عبد الرحمن فيض اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 23، 2022
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 12
ترتيب: عبد الله محسن الصاهود
ترجمہ: عبد الرحمن فيض الله
مراجعہ: بدر الزماں عاشق على
سوال/۱: صدقۃ الفطر کا کیا حکم ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے ہر سال عید الفطر کے موقع پر مسلمانوں پہ ان کے جسموں کی زکوٰۃ فرض کی ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32)
صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر واجب ہے، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 197)
صدقۃ الفطر رسول اللہ ﷺکی طرف سے عائد کردہ ایک فريضہ ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/258)
صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، چاہے وہ روزہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، جیسے کوئی مسافر تھا اور روزہ نہیں رکھتا تھا، تو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲: ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے صدقۃ الفطر کا کیا حکم ہے؟
جواب: ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/263)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل کی وجہ سے جنین کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنا مستحب ہے لیکن واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/366)
سوال/۳: اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے آخری دن اسلام قبول کر لے تو کیا اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے؟
جواب: ہاں، اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔ کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۴: صدقۃ الفطر کى فرضیت میں کیا حکمت ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کى فرضیت کی حکمت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں وارد ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر روزہ دار کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے
لیے فرض کیا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/552)
سوال/۵: صدقۃ الفطر کھانے کی كن اشیاء میں سے نکالا جائے گا؟
جواب: صدقۃ الفطر میں ایک صاع گیہوں، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کشمش، یا ایک صاع پنیر نکالا جائے گا، اور علماء کرام کے صحیح ترین قول کے مطابق ہر وہ چیز اس میں شامل ہے جسے لوگ اپنے ملکوں میں کھانے کے طور پر استعمال کرتے ہوں، جیسے چاول، مکئی، جوار وغیرہ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32-33)
سوال/۶: تازے کھجور اور اسی جیسی دوسری چیزوں سے صدقۃ الفطر وزن کے حساب سے کتنا نکالا جائے گا؟
جواب: صدقۃ الفطر ملک کے خوارک سے ایک نبوی صاع ہے، اور اس کی مقدار سوکھے ہوئے غلے مثلا کھجور اور گیہوں سے دونوں ہتھیلی چار بار بھر بھر کے، اور کلو سے تقریبا تین کلو، اگر صدقۃ الفطر سوکھے ہوئے غلے سے مثلا سوکھا کھجور، گیہوں، چاول کشمش وغیرہ سے نکالا جائے تو افضل یہ ہے کہ صاع سے ناپ کے نکالا جائے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/204-205)
سوال/۷: کیا صدقۃ الفطر مقررہ اشیاء کے علاوہ دیگر چیزوں سے ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: علماء کے صحیح ترين قول کے مطابق اگر یہ ملک کی غذا میں سے ہو تو نکالنا جائز ہے، لیکن چھلکا صاف کرنے کے بعد یہ ادا کرنے والے اور اسے پانے والے دونوں کے حق میں بہتر ہے سوائے جو کے اس کا چھلکا اتارنا ضروری نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 206)
سوال/۸: کیا چاول سے صدقۃ الفطر ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: ہاں چاول اور اس کے علاوہ ملک کی دوسری غذا سے صدقۃ الفطر ادا کرنا جائز ہے کیونکہ صدقہ امداد ہے اور صدقۃ الفطر میں چاول نکالنا بہترین امداد ہے کیونکہ آج کل چاول لوگوں کا بہترین کھانا ہے ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 207)
صدقۃ الفطر میں چاول نکالنا بلا شبہ جائز ہے، بلکہ موجودہ دور میں یہی افضل ہے، کیونکہ اکثر لوگ چاول ہی کھاتے ہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/283)
سوال/۹: صدقۃ الفطر میں جَو نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرے خیال سے جَو سے صدقۃ الفطر نکالنا کافی نہیں ہوگا خصوصا ایسی جگہ جہاں کی غذا جَو نا ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/282)
سوال/۱۰: بعض صحرائی لوگ صدقۃ الفطر گوشت سے دیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟
جواب: یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے صدقۃ الفطر ایک صاع ایسی خوراک سے فرض کیا ہے جسے ناپا جا سکے اور گوشت تولا جاتا ہے اسے ناپا نہیں جاتا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
جواب: تقریبا تین کلو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 203)
سوال/۱۲: کیا صدقۃ الفطر کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر اپنے اور اپنے اہل خانہ بیوی، بچے اور غلاموں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا كرنا ضروری ہے جن کے پاس ایک دن کی خوراک سے زیادہ غلہ ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 197)
سوال/۱۳: کیا ایک صاع سے زیادہ صدقۃ الفطر نکالنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کی نیت سے ایک صاع سے زیادہ نکالنا بدعت ہے، ہاں صدقۃ الفطر کے ساتھ عام صدقہ کی نیت سے زیادہ نکال دیا جائے تو جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شریعت نے جو مقدار متعین کیا ہے اسی پہ اکتفا کرنا افضل ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/269-270)
سوال/۱۴: صدقۃ الفطر کی مقدار کتنی ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار خوراک میں سے ایک نبوی صاع ہے جس کا وزن دو کلو چالیس گرام ہے گیہوں یا اسی کے مثل دال وغیرہ۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۱۵: کیا عام صدقہ کی نیت سے صدقۃ الفطر میں اضافہ کرنا جائز ہے؟
جواب: ہاں عام صدقہ کی نیت سے صدقۃ الفطر میں اضافہ کرنا جائز ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/286)
سوال/۱۶: کیا صدقۃ الفطر میں قیمت نکالنا جائز ہے؟
جواب: اکثر اہل علم کے نزدیک صدقۃ الفطر میں قیمت نکالنا جائز نہیں، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے خلاف ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 32)
سوال/۱۷: نقد صدقۃ الفطر کے عدم جواز کے کیا دلائل ہیں؟
جواب: الف: صدقۃ الفطر بالإجماع عبادت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں۔
ب: دینار ودرہم رسول اللہ ﷺ کے زَمانے میں رائج کرنسی تھے پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر میں اس کا ذکر نہیں فرمایا، اگر ان کی ادائیگی صدقۃ الفطر میں کافی ہوتی تو آپ اسے ضرور واضح فرماتے۔
