• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں تحریف کا علمی جائزہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں تحریف کا علمی جائزہ
[ قبروں پر قبے بنانے کی شرعی حیثیت]

تحقیق وتنقید
مولانا عبد الرحمٰن ضیاء​

جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺپر جھوٹ باندھا، خواہ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہو یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں، اللہ تعالیٰ نے اس کو مخفی نہیں رہنے دیا، بلکہ اس کا حال لوگوں کے سامنے ضرور واضح کر دیا۔ آپ ﷺپر جھوٹ باندھنے کی بدترین صورت آپﷺ کی حدیثِ مبارکہ میں تحریف و تبدیلی کا ارتکاب کرنا ہے۔امام محدث سفیان بن عیینہ﷫ کا فرمان ہے کہ "مَا سَتَرَ اللهُ أَحَدًا یَکذِبُ فِي الحَدِیْثِ"
’’ جو بھی حدیث میں کذب بیانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی۔‘‘
محدث عبد اللہ بن مبارک ﷫ فرماتے ہیں:
لَو هَمَّ رَجُل فِي السَّحَرِ أَن یَّکذِبَ فِي الحَدِیْثِ، لَأصْبَحَ وَالنَّاسُ یَقُولُونَ: فُلاَن کَذَّاب
’’اگر کوئی شخص سحری کے وقت حدیث شریف میں جھوٹ بولنے کا قصد کر لے تو صبح کے وقت ہی لوگ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ فلاں (حدیث میں جھوٹ بولنے والا) شخص کذاب ہے۔ ‘‘
حال ہی میں٦٦٠ صفحات پر مشتمل ’گستاخ کون؟‘ نامی ایک کتاب چھپی ہے جو مفتی محمد حنیف قریشی بریلوی اور سید طالب الرحمٰن شاہ کے مابین مناظرہ پر مشتمل ہے اور سید امتیاز حسین شاہ کاظم ضیائی بریلوی نے اسے ترتیب دیا ہے اور کاظمی ضیائی صاحب نے اس کتاب کے مختلف مقامات پر ضروری حاشیہ جات بھی لگائے ہیں اور یہ اکثر حاشیہ جات بھی اُن کے مناظر مفتی محمد حنیف قریشی بریلوی کے اِفادات ہی سے ہیں جیسا کہ اس کی وضاحت انھوں اسی کتاب کے ص40 پر خود کی ہے۔
اَب یہ بات تو اہل علم و تحقیق کو بخوبی معلوم ہی ہے کہ فی زمانہ قبر پرست لوگ بزرگوں کی قبروں پر لاکھوں کروڑوں کے جوقبے اور مزارات تعمیر کرتے ہیں ،کتاب و سنت میں اُن کی کوئی دلیل نہیں۔قبروں پرجو مزار یا دربار تعمیر کئے جاتے ہیں، ان کا اصل مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ دور دراز سے اِن قبروں میں مدفون بزرگوں سے مرادیں مانگنے، مشکلات حل کرانے، چڑھاوے چڑھانے اور نذرانے پیش کرنے کے لئے حاضری دیں۔ اسی لئے ان پر سالانہ عرس بھی منائے جاتے ہیں تاکہ ان کی سرپرستی کرنے والے گدی نشین مال و دولت سے مالا مال ہوں۔اسی لئے ان درباروں، مزاروں کے تحفظ کی خاطر کئی ایک جھوٹ بولے جاتے ہیں اور عوام الناس کی آنکھوں میں دھول ڈالی جاتی اور اُنہیں اصل حقائق سے در پردہ رکھا جاتا ہے۔ اُنھیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ یہ رسول اللہ ﷺکے کسی فرمان سے ثابت نہیں، نہ ہی کسی صحابی سے ثابت ہیں اور نہ ہی تابعین﷭سے، حتیٰ کہ اَئمہ اربعہ امام مالک، ابو حنیفہ ،شافعی اور احمد﷭سے بھی ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔لیکن صد اَفسوس کہ ان درباروں، مزاروں کو ثابت کرنے اور اُنہیں اسلام کا حصہ قرار دینے کی خاطر اس عظیم ہستیﷺپر جھوٹ باندھتے بھی شرم نہیں کی جاتی، جس نے یہ فرمایا ہے:
«مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقعَدَه مِنَ النَّارِ»
’’جو کوئی مجھ پر عمداً جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
چنانچہ اسی کتاب ’گستاخ کون؟‘ کے ص 158،159 پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ میں تحریف و تبدیلی کرتے ہوئے مزار و دربار بنانے کی دلیل مہیا کرتے ہوئے کاظمی ضیائی صاحب لکھتے ہیں:
’’مسلم شریف جلد اوّل، ص 117 پر حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
خَطَبَنَا رَسُولُ الله ﷺ فَأَسنَدَ ظهره إليٰ قبّـة آدم فقال: «ألا لا یدخل الجنّة إلا نفس مسلمة»
’’رسول اللہ ﷺ نے قبہ آدم کے ساتھ ٹیک لگا کر (ہمیں) خطبہ اِرشاد فرمایا اور فرمایا: آگاہ رہو کہ جنت میں سوائے مسلمان کے کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ الحدیث
پھر کہتے ہیں: اس سے ثابت ہوا کہ قبہ گرانا واجب نہیں۔ اگر قبہ گرانا واجب ہوتا تو رسول ﷺخطبہ ارشاد فرمانے سے پہلے اس قبہ کو گرانے کا حکم اِرشاد فرماتے۔ ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اصل حقیقت
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
خَطَبَنَا رَسُولُ الله ﷺ فَأَسنَدَ ظَهرَهُ إِلىٰ قُبَّةِ أَدَمٍ فَقَالَ: «أَلاَ لاَ یَدخُلُ الجَنَّـةَ إلَّا نَفس مُسلِمَة»
اب اس کا اصل اور صحیح ترجمہ اس طرح ہے :
’’سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ رسول اللہ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو اپنی کمر کو چمڑے سے بنے ہوئے ایک خیمے سے ٹیک دیا (یعنی آپﷺ نے اس چمڑے کے خیمے کے ساتھ ٹیک لگا لی) تو آپﷺ نے فرمایا :...الخ
مسلم شریف میں موجود عبد اللہ بن مسعود کی یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے، اس کے الفاظ سے بھی روشن سورج کی طرح واضح ہے کہ اس جگہ یہی ترجمہ صحیح ہے، چنانچہ صحيح بخاری میں یہ الفاظ ہیں:
بَینَمَا رَسُولُ الله ﷺ مُضِیف ظَهرَهُ إِلىٰ قُبَّةٍ مِن أَدَمٍ یَمَانٍ
’’ ایک دفعہ رسول اللہﷺ یمنی چمڑے کے خیمہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا...الخ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
لفظِ قُبّـة کی تحقیق
ہم کہتے ہیں کہ لفظ قُبّہ کا معنیٰ
’’چھوٹا خیمہ جو اوپر سے گول ہو‘‘
بھی ہے۔ چنانچہ عربی لغت کی مشہور کتاب المُعجم الوسیطمیں ہے:
خَیمَة صَغِیرَة أَعلَاهَا مُستَدِیر
یہ خیمہ عرب کے اندر عام تھا اور وہ سفر و حضر میں بنا لیا کرتے تھے۔ مسجدِ نبویؐ کے اندر بھی بنا لیا جاتا تھا۔اس طرح کا قُبّہ(خیمہ) عرب لوگ حج کے ایام میں منیٰ و عرفات وغیرہ میں بنالیا کرتے تھے۔ یہ خیمہ چمڑے اور کپڑے وغیرہ سے بنایا جاتا تھا۔ لفظِ ’قبّہ‘ بمعنیٰ خیمہ کئی ایک احادیث میں وارد ہوا ہے۔ مثلاً:
1 صحیح بخاری میں ہے کہ اُمّ المومنین سیدہ عائشہؓ صدیقہ نے آپ ﷺ سے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی: فَضَرَبَت فِیهِ قُبَّةً تو اُنھوں نے مسجد میں ایک قبّہ(چھوٹا سا خیمہ)لگالیا۔ پھر اُمّ المومنین حفصہ بنت عمر بن خطابؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے بھی ضَرَبَت قُبَّةً یعنی ایک چھوٹا سا خیمہ لگا لیا۔ اسی طرح اُمّ المومنین سیدہ زینبؓ نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ آپﷺ نے جب فجر کی نماز پڑھائی تو أَبصَرَأَربَعَ قِبَابٍ یعنی مسجد میں چار خیمے لگے دیکھے۔ الخ
