• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقة الفطر :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
11700828_568519313286334_3234573073620856694_n.jpg



17- بَاب زَكَاةِ الْفِطْرِ

۱۷-باب: صدقہء فطر کا بیان


حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ السَّمْرَقَنْدِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْخَوْلانِيُّ، وَكَانَ شَيْخَ صِدْقٍ، وَكَانَ ابْنُ وَهْبٍ يَرْوِي عَنْهُ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ مَحْمُودٌ: الصَّدَفِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ سنن ابو داود 1609-

* تخريج: ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۷)، ( تحفۃ الأشراف :۶۱۳۳) (حسن)
۱۶۰۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہء فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مسکینوں کے کھانے کے لئے فرض کیا ہے،لہٰذا جو اسے ( عید کی) صلاۃ سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے صلاۃ کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
18- بَاب مَتَى تُؤَدَّى ؟

۱۸-باب: صدقہء فطر کب دیا جائے؟


حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُؤَدِّيهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِالْيَوْمِ وَالْيَوْمَيْنِ ۔ سنن ابو داود 1610-

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۶ (۱۵۰۹)، م/الزکاۃ ۵ (۹۸۶)، ت/الزکاۃ ۳۶ (۶۷۷)، ن/الزکاۃ ۴۵ (۲۵۲۲)، (تحفۃ الأشراف :۸۴۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۱، ۱۵۵) (صحیح) دون فعل ابن عمر

۱۶۱۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ صدقہء فطر لوگوں کے صلاۃ کے لئے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے، راوی کہتے ہیں: چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما صلاۃ عید کے ایک یا دو دن پہلے صدقہء فطر ادا کرتے تھے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
19- بَاب كَمْ يُؤَدَّى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ؟

۱۹-باب: صدقہء فطر کتنا دیا جائے؟

سنن ابو داود


1611- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَقَرَأَهُ عَلَيَّ مَالِكٌ أَيْضًا، عَنْ نَافِعٍ؛ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ، قَالَ فِيهِ فِيمَا قَرَأَ[هُ] عَلَيَّ مَالِكٌ: زَكَاةُ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، مِنَ الْمُسْلِمِينَ ۔

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۳ (۱۵۰۶)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ت/الزکاۃ ۳۵، ۳۶ (۶۷۶)، ن/الزکاۃ ۳۳ (۲۵۰۵)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۶)، ( تحفۃ الأشراف :۸۳۲۱)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۲)، حم (۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)

۱۶۱۱- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہء فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیاہے، جو مسلمانوں میں سے ہرآزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر(فرض) ہے۔


1612- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا، فَذَكَرَ بِمَعْنَى مَالِكٍ، زَادَ: وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ.

قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ عَبْدُاللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَرَوَاهُ سَعِيدٌ الْجُمَحِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ فِيهِ: مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَالْمَشْهُورُ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ لَيْسَ فِيهِ: < مِنَ الْمُسْلِمِينَ >۔

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۰ (۱۵۰۳)، ن/الزکاۃ ۳۳ (۲۵۰۶)، ( تحفۃ الأشراف :۸۲۴۴) (صحیح)

۱۶۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہء فطر ایک صاع مقرر کیا، پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی ، اس میں ’’والصغير والكبير وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة‘‘(ہر چھوٹے اور بڑے پر (صدقہء فطر واجب ہے) اور آپ نے لوگوں کے صلاۃ کے لئے نکلنے سے پہلے اس کے ادا کر دینے کا حکم دیا) کا اضافہ کیا ۔

ابو داود کہتے ہیں:

عبداللہ عمری نے اسے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں’’على كل مسلم‘‘ کے الفاظ ہیں (یعنی ہر مسلمان پر لازم ہے) ۱؎ اوراسے سعید جمحی نے عبید اللہ(عمری) سے انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے اس میں ’’من المسلمين‘‘ کا لفظ ہے حالانکہ عبید اللہ سے جو مشہور ہے اس میں’’من المسلمين‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔

وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کافر غلام یا کافر لونڈی کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنا ضروری نہیں۔


1613- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ وَبِشْرَ بْنَ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَاهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ، عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ، زَادَ مُوسَى: وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى.