ج: ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی نے صدقۃ الفطر کی رقم دی ہو۔
د: مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صدقۃ الفطر میں رقم دینا جائز نہیں اور دینے والے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/208-211)
میرے خیال سے صدقۃ الفطر کی ادائیگی نقد کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے، بلکہ غلہ ہی سے ادا کی جائے گی، اور غریب آدمی اگر چاہے تو اس خوراک کو بیچ کر اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن ادائیگی بہر صورت غلہ ہی سے کرنی ہوگی۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/277)
سوال/۱۸: کیا صدقۃ الفطر کی قیمت ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر صرف غلہ سے ادا کرنا جائز ہے قیمت ادا کرنا جائز نہیں، کسی بھی شخص کے لئے صدقۃ الفطر روپیہ، کپڑا یا بستر کی صورت میں دینا جائز نہیں، بلکہ اسی سے دینا چاہیے جو اللہ نے محمد ﷺ کی زبانی فرض کیا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۱۹: صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وقت کب ہے؟
جواب: لوگوں کے عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے اسے نکالنا ضروری ہے اور اگر عید سے ایک یا دو دن پہلے نکالا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 203)
اٹھائیسویں، انتیسویں اور تیسویں دن نىز عید کی رات اور عید کی صبح نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32-33)
سوال/۲۰: کسی معروف اور معین فقیر کی تلاش میں زکاۃ کی ادائیگی مؤخر کرنے میں كيا مال کی زکاۃ اور صدقۃ الفطر برابر ہے؟
جواب: دونوں برابر نہیں ہیں، بلکہ صدقہ الفطر عید کی نماز سے پہلے دینا ضروری ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 216)
سوال/۲۱: میں نے عید سے پہلے صدقہ الفطر ایک مسکین کو دینے کے لیے تیار کیا، لیکن عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا بھول گیا، اس لیے بعد میں دیا، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کچھ آپ نے کیا اس میں کوئی حرج نہیں، نماز کے بعد اسے نکالنا کافی ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 217)
سوال/۲۲: جو شخص نماز عید کے بعد خطبہ کے دوران صدقۃ الفطر ادا کیا اس کا کیا حکم ہے، اور ایسا اس نے بھول جانے کی وجہ سے کیا؟
جواب: صدقۃ الفطر نماز سے پہلے ادا کرنا فرض ہے اگر کوئی شخص بھول جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن جب یاد آئے نکالنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک فريضہ ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 218)
سوال/۲۳: رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں صدقۃ الفطر ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کا افضل وقت عید کے دن عید کی نماز سے پہلے ہے لیکن عید سے ایک یا دو دن پہلے نکالنا جائز ہے، کیونکہ اس سے لینے اور دینے والے کو وقت مل جاتا ہے، اس سے پہلے نکالنا اہل علم کے راجح قول کے مطابق جائز نہیں ہے اور عید کے بعد تک مؤخر کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے سے صدقۃ الفطر ادا نہیں ہوگا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲۴: میں نے مکہ آنے سے پہلے مصر میں رمضان المبارک کے شروع میں صدقۃ الفطر ادا کیا تھا، اور اب میں مکہ المکرمہ میں مقیم ہوں، کیا مجھے صدقۃ الفطر دوبارہ ادا کرنا ہوگا؟
جواب: ہاں، آپ کو دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ نے اس کے وقت سے پہلے ادا کر دیا تھا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/266)
سوال/۲۵: صدقۃ الفطر کی ادائیگی عید کی نماز کے بعد تک مؤخر کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: اگر کوئی شخص صدقۃ الفطر کی ادائیگی عید کی نماز کے بعد تک مؤخر کر دے تو قبول نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایک وقتی عبادت ہے اور بغیر عذر کے تاخیر کرے تو قابل قبول نہیں ہے ۔
ب: لیکن کسی عذر کی وجہ سے جیسے بھول جائے یا عید کی رات فقیر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر کرے تو اس سے قبول ہے خواہ وہ اسے اپنے مال میں واپس کردے یا مسکین کے آنے تک رکھ لے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲۶: اگر کوئی شخص عید الفطر سے تین دن پہلے فوت ہو جائے تو کیا گھر کے سربراہ پر میت کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے؟
جواب: گھر کے سربراہ پر میت کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ وہ صدقۃ الفطر کے واجب ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا۔ اللجنۃالدائمۃ (9/368)
سوال/۲۷: کیا مجھے اپنی بہن کی طرف سے صدقۃ الفطر دینا ہوگا، معلوم ہو کہ اس کا میرے سوا کوئی نہیں ہے؟
جواب: اگر آپ کے والد کا انتقال رمضان سے پہلے ہو گیا اور آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے بھی آپ کی بہن کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا تو آپ پر اس کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ آپ استطاعت رکھتے ہوں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 199)
سوال/۲۸: کیا بیوی اور بچوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا آدمی کی ذمہ داری ہے؟
جواب: آدمی کے اوپر اپنی بیوی، بچے اور ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے جن کی وہ کفالت کرتا ہے، بعض علماء نے کہا: صدقۃ الفطر دیگر عبادات کی طرح خود انسان پر واجب ہے، چنانچہ اگر آپ خود اس کو نکالنے کی استطاعت رکھتی ہیں تو اسے نکال لیں، اور اگر آپ کا شوہر آپ کی طرف سے نکالے تو اس کا آپ کے اوپر احسان ہوگا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/260)
سوال/۲۹: میں ایک غیر شادی شدہ نوجوان ہوں، اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہوں، کیا صدقۃ الفطر میرے والد نے میری طرف سے ادا کرنی ہے یامجھے اپنےپیسوں سے ادا کرنا ہوگا؟
جواب: الف: صدقۃ الفطر فرض ہے اور یہ دوسرے تمام فرائض کی طرح ہے جس میں ہر شخص مخاطب ہوتا ہے، لہٰذا صدقۃ الفطر میں بھی آپ ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے ادا کریں خواہ آپ کا کوئی باپ ہو یا بھائی، اور اسی طرح بیوی کو بھی ادا کرنے کا حکم ہے کہ اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گر چہ اس کا شوہر ہو۔
ب: لیکن اگر خاندان کے ذمہ دار اہل وعیال کی طرف سے صدقۃ الفطر دینا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/261)
سوال/۳۰: کیا گھریلو ملازمہ پر صدقۃ الفطر واجب ہے؟
جواب: الف: گھریلو ملازمہ اگر مسلمان ہے تو اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے.