اس بات کی دلیل کہ اس حدیث میں وارد لفظ قُبّہ یا قِبَاب کا معنی چھوٹا خیمہ ہی ہے، یہ ہے کہ اسی حدیث پر امام بخاری﷫ نے یہ باب بھی منعقد کیا ہے: بَابُ الأخبِیَة فِي المَسجِدِ (مسجد میں خیمے لگانے کا بیان یعنی اعتکاف کے لئے) اس حدیث میں قُبّہ کی جگہ پر اس کے راوی امام مالک﷫ نے خِبَاء(خیمہ) کا لفظ استعمال کیا ہے۔
2 امام بخاری﷫یہ حدیث باب اعتکاف النساء میں بھی لائے ہیں۔ اس میں اس کے راوی حماد بن زید نے بھی قبہ کی جگہ خباءکا لفظ ہی استعمال کیا ہے بلکہ ان دونوں یعنی امام مالک﷫اور حماد بن زید نے قبّہ کی جمع قِبَاب کی جگہ اَخبِية یعنی خِبَاء کی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس حدیث میں وارد لفظ’ قبّہ‘ کا معنیٰ چھوٹا خیمہ ہی ہے۔
3 اسی طرح اُمّ المومنین عائشہؓ کے لئے منیٰ میں ایک ترُکی قُبّہ (یعنی چھوٹا خیمہ) لگا دیا گیا تھا تاکہ وہ عام لوگوں سے حجاب میں رہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ:هِیَ فِي قُبّةٍ تُرکِیّةٍ لَهَا مذکورہیں کہ وہ اپنے ترکی خیمہ میں تھیں۔ ابو جحیفہؓ فرماتے ہیں:
رَأَیتُ قُبَّةً حمراءَ مِن اَدَمٍ لِرَسُوْلِ الله ﷺ
’’میں نے رسول ﷺکے لئے لگایا گیا چمڑے کا سرخ رنگ کا چھوٹا سا خیمہ دیکھا۔ ‘‘
ایک اور صحابی کا بیان ہے:
دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللهِ وَ نَحنُ فِي قُبَّةٍ فِي مَسجِدِ المَدِینَةِ... الخ
’’رسولﷺ ہمارے پاس آئے جبکہ ہم مدینہ کی مسجد میں ایک قبہ(خیمہ) میں تھے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ کاظمی ضیائی صاحب کے ہم مسلک و فکر اور بریلویہ کے نامور عالم علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی صحیح مسلم کی اس حدیث کا ترجمہ اسی طرح کیا ہے کہ
’’ایک چمڑے کے خیمے کے ساتھ رسول اللہ ﷺٹیک لگائے خطبہ دے رہے تھے۔ الخ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قواعدِ عربیہ یعنی علم نحو کی روشنی میں اس تحریف و تبدیلی کی وضاحت
جو اہلِ علم طلبا و مدرّسین، علم نحو ( یعنی عربی قواعد) جانتے ہیں اُنھیں خوب علم ہے کہ عربی گرامر میں اضافت کے بارے میں ایک مستقل بحث ہوتی ہے، اس کی تعریف اور مختلف اعتبار سے تقسیم ہوتی ہے اور اضافت ِمعنوی کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
1ضافتِ لامیّہ اضافتِ بیانیہ اضافت ظرفیہ
اگر مضاف الیہ مضاف کی جنس ہو تو اسے اضافتِ بیانیہ کہا جاتا ہے جیسے: خاَتَمُ فِضَّةٍ چاندی کی انگو ٹھی۔ اس میں انگوٹھی چاندی کی جنس سے ہےیعنی خاتم من فضّة
اگر مضاف الیہ مضاف کی ظرف ہو تو اسے اضافتِ ظرفیہ کہا جاتا ہے جیسے: صَلوٰة اللَّیلیعنی رات کی نماز یعنی اللیل (رات) نماز پڑھنے کا ظرف زمان ہے۔ اسی طرح قرآن میں وارد ﴿ بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ ﴾ سے مراد: المکر في اللیل والنهار ہی ہے۔
