• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صرف وحیدالزماں ہی کیوں؟؟؟ ایک تحقیق۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وحیدالزماں کی حنفی مشائخ سے والہانہ محبت و عقیدت

وحیدالزماں اپنے آبائی مسلک حنفیت کے اپنی ذات پر مضبوط اثرات کی وجہ سے حنفی مشائخ سے گہری عقیدت رکھتا تھا حتی کہ موصوف کی آخری عمرمیں مسلک شیعت سے وابستگی بھی حنفی مشائخ سے ان کی لازوال عقیدت و محبت پر کوئی اثر نہ ڈال سکی۔بلکہ وحیدالزماں تادم مرگ ان سے تعلق اور محبت کا دم بھرتے رہے۔اس کی دو مثالیں بطور ثبوت پیش خدمت ہیں جن سے چڑھتے سورج کی روشنی کی طرح واضح ہو رہا ہے کہ وحیدالزماں عمر بھر حنفی اور حنفی مشائخ کا دیوانہ رہا۔ چناچہ ان واقعات کی روشنی میں وحیدالزماں کی نسبت مسلک اہل حدیث سے جوڑنا ظلم عظیم ہے۔

۱۔ وحیدالزماں تمام زندگی ایک حنفی بزرگ فضل رحمان گنج مراد آبادی کے بیعت یافتہ مرید رہے اور دین و دنیا کے نشیب و فراز بھی ان کی اس والہانہ عقیدت میں حائل نہیں ہوئے۔ بقول عبدالحلیم چشتی ،وحیدالزماں ان حنفی بزرگ سے تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد یعنی لڑکپن ہی میں بیعت ہوگئے تھے اور پھر پیری مریدی کا یہ ساتھ وحیدالزماں کی آخری سانس تک قائم رہا۔ وحیدالزماں کے سوانح نگار عبدالحلیم چشتی لکھتے ہیں: موصوف(وحیدالزماں) نے مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی سے بیعت کا زکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے مگر یہ نہیں بیان کیا کہ یہ سلسلہ ارادت کب قائم ہوا تھا، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر دین میں استقامت اور اصلاح باطن کے لئے مولانا فضل رحمان کے دست حق پر بیعت کی۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ 26)

عبدالحلیم چشتی، وحیدالزماں کے فضل رحمان گنج مراد آبادی سے دلی تعلق پر مزید لکھتے ہیں: مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی سے مولانا کو بڑی عقیدت تھی، زندگی میں بڑے بڑے انقلابات ہوئے مگر حیرت ہے مولانا گنج مراد آبادی سے روز اول سے جیسی عقیدت ہوئی تادم مرگ ویسی ہی قائم رہی۔ جہاں کہیں مولانا کا ذکر کرتے یا ان کی نصیحت اور موعظت نقل کرتے ہیں تو بڑی شیفتگی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ تبرکاً دوواقعے یہاں بھی نقل کئے جاتے ہیں جس سے ناظرین کو مولانا کی عقیدتمندی اور مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی کے علو مرتبت کا اندازہ ہوسکے گا۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ 26)

۲۔ لغات الحدیث وحیدالزماں کی وہ تصنیف ہے جس کا تعلق اس کی عمر کے آخری ماہ و سال ہے۔ اپنی اسی مایہ ناز تصنیف میں وحیدالزماں نے ایک حنفی بزرگ مرزا مظہر جان جاناں کو اپناپیرو مرشد قرار دیا ہے جو کہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ مرزا مظہرجان جاناں سے وحیدالزماں کا پیری و مریدی اور عقیدت و محبت کا تعلق عمر بھرقائم رہا۔ چناچہ وحیدالزماں رقمطراز ہیں: مرزا مظہر جان جاناں نے جو ہمارے مرشدوں میں سے ہیں غازی الدین خان فیروز جنگ کا ایک لاکھ روپیہ جس کو وہ طریق نذر لائے تھے سب کا سب پھیر دیا۔ایک روپیہ بھی اس میں سے قبول نہیں کیا اسی روز شام کو ایک غریب شخص آکر آپ کا مرید ہوا اور چار آنے کا خوردہ بطور نذر پیش کیا ۔ آپ نے بڑی خوشی سے وہ سب خوردہ لے کر اپنی جیب میں ڈال لیا یہ ہے سچی فقیری اور درویشی۔(لغات الحدیث ، کتاب ش، صفحہ 58، جلد دوم)

وحیدالزماں کے پیرو مرشد مرزا مظہرجان جاناں وہی مشہور شخصیت ہیں جنھیں دیوبندی حضرات اپنے اکابرین میں شمار کرتے ہیں۔ بدنام زمانہ دیوبندی کتاب ارواح ثلاثہ میں اشرف علی تھانوی نے دیوبندی اکابر علماء و مشائخ کی فہرست میں مرزا مظہرجان جاناں کا بھی ذکر’خیر‘ کیا ہے۔(دیکھئے: ارواح ثلاثہ یعنی حکایات اولیاء، صفحہ 20)