ب: لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنا صدقۃ الفطر خود ادا کرے گی یا گھر والے؟ قاعدہ تو یہ ہے کہ اپنا صدقۃ الفطر وہ خود ادا کرے لیکن اگر گھر کے لوگ اس کا صدقۃ الفطر ادا کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۳۱: کیا صدقۃ الفطر اپنے ملک کے علاوہ کسی اور ملک میں ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر دوسرے ملک بھیجنے کے بجائے سنت یہ ہے کہ اسے اپنے ملک کے فقیروں میں تقسیم کیا جائے تاکہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ بے نیاز ہو جائیں ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 213)
سوال/۳۲: کیا دیار غیر میں بسنے والے اپنے اپنے ملکوں میں صدقۃ الفطر نکلوا سکتے ہیں؟
جواب: الف: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء کے صحیح قول کے مطابق إن شاء اللہ قابل قبول ہوگا۔
ب: لیکن جس جگہ مقیم ہوں اسی جگہ نکالنا زیادہ افصل ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 215)
سوال/۳۳: صدقۃ الفطر کو اس وجہ سے دور دراز ممالک میں منتقل کرنے کا کیا حکم ہے کہ وہاں غریب بہت زیادہ ہیں؟
جواب: الف: جس جگہ آپ رہ رہے ہىں وہاں اگر صدقۃ الفطر قبول کرنے والا کوئی فقیر موجود نا ہو تو دوسرے ممالک میں صدقۃ الفطر منتقل کرنا جائز ہے ۔
ب: اگر صدقۃ الفطر قبول کرنے والے وہاں موجود ہوں تو اسے دوسرے ممالک بھیجنا جائز نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۳۴: مسافر صدقۃ الفطر کس طرح ادا کرے؟
جواب: اگر کوئی شخص عید سے دو دن یا اس سے پہلے سفر پر نکل جائے تو صدقۃ الفطر اسی اسلامی ملک میں نکالے گا جہاں وہ سفر کر کے گیا ہے، اگر اسلامی ملک نہیں ہے تو کسی مسلم فقیر کو تلاش کر کے اسے صدقۃ الفطر کی رقم دے دے ، اور اگر صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وقت ہونے کے بعد سفر کر رہا ہے تو صدقۃ الفطر نکال کے اپنے ملک کے فقیروں میں تقسیم کر دے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 214)
سوال/۳۵: اگر کوئی شخص سفر پر ہے اور اپنے بچوں کے پاس پہنچنے سے پہلے اسی ملک میں صدقۃ الفطر وقت پر ادا کر دے جہاں وہ ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ وہ اپنے بچوں سے دور ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ صدقۃ الفطر کو اسی جگہ ادا کیا جاتا ہے جہاں عيد کے دن آپ موجود ہوں، اگرچہ وہ آپ کے ملک سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۳۶: کیا ایک پردیسی اپنے گھر والوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا، جبکہ اہل خانہ اپنی طرف سے صدقۃ الفطر دیتے ہیں؟
جواب: الف: اگر گھر والے اپنا صدقۃ الفطر ادا کرتے ہیں تو پردیسی کے لئے ان کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنا ضروری نہیں۔
ب: لیکن جہاں رہتا ہے وہاں اگر کوئی مسلمان مستحق موجود ہو تو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر وہیں نکالے گا۔
ج: اگر وہاں کوئی مستحق موجود نا ہو تو اپنے گھر والوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنے کا وکیل بنا سکتا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/264)
سوال/۳۷: ہم غیر اسلامی ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہاں زکاۃ کا مستحق کوئی بھی شخص نہیں ہے تو کیا کریں؟
جواب: اس مسئلے کا حل آسان ہے، کسی کو آپ اپنی طرف سے اس کی ادائیگی کے لیے مقرر کر دیں، یا تو اپنے آبائی ملک میں، یا دوسرے ممالک میں جہاں زکاۃ لینے والے موجود ہوں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/317)
سوال/۳۸: اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کا خاندان ریاض میں ہے تو کیا پورےخاندان کی طرف سے صدقۃ الفطر مکہ میں ادا کرنا ہوگا؟
جواب: الف: اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ نا رہ رہا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اپنے گھر والوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کر دے، اگر وہ مکہ میں ہے اور گھر والے ریاض میں ہیں تو اس کے لیے مکہ میں ان کی طرف سے فطرانہ ادا کرنا جائز ہے۔
ب: لیکن افضل ہے کہ ہر شخص صدقۃ الفطر وہیں ادا کرے جہاں وہ ادائیگی کے وقت موجود ہو۔ مجموع الفتاویٰ
سوال/۳۹: کیا کسی شخص کے لیے صدقۃ الفطر اپنے ملک میں ادا کرنا جائز ہے، جبکہ کہ وہ مکہ میں ہے اور اس کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا آپ جس ملک میں ہیں صدقۃ الفطر کا وقت ہو جانےپر اسی ملک میں ادا کریں۔ مجموع الفتاویٰ (18/327)
سوال/۴۰: کیا گاؤں کے امام کو صدقۃ الفطر دینا جائز ہے، خواہ وہ غریب ىا امیر ہو؟
جواب: صدقۃ الفطر کو اللہ نے غریبوں اور مسکینوں کےساتھ ہمدردی اور ضرورت مندوں کے لیے خوراک کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اگر گاؤں کا امام خوشحال ہے اور اس کا گزر بسر چل رہا ہو تو اسے صدقۃ الفطر یا دوسری زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/215-216)
سوال/۴۱: صدقۃ الفطر کا مصرف کیا ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کا صرف ایک ہی مصرف ہے اور وہ ہیں فقراء اور مساکین۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/259)
سوال/۴۲: کیا غیر مسلم مزدوروں کو صدقۃ الفطر دینا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر مسلم فقراء کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۴۳: کچھ عورتیں دکانوں کے پاس بیٹھی ہوتی ہیں اور بظاہر غریب نظر آتی ہیں، تو کیا ان کو صدقۃ الفطر دینا درست ہے؟
جواب: آدمی کے لیے اپنی مالی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر اس شخص کو دینا جائز ہے جسے وہ زکاة کا حقدار سمجھتا ہو حتیٰ کہ بظاہر زکاة کا مستحق نہ بھی ہو اور اسے دے دے، تب بھی قابل قبول ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/354)
سوال/۴۴: کئی لوگوں کے گھریلو نوکر غیر مسلم ہوتے ہیں تو کیا ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا یا انہیں صدقۃ الفطر میں سے کچھ دیا جا سکتا ہے؟
جواب: نا تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا نا ہی انہیں صدقۃ الفطر میں سے کچھ دیا جائے گا اور اگر انہیں دے دیا جائے تو صدقۃ الفطر ادا ہی نہیں ہوگا، لیکن صدقۃ الفطر کے علاوہ انہیں کچھ دے کر ان کے ساتھ بھلائی کی جا سکتی ہے يہ علم ميں رہے كہ ان كافر ملازمين كى بجائے مسلمان ملازمين كو ركھ كر كفار سےبے نياز ہوا جا سكتا ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/375)