اگراضافت کی قسم ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتو اسے اضافتِ لامیہ کہا جاتا ہے جیسے : کِتَابُ خَالِدٍ خالد کی کتاب۔ اس میں خالد نہ کتاب کی جنس سے ہے اور نہ ہی اس کا ظرفِ زمان و مکان ہے، اس میں عام طور پر لام مقدر ہوتا ہے یعنی کِتَاب لِّـخَالِدٍ
مسلم شریف میں وارد حدیث میں مذکورہ الفاظ :قُبَّة اَدَمٍ میں اضافتِ معنوی بیانی ہے۔ کیونکہ اس میں مضاف قُبّة بمعنی خیمہ،أدم بمعنی چمڑا کی جنس سے ہے یعنی قُبّة مِن أَدَم۔ جیسا کہ کوئی کہے ثَوبُ حَریرٍیعنی: ثَوب مِن حَرِیر ریشم کا لباس۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: ﴿ عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ ﴾ کپڑے اور ریشم ہم جنس ہیں۔
اسی طرح قُبّة(خیمہ) اور أدَم (چمڑا)ہم جنس ہیں۔ یعنی خیمہ کا مادہ (جس سے خیمہ بنایا گیا ہے) چمڑا ہے، جیسا کہ انگوٹھی کا مادہ چاندی اور کپڑے کا مادہ ریشم ہے۔اور ان سب میں مِنمقدر یعنی پوشیدہ ہے یعنی خَاتَم مِن فِضَّةٍ، ثِیَاب مِّن سُندُسٍ اور ثَوب مِن حَریرٍ.
اب ہم اس کی دلیل بھی احادیث ہی سے مہیا کرتے ہیں کہ اس جگہ قُبَّةِ اَدَمٍ اضافتِ بیانی ہے نہ کہ لامی اور ظرفی۔ اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان میں مِن پوشیدہ ہے۔ چنانچہ بہت سی احادیث میں یہ مِن ذکر بھی ہوا ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں کتاب فرض الخمس، باب نمبر 13 حدیث 4137 میں انصار صحابہ کے بارے میں مذکور ہے:
فَجَمَعَهُم فِي قُبَّةٍ مِن اَدمٍ’’آ دم نے اُنھیں چمڑے کے ایک قبہ (یعنی خیمہ) میں جمع کیا‘‘
ابو جحیفہؓ کابیان ہے کہ
رَأَیتُ رَسُولَ الله ﷺ فِي قُبَّةٍ حمراء مِن اَدَمٍ
میں نے رسول اللہ ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ قُبَّه (یعنی خیمہ) میں دیکھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
زیرِ نظرحدیث میں لفظی و معنوی تحریف کا ارتکاب
اَب قارئین حضرات کاظمی ضیائی صاحب کی حدیثِ نبوی میں تحریف و تبدیلی بخوبی سمجھ گئے ہوں گے، وہ یہ کہ انہوں نے اس حدیث میں لفظی تحریف بھی کی ہے اور معنوی تحریف بھی۔لفظی تحریف تو یہ ہے کہ اُنہوں نے لفظِ اَدم بروزن فَرَس کو تبدیل کر کے آدَم بروزن عالَم اور قالَب بنا دیا ہے اور کتاب میں حدیث کے اندر ہی آدم لکھ دیا ہے۔
اور معنوی تحریف یہ کی ہے کہ
اولاً: ادم سے حضرت آدم مراد لئے ہیں اور ترجمہ بھی آدم ہی کیا ہے۔
ثانیاً: قُبَّةسے قبر پر بنایا گیا گنبد و مزار مراد لیا ہے۔
لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے مزعومہ بزرگوں کی اصلی وغیر اصلی قبروں پر جو قبے بنائے جاتے ہیں، ان کے جواز کے لئے تحریف و تبدیل کردہ یہ حدیث بطورِ دلیل پیش کی ہے۔ یعنی حدیث کا لفظ بھی بدلا اور ترجمہ بھی غلط کیا اور قبہ اَدم میں جو اضافتِ بیانیہ تھی، اسے بھی تبدیل کر کے اضافت ِلامیہ بنا دی ۔ یعنی قُبَّةٍ مِّن اَدَمٍ کو بدل کر قُبَّةٍ لآدَمَ بنا دیا۔
حالانکہ صحیح مسلم والی عبد اللہ بن مسعود کی یہی حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے ، اس کے الفا ظ سے بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اس جگہ اضافتِ بیانیہ ہے ، چنانچہ بخاری میں یہ الفاظ ہیں:
بَیْنَمَا رَسُوْلُ الله ﷺ مُضِیف ظَهْرَهُ إِلى قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ یَـمَان
یعنی ’’ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ یمنی چمڑے کے خیمہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا۔ الخ‘‘
قارئین! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس حدیث میں کتنے صاف الفاظ ہیں یعنی قُبَّةٍ مِّن اَدَمٍ یَمَانٍ یمنی چمڑے سے بنایا گیا قبہ (یعنی خیمہ)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کیا حضرت آدم کی قبر مدینہ نبویہ یا مسجدِ نبوی میں ہے؟
پھر آپ حضرات ایک اور طرح سے بھی سوچیں کہ کیا سیدناآدم کی وفات مدینہ نبویہ میں ہوئی تھی؟ اور کیا ان کا قبہ یعنی دربار اور مزار مسجدِ نبویؐ میں تعمیر ہوا تھا؟ وہ مسجد نبوی کے کس کونے میں تھا؟ یا پھر مدینة النبي ﷺمیں تھا اور کہاں تھا؟ اس کا ثبوت ضیائی اور قریشی صاحب کے ذمہ ہے۔
مسجدِ نبوی میں خیمے نصب کرنے کا ذکر تو ذخیرہ احادیث میں بکثرت ملتا ہے کیا کسی حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ آدم کا قبہ مسجدِ نبوی میں تھا یا مدینة النبي میں تھا؟یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں۔اہلِ تحریف کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے،اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی چاہئے۔
اہلِ تحریف لوگ دراصل درباروں ، مزاروں سے غالیانہ محبت میں اندھے ہو چکے ہیں، ان کو ثابت کرنے اور اسلام کا حصہ قرار دینے کے لئے ہر طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ حدیثِ نبوی میں تحریف و تبدیلی ان کا آخری حربہ تھا جو اُنہوں نے کر دکھایا۔ یہودیوں کی بھی یہی عادت تھی کہ وہ اپنے خود ساختہ باطل نظریات کو ثابت کرنے اور انھیں شریعت کا حصہ قرار دینے کے لئے تورات میں تحریف کر دیتے تھے، جیسا کہ قرآن اس پر شاہد عدل ہے اور اس کی تفصیل شاہ ولی اللہ دہلوی﷫ کی کتاب الفوز الکبیر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
نصوصِ الٰہیہ میں تحریف کرنا شیوۂ یہود تھا
شاہ ولی اللہ دہلوی﷫ نے الفوز الکبیر میں یہودیوں کی گمراہیوں میں ایک گمراہی یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ تورات کے احکام میں لفظی یا معنوی تحریف ( تبدیلی ) کر دیتے تھے۔ وہ تورات کی آیات کے ساتھ ان چیزوں کا بھی اضافہ کر دیا کرتے تھے جو اُن سے نہیں تھیں۔ وہ تورات کی آیات کا کتمان کیا کرتے تھے۔ تورات کے احکامات کا نفاذ نہیں کرتے تھے۔ اپنے مذہب کی نہایت بے جا حمایت کرتے تھے۔
تنبیہ: الفوز الکبیر کی شرح الخیر الکثیرکے صفحہ :135 میں ہے کہ
’’قرآنی وحدیثی تحریف لفظی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن یا حدیث کے کسی لفظ کو دوسرے لفظ سے بدل دینا، کسی لفظ کو بڑھا دینا یا کسی لفظ کو کم کر دینا۔‘‘
(میں کہتا ہوں:اگر کم کر دینے سے حق کی پردہ پوشی مراد ہو تو یہ کتمانِ علم میں داخل ہے جو کہ نا جائز ہے ۔)
