- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 49
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 35
صرف روزہ ہی کواللہ نے اپنے لئےکیوں خاص کیا ہے؟
ابومعاویہ شارب بن شاکر السلفی
روزے کی فضیلت کے بیان میں ہم نے حدیث قدسی کا یہ جملہ’’الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ‘‘ یعنی اللہ کاوعدہ ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوں گا،پڑھ اورسن رکھاہے ،کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ نے تمام عبادتوں کو چھوڑکر صرف روزہ ہی کو اپنے لئے کیوں خاص کیا؟؟ جب کہ تمام عبادتیں تو اللہ ہی کے لئے انجام دی جاتی ہے،مگر اللہ نے تمام عبادتوں کو چھوڑکر صرف روزہ ہی کو اپنے لئے خاص کیاہے!!!
اس سوال کاجواب امام قرطبی ؒ اپنی تفسیرکے اندر دیتے ہوئے فرمایاکہ ویسے توتمام عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں مگر اللہ تعالی نے دووجوہات کے بناپر روزے کو اپنے لئے خاص کیا ہے اورروزہ ان دووجوہات کی وجہ سے باقی تمام عبادتوں سے مختلف ہے:
روزہ ایک انسان کو نفس کی لذتوں اورشہوتوں سے روکتاہےجب کہ دوسری عبادات کےاندر یہ بات اورایسی صفت نہیں پائی جاتی ہے۔اسی لئے اللہ نے روزے کو اپنے لئے خاص کیا۔
اللہ رب العالمین کاروزہ کواپنے لئے خاص کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ روزہ بندے اوراس کے رب کے درمیان ایک راز یعنی پوشیدہ عمل ہوتاہے،جسے وہ صرف اسی کے لئے ظاہرکرتاہے۔(مثال کے طورپر ذرادیکھئے کہ ایک انسان سخت گرمی کے ایام میں روزہ رہتاہے ،پیاس کی شدت سے نڈھال ہواجاتارہتاہے ،دوران وضویاپھر کبھی خلوت میں وہ انسان ایک گھونٹ نگل لے تو کسی کو وہم وگمان تک نہ ہوگا مگر ایک روزہ دارانسان کبھی بھی ایسانہیں کرتا،یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے اپنے لئے روزے کو خاص کیا ہے)روزہ کے علاوہ جتنی بھی عبادتیں ہیں اس کے اندر ایسی بات نہیں پائی جاتی ہے،بلکہ انسان تو ان عبادتوں کو جب جب ریاکاری کے طورپربھی انجام دیتاہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ نے روزہ کو اپنے لئے خاص کیا۔(تفسیرقرطبی:2/272)
دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے اندر اخلاص ہی اخلاص ہے اوراسی کمال اخلاص کی وجہ سے رب العالمین نے اپنے لئے اس کو خاص کرلیا۔
اہل علم کے ذوق وشوق کے لئے تفسیرقرطبی سے عربی عبارت نقل کی جاتی ہے:
وَإِنَّمَا خَصَّ الصَّوْمَ بِأَنَّهُ لَهُ وَإِنْ كَانَتِ الْعِبَادَاتُ كُلُّهَا لَهُ لِأَمْرَيْنِ بَايَنَ الصَّوْمُ بِهِمَا سَائِرَ الْعِبَادَاتِ:
أَحَدُهُمَا: أَنَّ الصَّوْمَ يَمْنَعُ مِنْ مَلَاذِّ النَّفْسِ وَشَهَوَاتِهَا مَا لَا يَمْنَعُ مِنْهُ سَائِرُ الْعِبَادَاتِ۔ الثَّانِي: أَنَّ الصَّوْمَ سِرٌّ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ رَبِّهِ لَا يَظْهَرُ إِلَّا لَهُ، فَلِذَلِكَ صَارَ مُخْتَصًّا بِهِ. وَمَا سِوَاهُ مِنَ الْعِبَادَاتِ ظَاهِرٌ، رُبَّمَا فَعَلَهُ تَصَنُّعًا وَرِيَاءً، فَلِهَذَا صَارَ أَخَصَّ بِالصَّوْمِ مِنْ غَيْرِهِ۔(تفسیرقرطبی:2/272)