یہ شخص یعنی مرزا مظہرجان جاناں کس قماش کا آدمی تھا اس کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جسے دیوبندیوں کی مذہبی کتاب ارواح ثلاثہ میں مرزا مظہرجان جاناں کی حکایات کے تحت نقل کیا گیاہے ،جس میں موصوف نے یہ بے شرمانہ اعتراف کیا ہے کہ بچپن میں بہت سے مرد اس کے عاشق تھے۔ ملاحظہ فرمائیں:
ایک مرتبہ کسی خاص شخص نے جرات کرکے دریافت کیا کہ حضرت یہ کون بزرگ ہیں اور آپ ان کے ساتھ یہ برتاؤ کیوں کررہے ہیں؟ مرزا صاحب نے فرمایا کہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب ہم لڑکے تھے تو ہماری شکل و صور ت اچھی تھی ہمارے چاہنے والے ہمارے پاس آیا کرتے تھے یہ بھی ہمارے چاہنے والوں میں سے تھے اور یہ بھی ہمارے پاس آیا کرتے تھے ، اس وقت ان کے ساتھ یونہی ہاتھا پائی ہوا کرتی تھی، جوں جوں ہم جوان ہوتے گئے ہمارے چاہنے والے رخصت ہوتے گئے مگر ایک یہ شخص تھا جو برابر آتا رہا۔ ( ارواح ثلاثہ یعنی حکایات اولیاء، صفحہ 20)

ان حوالاجات کے بعد وحیدالزماں کا اگر کسی خاص مسلک والوں سے کوئی تعلق بنتا ہے تو وہ صرف اور صرف حنفی بریلوی او ر حنفی دیوبندی ہیں۔’ اعلیٰ کردار‘ کے حامل پیرو مرشد کے مرید جناب وحیدالزماں صاحب کا اہل حدیث سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے جسے دلائل سے ثابت کردیا گیا ہے۔والحمداللہ

اب اہل حدیث اس بات میں حق بجانب ہیں کہ وحیدالزماں کی عبارات و تصنیفات دیوبندیوں اور بریلویوں کے خلاف پیش کریں کیونکہ وحیدالزماں انہیں کا ہم مسلک بھائی تھا۔ لیکن الٹی گنگا بہاتے ہوئے دیوبندی اور بریلوی اپنے اس ہم مسلک بھائی کی عبارات کو اہل حدیث کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وحیدالزماں حیدرآبادی سے متعلق تقلیدیوں کا دوہرا معیار

دوسروں پر اپنے دیانتدارانہ رویے کاجھوٹا تاثر دینے والے تقلیدی حضرات اکثر معاملات میں بالعموم اور وحیدالزماں کے بارے میں بالخصوص دوہرا معیار رکھتے ہیں۔ شیعہ حضرات کو جواب دیتے ہوئے دیوبندی علماء بڑی آسانی سے اقرار کرتے ہیں کہ وحیدالزماں شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا لہذا اس کی بات حجت نہیں۔ لیکن اہل حدیثوں سے بات کرتے ہوئے دیوبندیوں کے نزدیک وحیدالزماں غیر مقلد اور اہل حدیث وغیرہ ہی رہتا ہے اور وحیدالزماں کی عبارتیں بطور حجت اہل حدیث کے خلاف پیش کی جاتی ہیں۔ دیوبندیوں کے دہرے معیار کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:

ابوبکر غازی پوری لکھتا ہے: ایک بڑی خیانت کتاب میں یہ کی گئی ہے کہ بہت سارے وہ علماء جن کا شمار مشائخ دیوبند اور ان کے خوشہ چینوں میں قطعاً نہیں ہوتا ان کی عبارتوں کو علمائے دیوبند کے عقائد کے ثبوت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 87)

یہ طالب الرحمن شاہ صاحب حفظہ اللہ کی کتاب الدیوبندیہ کے بارے میں دیوبندی ابوبکر غازی پوری کا تبصر ہ ہے اس بات سے قطع نظر کہ ابو بکر غازی پوری کا یہ الزام جو انہوں نے طالب الرحمن شاہ صاحب پر عائد کیا ہے کس قدر ناانصافی پر مبنی ہے۔ یہاں دیوبندیوں کے مایہ ناز عالم ابو بکر غازی پوری نے ایک اصول بیان کیا ہے جس کی رو سے کسی ایسے عالم کے عقائد کسی جماعت کے سر تھوپنا جس جماعت سے اس عالم کا تعلق نہ ہو بہت بڑی خیانت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دوسری طرف اپنے اس اصول سب سے زیادہ مخالفت بھی خود ابو بکر غازی پوری نے اپنی اسی کتاب جس میں موصوف نے یہ اصول بیان کیا ہے یعنی کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ میں وحیدالزماں کے عقائد کو جماعت اہل حدیث کے عقائد بنا کر پیش کرکے کی ہے۔جبکہ دلائل سے اس بات کو ثابت کردیا گیا ہے کہ وحیدالزماں کا جماعت اہل حدیث سے کوئی تعلق نہیں تھا پھر وحیدالزماں کے عقائد جماعت اہل حدیث کے عقائد کیونکر ہوسکتے ہیں؟! ان لوگوں کے نزدیک ایک اصول جب وہ اپنے لئے ہو تو کچھ اور ، جب دوسروں کے لئے ہو تو کچھ اور ہوتا ہے۔