قَالَ أَبودَاود: قَالَ فِيهِ أَيُّوبُ وَعَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي الْعُمَرِيَّ- فِي حَدِيثِهِمَا عَنْ نَافِعٍ: <ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى > أَيْضًا۔

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۸ (۱۵۱۲)، ( تحفۃ الأشراف :۷۷۹۵، ۷۸۱۵، ۸۱۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۵) (صحیح)

۱۶۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقہء فطر جو یا کھجور میں سے ہر چھوٹے بڑے اور آزاد اورغلام پرایک صاع فرض کیا ہے۔

موسی کی روایت میں’ ’والذكر والأنثى‘‘ بھی ہے یعنی مرداور عورت پر بھی ۔
ابو داود کہتے ہیں :اس میں ایو ب اور عبداللہ یعنی عمری نے اپنی اپنی روایتوں میں نافع سے ’ ’ذكر أو أنثى‘‘ کے الفاظ (نکرہ کے ساتھ) ذکر کئے ہیں۔


1615- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ؛ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَعَدَلَ النَّاسُ بَعْدُ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُاللَّهِ يُعْطِي التَّمْرَ، فَأُعْوِزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ التَّمْرَ عَامًا فَأَعْطَى الشَّعِيرَ۔

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۸ (۱۵۱۱)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۶)، ن/الزکاۃ ۳۰ (۲۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف :۷۵۱۰)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۲)، حم (۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، دی/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)

۱۶۱۵- نا فع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : اس کے بعد لوگوں نے آدھے صاع گیہوں کو ایک صاع کے برابر کرلیا، عبداللہ(ایک صاع) کھجو ر ہی دیا کرتے تھے، ایک سال مدینے میں کھجور کا ملنا دشوار ہو گیا تو انہوں نے جو دیا ۔


1616- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ -يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ-، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ: صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلا أَزَالُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ .

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۲ (۱۵۰۵)، ۷۳ (۱۵۰۶)، ۷۵ (۱۵۰۸)، ۷۶ (۱۵۱۰)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۵)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۳)، ن/الزکاۃ ۳۷ (۲۵۱۳)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۹)، ( تحفۃ الأشراف :۴۲۶۹)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۳)، حم (۳/۲۳، ۷۳، ۹۸)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۴) (صحیح)

قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدَةُ وَغَيْرِهِمَا عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، بِمَعْنَاهُ، وَذَكَرَ رَجُلٌ وَاحِدٌ فِيهِ عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ < أَوْ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ > وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ ۔ (ضعیف)

۱۶۱۶- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہما رے درمیان با حیات تھے ، ہم لوگ صدقہء فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھرہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں ، پھر لوگوں نے یہی اختیار کرلیا،اورابو سعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا ۔

امام ابو داود کہتے ہیں:

اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابو سعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے ’’أو صاعًا من حنطة‘‘ بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
فطرانہ كسے ديا جائيگا


الحمد للہ:

فطرانہ اسى علاقے كے مسلمان فقراء كو ديا جائيگا جہاں فطرانہ دينے والا شخص رہائش پذير ہو، كيونكہ سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان ميں فطرانہ فرض كيا، جو كہ مساكين كے ليے كھانا ہے .... " الحديث.

اور كسى دوسرے علاقے كے فقراء كو بھى بھيجنا جائز ہے، اگر وہ اس كے زيادہ ضرورتمند ہوں، ليكن مسجد كى تعمير يا خيراتى كاموں ميں لگانا جائز نہيں " .


اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.
 

abujarjees

مبتدی
شمولیت
جون 27، 2015
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
29
اگر چاول دینا چاہیں تو کتنا کلو چاول فطرانہ میں دیا جائے گا 3 کلو؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر چاول دینا چاہیں تو کتنا کلو چاول فطرانہ میں دیا جائے گا 3 کلو؟
اگر چاول آپکی عام خوراک ہے ، تو ایک صاع چاول دے دیں ۔اور اگر کوئی اور جنس مثلاً گندم ،کھجور عام خوراک ہے ےو اس کا ایک صاع ادا کریں ؛
اور اگر چاول آپکی خوراک تو ہے لیکن قیمت کے لحاذ سے ادا کرنا مشکل ہے ،تو گندم سے ایک صاع دے دیں ،
اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے
چاول دینا مشکل ہو تو دوسری جنس سے ادائیگی کی دلیل یہ ہے ؛
1615- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ؛ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَعَدَلَ النَّاسُ بَعْدُ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُاللَّهِ يُعْطِي التَّمْرَ، فَأُعْوِزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ التَّمْرَ عَامًا فَأَعْطَى الشَّعِيرَ۔