تحریفِ معنوی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کے کسی لفظ کا ترجمہ یا تشریح اس طرح کرنا جو شارع کی مراد کے خلاف ہو۔ شاہ ولی اللہاس بحث کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’اگر تم یہودیوں کا نمو نہ دیکھنا چاہتے ہو تو ان علمائے سُوکو دیکھ لو جو دنیا کے طالب ہیں اور اپنے بڑوں کی تقلید کے گرویدہ ہیں اور کتاب و سنت کی نصوص (یعنی صریح آیتوں اور حدیثوں) سے اعراض کرتے ہیں اور کسی عالم کے تعمق و تشدد اور اس کے استحسان کو دلیل بناتے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے معصوم شارع ( نبیﷺ) کے کلام سے اعراض کیا ہے، موضوع (خود ساختہ) حدیثوں اور فاسد تاویلوں کو اپنا اُسوہ (نمونہ) بنایا ہے۔ تو تم اُن لوگوں کو دیکھو گویا یہ وہی (یہودی) ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فقہ حنفی کی روشنی میں قبروں پر قبے اور مزار وغیرہ بنانے کا حکم
میں کہتا ہوں کہ ان اہلِ تحریف کی یہ تحریف قرآن و حدیث کی نصوص کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے امام یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت﷫ کے مذہب کے بھی خلاف ہے جو کہ فقہ حنفی کی اکثر کتب میں مذکور ہے۔
چنانچہ احناف کے نامور مفتی علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
عَن أَبِي حَنِیْفَةَ یَکرَهُ أَن یُبنٰی عَلَیهِ بِنَاء مِّن بَیْتٍ أَو قُبَّةٍ أَو نَحوِ ذَلِكَ لِمَا رَویٰ جَابِر نَهٰى رَسُولُ الله ﷺ ... الخ
اس کے بعد مسلم شریف کی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ نیچے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے۔یعنی امام ابو حنیفہ﷫ قبر پر کسی قسم کا مکان اور قبہ بنانا مکروہ جانتے تھے، کیونکہ جابر نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر کچھ لکھنے اور عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
امام شافعی﷫ کی شہادت
ان کی یہ تحریف امام شافعی﷫ کی صراحت کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ شارح صحیح مسلم علامہ شرف الدین نووی﷫ فرماتے ہیں کہ امام شافعی﷫ نے اپنی کتاب الاُمّ میں کہا ہے کہ
رَأَیتُ الأَئِمَّةَبِمَکَّةَ یَأمُرُونَ بِهَدمِ مَا یُبنىٰ
’’میں نے مکہ میں دیکھا کہ قبروں پر جو کچھ بنایا جاتا تھا، ائمہ (یعنی حکام ) اس کے گرانے کا حکم دیتے تھے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قبروں پر بنے ہوے قبے منہدم کرنے پرعلماے مصر کا اتفاق
علامہ جلال الدین سیوطی﷫ نے حسن المحاضرة فی تاریخ مصر والقاہرة میں مصر میں قبروں پر تعمیرات و قبے وغیرہ منہدم کر نے پر ملک ظاہر بیبرس کے دور کے محققین علما کا اتفاق ذکر کیا ہے۔ ملک ظاہر نے اس وقت کے فقہا ( مثلاً: فقیہ علامہ ظہیر تزمنتی اور شیخ بہاء الدین بن جُمیزی اور ان جیسے علماے وقت )سے اس کا فتویٰ طلب کیا تھا تو ان سب نے خطوط لکھے اور بیک زبان ہو کر اتفاق کیا کہ حکمران پر ضروری ہے کہ ان سب کو ڈھادے اور بنوانے والوں کو مکلف کرے کہ اس کا ملبہ کیمان میں پھینک آئیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ امام شافعی کی قبر پر بنا ہوا قبہ بھی مصر ہی میں ہے۔
 
Top