بہرحال یہ طے ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کی مخالفت کی وجہ سے ابوبکر غازی پوری سمیت دیگر وہ تمام دیوبندی علماء بھی بہت بڑے خائن قرار پاتے ہیں جو دن رات وحیدالزماں کے عقائد کو جماعت اہل حدیث کے عقائد منوانے کی کوشش میں دن رات مصروف عمل رہتے ہیں۔

دوسروں کو خیانت کا جھوٹا طعنہ دینے والے خود دیانت و امانت کے کس اونچے مقام پر فائز ہیں خود ان کے منافقانہ طرز عمل سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وحیدالزماں کسی دور میں بھی اہل حدیث نہیں رہا

کتب ستہ کے تراجم کے بعد وحیدالزماں کی تقلید بے زاری اور اہل حدیثوں سے چند مسائل میں موافقت کی وجہ سے اگرچہ بیشتر علمائے اہل حدیث نے خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنا پر وحیدالزماں کامختصر مدت کے لئے اہل حدیث ہونا تسلیم کیا ہے لیکن وحیدالزماں کی تصنیفات کے مطالعے سے یہ بات ناقابل تردید حقیقت کی صورت میں
سامنے آتی ہے کہ وحیدالزماں اپنی حیات کے کسی بھی دور میں اہل حدیث نہیں رہا۔ محض ترک تقلید اوراہل حدیث سے چند مسائل میں موافقت وحیدالزماں کے اہل حدیث ہونے کی دلیل نہیں۔ اس لئے وحیدالزماں کو اس کی عمر کے آخری دور میں پیدا ہونے والی تقلید بے زاری کی وجہ سے اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالنابہت بڑی نا انصافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے وحیدالزماں کو اہل حدیث تسلیم کرنے کے بجائے نیم اہل سنت کہا۔(دیکھئے: فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم، صفحہ 428)

اسی طرح داود ارشد حفظہ اللہ نے وحیدالزماں کو سب سے کچا سلفی قراردیا ہے۔ دیکھئے: علمائے اہل حدیث میں سب سے کچا سلفی علامہ وحیدالزماں ہے۔(تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث، صفحہ 304)

یہ حوالے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ علمائے اہل حدیث نے بھی وحیدالزماں کو تقلید چھوڑنے کے بعد سے لے کر شیعہ ہونے تک کے مختصر وقت کے لئے بھی صحیح اہل حدیث قرار نہیں دیابلکہ اس کی سلفیت اور مسلک اہل حدیث سے نسبت اور وابستگی پر شبہ کااظہار کیا ہے۔

یہ شبہ بالکل درست ہے کیونکہ وحیدالزماں نے کبھی بھی اپنے اہل حدیث ہونے کا اعلان نہیں کیا اور اپنے اس نام نہاد دور اہل حدیث میں جو کچھ لکھا اس میں اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث کا زبردست ردکیا۔ جوبزات خود اس بات کا اعلان ہے کہ وحیدالزماں نے سرے سے مسلک اہل حدیث کو قبول ہی نہیں کیا۔ اور وحیدالزماں کے تقلید چھوڑ دینے کے بعد جو اہل حدیث کو تھوڑی سی امید پیدا ہوگئی تھی کہ وحیدالزماں اب اہل حدیث ہو جائے گا وہ امید بھی ہدیۃ المہدی کی تالیف کے بعد ختم ہوگئی تھی۔اسی بات کی تائید کرتے ہوئے بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کتاب کی وجہ سے جو اہلحدیثوں کو توقع تھی کہ نواب صاحب اہلحدیث ہو جائیں گے، ختم ہو گئی تھی۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 113)
معلوم ہوا کہ نواب وحیدالزماں کے اہل حدیث ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔

بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے اس حقیقت کا بھی کھل کا اظہار فرمایا کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں ہوا تھا۔چناچہ لکھتے ہیں: یہ عبارت بھی واضح کرتی ہے کہ نواب صاحب نہ غیر مقلد تھے اور نہ اہلحدیث تھے بلکہ اہلحدیثوں پر حملے کرتے رہے۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 113)

