• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفر کی بدعات اور خرافات

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
62
⚫ *ماہ صفر محرم کے بعد سنہ ہجری کا دوسرا مہینہ ہے- صفر کے معنی خالی کے ہیں مشرکین کا خیا ل تھا کہ یہ مہینہ خیر و برکت سے خالی ہے بلکہ اسے وہ منحوس جانا کرتے تھے- اس میں شادی بیاہ نہ کرتے اور نہ ہی کوئ اور بڑا کام کرتے تا کہ اس میں نحو ست نہ آ جا ۓ-*

*رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظو ں میں اعلان فرمایا :*
"بغیر اللہ کے حکم کے کسی کی بیماری کسی دوسرے کو نہیں لگتی نہ بُرے شگون لینا درست ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے-"
(البخاری : کتاب الطب - باب لا صفر- حد یث : 5717

⚫ *صد افسوس!!!!* کہ ماہ صفر کے با رے میں مسلما نوں نے بھی ایسے غلط خیا لات کو دل میں جما لیا ہے صفر کے لیے " تیرہ تیز ی " کی اصطلا ح لوگوں میں مشہو ر ہے – یعنی یہ خیال کہ شروع کے تیرہ دن بہت تیز ہیں ، ان میں شادی وغیر ہ نہ ہونی چا ہیے بلکہ ان دنوں کی نحو ست دور کرنے کے لیے چنے اُ با ل کرتقسیم کرتے ہیں اور اس طرح ان تیرہ دنوں کی نحوست دُور کرتے ہیں ------------نعو ذ باللہ من ذ الک

⚫ ماہ صفر اور دوسرے مہینوں کی بد عات نے اقتصادی طور پر بھی مسلما نوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے , مگر مسلمان ہیں جو آنکھو ں پر پٹی با ندھے ہوۓ بلا سوچے سمجھے لکیر کے فقیر بنے ہوۓ ہیں ، کوئ خلو ص سے سمجھا ۓ تو اُسے وہا بی ،اور بے دین وغیرہ ناموں سے یاد کرتے ہیں –
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری و قت میں مسلمانو ں کو وصیت کے طور پر فرما یا تھا کہ:

*"میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھو ڑ کر جا رہا ہوں جب تک ان پر عمل کرو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے ایک اللہ کی کتاب "قرآن مجید " اور دوسری چیز میری "سنت " ہے۔"*
(مو طا ا مام ما لک )

⚫ پس کتا ب و سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا ، بال برابربھی ان سے ادھر اُدھر نہ ہو نا ، کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے اسی راہ پر چلنے سے اللہ کی رضا حاصل ہو گی –

*ماہ صفر کی بد عات*

▪ *ماہ صفر میں لوگ سفر کرنے سے باز رہتے ہیں ،*
▪ *مسرت کی محفلیں نہیں رچاتے،*
▪ *اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں،*
▪ *کالے چنے ابا ل کے با نٹتے ہیں،*
اور سو رہ مز مل کا ختم کرا یا جاتا ہے

⚫تا کہ اس مہینے کی نحو ست کو ختم کیا جا سکے – یہ سب با تیں بے بنیا د ہیں – عہد رسا لت و عہد صحابہ وتا بعین کے مسلمان ان رسموں کا نام بھی نہیں جا نتے تھے نہ ائمہ مجتہد ین امام ابو حنیفہ ،امام شافعی وغیرہم رحمھم اللہ سے ان کاموں کا کوئ ثبوت ہے-یہ سب بد عا ت ہیں اور بدعت کی مذمت کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبے میں فرمایا کر تے تھے

⚫اللہ پاک ہر مسلمان کو بدعت اور خرا فا ت کے کاموں سے بچاۓ اور سب کو سچی تو حید اور سنت والا بنا ۓ آمین یا رب العا لمین —

⚫ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 727
*نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا* کہ مرض کا ایک سے دوسرے کو لگنا، شگون لینا، ہامہ (یعنی الو) اور صفر کوئی چیز نہیں ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ماہِ صفر سے متعلق ۔۔۔ نحوست و مخصوص عبادات
مولف: شیخ عمران الہی

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلا م علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد:

محترم قارئین!

