• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم یونیکوڈ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
(55) باب بَيَانِ حُكْمِ عَمَلِ الْكَافِرِ إِذَا أَسْلَمَ بَعْدَهُ
باب:55-کافر کے اعمال کا حکم جب وہ ان کے بعد ایمان لے آئے۔




حدیث نمبر:323(123):

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ هَلْ لِي فِيهَا مِنْ شَىْءٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ مِنْ خَيْرٍ ‏"‏ ‏.‏
وَالتَّحَنُّثُ التَّعَبُّدُ ‏.


یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیرنے خبر دی کہ انہیں سیدنا حکیم بن حزامؓ نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا :کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ان کاموں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اللہ کی عبادت کی خاطرمیں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے ان کا اجر مجھے ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا :"کہ جونیک کام پہلے کرچکے ہو تم نے ان سمیت اسلام قبول کرلیا ہے۔"
تخنث کا مطلب عبادت گزاری ہے۔


حدیث نمبر:324(۔۔۔):

وَحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - قَالَ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا وَقَالَ عَبْدٌ، حَدَّثَنِي - يَعْقُوبُ، - وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ - حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىْ رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ صَدَقَةٍ أَوْ عَتَاقَةٍ أَوْ صِلَةِ رَحِمٍ أَفِيهَا أَجْرٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ مِنْ خَيْرٍ ‏"‏ ‏.

(یونس کے بجائے) صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حکیم بن حزامؓ نے ان کو بتایا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ان کاموں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اللہ کی عبادت کی خاطرمیں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے جیسے صدقہ و خیرات، غلام کا آزاد کرنا اور صلہ رحمی، ان کا اجر مجھے ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا :"کہ جوبھلائی کے کام پہلے کرچکے ہو تم ان سمیت اسلام میں داخل ہوئے ہو۔" (تمہارے اسلام کے ساتھ وہ بھی شرف قبولیت حاصل کر چکے ہیں کیونکہ وہ بھی شہادتین کی تصدیق کرتے ہیں۔


حدیث نمبر:325(۔۔۔):

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الإِسْنَادِ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَفْعَلُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ - قَالَ هِشَامٌ يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا - فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ لَكَ مِنَ الْخَيْرِ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ فَوَاللَّهِ لاَ أَدَعُ شَيْئًا صَنَعْتُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِلاَّ فَعَلْتُ فِي الإِسْلاَمِ مِثْلَهُ ‏.

ابن شہاب زہر ی کے ایک اور شاگرد معمر نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی، نیز (ایک دوسری سند کے ساتھ) ابو معاویہ نے ہمیں خبر دی: ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انہوں نے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: وہ (بھلائی کی) چیزیں (کام) جو میں جاہلیت کے دور میں کیا کرتا تھا؟ (ہشام نے کہا: ان کی مراد تھی کہ میں نیکی کے لیے کیا کرتا تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس بھلائی سمیت اسلام میں داخل ہوئے جو تم نے پہلے کی۔" میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے جو (نیک) کام جاہلیت میں کیے تھے ان میں سے کوئی بھی عمل نہیں چھوڑوں گا مگر اس جیسے کام اسلام میں بھی کروں گا۔

حدیث نمبر:326(۔۔۔):

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، أَعْتَقَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ ثُمَّ أَعْتَقَ فِي الإِسْلاَمِ مِائَةَ رَقَبَةٍ وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ ‏.

عبداللہ بن نمیر نے ہشام سے سابقہ سند سے روایت کی کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے دورِجاہلیت میں سو غلام آزاد کئے تھے اور سو اونٹ سواری کے لیے(مستحقین کو) دیے تھے ۔ پھر انہوں نے اسلام کی حالت میں (دوبارہ) سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دئیے۔پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ،۔۔۔آگےمذکورہ بالا حدیث کے مطابق بیان کیا۔

فائدہ: حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے نیکی کی غرض سے کیے بڑے کاموں جیسے بہت سے کام اسلام لانے کے بعد پھر سے کیے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلی دور کی نیکیوں کے بارے میں پوچھا۔ آپ کا جواب سن کر انہوں نے شکر کے جذبے کے تحت باقی ماندہ کاموں جیسے نیکی کے کام بھی اسلام لانے کے بعد دوبارہ کرنے کا عہد کیا۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
(56) باب صِدْقِ الإِيمَانِ وَإِخْلاَصِهِ
باب:56- سچا ایمان اور اخلاص


حدیث نمبر:327(124):

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‏}‏ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَالُوا أَيُّنَا لاَ يَظْلِمُ نَفْسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّونَ إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لاِبْنِهِ ‏{‏ يَا بُنَىَّ لاَ تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ‏{


عبداللہ بن ادریس، ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ”جو لوگ ایمان لائے ، پھر انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی“ اتری تو رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام پر یہ آیت گراں گزری اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہم میں سے کونسا ایسا ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا؟ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا تم خیال کرتے ہو۔ بلکہ ظلم سے مراد وہ ہے جو لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ ”اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کر، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے “ (لقمان: 13)۔

حدیث نمبر:328(۔۔۔):

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا عِيسَى، - وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ ح وَحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، كُلُّهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ، بِهَذَا الإِسْنَادِ قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ حَدَّثَنِيهِ أَوَّلاً أَبِي، عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ، عَنِ الأَعْمَشِ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ مِنْهُ، ‏.