مزید فرماتے ہیں:
مولانا صاحب ! اب تو آپ کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ نواب وحیدالزماں کے خیالات میں اگرچہ تبدیلی آچکی تھی لیکن اس کے باوجود اہلحدیث علماء کی اس کی تصنیفات کے بعد جو امیدیں اس سے وابستہ تھیں ختم ہوگئی تھیں.... گویا کہ اس میں حنفیت باقی تھی۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 112)

ابو اسامہ گوندلوی کی تحقیق میں بھی وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا بلکہ تقلید بے زاری کے بعد بھی حنفیت پر گامزن تھا۔ دیکھئے:
پھر موصوف نے التفات علامہ وحیدالزماں کی طرف کی ہے اس لئے کہ وہ ان کے گھر کے ہی ایک فرد تھے ان کی کتاب نزل الابرار سے چھبیس مسائل کا انتخاب کرکے اہل حدیث کے نام تھونپ دیا ہے حالانکہ وہ تمام مسائل یا ان میں اکثر مسائل فقہ حنفی سے ماخوذ ہیں اور جو باقی ہیں ان کا اسلوب بھی فقہ حنفی سے مختلف نہیں۔(شادی کی دوسری دس راتیں بجواب شادی کی پہلی دس راتیں، ص73)

ؑعمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ وحیدالزماں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ زندگی بھر حنفیت سے جان نہیں چھڑا پایااور نہ ہی کبھی اہل حدیث رہا، لکھتے ہیں: ایسے گمراہ کن عقیدے کے حامل کا مسلک اہل حدیث یا جماعت اہل حدیث سے کیا واسطہ؟ یہ تو نواب صاحب کی پرانی حنفیت کا رنگ ہے جو شاید مکمل طور پر ان کے اندر سے ختم نہیں ہوئی تھی۔ (اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، صفحہ 182)

معلوم ہوا کہ وحیدالزماں کے اندر تقلید کو چھوڑ دینے کے بعد بھی حنفیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ یعنی وحیدالزماں تقلید چھوڑ دینے کے بعد بھی حنفی ہی تھا اہل حدیث نہیں تھا کیونکہ وہ اہل حدیثوں کو بھی دوسرے گمراہ فرقوں کی طرح سمجھتا تھا۔

بدیع الدین شاہ راشدی وحیدالزماں کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں: وہ اہلحدیث کو دوسرے فرقوں کی طرح سمجھتے تھے۔(مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 112)

خود وحیدالزماں لکھتا ہے: غیر مقلدوں کا گروہ جو اپنے تیئں اہلحدیث کہتے ہیں انہوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین کی(لغات الحدیث، کتاب ش، صفحہ 91، جلد دوم)

یہ وحیدالزماں کی اس کتاب کی تحریر ہے جو اس نے تقلید چھوڑنے کے عرصے دراز بعد لکھی تھی اسی دور کے حوالے سے وحیدالزماں کومخالفین کی طرف سے اہل حدیث بارور کروایا جاتا ہے۔کیا کوئی زہنی طور پرصحت مند شخص وحیدالزماں کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ وحیدالزماں اس دور میں جب اس نے یہ سطور رقم کیں اہل حدیث تھا۔وحیدالزماں کی یہ تحریر ثابت کرتی ہے کہ نہ تو وحیدالزماں کبھی اہل حدیث تھا اور نہ ہی اس کے نزدیک اہل حدیث سیدھے راستے پر تھے۔اسی لئے بقول عبدالحلیم چشتی دیوبندی، وحیدالزماں نے ہدیۃ المہدی اس وجہ سے تالیف کی تھی کہ اہل حدیث کو شرک اور بدعت میں غلو اور تشدد سے باز رکھا جائے۔(دیکھئے حیات وحیدالزماں، صفحہ 142) زرا اندازہ کریں کہ جس شخص کے نزدیک اہل حدیث گمراہ ہوں کیسے اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود بھی اہل حدیث ہوگا؟ ہرگز نہیں بلکہ صرف یہ ایک حوالہ ہی ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وحیدالزماں اپنی عمر کے کسی بھی حصے میں اہل حدیث نہیں تھا۔

اہل باطل کی اس بیماری کا کیا کریں کہ انہیں ہر طرح کی دلیل دی جائے لیکن انہیں تسلی نہیں ہوتی جب تک انہی کے مسلک کے علماء کی تحریرات بطور تائید پیش نہ کی جائیں۔ اہل باطل کی اسی بیماری کے علاج کی خاطر ان کے گھر کی گواہیاں پیش خدمت ہیں جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں تھا۔ ملاحظہ فرمائیں: اورہٹ دھرمی چھوڑ کر حقیقت کو تسلیم کرلیں۔شکریہ