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۸ (۱۵۱۱)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۶)، ن/الزکاۃ ۳۰ (۲۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف :۷۵۱۰)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۲)، حم (۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، دی/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)
۱۶۱۵- نا فع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : اس کے بعد لوگوں نے آدھے صاع گیہوں کو ایک صاع کے برابر کرلیا، عبداللہ(ایک صاع) کھجو ر ہی دیا کرتے تھے، ایک سال مدینے میں کھجور کا ملنا دشوار ہو گیا تو انہوں نے جو دیا ۔
دیگر تفصیلات کیلئے درج ذیل حدیث دیکھئے :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ: صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلا أَزَالُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ .

* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۲ (۱۵۰۵)، ۷۳ (۱۵۰۶)، ۷۵ (۱۵۰۸)، ۷۶ (۱۵۱۰)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۵)، ت/الزکاۃ ۳۵ (۶۷۳)، ن/الزکاۃ ۳۷ (۲۵۱۳)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۹)، ( تحفۃ الأشراف :۴۲۶۹)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۸ (۵۳)، حم (۳/۲۳، ۷۳، ۹۸)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۴) (صحیح)
ترجمہ :
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہما رے درمیان با حیات تھے ، ہم لوگ صدقہء فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھرہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں ، پھر لوگوں نے یہی اختیار کرلیا،اور ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا ۔

اس شرح علامہ صفی الرحمن مبارکپوری نے یوں کی :
صاع فطر.gif
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
فطرانہ كى مقدار اور ادائيگى كا وقت



الحمد للہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے مسلمانوں پر ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو فطرانہ ادا كرنا فرض كيا، اور حكم ديا كہ نماز عيد كے ليے نكلنے سے قبل ادا كيا جائے.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابو سعيد خدرى ضى اللہ عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك صاع غلہ يا ايك صاع پھل يا ايك صاع جو يا ايك صاع منقہ فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "

اكثر اہل علم نے يہاں غلہ كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس سے مراد گندم ہے، اور كچھ نے اس كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ اس سے مراد خوراك ہے جو علاقے كے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہيں، چاہے وہ گندم ہو يا مكئى يا باجرہ وغيرہ.

اور صحيح بھى يہى ہے كہ كيونكہ فطرانہ كا مقصد تو غنى و مالدار كى جانب سے فقير و مسكين كى غمخوارى ہے، مسلمان پر ضرورى نہيں كہ وہ اپنے علاقے كى خوراك كے علاوہ كوئى اور چيز دے كر فقير كى غمخوارى كرے، بلاشك و شبہ حرمين كے علاقے كى خوراك چاول ہے جو ہر كوئى پسند كرتا ہے، اور يہ جو سے افضل اور اعلى ہيں.

اس سے يہ علم ہوا كہ فطرانہ ميں چاول دينے ميں كوئى حرج نہيں.

فطرانہ ميں واجب ہے كہ ہر جنس سے ايك صاع ہى ادا كيا جائے اور يہ صاع نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صاع كى مقدار كے مطابق ہو، جو چار چلو يعنى دونوں ہاتھ چار بار بھريں جائيں تو يہ صاع كے برابر ہوگا، جيسا كہ قاموس ميں درج ہے.

اور موجودہ دور كے وزن كے مطابق تقريبا تين كلو گرام بنتا ہے، اس ليے اگر مسلمان شخص ايك صاع چاول يا كوئى اور جنس جو اس كے علاقے كى خوراك شمار ہوتى ہے فطرانہ ادا كرے تو يہ كافى ہوگا، علماء كے صحيح قول كے مطابق چاہے وہ چيز ان اشياء كے علاوہ بھى ہو جو اس حديث ميں مذكور ہيں، اور وزن كى مقدار تين كلو فطرانہ ادا كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

ہر چھوٹے اور بڑے مرد و عورت آزاد اور غلام مسلمان كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا واجب ہے، رہا ماں كے پيٹ ميں بچہ تو بالاجماع اس كى جانب سے فطرانہ ادا كرنا واجب نہيں، ليكن عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے عمل كے مطابق اس كى طرف سے ادائيگى مستحب ہے.