دینِ اسلام سے قبل کے مختلف قسم کے باطل عقائد، شرک وبدعات، رسم و رواج، نحوست وبدشگونی اور توہم پرستی میں مبتلا تھے،چنانچہ پرندوں کواڑاکرسفر کرنے کا فیصلہ کرتے تھے ۔اگرپرندہ دائیں سمت کی طرف جاتا تو اس کام یاسفرکو اچھا فال تصورکرکے جاری رکھتے اور اگر بائیں کو جاتا تو اس کا م یا سفرسے نحوست اور بدشگونی سمجھ کر ترک کردیتے ۔اسی طرح بعض ایا م اور مہینوں کو بھی نحوست وبد شگونی کی نظرسے دیکھتے تھے۔

رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربیﷺ کو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م شرکیہ اعتقادات ،فاسد خیالات اورتوھمّات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح عقیدۃ اوردرست منہج عطا کیا اورآپ ﷺکے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وأفکار اورتوہمات وخرافات اورباطل پگڈنڈیوں سے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے ،کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیںاوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی اورآپ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ: لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑےجا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ،ایک کتاب اللہ، دوسری میری سنت۔اور دوسری جگہ فرمایا کہ میں تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند ہیں،اس سے وہی شخص انحراف و رو گردانی کریگا جس کے مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ دی گئی ہو۔

آپ ﷺکے انتقا ل کے بعد لوگ کچھ صدیوں تک دین اسلام پر صحیح طریقے سےقائم رہے یہان تک کہ خیرالقرون کا زمانہ گزرگیا، پھر مختلف قسم کے باطل فرقے جنم لینا شروع ہوگئے، اعداء اسلام خاص کریہود و نصاری نے اپنی ریشہ دوانیوں کاسلسلہ تیزکردیا، عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی، دین سے بے توجہی اور جہالت عام ہوتی گئی، اور لوگوں میں شرک وبدعات، باطل اعتقادات، غیردینی رسم ورواج، اور مختلف قسم کے اوہام وخرافات پیدا ہونے لگے اور وہ دین اسلام جس کو محمدعربی ﷺنے ہرطرح کی خرافات سے پاک وصاف کردیا تھا وہ مکدر اورگدلا ہوتا نظرآنے لگا ، چنانچہ انہیں باطل اعتقادات ،اوہام وخرافات اوربدعات میں سے ماہ صفر کی نحوست وبدعات ہیں ، جو موجودہ دورمیں بعض نام نہاد مسلمانوں میں دین سے جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے درآئیں ، جبکہ اسلام نے دورجاہلیت کے اس عقیدہ کوباطل قراردیا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ اسلام میں کوئی مہینہ نحوست وبدشگونی کا نہیں اور زمانے اور مہینے یہ اپنے اندرکوئی تاثیرنہیں رکھتے،نہ ہی تقدیرالہٰی میں انکا کچھ دخل ہے جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولاصفر
اخرجاہ وزاد مسلم (ولانوء ولاغول)(بخاری ک/الطب 10/265مسلم باب لاعدوۃ 007/471)

سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری د وسرےکو نہیں لگتی،نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے،نہ ألّو کا بولنا کوئی أثر رکھتا ہے،نہ صفر کوئی چیز ہے ، یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے اورصحیح مسلم میںیہ بھی ہے کہ’’نچھتر نہ بھوت کوئی چیز‘‘

اس حدیث کے ذریعے نبی کریم ﷺنے اہل جاہلیت کے اس فاسد عقیدےکی تردید کی ہے جو وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں بذات خود تاثیر کا اعتقاد رکھتے تھے اور یہ ثابت کیا کہ مؤثر حقیقی تو صرف اللہ کی ذات ہے اوراسلام میں کسی دن اورمہینہ کو منحوس نہیں قراردیا گیا ہے اورنہ ہی کسی دن اورمہینے کی تقدیر الہٰی میں کوئی تاثیر ہے ۔

ماہ صفرسے نحوست وبدشگونی

عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ،کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے ،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتےہی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا –رسول اللہ ﷺنے اپنے اس قول(ولاصفر) کے ذریعے اس کی تردید فرمائی،اور بتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے – اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے (فتح ص/308)

اوردنوں اور مہینوں کو گالی یا برا بھلا کہنے کو اللہ کو سب وشتم کرنے کے مترادف قراردیا جیسا کہ حدیث قدسی ہے