۱۔ ڈاکٹر علامہ خالد محموددیوبندی لکھتے ہیں: جہاں تک ہم سمجھ سکیں ہیں مولانا وحیدالزماں شیعہ کتب حدیث کو اہلسنت کتب حدیث کی کتابوں کے قریب لانا چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے مسلک اہلحدیث اختیار کیا تھا۔(آثار الحدیث،جلد دوم، صفحہ 398)
پتا چلا کہ دیوبندی عالم کے نزدیک وحیدالزماں کا اہل حدیث ہونے کا ڈھونگ رچانا ایک خاص مقصد کے تحت تھا ورنہ وہ حقیقت میں اہل حدیث نہیں تھا۔

۲۔ حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویزنامی دیوبندی کتاب میں درج ہے کہ وحیدالزماں تقیہ بردار شیعہ تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں وہ شیعہ تھااور اپنے اصلی مذہب کو چھپائے ہوئے تھالہذا اسکا خود کو اہل حدیث ظاہر کرنا محض دھوکہ تھا۔ دیکھئے:
حوالے ہدیۃ المہدی وغیرہ جیسی بے ہودہ کتابوں سے دیے ہیں۔جس کا لکھاری تقیہ باز شیعہ ہے۔( حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 14)

دیوبندیوں کی اسی کتاب کے تحت وحیدالزماں تو اس وقت بھی شیعہ ہی تھا جب وہ احادیث کی کتابوں کے ترجمے اور فوائد لکھ رہا تھا ۔دیکھئے:

وحیدالزماں کی ترجمہ شدہ سنن ابوداود سے ایک فائدہ نقل کرنے کے بعد دیوبندی مصنف نے اس پر اس طرح تبصرہ کیا ہے: یہ ابوداود کے حوالے سے نقل شدہ بات ابوداود کی ہے نہ ابوداود میں بیان شدہ احادیث کی۔ بلکہ امام ابوداود کی کتاب پر اردو ترجمہ کے فائدہ کے نام سے بے فائدہ باتیں لکھنے والے نواب کا یہ کالا سیاہ کارنامہ ہے۔نواب صاحب جس کی یہ حاشیہ آرائی ہے نہ صرف شیعہ بلکہ تقیہ باز رافضی تھے۔(حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 632)

اسی کتاب میں ایک اور مقام پر یہ وضاحت موجود ہے کہ وحیدالزماں اصل میں شیعہ تھا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کچھ عرصہ کو اہل سنت میں داخل ہوا تھاتاکہ عام مسلمانوں کو گمراہ کرسکے۔دیکھئے: اس چال سے نواب صاحب کا مقصود بھی یہی کچھ تھا کہ اول اہل سنت میں داخل ہوجاؤ پھر چھوڑ دو شاید اس طرح کمزور اہل سنت بھی اس گمان سے کہ اتنا بڑا کتابوں کا مصنف جو یہ مسلک چھوڑ گیا تو آخر کوئی بات تو ضرور ہوگی ناں۔(حقیقی دستاویزفی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 633)

وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں ہوا اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ موصوف تمام عمر ایک دیوبندی عالم کے نہایت عقیدت مند رہے اور ا س دیوبندی عالم سے بیعت یافتہ بھی تھے اور سلسلہ نقشبندیہ میں بھی شامل تھے۔

۳۔ عبدالحلیم چشتی دیوبندی، مولوی فضل رحمانؒ سے بیعت کی سرخی لگا کرلکھتے ہیں: موصوف نے مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادی ؒ سے بیعت کا زکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے.....مولوی صاحب نے سلسلہ قادریہ میں اذکار و اشغال کی تعلیم و تلقین کی۔ والد ماجد نے آپ کو حیدرآباد دکن بلا لیامگر آپ نے خط و کتاب سے یہ رشتہ برابر قائم رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادیؒ نے موصوف کو سلسلہ نقشبندیہ میں بھی داخل کرلیاتھا...... مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادیؒ سے مولوی وحیدالزماںؒ کو بڑی عقیدت تھی، زندگی میں بڑے بڑے انقلابات ہوئے مگر حیرت ہے مولوی گنج مراد آبادی سے روز اول سے جیسی عقیدت ہوئی تا دم مرگ ویسی ہی قائم رہی۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ26)

۴۔ عبدالحلیم چشتی دیوبندی رقم طراز ہیں: مولانا کے مزاج میں ایک نوع کا تلون اور انتہاء پسندی تھی جس کی وجہ سے بعض مسائل میں جمہور اہل حدیث سے بھی آپ کا اختلاف رہا..... اس آپس کے اختلاف کا سبب تھا کہ جب آپ نے ہدیۃ المہدی تالیف کی تو اہل حدیث میں مخالفت کی ایک عام لہر دوڑ گئی.... اسی مخالفت کا یہ نتیجہ تھا کہ پھر موصوف نے اہل حدیث کی گروہ بندی پر جا بجا نہایت سختی سے نکتہ چینی کی۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ101)