سوال/۴۵: سگریٹ نوشی اور گٹکھا کھانے والے غریبوں کو صدقۃ الفطر دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: ان کے برے اعمال انہیں صدقۃ الفطر دینے میں مانع نہیں ہیں، کیونکہ وہ اس عمل کی وجہ سے دین سے خارج نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے عقیدہ کی بنیاد پہ مومن ہی ہیں یہ اور بات ہے کہ محرمات کے ارتکاب کی وجہ سے فسق میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/376)
سوال/۴۶: غریب رشتہ داروں کو صدقۃ الفطر دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: غریب رشتہ داروں کو صدقۃ الفطر اور مال کی زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ مستحق رشتہ داروں کو دینا دوسروں کو دینے سے بہتر ہے کیونکہ صدقہ وزکاۃ غریب رشتہ داروں کو دینا صدقہ اور صلہ رحمی دونوں ہے، بشرطیکہ اس كى ادائيگى ميں اپنے مال كا بچاؤ اور حمايت نہ ہو، وہ اس طرح کہ يہ فقير جسے وہ زكاۃ دے رہا ہے اس كا نفقہ اور خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب ہوتا ہو، تو اىسى حالت ميں اس كى كسى ضرورت كو پورا كرنے كے ليے زكاۃ دينا جائز نہيں۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۴۷: کیا کسی شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وکیل مقرر کر دے، چاہے وہ شخص کام کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں ہی کیوں نہ ہو؟
جواب: آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر وقت پر ادا کرنے کا وکیل مقرر کر دے، گر چہ وہ کام کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/262)
سوال/۴۸: کیا وہ فقیر جسے کوئی فطرانہ دینا چاہتا ہے وہ فطرانہ لینے کے لیے کسی اور کو وكىل بنا سکتا ہے؟
جواب: ایسا کرنا جائز ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/268)
سوال/۴۹: فقیر کے آنے تک فطرانہ کسی پڑوسی کے پاس رکھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: آدمی کے لئے جائز ہے کہ اپنا فطرانہ پڑوسی کے پاس رکھ دے اور اس سے کہے کہ فلاں شخص کے لئے ہے وہ آئے تو اسے دے دینا، لیکن ضروری ہے کہ عید کی نماز سے پہلے وہ فقیر کے ہاتھ میں مل جائے کیونکہ پڑوسی فطرانہ ادا کرنے والے کا وکیل ہے۔
ب: ہاں اگر پڑوسی کو فقیر نے فطرانہ وصول کرنے کا ذمہ دار بنا کر اس سے کہہ دیا ہے کہ پڑوسی سے میرا فطرانہ لے لینا تو ایسی صورت میں پڑوسی کے پاس عید کی نماز کے بعد تک رہے تو کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/285)
سوال/۵۰: اگر کوئی شخص صدقۃ الفطر اپنے پڑوسی کے پاس رکھے اور فطرانہ لینے والا عید سے پہلے نا آئے اور فطرانے کا وقت نکل جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: اگر پڑوسی کے پاس اس اعتبار سے رکھا ہے کہ پڑوسی فقیر کا وکیل ہے تو پڑوسی کے ہاتھ میں پہنچنے کا مطلب ہے کہ فقیر کو مل گیا۔
ب: اگر فقیر نے پڑوسی کو وکیل مقرر نہیں کیا ہے تو فطرانہ ادا کرنے والے پہ حقداروں تک عید کی نماز سے پہلے پہنچانا ضروری ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۵۱: کیا آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ آپ فطرانہ اپنے گھر والوں کے سپرد کرکے اپنے گھر پر نکالیں؟
جواب: ہاں یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/561)
سوال/ ۵۲: اگر کسی نے فطرانہ ادا کر دیا اور ضرورت مند موجود نا ہو تو کیا اسے کسی ایسے وکیل کو دینا جائز ہے جو ضرورت مند کی طرف سے لے لے؟
جواب: اگر فقیر کسی شخص کو فطرانہ وصول کرنے کے لئے اپنی طرف سے نائب بنا دے تو فطرانہ ادا کرنے والے کے لئے اس نائب کو دینا جائز ہے۔اللجنۃ الدائمۃ (9/381)
سوال/ ۵۳: کیا مساجد یا اسلامی تنظیموں کے ذمہ داران کے لیے فطرانہ جمع کرنا اور تقسیم کرنا جائز ہے؟
جواب: الف: بنیادی اصول یہ ہے کہ فطرانہ براہ راست ادا کرنے والا حقدار کو پہنچائے۔
ب: البتہ جس پر فطرانہ واجب ہے اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کی تقسیم کے لیے دوسرے ثقہ افراد کو تفویض کرے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/389)
سوال/ ۵۴: کیا ایک آدمی کا فطرانہ کئی لوگوں کو تھوڑا تھوڑا دینا جائز ہے یا پورا ایک ہی شخص کو دینا ضروری ہے؟
جواب: ایک آدمی کا فطرانہ پورا ایک ہی شخص کو دینا جائز اور کئی لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے دینا بھی جائز ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/377)
سوال/ ۵۵: کیا خیراتی اداروں کے لیے یہ جائز ہے کہ جوفطرانہ وه وصول كرتے ہیں اسے بتدریج ان حقدار کی ضروریات کے مطابق خرچ کریں جن کی وہ کفالت کرتے ہیں؟
جواب: الف: خیراتی اداروں پر واجب ہے کہ فطرانہ مستحق افراد کو عید کی نماز سے پہلے ادا کریں اور اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔
ب: خیراتی اداروں کے لیے اتنا ہی فطرانہ جمع کرنا جائز ہے جتنا وہ عید کی نماز سے پہلے خرچ کر سکیں۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/279)
سوال/ ۵۶: فطرانہ لے کر بیچنے والے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر لینے والا اس کا حقدار ہے تو حاصل کرنے کے بعد بیچ سکتا ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/380)
سوال/ ۵۷: صدقۃ الفطر نکالنے کی کیا دعا ہے؟
جواب: ہمارے علم میں صدقۃ الفطر نکالنے کی کوئی دعا نہیں ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/387)
سوال/ ۵۸: کیا مسلمان کے لیے فطرانہ یا دیگر زکوٰۃ اپنے بیٹے کو دینا جائز ہے جوکہیں دور پڑھ رہا ہو؟
جواب: بیٹے کو فطرانہ یا کوئی اور زکوٰۃ دینا جائز نہیں، کیونکہ اس کی کفالت باپ پر واجب ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (10/66)
سوال/ ۵۹: جو شخص صدقۃ الفطر ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور ادا نہ کرے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر ادا نا کرنے والے پہ واجب ہے کہ اللہ سے توبہ واستغفار کرے کیونکہ ادا نا کر کے گنہگار ہوا ہے اور فوری طور پہ فطرانہ نکال کے حقداروں تک پہنچائے معلوم ہو کہ عید کی نماز کے بعد ادا کرنے کی صورت میں عام صدقہ مانا جائے گا۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/386)
سوال/ ۶۰: فطرانہ ادا کرنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: فطرانہ کی ادائیگی میں اللہ کی نعمت کے شکریہ کا اظہار ہے کہ اس نے رمضان کے روزے کی تکمیل و توفیق بخشی۔ الشيخ ابن عثیمین
ترجمہ: عبد الرحمن فيض الله
مراجعہ: بدر الزماں عاشق على
سوال/۱: صدقۃ الفطر کا کیا حکم ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے ہر سال عید الفطر کے موقع پر مسلمانوں پہ ان کے جسموں کی زکوٰۃ فرض کی ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32)
صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر واجب ہے، جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 197)