یقول اللہ عزوجل یؤذینی ابن آدم یسب الدہر وأنا الدہر بیدی الامر أقلب اللیل والنھار) (بخاری کتاب/التفسیر،8/738)

یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں میرے ہی ہاتھ میں سارے امورہیں میں ہی رات اوردن کوپھیرتا ہوں ۔

الشیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ رسول ﷺکے قول ولاصفر کی توجیہ میں فرماتے ہیں :

اوروقت اورزمانے کواللہ تعالی کی تقدیر پر کوئی تاثیر نہیں، لہذا یہ بھی باقی اوقات اورزمانوں کی طرح ہے جن میں خیر وشر مقدرکیا جاتا ہے اوراس میں صفر کے وجودکی نفی نہیں ہے بلکہ اسکی تاثیرکی نفی مراد ہے اسلئے کہ موثرحقیقی توصرف اللہ تعالی ہے، لہٰذا جوسبب معلوم ہو وہ سبب صحیح ہے اور جو سبب صرف وہم پر ہو وہ سبب باطل ہے اور بنفسہ اس کے سبب اورتاثیر کی نفی ہو گئی ۔ (مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:/113-115)

ماہ صفر کی نحوست و بدعات اورموجودہ مسلمان :

قائین کرام! کتا ب وسنت کی روشنی میں کچھ مہینے ایام اور راتیں ایسی ہیں جن کو دوسرے مہینوں، ایام اور راتوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت حاصل ہیں،جیسے یوم عرفہ، شب قدراور یوم عاشوراء وغیرہ ،مگرکسی ماہ یا دن یارات کے بارےمیں صحیح احادیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ منحوس ہے اور اس سے بدشگونی لینی جائزہے ۔

لیکن افسوس کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ما ہ صفر کے بارے میں بڑی بد عقیدگی کا شکار ہیں اوراہل جاہلیت کی روش پر ابھی بھی قائم ہیں ، وہ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ:

1- اس ماہ میں مصائب وآلام کی ہوائیں پوری تیزی کے ساتھ چلنے لگتی ہیںاور غم وتکلیف کے دریا تندی وروانی کے ساتھ بہنے لگتے ہیں –یعنی سال میں دس لاکھ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف ایک مہینہ (صفر) میں نولاکھ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں ۔

2-بعض بد عقیدہ مسلم خواتین اس مہینے کو(طیرۃ طیری) یا (تیرۃ تیری) کے نام سے موسوم کرتی ہیں چنانچہ وہ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتی ہوئیں چنے ابال کر اس مہینہ میں صدقہ کرتی ہیں تاکہ اس نحوست سے محفوظ رہیں ۔

3-بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی رہتا ہے اسی لئے اس سے نحوست پکڑتے ہیں ۔

4-بعض لوگ جب صفرکی پچیس تاریخ کو اپنے کسی کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اسکی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں : خیر کے مہینہ پچیس تاریخ کو یہ کا م ختم ہوا ،(یہ بدعت کا علاج بدعت کےذریعے ہے ،یہ مہینہ نہ تو خیرکا ہے اور نہ ہی شر کا) ۔

5-بعض لوگوں کے یہاں نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں میں ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، انہیں ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھنے دی جاتی ہے،حتی کہ عام شوہر اور بیوی کو بھی تین دن تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے ، تاکہ وہ نحوست کا شکار نہ ہوجائیں ۔

6-بعض مسلمان ماہ محرم میں اورصفر میں اس بنا پر شادی اورکوئی خوشی کا کا م نہیں کرتے کہ محرم میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے اورصفر میں سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا- ان دونوں واقعات کی بنا پر دونوں مہینوں کو شادی اورخوشی کیلئے غیر مناسب اورمنحوس سمجھتے ہیں ، حالانکہ کسی کی وفات اور شہادت کا دنوں اور مہینوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، ورنہ ما ہ ربیع الاول اس بنا پر منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں رسول ﷺکی وفات ہوئی – جمادی الاول کو اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ اول، یار غاررسول سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا – اور ذی الحجہ اسلئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ ثانی سیدناعمر فاروق اور خلیفہ ثالث سیدناعثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت ہوئی اورماہ رمضان اس واسطے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ چہارم سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی – اس طرح تما م انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اورائمہ اسلام کی وفات اور شہادت کے ایام ومہینوں کو منحوس قراردیں ، تو کوئی مہینہ، بلکہ کوئی دن نحوست سے خالی نہ رہے ، اس لئےسیدناحسین کی شہادت کی وجہ سے محرم کو اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے صفر کو منحوس سمجھنا اور ان میں شادی بیاہ نہ کرنا سراسر باطل اورغلط ہے ۔