یہ عبارت اس بات پر بین دلیل ہے کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں تھا بلکہ شروع ہی سے اہل حدیث کا مخالف رہا اور پھر یہ مخالفت وقت کے ساتھ اس قدر بڑھی کہ اہل حدیث سے براء ت پر منتج ہوئی ۔

۵۔ اس کے علاوہ جیسا کہ سابقہ سطور میں بالتفصیل زکر کیا جاچکا ہے کہ وحیدالزماں نے احادیث کی کتابوں کے تراجم سے فراغت (یہ فراغت ۱۳۱۰ ؁ ھجری میں میسرآئی) حاصل کرنے کے بعد ۱۳۳۱ ؁ ھ میں جو کہ ۱۳۱۰ ؁ ھ کے بعدتقریباً 21 سال کا عرصہ بنتا ہے حنفیوں کی کتاب دلائل الخیرات کی سند مدینہ منورہ میں لی جو کہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وحیدالزماں کا اپنے آبائی حنفی مذہب سے رشتہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا تھااور نہ ہی وہ کسی بھی دور میں اہل حدیث رہا۔ اسی لئے بعض علمائے اہل حدیث کا وحیدالزماں کے بارے میں حسن ظن یا کم علمی کی بنیاد پر یہ سمجھنا کہ وحیدالزماں حدیث کی کتابوں کے ترجمہ اور تقلید چھوڑنے کے بعد اہل حدیث ہوگیا تھا حقائق کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ بلکہ تمام دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی بات راجح ہے کہ وحیدالزماں شروع عمر سے حنفی مذہب پر کاربند تھا اور پھر آخری عمر میں اس نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وحیدالزماں بطور شیعہ اپنی تحریروں کے آئینہ میں

وحیدالزماں حیدرآبادی زمانہ طالب علمی ہی میں شیعت سے متاثر ہوگئے تھے جیساکہ عمر فاروق قدو سی حفظہ اللہ اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں: اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نواب وحیدالزماں کو حیدرآباد میں امراء کی صحبت آخری عمر میں نہیں بلکہ اٹھارہ برس کی عمر میں ہی میسر آچکی تھی.......... اس لیے نواب صاحب آخری عمر میں نہیں بلکہ اپنی وفات سے برس ہا برس پہلے سے ’تفضیلی قسم کے تسنن‘ کے حامل تھے۔(اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، صفحہ 171)

تنبیہ: عمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ کا یہ کہنا کہ وحیدالزماں جس طرح عمر کے آخر ی حصے میں شیعت سے شدید متاثر تھے ،شیعت کی یہی کیفیت اور شدت اٹھارہ برس کی عمر میں بھی تھی، درست نہیں کیونکہ وحیدالزماں کے آخری دور سے متعلق تصنیف یعنی لغات الحدیث میں شیعت کا جوگہرا رنگ نظر آتا ہے وہ رنگ ان کی ابتدائی تصانیف میں نظر نہیں آتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے وحیدالزماں لڑکپن میں شیعت سے متاثر ہوئے اور یہ شیعت ترقی کرتے کرتے آخری عمر میں تفضیلی تسنن کی شکل میں ظاہر ہوئی۔

بہرحال آخری عمر میں شیعت وحیدالزماں پر غالب آگئی تھی جسے انہوں نے اپنی تحریروں میں جابجا بیان کیا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ وحیدالزماں نے کبھی بھی اپنے شیعہ ہونے کااعلان نہیں کیا اگرچہ اشارتاً ایک دو مقامات پر اس کا اقرار و اعتراف ضرور کیا ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ باوجود شیعہ ہوجانے کے وہ خود کو سنی ہی سمجھتے رہے۔جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں: ایک سچے مسلمان کا جس میں ایک ذرہ برابر بھی پیغمبر صاحب کی محبت ہو دل یہ گوارا کرے گا کہ وہ معاویہ کی تعریف و توصیف کرے البتہ ہم اہل سنت کا یہ طریق ہے کہ صحابہ سے سکوت کرتے ہیں اس لئے معاویہ سے بھی سکوت کرنا ہمارا مذہب ہے اور یہی اسلم اور قرین احتیاط ہے مگر ان کی نسبت کلمات تعظیم مثل حضرت و رضی اللہ عنہ کہنا سخت دلیری اور بے باکی ہے اللہ محفوظ رکھے،(حیات وحیدالزماں، صفحہ 109)
وحیدالزماں کی یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ خود وحیدالزماں بھی اس بات سے بے خبر اور لاعلم تھے کہ وہ شیعی تصورات سے متاثر ہوکر انہیں قبول کرچکے ہیں۔