صدقۃ الفطر رسول اللہ ﷺکی طرف سے عائد کردہ ایک فريضہ ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/258)
صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، چاہے وہ روزہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، جیسے کوئی مسافر تھا اور روزہ نہیں رکھتا تھا، تو اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲: ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے صدقۃ الفطر کا کیا حکم ہے؟
جواب: ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/263)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل کی وجہ سے جنین کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنا مستحب ہے لیکن واجب نہیں ہے کیونکہ وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/366)
سوال/۳: اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے آخری دن اسلام قبول کر لے تو کیا اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے؟
جواب: ہاں، اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔ کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۴: صدقۃ الفطر کى فرضیت میں کیا حکمت ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کى فرضیت کی حکمت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں وارد ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر روزہ دار کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے
لیے فرض کیا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/552)
صدقۃ الفطر کس چیز سے نکالا جائے گا
سوال/۵: صدقۃ الفطر کھانے کی كن اشیاء میں سے نکالا جائے گا؟
جواب: صدقۃ الفطر میں ایک صاع گیہوں، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کشمش، یا ایک صاع پنیر نکالا جائے گا، اور علماء کرام کے صحیح ترین قول کے مطابق ہر وہ چیز اس میں شامل ہے جسے لوگ اپنے ملکوں میں کھانے کے طور پر استعمال کرتے ہوں، جیسے چاول، مکئی، جوار وغیرہ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32-33)
سوال/۶: تازے کھجور اور اسی جیسی دوسری چیزوں سے صدقۃ الفطر وزن کے حساب سے کتنا نکالا جائے گا؟
جواب: صدقۃ الفطر ملک کے خوارک سے ایک نبوی صاع ہے، اور اس کی مقدار سوکھے ہوئے غلے مثلا کھجور اور گیہوں سے دونوں ہتھیلی چار بار بھر بھر کے، اور کلو سے تقریبا تین کلو، اگر صدقۃ الفطر سوکھے ہوئے غلے سے مثلا سوکھا کھجور، گیہوں، چاول کشمش وغیرہ سے نکالا جائے تو افضل یہ ہے کہ صاع سے ناپ کے نکالا جائے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/204-205)
سوال/۷: کیا صدقۃ الفطر مقررہ اشیاء کے علاوہ دیگر چیزوں سے ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: علماء کے صحیح ترين قول کے مطابق اگر یہ ملک کی غذا میں سے ہو تو نکالنا جائز ہے، لیکن چھلکا صاف کرنے کے بعد یہ ادا کرنے والے اور اسے پانے والے دونوں کے حق میں بہتر ہے سوائے جو کے اس کا چھلکا اتارنا ضروری نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 206)
سوال/۸: کیا چاول سے صدقۃ الفطر ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: ہاں چاول اور اس کے علاوہ ملک کی دوسری غذا سے صدقۃ الفطر ادا کرنا جائز ہے کیونکہ صدقہ امداد ہے اور صدقۃ الفطر میں چاول نکالنا بہترین امداد ہے کیونکہ آج کل چاول لوگوں کا بہترین کھانا ہے ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 207)
صدقۃ الفطر میں چاول نکالنا بلا شبہ جائز ہے، بلکہ موجودہ دور میں یہی افضل ہے، کیونکہ اکثر لوگ چاول ہی کھاتے ہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/283)
سوال/۹: صدقۃ الفطر میں جَو نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرے خیال سے جَو سے صدقۃ الفطر نکالنا کافی نہیں ہوگا خصوصا ایسی جگہ جہاں کی غذا جَو نا ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/282)
سوال/۱۰: بعض صحرائی لوگ صدقۃ الفطر گوشت سے دیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟
جواب: یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے صدقۃ الفطر ایک صاع ایسی خوراک سے فرض کیا ہے جسے ناپا جا سکے اور گوشت تولا جاتا ہے اسے ناپا نہیں جاتا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
صدقۃ الفطر کی مقدار
سوال/۱۱: صدقۃ الفطر کتنا کلو ادا کرنا فرض ہے؟
جواب: تقریبا تین کلو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 203)
سوال/۱۲: کیا صدقۃ الفطر کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر اپنے اور اپنے اہل خانہ بیوی، بچے اور غلاموں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا كرنا ضروری ہے جن کے پاس ایک دن کی خوراک سے زیادہ غلہ ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 197)
سوال/۱۳: کیا ایک صاع سے زیادہ صدقۃ الفطر نکالنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کی نیت سے ایک صاع سے زیادہ نکالنا بدعت ہے، ہاں صدقۃ الفطر کے ساتھ عام صدقہ کی نیت سے زیادہ نکال دیا جائے تو جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شریعت نے جو مقدار متعین کیا ہے اسی پہ اکتفا کرنا افضل ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/269-270)
سوال/۱۴: صدقۃ الفطر کی مقدار کتنی ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار خوراک میں سے ایک نبوی صاع ہے جس کا وزن دو کلو چالیس گرام ہے گیہوں یا اسی کے مثل دال وغیرہ۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۱۵: کیا عام صدقہ کی نیت سے صدقۃ الفطر میں اضافہ کرنا جائز ہے؟
جواب: ہاں عام صدقہ کی نیت سے صدقۃ الفطر میں اضافہ کرنا جائز ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/286)
صدقۃ الفطر کی ادائیگی نقد (دینار، ریال اور درہم) سے
سوال/۱۶: کیا صدقۃ الفطر میں قیمت نکالنا جائز ہے؟
جواب: اکثر اہل علم کے نزدیک صدقۃ الفطر میں قیمت نکالنا جائز نہیں، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے خلاف ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 32)
سوال/۱۷: نقد صدقۃ الفطر کے عدم جواز کے کیا دلائل ہیں؟
جواب: الف: صدقۃ الفطر بالإجماع عبادت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں۔
ب: دینار ودرہم رسول اللہ ﷺ کے زَمانے میں رائج کرنسی تھے پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر میں اس کا ذکر نہیں فرمایا، اگر ان کی ادائیگی صدقۃ الفطر میں کافی ہوتی تو آپ اسے ضرور واضح فرماتے۔
ج: ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی نے صدقۃ الفطر کی رقم دی ہو۔
