارت ہم نے ہی امام غزالی کی کتاب سے پیش کی ہے! ہاں آپ نے اس عبارت کے ملحقہ ہونے کا دعوی بھی پیش کیا اور ملحقہ نہ ہونے کا بھی کہ یہ عبارت ملحقہ تو نہیں لیکن ابتدائے شباب کی ہے جب خون گرم تھا!!
ارے ندوی میاں! علم الکلام میں جھک مارنے کی وجہ سے غالبا آپ بھی مولانا محمد زکریا، صاحب تبلیغی نصاب کی طرح کسی مرض میں تو مبتلا نہیں ہو گئے!!! کسی حکیم ، ڈاکٹر سے رجوع کریں!! شاید آپ کو بھی تبلیغی نصاب کی طرح کوئی نصاب لکھنے کی فرصت مل جائے!!
ویسے آنجناب کی "علمی لیاقت" کو دیکھتے ہوئے یہ وضاحت کرنامناسب رہے گاکہ المنخول بھی امام غزالی کی تصنیف نہیں ہے بلکہ تعلیق ہے اورانہوں نے امام الحرمین کے اصول فقہ کے تعلق سے جوباتیں بکھڑی پڑی تھیں اس کو یکجاجمع کردیاہے۔
ارے میاں ! اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی اسکول مدرسہ کا رخ ہی نہیں کیا! کہاں کے رہنے والے ہو میاں! کہ جہاں کسی کی تعلیق کو اس کی تصنیف شمار نہیں کیا جاتا!! آپ کے ہاں مرغی کو پرندہ تو شمار کیا جاتا ہے نا، ایسا تو نہیں کہ آپ کے شہر میں مرغی کا شمار چوپائے میں ہوتا ہو!!!
جس کی تصریح انہوں نے المنخول کے آخر میں کردیاہے۔ لہذا اس کو درحقیقت امام الحرمین کی جانب ہی نسبت کرنی چاہئے نہ کہ امام غزالی کی جانب ۔
اسی تحریر کے آغاز میں آپ نے یہ کیا لکھا تھا!!
امام غزالی کی جانب اس کتاب کی نسبت کے صحیح ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے ۔ ہرایک نے اس کی جانب نسبت کو صحیح قراردیاہے۔
ہائے رے تقلید برا ہو تیرا! مت ماردی ہے تو نے ان حنفی مقلدوں کی!!
یہ بھی خوب کھپ ڈالی تھی کہ :
بعض علماء بلکہ اکثر کایہی کہناہے کہ چونکہ یہ تصنیف ابتدائے شباب کی تھی جب وہ جدل ومناظرہ کے شائق تھے
اور آپ نے شبلی نعمانی کے حوالے سے لکھا تھا کہ:
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی بیش قیمت تالیف "الغزالی" میں تفصیل کے ساتھ امام غزالی کے کلام پر بحث کیاہے اورکہاہے کہ یہ کتاب ان کے ابتدائے شباب کی تصنیف تھی جب خون گرم تھا ۔
تو میاں ندوی صاحب ! آپ کی یہ کھپ بھی جھک ثابت ہوئی، کیونکہ جب امام غزالی جوان تھے، ان کے شیخ، امام الحرمین تو ایک عمر رسیدہ شیخ تھے!! لہذا یہ کھپ کہ امام غزالی نےابتدائے شباب کے دور میں جب خون گرم تھا، جدل و مناظرہ کے شوق میں یہ بات لکھی تھی،آپ یعنی ندوی میاں کی جھک ثابت ہوئی!! کہ خون تو اس وقت امام غزالی کا گرم تھا، لیکن یہ بات تو امام الحرمین کی ہے( جیسا آپ نے کہا)، جسے امام غزالی نے قبول کیا، اور اپنی تصنیف میں رقم کیا!!
دوسرے امام غزالی نے ایک جگہ لکھاہے کہ "جو شخص یہ خیال کرتاہے کہ قیامت میں نفس اعمال تولے جائیں گے وہ نہایت جاہل اورسخت احمق ہے"میرا خیال ہے کہ اس لحاظ سے امام غزالی کی نگاہ میں آپ اورآپ کے ہم مسلک دیگر تمام لوگ سخت احمق اورجاہل ہیں"۔
ندوی میاں! معلوم ہوتا ہے کہ جمشید میاں آپ کے کلون شدہ بھائی ہیں! ان سے بھی جب کوئی جواب نہیں بن پاتا تو ایسے ہی فرار اختیار کرتے ہیں!! اس کا سیدھا سا جواب آپ کو دیئے دیتے ہی:
آپ کا خیال باطل ہے!!
اب اس کا جوکچھ جواب آنجناب دیں گے وہی جواب ہماری جانب سے بھی ہوگا۔
میاں! ندوی صاحب! ہم نے اپنا کوئی خیال پیش نہیں کیا ہے! آپ کو امام غزالی کی کتاب سے عبارت پیش کی ہے!! اور اس پر آپ نے جو بے سروپا احتمالات کی کھپ ڈالی ہے اس پر اعتراض پیش کیا ہے!! کہ یہ عبارت امام غزالی کی المنخول میں لکھی ہے یا نہیں! مکمل سوال ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں!!
ندوی میاں! ہمارا سوال اب تک قائم ہے، اس کا جواب دیں!!
ارے ندوی میاں! اب پہلے تو آپ اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ ان دو میں سے کون سی بات صحیح ہے؟ کہ" یہ امام غزالی ابتدائے شباب کی تصنیف تھی جب خون گرم تھا ۔"؟ یا "امام غزالی کی اس کتاب میں اس عبارت کو ملحقہ اورزبردستی کا داخل کیاہوابتایاہے۔ " یعنی الحاق ہے؟
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