وحیدالزماں سے متعلق درست ترین بات یہ ہے کہ وہ حنفیت اور شیعت کا ملغوبہ تھے ۔تمام زندگی ان پر حنفیت غالب رہی اور شیعت مغلوب اور آخری عمر میں شیعت غالب ہوگئی اور حنفیت مغلوب۔

وحیدالزماں نے خود تو اپنے شیعہ ہونے کا اعلان نہیں کیا لیکن ان کی تحریرات یہ اعلان زور شور سے کر رہی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ معاویہ تو بالکل ننگا محتاج ہے۔(لغات الحدیث، کتاب ت،و،ث، صفحہ9، جلد اول)

۲۔ اس مسئلہ میں قدیم سے اختلاف چلا آیا ہے کہ عثمان اور علی دونوں میں کون افضل ہیں لیکن شیخین کو اکثر اہل سنت حضرت علی سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کو اس امر پر بھی کوئی دلیل قطعی نہیں ملتی ، نہ یہ مسئلہ کچھ اصول اور ارکان دین سے ہے، زبردستی اس کو متکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ 103)

۳۔ شیعوں کی مشہور کتاب مجمع البحرین سے وحیدالزماں بطور رضامندی نقل کرتے ہیں: ’ابوتراب‘ آپ کی کنیت اس لئے ہوئی کہ آپ ساری زمین کے سردار ہیں اور حجت ہیں اللہ کی زمین پر یعنی زمین والوں پر ۔(لغات الحدیث، کتاب ت،و،ث، صفحہ9، جلد اول)

۴۔ حضرت علی اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔ آپ بلحاظ قرابت قریبہ اور فضلیت اور شجاعت کے سب سے زیادہ پیغمبر کی قائم مقامی کے مستحق، مگر چونکہ آنحضرت نے کوئی صاف و صریح نص خلافت کے باب، وفات کے وقت نہیں فرمایا اور صحابہ نے اپنی رائے اور مشورہ سے بلحاظ مصلحت وقت ابوبکر صدیق کو خلیفہ بنا لیا تو آپ صبر کرکے خاموش ہو رہے اگر اس وقت تلوار نکالتے اور مقاتلہ کرتے تو دین اسلام مٹ جاتا۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ 104)

یہ محض شیعہ حضرات کے فاسد خیالات ہیں۔ ورنہ اہل سنت اس کے بالکل بھی قائل نہیں کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس بات پر کوئی نص موجود نہیں۔

۵۔ امام محمد باقر نے حضرت علی امیر المومنین کہا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے انکام یہ نام رکھا ہے اور اسی طرح ہم پر اتار ا ہے۔(لغات الحدیث،کتاب ا، صفحہ 62، جلد اول)

۶۔ وحیدالزماں اپنے شیعہ ہونے کا کیسے اعتراف کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں: حضرت علی بیشک امیر المومنین تھے ایک بار میں نے جناب امیر کہہ کر آپ کو مراد لیا تو ایک سنی صاحب بگڑ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے شاید تم شیعہ ہو میں نے کہا دریں چہ شک۔میں بیشک شیعہ علی ہوں اللہ ہم کو دنیا میں اسی گروہ میں رکھے اور آخرت میں بھی اسی گروہ میں ہمارا حشر کرے۔(لغات الحدیث،کتاب ا، صفحہ 62، جلد اول)

اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: یا اللہ قیامت کے دن ہمارا حشر شیعہ علی میں کراور زندگی بھر ہم کو حضرت علی اور سب اہل بیت کی محبت پر قائم رکھ۔(تیسیرالباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری ،از علامہ وحیدالزماں، صفحہ 193 )

آخر دل کی بات زبان پر آہی گئی۔

۷۔ وحیدالزماں،کاتب وحی معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے اس طرح اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا ہے: بھلا ان پاک نفسوں پر معاویہ کا قیاس کیونکر ہوسکتا ہے جو نہ مہاجرین میں سے نہ انصار میں سے نہ انھوں نے آنحضرت کی کوئی خدمت اور جان نثاری کی بلکہ آپ سے لڑتے رہے اور فتح مکہ کے دن ڈر کے مارے مسلمان ہوگئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان کو یہ رائے دی کہ علی او ر طلحہ اور زبیر کو قتل کر ڈالیں۔(حیات وحید الزماں، صفحہ 108 تا 109 )

۸۔ وحیدالزماں رقم طراز ہیں: حضرت علی نے فرمایا: خلافت ہمارا حق ہے اگر ہم کو ملی تو اس کو لے لیں گے اور اگر لوگوں نے ہم کو خلافت سے روکا تو ہم اونٹوں کے سرین یعنی آخری حصے پر سوار ہو جائیں گے گو کتنی ہی دور جانا پڑے یعنی کتنی ہی مدت گزرے ، یعنی اگر پہلے پہل ہم کو خلافت مل گئی جو ہمارا حق ہے تو ہم قبول کر لیں گے اگر لوگوں نے ہم کو پہلے پہل نہ دی تو ہم اخیر میں لیں گے گو مدت دراز کے بعد سہی یعنی خلافت کے لئے ہم مقاتلہ نہ کریں گے بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اگر ہم خلافت سے روکے گئے تو ہم جہاں تک ممکن ہے اس کے لئے کوشش کریں گے۔(لغات الحدیث، کتاب ع، صفحہ 28 تا 29 ، جلد سوم)