د: مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صدقۃ الفطر میں رقم دینا جائز نہیں اور دینے والے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/208-211)
میرے خیال سے صدقۃ الفطر کی ادائیگی نقد کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے، بلکہ غلہ ہی سے ادا کی جائے گی، اور غریب آدمی اگر چاہے تو اس خوراک کو بیچ کر اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن ادائیگی بہر صورت غلہ ہی سے کرنی ہوگی۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/277)
سوال/۱۸: کیا صدقۃ الفطر کی قیمت ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر صرف غلہ سے ادا کرنا جائز ہے قیمت ادا کرنا جائز نہیں، کسی بھی شخص کے لئے صدقۃ الفطر روپیہ، کپڑا یا بستر کی صورت میں دینا جائز نہیں، بلکہ اسی سے دینا چاہیے جو اللہ نے محمد ﷺ کی زبانی فرض کیا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
صدقۃ الفطر نکالنے کا وقت
سوال/۱۹: صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وقت کب ہے؟
جواب: لوگوں کے عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے اسے نکالنا ضروری ہے اور اگر عید سے ایک یا دو دن پہلے نکالا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 203)
اٹھائیسویں، انتیسویں اور تیسویں دن نىز عید کی رات اور عید کی صبح نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/32-33)
سوال/۲۰: کسی معروف اور معین فقیر کی تلاش میں زکاۃ کی ادائیگی مؤخر کرنے میں كيا مال کی زکاۃ اور صدقۃ الفطر برابر ہے؟
جواب: دونوں برابر نہیں ہیں، بلکہ صدقہ الفطر عید کی نماز سے پہلے دینا ضروری ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 216)
سوال/۲۱: میں نے عید سے پہلے صدقہ الفطر ایک مسکین کو دینے کے لیے تیار کیا، لیکن عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا بھول گیا، اس لیے بعد میں دیا، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کچھ آپ نے کیا اس میں کوئی حرج نہیں، نماز کے بعد اسے نکالنا کافی ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 217)
سوال/۲۲: جو شخص نماز عید کے بعد خطبہ کے دوران صدقۃ الفطر ادا کیا اس کا کیا حکم ہے، اور ایسا اس نے بھول جانے کی وجہ سے کیا؟
جواب: صدقۃ الفطر نماز سے پہلے ادا کرنا فرض ہے اگر کوئی شخص بھول جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن جب یاد آئے نکالنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک فريضہ ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 218)
سوال/۲۳: رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں صدقۃ الفطر ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کا افضل وقت عید کے دن عید کی نماز سے پہلے ہے لیکن عید سے ایک یا دو دن پہلے نکالنا جائز ہے، کیونکہ اس سے لینے اور دینے والے کو وقت مل جاتا ہے، اس سے پہلے نکالنا اہل علم کے راجح قول کے مطابق جائز نہیں ہے اور عید کے بعد تک مؤخر کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے سے صدقۃ الفطر ادا نہیں ہوگا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲۴: میں نے مکہ آنے سے پہلے مصر میں رمضان المبارک کے شروع میں صدقۃ الفطر ادا کیا تھا، اور اب میں مکہ المکرمہ میں مقیم ہوں، کیا مجھے صدقۃ الفطر دوبارہ ادا کرنا ہوگا؟
جواب: ہاں، آپ کو دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ آپ نے اس کے وقت سے پہلے ادا کر دیا تھا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/266)
سوال/۲۵: صدقۃ الفطر کی ادائیگی عید کی نماز کے بعد تک مؤخر کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: اگر کوئی شخص صدقۃ الفطر کی ادائیگی عید کی نماز کے بعد تک مؤخر کر دے تو قبول نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایک وقتی عبادت ہے اور بغیر عذر کے تاخیر کرے تو قابل قبول نہیں ہے ۔
ب: لیکن کسی عذر کی وجہ سے جیسے بھول جائے یا عید کی رات فقیر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر کرے تو اس سے قبول ہے خواہ وہ اسے اپنے مال میں واپس کردے یا مسکین کے آنے تک رکھ لے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۲۶: اگر کوئی شخص عید الفطر سے تین دن پہلے فوت ہو جائے تو کیا گھر کے سربراہ پر میت کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے؟
جواب: گھر کے سربراہ پر میت کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ وہ صدقۃ الفطر کے واجب ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا۔ اللجنۃالدائمۃ (9/368)
اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوسروں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا
سوال/۲۷: کیا مجھے اپنی بہن کی طرف سے صدقۃ الفطر دینا ہوگا، معلوم ہو کہ اس کا میرے سوا کوئی نہیں ہے؟
جواب: اگر آپ کے والد کا انتقال رمضان سے پہلے ہو گیا اور آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے بھی آپ کی بہن کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا تو آپ پر اس کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ آپ استطاعت رکھتے ہوں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 199)
سوال/۲۸: کیا بیوی اور بچوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا آدمی کی ذمہ داری ہے؟
جواب: آدمی کے اوپر اپنی بیوی، بچے اور ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب ہے جن کی وہ کفالت کرتا ہے، بعض علماء نے کہا: صدقۃ الفطر دیگر عبادات کی طرح خود انسان پر واجب ہے، چنانچہ اگر آپ خود اس کو نکالنے کی استطاعت رکھتی ہیں تو اسے نکال لیں، اور اگر آپ کا شوہر آپ کی طرف سے نکالے تو اس کا آپ کے اوپر احسان ہوگا۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/260)
سوال/۲۹: میں ایک غیر شادی شدہ نوجوان ہوں، اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہوں، کیا صدقۃ الفطر میرے والد نے میری طرف سے ادا کرنی ہے یامجھے اپنےپیسوں سے ادا کرنا ہوگا؟
جواب: الف: صدقۃ الفطر فرض ہے اور یہ دوسرے تمام فرائض کی طرح ہے جس میں ہر شخص مخاطب ہوتا ہے، لہٰذا صدقۃ الفطر میں بھی آپ ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ آپ اپنی طرف سے ادا کریں خواہ آپ کا کوئی باپ ہو یا بھائی، اور اسی طرح بیوی کو بھی ادا کرنے کا حکم ہے کہ اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گر چہ اس کا شوہر ہو۔
ب: لیکن اگر خاندان کے ذمہ دار اہل وعیال کی طرف سے صدقۃ الفطر دینا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/261)
سوال/۳۰: کیا گھریلو ملازمہ پر صدقۃ الفطر واجب ہے؟
جواب: الف: گھریلو ملازمہ اگر مسلمان ہے تو اس پر صدقۃ الفطر واجب ہے.
