وحیدالزماں کسی دور میں بھی اہل حدیث نہیں رہا
کتب ستہ کے تراجم کے بعد وحیدالزماں کی تقلید بے زاری اور اہل حدیثوں سے چند مسائل میں موافقت کی وجہ سے اگرچہ بیشتر علمائے اہل حدیث نے خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنا پر وحیدالزماں کامختصر مدت کے لئے اہل حدیث ہونا تسلیم کیا ہے لیکن وحیدالزماں کی تصنیفات کے مطالعے سے یہ بات ناقابل تردید حقیقت کی صورت میں
سامنے آتی ہے کہ وحیدالزماں اپنی حیات کے کسی بھی دور میں اہل حدیث نہیں رہا۔ محض ترک تقلید اوراہل حدیث سے چند مسائل میں موافقت وحیدالزماں کے اہل حدیث ہونے کی دلیل نہیں۔ اس لئے وحیدالزماں کو اس کی عمر کے آخری دور میں پیدا ہونے والی تقلید بے زاری کی وجہ سے اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالنابہت بڑی نا انصافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے وحیدالزماں کو اہل حدیث تسلیم کرنے کے بجائے نیم اہل سنت کہا۔
(دیکھئے: فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم، صفحہ 428)
اسی طرح داود ارشد حفظہ اللہ نے وحیدالزماں کو سب سے کچا سلفی قراردیا ہے۔ دیکھئے:
علمائے اہل حدیث میں سب سے کچا سلفی علامہ وحیدالزماں ہے۔(تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث، صفحہ 304)
یہ حوالے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ علمائے اہل حدیث نے بھی وحیدالزماں کو تقلید چھوڑنے کے بعد سے لے کر شیعہ ہونے تک کے مختصر وقت کے لئے بھی صحیح اہل حدیث قرار نہیں دیابلکہ اس کی سلفیت اور مسلک اہل حدیث سے نسبت اور وابستگی پر شبہ کااظہار کیا ہے۔
یہ شبہ بالکل درست ہے کیونکہ وحیدالزماں نے کبھی بھی اپنے اہل حدیث ہونے کا اعلان نہیں کیا اور اپنے اس نام نہاد دور اہل حدیث میں جو کچھ لکھا اس میں اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث کا زبردست ردکیا۔ جوبزات خود اس بات کا اعلان ہے کہ وحیدالزماں نے سرے سے مسلک اہل حدیث کو قبول ہی نہیں کیا۔ اور وحیدالزماں کے تقلید چھوڑ دینے کے بعد جو اہل حدیث کو تھوڑی سی امید پیدا ہوگئی تھی کہ وحیدالزماں اب اہل حدیث ہو جائے گا وہ امید بھی ہدیۃ المہدی کی تالیف کے بعد ختم ہوگئی تھی۔اسی بات کی تائید کرتے ہوئے بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کتاب کی وجہ سے جو اہلحدیثوں کو توقع تھی کہ نواب صاحب اہلحدیث ہو جائیں گے، ختم ہو گئی تھی۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 113)
معلوم ہوا کہ نواب وحیدالزماں کے اہل حدیث ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔
بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے اس حقیقت کا بھی کھل کا اظہار فرمایا کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں ہوا تھا۔چناچہ لکھتے ہیں:
یہ عبارت بھی واضح کرتی ہے کہ نواب صاحب نہ غیر مقلد تھے اور نہ اہلحدیث تھے بلکہ اہلحدیثوں پر حملے کرتے رہے۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 113)
مزید فرماتے ہیں:
مولانا صاحب ! اب تو آپ کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ نواب وحیدالزماں کے خیالات میں اگرچہ تبدیلی آچکی تھی لیکن اس کے باوجود اہلحدیث علماء کی اس کی تصنیفات کے بعد جو امیدیں اس سے وابستہ تھیں ختم ہوگئی تھیں.... گویا کہ اس میں حنفیت باقی تھی۔ (مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 112)
ابو اسامہ گوندلوی کی تحقیق میں بھی وحیدالزماں اہل حدیث نہیں تھا بلکہ تقلید بے زاری کے بعد بھی حنفیت پر گامزن تھا۔ دیکھئے:
پھر موصوف نے التفات علامہ وحیدالزماں کی طرف کی ہے اس لئے کہ وہ ان کے گھر کے ہی ایک فرد تھے ان کی کتاب نزل الابرار سے چھبیس مسائل کا انتخاب کرکے اہل حدیث کے نام تھونپ دیا ہے حالانکہ وہ تمام مسائل یا ان میں اکثر مسائل فقہ حنفی سے ماخوذ ہیں اور جو باقی ہیں ان کا اسلوب بھی فقہ حنفی سے مختلف نہیں۔(شادی کی دوسری دس راتیں بجواب شادی کی پہلی دس راتیں، ص73)