۹۔ عبداللہ بن عمر ہمارے آباؤ اجداد میں تھے، حجاج کا نام سنتے ہی مجھ کو آگ لگ جاتی ہے جیسے یزید کا سنتے ہی میرے غصے کا پارہ انتہائی درجہ پر پہنچ جاتا ہے، کیا کریں ہم اخیر زمانے میں پیدا ہوئے ورنہ جب تک یزید اور حجاج اور ان کے معاونین سے ہم اپنے پیار ے بزرگوں اور شہزادوں کا بدلہ نہ لیتے چین نہ آتا خیر اب آخرت میں دیکھ لیں گے۔(حیات وحید الزماں، صفحہ 112)

۱۰۔ (معاویہ نے کہا) میں ایسا آدمی نہیں ہوں جو نکاح بہت کرتا ہے اور طلاق بہت دیتا ہے۔(یہ درپردہ طعن ہے حضرت حسن بن علی پر)۔(لغات الحدیث، کتاب ن، صفحہ 142، جلد چہارم)

اس عبارت کی حیثیت شیعوں کے باطل اور فاسد فرضی خیالات سے زیادہ کچھ نہیں۔

۱۱۔ اگر حضرت عمر متعہ سے منع نہ کرتے تو شاید کوئی نادر آدمی ہی زنا کرتا کیونکہ متعہ سے ضرورت رفع ہوجاتی ہے۔ (لغات الحدیث ، کتاب ش، صفحہ 104، جلد دوم)

متعہ کو وحی الہی کی روشنی میں خود رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ کے لئے حرام قرا ر دیا۔ اس لئے شیعہ حضرات کا متعہ کی حرمت کو عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا یقیناًغلط ہے۔

۱۲۔ اب یہ کہنا کہ متعہ قطعاً حرام ہے صحیح نہیں ہوسکتا نہ یہ کہنا کہ متعہ کا حلال ہونا رافضیوں کا مذہب ہے کیونکہ اہل سنت میں سے بھی سلف اس کی حلت کی طرف گئے۔ (لغات الحدیث ، کتاب ش، صفحہ 104، جلد دوم)

اس عبارت سے واضح ہوا کہ وحیدالزماں متعہ کو حلال سمجھتے تھے جو ان کے شیعہ ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ اہل سنت کے تمام مسالک کے نزدیک متعہ بالاتفاق حرام ہے اور اس کی حرمت میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

۱۳۔ امام حسین کی خاک پاک سے میں نے شفاء چاہی ۔ (لغات الحدیث ، کتاب ش، صفحہ 106، جلد دوم)

۱۴۔ میں جب دمشق میں مسجد بنی امیہ میں گیا تو وہاں ایک طرف ایک چھوٹا سا گنبد بنا ہے کہتے ہیں امام حسین کا سر مبارک وہاں مدفون ہے یہ بھی ایک قول ہے مگر صحیح قول یہ ہے کہ آپ کا سر مبارک مدینہ طیبہ میں قبہ اہلبیت میں مدفون ہے اور جسد مبارک بالاتفاق کربلائے معلی میں ہے۔دمشق میں عجیب اتفاق ہوا جب میں اس گنبد کی زیارت کو گیا تو اس کے پاس جاتے ہی واقعہ شہادت آنکھوں میں پھر گیااور میں دھاڑیں مارمار کر رونے لگا، سارے عرب لوگ جو حاضر تھے تعجب کرنے لگے،میرا رونا تھمتا ہی نہ تھا، باربار عربی زبان میں کہتا ہائے ہماری بدقسمتی کہ ہم آپ کے بعد پیدا ہوئے اگر اس وقت ہوتے جب آ پ کربلائے معلی میں گھر گئے تھے تو پہلے ہم آپ سے قصدق ہوجاتے پھرکوئی ملعون آپ پر ہاتھ ڈالتا۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ 112)

۱۵۔ (حضرت علی نے فرمایا) اگر مجھ سے پہلے خطاب کے بیٹے (یعنی حضرت عمر) متعہ سے منع نہ کرتے تو بہت ہی تھوڑے آدمی زنا کرتے۔ (لغات الحدیث ، کتاب ش، صفحہ 106، جلد دوم)

یہ صرف شیعہ حضرات کے خیالات ہیں ورنہ اہل سنت کے نزدیک متعہ سے اللہ کے رسول ﷺ نے روکا ہے نہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top