ب: لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنا صدقۃ الفطر خود ادا کرے گی یا گھر والے؟ قاعدہ تو یہ ہے کہ اپنا صدقۃ الفطر وہ خود ادا کرے لیکن اگر گھر کے لوگ اس کا صدقۃ الفطر ادا کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
دوسرے ملک میں صدقۃ الفطر ادا کرنا
سوال/۳۱: کیا صدقۃ الفطر اپنے ملک کے علاوہ کسی اور ملک میں ادا کرنا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر دوسرے ملک بھیجنے کے بجائے سنت یہ ہے کہ اسے اپنے ملک کے فقیروں میں تقسیم کیا جائے تاکہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ بے نیاز ہو جائیں ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 213)
سوال/۳۲: کیا دیار غیر میں بسنے والے اپنے اپنے ملکوں میں صدقۃ الفطر نکلوا سکتے ہیں؟
جواب: الف: ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء کے صحیح قول کے مطابق إن شاء اللہ قابل قبول ہوگا۔
ب: لیکن جس جگہ مقیم ہوں اسی جگہ نکالنا زیادہ افصل ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 215)
سوال/۳۳: صدقۃ الفطر کو اس وجہ سے دور دراز ممالک میں منتقل کرنے کا کیا حکم ہے کہ وہاں غریب بہت زیادہ ہیں؟
جواب: الف: جس جگہ آپ رہ رہے ہىں وہاں اگر صدقۃ الفطر قبول کرنے والا کوئی فقیر موجود نا ہو تو دوسرے ممالک میں صدقۃ الفطر منتقل کرنا جائز ہے ۔
ب: اگر صدقۃ الفطر قبول کرنے والے وہاں موجود ہوں تو اسے دوسرے ممالک بھیجنا جائز نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
مسافر کا صدقۃ الفطر
سوال/۳۴: مسافر صدقۃ الفطر کس طرح ادا کرے؟
جواب: اگر کوئی شخص عید سے دو دن یا اس سے پہلے سفر پر نکل جائے تو صدقۃ الفطر اسی اسلامی ملک میں نکالے گا جہاں وہ سفر کر کے گیا ہے، اگر اسلامی ملک نہیں ہے تو کسی مسلم فقیر کو تلاش کر کے اسے صدقۃ الفطر کی رقم دے دے ، اور اگر صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وقت ہونے کے بعد سفر کر رہا ہے تو صدقۃ الفطر نکال کے اپنے ملک کے فقیروں میں تقسیم کر دے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/ 214)
سوال/۳۵: اگر کوئی شخص سفر پر ہے اور اپنے بچوں کے پاس پہنچنے سے پہلے اسی ملک میں صدقۃ الفطر وقت پر ادا کر دے جہاں وہ ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ وہ اپنے بچوں سے دور ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ صدقۃ الفطر کو اسی جگہ ادا کیا جاتا ہے جہاں عيد کے دن آپ موجود ہوں، اگرچہ وہ آپ کے ملک سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۳۶: کیا ایک پردیسی اپنے گھر والوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا، جبکہ اہل خانہ اپنی طرف سے صدقۃ الفطر دیتے ہیں؟
جواب: الف: اگر گھر والے اپنا صدقۃ الفطر ادا کرتے ہیں تو پردیسی کے لئے ان کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنا ضروری نہیں۔
ب: لیکن جہاں رہتا ہے وہاں اگر کوئی مسلمان مستحق موجود ہو تو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر وہیں نکالے گا۔
ج: اگر وہاں کوئی مستحق موجود نا ہو تو اپنے گھر والوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر نکالنے کا وکیل بنا سکتا ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/264)
سوال/۳۷: ہم غیر اسلامی ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہاں زکاۃ کا مستحق کوئی بھی شخص نہیں ہے تو کیا کریں؟
جواب: اس مسئلے کا حل آسان ہے، کسی کو آپ اپنی طرف سے اس کی ادائیگی کے لیے مقرر کر دیں، یا تو اپنے آبائی ملک میں، یا دوسرے ممالک میں جہاں زکاۃ لینے والے موجود ہوں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/317)
سوال/۳۸: اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کا خاندان ریاض میں ہے تو کیا پورےخاندان کی طرف سے صدقۃ الفطر مکہ میں ادا کرنا ہوگا؟
جواب: الف: اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ نا رہ رہا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اپنے گھر والوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کر دے، اگر وہ مکہ میں ہے اور گھر والے ریاض میں ہیں تو اس کے لیے مکہ میں ان کی طرف سے فطرانہ ادا کرنا جائز ہے۔
ب: لیکن افضل ہے کہ ہر شخص صدقۃ الفطر وہیں ادا کرے جہاں وہ ادائیگی کے وقت موجود ہو۔ مجموع الفتاویٰ
سوال/۳۹: کیا کسی شخص کے لیے صدقۃ الفطر اپنے ملک میں ادا کرنا جائز ہے، جبکہ کہ وہ مکہ میں ہے اور اس کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا آپ جس ملک میں ہیں صدقۃ الفطر کا وقت ہو جانےپر اسی ملک میں ادا کریں۔ مجموع الفتاویٰ (18/327)
صدقۃ الفطر کا مستحق کون ہے؟
سوال/۴۰: کیا گاؤں کے امام کو صدقۃ الفطر دینا جائز ہے، خواہ وہ غریب ىا امیر ہو؟
جواب: صدقۃ الفطر کو اللہ نے غریبوں اور مسکینوں کےساتھ ہمدردی اور ضرورت مندوں کے لیے خوراک کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اگر گاؤں کا امام خوشحال ہے اور اس کا گزر بسر چل رہا ہو تو اسے صدقۃ الفطر یا دوسری زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن باز (14/215-216)
سوال/۴۱: صدقۃ الفطر کا مصرف کیا ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر کا صرف ایک ہی مصرف ہے اور وہ ہیں فقراء اور مساکین۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/259)
سوال/۴۲: کیا غیر مسلم مزدوروں کو صدقۃ الفطر دینا جائز ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر مسلم فقراء کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۴۳: کچھ عورتیں دکانوں کے پاس بیٹھی ہوتی ہیں اور بظاہر غریب نظر آتی ہیں، تو کیا ان کو صدقۃ الفطر دینا درست ہے؟
جواب: آدمی کے لیے اپنی مالی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر اس شخص کو دینا جائز ہے جسے وہ زکاة کا حقدار سمجھتا ہو حتیٰ کہ بظاہر زکاة کا مستحق نہ بھی ہو اور اسے دے دے، تب بھی قابل قبول ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/354)
سوال/۴۴: کئی لوگوں کے گھریلو نوکر غیر مسلم ہوتے ہیں تو کیا ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا یا انہیں صدقۃ الفطر میں سے کچھ دیا جا سکتا ہے؟
جواب: نا تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا نا ہی انہیں صدقۃ الفطر میں سے کچھ دیا جائے گا اور اگر انہیں دے دیا جائے تو صدقۃ الفطر ادا ہی نہیں ہوگا، لیکن صدقۃ الفطر کے علاوہ انہیں کچھ دے کر ان کے ساتھ بھلائی کی جا سکتی ہے يہ علم ميں رہے كہ ان كافر ملازمين كى بجائے مسلمان ملازمين كو ركھ كر كفار سےبے نياز ہوا جا سكتا ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/375)