ؑعمر فاروق قدوسی حفظہ اللہ وحیدالزماں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ زندگی بھر حنفیت سے جان نہیں چھڑا پایااور نہ ہی کبھی اہل حدیث رہا، لکھتے ہیں:
ایسے گمراہ کن عقیدے کے حامل کا مسلک اہل حدیث یا جماعت اہل حدیث سے کیا واسطہ؟ یہ تو نواب صاحب کی پرانی حنفیت کا رنگ ہے جو شاید مکمل طور پر ان کے اندر سے ختم نہیں ہوئی تھی۔ (اہل حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں، صفحہ 182)
معلوم ہوا کہ وحیدالزماں کے اندر تقلید کو چھوڑ دینے کے بعد بھی حنفیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ یعنی وحیدالزماں تقلید چھوڑ دینے کے بعد بھی حنفی ہی تھا اہل حدیث نہیں تھا کیونکہ وہ اہل حدیثوں کو بھی دوسرے گمراہ فرقوں کی طرح سمجھتا تھا۔
بدیع الدین شاہ راشدی وحیدالزماں کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
وہ اہلحدیث کو دوسرے فرقوں کی طرح سمجھتے تھے۔(مروجہ فقہ کی حقیقت، صفحہ 112)
خود وحیدالزماں لکھتا ہے:
غیر مقلدوں کا گروہ جو اپنے تیئں اہلحدیث کہتے ہیں انہوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلف صالحین صحابہ اور تابعین کی(لغات الحدیث، کتاب ش، صفحہ 91، جلد دوم)
یہ وحیدالزماں کی اس کتاب کی تحریر ہے جو اس نے تقلید چھوڑنے کے عرصے دراز بعد لکھی تھی اسی دور کے حوالے سے وحیدالزماں کومخالفین کی طرف سے اہل حدیث بارور کروایا جاتا ہے۔کیا کوئی زہنی طور پرصحت مند شخص وحیدالزماں کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ وحیدالزماں اس دور میں جب اس نے یہ سطور رقم کیں اہل حدیث تھا۔وحیدالزماں کی یہ تحریر ثابت کرتی ہے کہ نہ تو وحیدالزماں کبھی اہل حدیث تھا اور نہ ہی اس کے نزدیک اہل حدیث سیدھے راستے پر تھے۔اسی لئے بقول عبدالحلیم چشتی دیوبندی، وحیدالزماں نے ہدیۃ المہدی اس وجہ سے تالیف کی تھی کہ اہل حدیث کو شرک اور بدعت میں غلو اور تشدد سے باز رکھا جائے۔
(دیکھئے حیات وحیدالزماں، صفحہ 142) زرا اندازہ کریں کہ جس شخص کے نزدیک اہل حدیث گمراہ ہوں کیسے اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود بھی اہل حدیث ہوگا؟ ہرگز نہیں بلکہ صرف یہ ایک حوالہ ہی ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وحیدالزماں اپنی عمر کے کسی بھی حصے میں اہل حدیث نہیں تھا۔
اہل باطل کی اس بیماری کا کیا کریں کہ انہیں ہر طرح کی دلیل دی جائے لیکن انہیں تسلی نہیں ہوتی جب تک انہی کے مسلک کے علماء کی تحریرات بطور تائید پیش نہ کی جائیں۔ اہل باطل کی اسی بیماری کے علاج کی خاطر ان کے گھر کی گواہیاں پیش خدمت ہیں جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں تھا۔ ملاحظہ فرمائیں: اورہٹ دھرمی چھوڑ کر حقیقت کو تسلیم کرلیں۔شکریہ
۱۔ ڈاکٹر علامہ خالد محموددیوبندی لکھتے ہیں:
جہاں تک ہم سمجھ سکیں ہیں مولانا وحیدالزماں شیعہ کتب حدیث کو اہلسنت کتب حدیث کی کتابوں کے قریب لانا چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے مسلک اہلحدیث اختیار کیا تھا۔(آثار الحدیث،جلد دوم، صفحہ 398)
پتا چلا کہ دیوبندی عالم کے نزدیک وحیدالزماں کا اہل حدیث ہونے کا ڈھونگ رچانا ایک خاص مقصد کے تحت تھا ورنہ وہ حقیقت میں اہل حدیث نہیں تھا۔
۲۔ حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویزنامی دیوبندی کتاب میں درج ہے کہ وحیدالزماں تقیہ بردار شیعہ تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں وہ شیعہ تھااور اپنے اصلی مذہب کو چھپائے ہوئے تھالہذا اسکا خود کو اہل حدیث ظاہر کرنا محض دھوکہ تھا۔ دیکھئے:
حوالے ہدیۃ المہدی وغیرہ جیسی بے ہودہ کتابوں سے دیے ہیں۔جس کا لکھاری تقیہ باز شیعہ ہے۔( حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 14)
دیوبندیوں کی اسی کتاب کے تحت وحیدالزماں تو اس وقت بھی شیعہ ہی تھا جب وہ احادیث کی کتابوں کے ترجمے اور فوائد لکھ رہا تھا ۔دیکھئے:
وحیدالزماں کی ترجمہ شدہ سنن ابوداود سے ایک فائدہ نقل کرنے کے بعد دیوبندی مصنف نے اس پر اس طرح تبصرہ کیا ہے:
یہ ابوداود کے حوالے سے نقل شدہ بات ابوداود کی ہے نہ ابوداود میں بیان شدہ احادیث کی۔ بلکہ امام ابوداود کی کتاب پر اردو ترجمہ کے فائدہ کے نام سے بے فائدہ باتیں لکھنے والے نواب کا یہ کالا سیاہ کارنامہ ہے۔نواب صاحب جس کی یہ حاشیہ آرائی ہے نہ صرف شیعہ بلکہ تقیہ باز رافضی تھے۔(حقیقی دستاویز فی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 632)
اسی کتاب میں ایک اور مقام پر یہ وضاحت موجود ہے کہ وحیدالزماں اصل میں شیعہ تھا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کچھ عرصہ کو اہل سنت میں داخل ہوا تھاتاکہ عام مسلمانوں کو گمراہ کرسکے۔دیکھئے:
اس چال سے نواب صاحب کا مقصود بھی یہی کچھ تھا کہ اول اہل سنت میں داخل ہوجاؤ پھر چھوڑ دو شاید اس طرح کمزور اہل سنت بھی اس گمان سے کہ اتنا بڑا کتابوں کا مصنف جو یہ مسلک چھوڑ گیا تو آخر کوئی بات تو ضرور ہوگی ناں۔(حقیقی دستاویزفی تائیدتاریخی دستاویزو فی رد تحقیقی دستاویز ، صفحہ 633)
وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں ہوا اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ موصوف تمام عمر ایک دیوبندی عالم کے نہایت عقیدت مند رہے اور ا س دیوبندی عالم سے بیعت یافتہ بھی تھے اور سلسلہ نقشبندیہ میں بھی شامل تھے۔
۳۔ عبدالحلیم چشتی دیوبندی، مولوی فضل رحمانؒ سے بیعت کی سرخی لگا کرلکھتے ہیں:
موصوف نے مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادی ؒ سے بیعت کا زکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے.....مولوی صاحب نے سلسلہ قادریہ میں اذکار و اشغال کی تعلیم و تلقین کی۔ والد ماجد نے آپ کو حیدرآباد دکن بلا لیامگر آپ نے خط و کتاب سے یہ رشتہ برابر قائم رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادیؒ نے موصوف کو سلسلہ نقشبندیہ میں بھی داخل کرلیاتھا...... مولوی فضل رحمان گنج مراد آبادیؒ سے مولوی وحیدالزماںؒ کو بڑی عقیدت تھی، زندگی میں بڑے بڑے انقلابات ہوئے مگر حیرت ہے مولوی گنج مراد آبادی سے روز اول سے جیسی عقیدت ہوئی تا دم مرگ ویسی ہی قائم رہی۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ26)
۴۔ عبدالحلیم چشتی دیوبندی رقم طراز ہیں:
مولانا کے مزاج میں ایک نوع کا تلون اور انتہاء پسندی تھی جس کی وجہ سے بعض مسائل میں جمہور اہل حدیث سے بھی آپ کا اختلاف رہا..... اس آپس کے اختلاف کا سبب تھا کہ جب آپ نے ہدیۃ المہدی تالیف کی تو اہل حدیث میں مخالفت کی ایک عام لہر دوڑ گئی.... اسی مخالفت کا یہ نتیجہ تھا کہ پھر موصوف نے اہل حدیث کی گروہ بندی پر جا بجا نہایت سختی سے نکتہ چینی کی۔(حیات وحیدالزماں، صفحہ101)
یہ عبارت اس بات پر بین دلیل ہے کہ وحیدالزماں کبھی بھی اہل حدیث نہیں تھا بلکہ شروع ہی سے اہل حدیث کا مخالف رہا اور پھر یہ مخالفت وقت کے ساتھ اس قدر بڑھی کہ اہل حدیث سے براء ت پر منتج ہوئی ۔
۵۔ اس کے علاوہ جیسا کہ سابقہ سطور میں بالتفصیل زکر کیا جاچکا ہے کہ وحیدالزماں نے احادیث کی کتابوں کے تراجم سے فراغت (یہ فراغت ۱۳۱۰ ھجری میں میسرآئی) حاصل کرنے کے بعد ۱۳۳۱ ھ میں جو کہ ۱۳۱۰ ھ کے بعدتقریباً 21 سال کا عرصہ بنتا ہے حنفیوں کی کتاب دلائل الخیرات کی سند مدینہ منورہ میں لی جو کہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وحیدالزماں کا اپنے آبائی حنفی مذہب سے رشتہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا تھااور نہ ہی وہ کسی بھی دور میں اہل حدیث رہا۔ اسی لئے بعض علمائے اہل حدیث کا وحیدالزماں کے بارے میں حسن ظن یا کم علمی کی بنیاد پر یہ سمجھنا کہ وحیدالزماں حدیث کی کتابوں کے ترجمہ اور تقلید چھوڑنے کے بعد اہل حدیث ہوگیا تھا حقائق کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ بلکہ تمام دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی بات راجح ہے کہ وحیدالزماں شروع عمر سے حنفی مذہب پر کاربند تھا اور پھر آخری عمر میں اس نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا۔