اسحٰق بن ابراہیم اور علی بن خشرم نے کہا:ہمیں عیسی بن یونس نے خبر دی، نیز منجاب بن حارث تمیمی نے کہا: ہمیں ابن مسہر نے خبر دی، نیز ابو کریب نے کہا:ہمیں ابن ادریس نے خبر دی، پھر ان تینوں (عیسیٰ،ابن مسہر اور ابن ادریس) نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی۔ ابو کریب نے کہا: ابن ادریس نے کہا: پہلے مجھے میرے والد نے ابان بن تغلب سے اور انہوں نے اعمش سے روایت کی، پھر میں نے یہ روایت خود انہی (اعمش ) سے سنی۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
(57) بَاب تَجَاوُزِ اللہِ عَنْ حَدِيثِ النَّفْسِ وَالْخَوَاطِرِ بِالْقَلْبِ إِذَا لَمْ تَسْتَقِرَّ وبَيَانِ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لَمْ يُكَلِّفْ إِلَّا مَا يُطَاقُ
باب:57-اللہ تعالیٰ نے دل کی باتوں اور دل میں آنے والے خیالات سے اگر وہ مستقل طور پر دل میں جاگزیں نہ ہوجائیں تو ان سے درگزر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی پر اسے دی گئی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالی


حدیث نمبر:329(125):

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ الضَّرِيرُ، وَأُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ الْعَيْشِيُّ، - وَاللَّفْظُ لأُمَيَّةَ - قَالاَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، - وَهُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ - عَنِ الْعَلاَءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‏}‏ قَالَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ بَرَكُوا عَلَى الرُّكَبِ فَقَالُوا أَىْ رَسُولَ اللَّهِ كُلِّفْنَا مِنَ الأَعْمَالِ مَا نُطِيقُ الصَّلاَةُ وَالصِّيَامُ وَالْجِهَادُ وَالصَّدَقَةُ وَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيْكَ هَذِهِ الآيَةُ وَلاَ نُطِيقُهَا ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَقُولُوا كَمَا قَالَ أَهْلُ الْكِتَابَيْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا بَلْ قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ‏.‏ فَلَمَّا اقْتَرَأَهَا الْقَوْمُ ذَلَّتْ بِهَا أَلْسِنَتُهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي إِثْرِهَا ‏{‏ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ‏}‏ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ نَسَخَهَا اللَّهُ تَعَالَى فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏ لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا‏}‏ قَالَ نَعَمْ ‏{‏ رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا‏}‏ قَالَ نَعَمْ ‏{‏ رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ‏}‏ قَالَ نَعَمْ ‏{‏ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلاَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ‏}‏ قَالَ نَعَمْ ‏.


سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿ِللہ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْض …﴾ یعنی ”جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ تم اس بات کو ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا چھپائے رکھو، اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے لے گا، پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے “ تو یہ آیت صحابہ کرامؓ پر بہت ہی گراں گزری۔ وہ نبیﷺ کے پاس آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ پھر کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ (پہلے تو ) ہم نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ وغیرہ ایسے اعمال کے مکلف بنائے گئے تھے (جن پر طاقت رکھتے تھے )، اور اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ، اس کی تو ہم طاقت ہی نہیں رکھتے۔ نبیﷺ نے فرمایا :"کیا تم ویسی ہی بات کہنا چاہتے ہو جیسی تم سے پہلے دو اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) نے کہی تھی (یعنی انہوں نے کہا) ”سمعنا و عصینا“ کہ ہم نے (اللہ اور رسول کی بات کو) سن تو لیا ہے اور نافرمانی کی،بلکہ تم لوگ کہو کہ ہم نے (اللہ کی اور رسول کی بات کو) سن لیا اور اطاعت کی۔اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔" جب صحابہ کرامؓ یہ الفاظ دہرانے لگے اور ان کی زبانیں ان الفاظ پر رواں ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں ﴿اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ …﴾ یعنی ”رسول اللہﷺ اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور مومن لوگ بھی ایمان لائے۔ اور سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ،(اور کہا) کہ ہم (ایمان لانے میں) اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اوراطاعت کی،اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے “۔

جب صحابہ کرامؓ نے یہ کیا (یعنی مان کر ان پر عمل) تو اللہ تعالی نے آیت ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسُکُمْ …﴾ آیت(کے ابتدائی معنی) کو منسوخ کر دیا اور آیت ﴿لَا یُکَلِّفُ اللہ نَفْسًا… ﴾ نازل فرما دی یعنی ”اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اس (نفس) کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے خلاف بھی وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا، اے ہمارے رب! ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا جیسا کہ ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔(انہوں نے کہا) اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم میں اٹھانے کی طاقت نہ ہو تو اللہ نے فرمایا ”ہاں“۔ اور ہمیں معاف کر دے ، ہمیں بخش دے ، ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا کارساز ہے ، پس تو کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاں“۔ (سورہ بقرہ :286)



فائدہ :ایمان کا اصل تقاضا تو یہ تھا کہ سوچ، فکر اور دل کے خیالات بھی ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ مسلمانوں کو اسی کا مکلف بنایا گیا۔ یہ ناممکن نہ سہی انتہائی مشکل ضرور تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اطاعت اور اس کے ساتھ دعا کا راستہ دکھایا۔ وہ ان تمام مرحلوں سے گزرے تو اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے یہ تخفیف فرمائی اور مزید دعا سکھائی۔ صحابہ اس دعا کو مانگتے رہے اور اللہ کی رحمت وسیع تر ہوتی گئی۔ اب بھی اہل ایمان کو اسی راستے پر چلنا ہے۔ دل کے خیالات کو درست رکھنے کی سعی کرنی ہے اور استغفار کرنا ہے۔
 
Top