سوال/۴۵: سگریٹ نوشی اور گٹکھا کھانے والے غریبوں کو صدقۃ الفطر دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: ان کے برے اعمال انہیں صدقۃ الفطر دینے میں مانع نہیں ہیں، کیونکہ وہ اس عمل کی وجہ سے دین سے خارج نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے عقیدہ کی بنیاد پہ مومن ہی ہیں یہ اور بات ہے کہ محرمات کے ارتکاب کی وجہ سے فسق میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/376)
سوال/۴۶: غریب رشتہ داروں کو صدقۃ الفطر دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: غریب رشتہ داروں کو صدقۃ الفطر اور مال کی زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ مستحق رشتہ داروں کو دینا دوسروں کو دینے سے بہتر ہے کیونکہ صدقہ وزکاۃ غریب رشتہ داروں کو دینا صدقہ اور صلہ رحمی دونوں ہے، بشرطیکہ اس كى ادائيگى ميں اپنے مال كا بچاؤ اور حمايت نہ ہو، وہ اس طرح کہ يہ فقير جسے وہ زكاۃ دے رہا ہے اس كا نفقہ اور خرچ زكاۃ دينے والے پر واجب ہوتا ہو، تو اىسى حالت ميں اس كى كسى ضرورت كو پورا كرنے كے ليے زكاۃ دينا جائز نہيں۔ الشيخ ابن عثیمین
صدقۃ الفطر میں کسی کو وکیل مقرر کرنا
سوال/۴۷: کیا کسی شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا وکیل مقرر کر دے، چاہے وہ شخص کام کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں ہی کیوں نہ ہو؟
جواب: آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے صدقۃ الفطر وقت پر ادا کرنے کا وکیل مقرر کر دے، گر چہ وہ کام کی غرض سے کسی دوسرے ملک میں رہ رہا ہو۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/262)
سوال/۴۸: کیا وہ فقیر جسے کوئی فطرانہ دینا چاہتا ہے وہ فطرانہ لینے کے لیے کسی اور کو وكىل بنا سکتا ہے؟
جواب: ایسا کرنا جائز ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/268)
سوال/۴۹: فقیر کے آنے تک فطرانہ کسی پڑوسی کے پاس رکھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: آدمی کے لئے جائز ہے کہ اپنا فطرانہ پڑوسی کے پاس رکھ دے اور اس سے کہے کہ فلاں شخص کے لئے ہے وہ آئے تو اسے دے دینا، لیکن ضروری ہے کہ عید کی نماز سے پہلے وہ فقیر کے ہاتھ میں مل جائے کیونکہ پڑوسی فطرانہ ادا کرنے والے کا وکیل ہے۔
ب: ہاں اگر پڑوسی کو فقیر نے فطرانہ وصول کرنے کا ذمہ دار بنا کر اس سے کہہ دیا ہے کہ پڑوسی سے میرا فطرانہ لے لینا تو ایسی صورت میں پڑوسی کے پاس عید کی نماز کے بعد تک رہے تو کوئی حرج نہیں۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/285)
سوال/۵۰: اگر کوئی شخص صدقۃ الفطر اپنے پڑوسی کے پاس رکھے اور فطرانہ لینے والا عید سے پہلے نا آئے اور فطرانے کا وقت نکل جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: الف: اگر پڑوسی کے پاس اس اعتبار سے رکھا ہے کہ پڑوسی فقیر کا وکیل ہے تو پڑوسی کے ہاتھ میں پہنچنے کا مطلب ہے کہ فقیر کو مل گیا۔
ب: اگر فقیر نے پڑوسی کو وکیل مقرر نہیں کیا ہے تو فطرانہ ادا کرنے والے پہ حقداروں تک عید کی نماز سے پہلے پہنچانا ضروری ہے۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین
سوال/۵۱: کیا آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ آپ فطرانہ اپنے گھر والوں کے سپرد کرکے اپنے گھر پر نکالیں؟
جواب: ہاں یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مجموع فتاویٰ الشيخ ابن عثیمین (18/561)
سوال/ ۵۲: اگر کسی نے فطرانہ ادا کر دیا اور ضرورت مند موجود نا ہو تو کیا اسے کسی ایسے وکیل کو دینا جائز ہے جو ضرورت مند کی طرف سے لے لے؟
جواب: اگر فقیر کسی شخص کو فطرانہ وصول کرنے کے لئے اپنی طرف سے نائب بنا دے تو فطرانہ ادا کرنے والے کے لئے اس نائب کو دینا جائز ہے۔اللجنۃ الدائمۃ (9/381)
سوال/ ۵۳: کیا مساجد یا اسلامی تنظیموں کے ذمہ داران کے لیے فطرانہ جمع کرنا اور تقسیم کرنا جائز ہے؟
جواب: الف: بنیادی اصول یہ ہے کہ فطرانہ براہ راست ادا کرنے والا حقدار کو پہنچائے۔
ب: البتہ جس پر فطرانہ واجب ہے اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کی تقسیم کے لیے دوسرے ثقہ افراد کو تفویض کرے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/389)
متفرقات
سوال/ ۵۴: کیا ایک آدمی کا فطرانہ کئی لوگوں کو تھوڑا تھوڑا دینا جائز ہے یا پورا ایک ہی شخص کو دینا ضروری ہے؟
جواب: ایک آدمی کا فطرانہ پورا ایک ہی شخص کو دینا جائز اور کئی لوگوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے دینا بھی جائز ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/377)
سوال/ ۵۵: کیا خیراتی اداروں کے لیے یہ جائز ہے کہ جوفطرانہ وه وصول كرتے ہیں اسے بتدریج ان حقدار کی ضروریات کے مطابق خرچ کریں جن کی وہ کفالت کرتے ہیں؟
جواب: الف: خیراتی اداروں پر واجب ہے کہ فطرانہ مستحق افراد کو عید کی نماز سے پہلے ادا کریں اور اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔
ب: خیراتی اداروں کے لیے اتنا ہی فطرانہ جمع کرنا جائز ہے جتنا وہ عید کی نماز سے پہلے خرچ کر سکیں۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/279)
سوال/ ۵۶: فطرانہ لے کر بیچنے والے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر لینے والا اس کا حقدار ہے تو حاصل کرنے کے بعد بیچ سکتا ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/380)
سوال/ ۵۷: صدقۃ الفطر نکالنے کی کیا دعا ہے؟
جواب: ہمارے علم میں صدقۃ الفطر نکالنے کی کوئی دعا نہیں ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/387)
سوال/ ۵۸: کیا مسلمان کے لیے فطرانہ یا دیگر زکوٰۃ اپنے بیٹے کو دینا جائز ہے جوکہیں دور پڑھ رہا ہو؟
جواب: بیٹے کو فطرانہ یا کوئی اور زکوٰۃ دینا جائز نہیں، کیونکہ اس کی کفالت باپ پر واجب ہے۔ اللجنۃ الدائمۃ (10/66)
سوال/ ۵۹: جو شخص صدقۃ الفطر ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور ادا نہ کرے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: صدقۃ الفطر ادا نا کرنے والے پہ واجب ہے کہ اللہ سے توبہ واستغفار کرے کیونکہ ادا نا کر کے گنہگار ہوا ہے اور فوری طور پہ فطرانہ نکال کے حقداروں تک پہنچائے معلوم ہو کہ عید کی نماز کے بعد ادا کرنے کی صورت میں عام صدقہ مانا جائے گا۔ اللجنۃ الدائمۃ (9/386)
سوال/ ۶۰: فطرانہ ادا کرنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: فطرانہ کی ادائیگی میں اللہ کی نعمت کے شکریہ کا اظہار ہے کہ اس نے رمضان کے روزے کی تکمیل و توفیق بخشی۔ الشيخ ابن عثیمین
( جمعيۃ الدعوة والإرشاد وتوعيۃ الجاليات بمحافظۃ الوجہ)
المراجع:
مجموع فتاوى العلامۃ ابن باز
مجموع فتاوى اللجنۃ الدائمۃ
مجموع فتاوى العلامۃ ابن عثيمين
المراجع:
مجموع فتاوى العلامۃ ابن باز
مجموع فتاوى اللجنۃ الدائمۃ
مجموع فتاوى العلامۃ ابن عثيمين