اور يہ بھى واجب ہے كہ فطرانہ نماز عيد سے قبل ادا كيا جائے، اور نماز عيد كے بعد تك مؤخر كرنا جائز نہيں، اور عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اس سے معلوم ہوا كہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق فطرانہ كى ادائيگى كا ابتدائى وقت اٹھائيس رمضان كى رات ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے مہينہ انتيس كا ہو يا پھر تيس كا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد سے ايك يا دو روز قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے.

فطرانہ كا مصرف فقراء اور مساكين ہيں، حديث ميں ثابت ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ روزے دار كى لغو اور بےہودہ باتوں سے پاكى اور مسكينوں كے كھانے كے ليے فطرانہ فرض كيا، جس نے نماز عيد سے قبل ادا كيا تو يہ فطرانہ قبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام قسم كے صدقات ميں شامل ہوگا "

اسے ابو داود نے سنن ابو داود ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.

جمہور اہل علم كے ہاں فطرانہ كى قيمت نقد رقم ميں ادا كرنى جائز نہيں، اور دليل كے لحاظ سے يہى زيادہ صحيح ہے، بلكہ غلہ كى شكل ميں فطرانہ ادا كرنا واجب ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كا عمل ہے، اور جمہور امت كا بھى يہى قول ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور سب مسلمانوں كو اپنے دين كى سمجھ عطا فرمائے اور اس پر ثابت قدم ركھے، اور ہمارے دلوں اور اعمال كى اصلاح فرمائے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بڑا سخى اور كرم كرنے والا ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 200 ).

چنانچہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے فطرانہ كا وزن كے مطابق جو حساب لگايا ہے وہ تقريبا تين كلو گرام ہے.

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا بھى يہى فيصلہ ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 371 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے حساب كے مطابق چاول دو ہزار ايك سو گرام ( 2100 ) ہے.

ديكھيؤں: فتاوى الزكاۃ ( 274 - 276 ).

وزن ميں يہ اختلاف اس ليے ہے كہ صاع ايك پيمانہ ہے جو حجم كے مطابق ماپا جاتا ہے وزن كے ساتھ نہيں.

علماء كرام نے وزن ميں اندازہ اس ليے لگايا ہے تا كہ سہولت رہے اور ضبط كے زيادہ قريب ہو، اور يہ معلوم ہے كہ دانوں كا وزن مختلف ہوتا ہے، كيونكہ كچھ كم وزن كے ہوتے ہيں اور كچھ زيادہ اور كچھ متوسط وزن ركھتے ہيں.

بلكہ دانوں كى ايك ہى قسم كا صاع ميں وزن مختلف ہوتا ہے، چنانچہ نئے فصل كے دانے پرانى فصل كے دانوں سے وزنى ہوتے ہيں، اس ليے جب انسان احتياط كرتے ہوئے زيادہ فطرانہ ادا كرے تو يہ بہتر اور احتياط ہے.

ديكھيں: المغنى ( 4 / 168 ). اس ميں بھى كھيتى كى زكاۃ ميں وزن كا اندازہ اسى طرح ذكر كيا گيا ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/49793
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
@اسحاق سلفی بھائی اس کی وضاحت کر دے -


فطرانہ ميں واجب ہے كہ ہر جنس سے ايك صاع ہى ادا كيا جائے اور يہ صاع نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صاع كى مقدار كے مطابق ہو، جو چار چلو يعنى دونوں ہاتھ چار بار بھريں جائيں تو يہ صاع كے برابر ہوگا، جيسا كہ قاموس ميں درج ہے.

اور موجودہ دور كے وزن كے مطابق تقريبا تين كلو گرام بنتا ہے، اس ليے اگر مسلمان شخص ايك صاع چاول يا كوئى اور جنس جو اس كے علاقے كى خوراك شمار ہوتى ہے فطرانہ ادا كرے تو يہ كافى ہوگا، علماء كے صحيح قول كے مطابق چاہے وہ چيز ان اشياء كے علاوہ بھى ہو جو اس حديث ميں مذكور ہيں، اور وزن كى مقدار تين كلو فطرانہ ادا كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے حساب كے مطابق چاول دو ہزار ايك سو گرام ( 2100 ) ہے.
 
Top