کوئی مہینہ اور دن منحوس نہیں ہوتا منحوس آدمی کا اپنا نا جائز عمل اور غلط عقیدہ ہوتا ہے ۔

7- ماہ صفر کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس ماہ کے آخر میں مغرب وعشاء کے درمیان مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں ، اور ایک ایسے کاتب کے پاس حلقہ بناکر بیٹھتے ہیں جو انھیں کاغذ پرانبیاء علیہم السلام کے اوپر سلام والی آیتوں کو لکھ کر دیتا ہے وہ آیا ت یہ ہیں :

1۔سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ (یس58)

2۔سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِی الْعَالَمِینَ (الصافات79)

3۔ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاھِیمَ (الصافات109)

4۔ سَلَامٌ عَلَی مُوسَی وَھَارُونَ (الصافات120)

5۔سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوھَا خَالِدِینَ (الزمر 73)

6۔سَلَامٌ ھِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر:5)

اسکے بعد یہ اسے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں اورپھراسے اس اعتقاد کے ساتھ پیتے ہیں کہ اس سے انکی تمام مصیبتیں دورہوجاتی ہیں ،اسی طرح وہ اس پانی کو ایک دوسرے کو ہدیہ کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔

بدھ کےدن سےنحوست، اورماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت

أ- بدھ کے دن سےعمومی نحوست

دمشق میں بعض لوگ بدھ کے روز مریض کی عیادت کو منحوس اور بد فال سمجھتے ہیں ،چنانچہ بدھ کے دن عوام اور خواص اوررشتہ داروں کے لئے عیادت مریض ممکن نہیں – بظاہر ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے کہ :

(یوم الاربعاء یوم نحس مستمر ) بدھ کا دن مسلسل نحوست کا دن ہوتاہے اس روایت کے بارے میں امام صاغانی اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے –امام سخاوی فرماتے ہیں کہ بدھ کے دن کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں مگر سب کی سب ضعیف اور ساقط الاعتبار ہیں –(المقاصد الحسنۃ للسخاوی 1/574)

اسی طرح لوگوں میں رائج خرافات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے بدھ کے روزکسی مریض کی عیادت کی تو جمعرات کو وہ اس مریض کی عیادت کرے گا – انکا مطلب یہ ہے کہ بدھ کے روز اگر مریض کی عیادت کی جائے گی تو وہ مریض اس کے بعد دوسرے دن جمعرات کو مرجائے گا جس کی زیارت جمعرات کو قبرستان میں ہوگی۔ –

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سےپوچھا گیا کہ کیا بدھ جمعرات یا سنیچر کے روزسفر کرنا مکروہ ہے ؟ یا ان ایام میں کپڑوں کی کانٹ چھانٹ اور کپڑوں کی سلائی سوت کی کتائی یا اس قسم کے کاموں کا کرنا مکروہ ہے یافلان فلان تاریخوں کی راتوں میں جماع کرنا مکروہ ہے ، کیونکہ ایساکرنے سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خوف وخطرہ لگا رہتا ہے – اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا : کہ سؤال میں مذکورہ عقائدوخیالات باطل اوربے اصل ہیں اورآدمی جب استخارہ کرکے کوئی مباح عمل کرے جس وقت بھی کرنا آسان ہو قطعی طورپر وہ کام کرسکتا ہے – کسی دن بھی کپڑے کی کاٹ چھانٹ یا سلائی یا سوت کی کتائی مکروہ نہیں ہے رسول ﷺ نے بدفالی سے منع فرمایا ہے :

عن معاویۃ بن الحکم السلمی قال قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منا قوما یأتون الکہان ؟ فلاتأتوہم قال منا قوم یتطیرون ؟ قال وذالک شئی یجدہ احدکم من نفسہ فلا یصدنکم

(بخاری کتاب الاستسقاء2/522،ومسلم کتاب السلام 7/481،حدیث(121)

سیدنامعاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؟ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں –آپ ﷺنے فرمایا تم لوگ کاہنوں کے پاس مت جاؤ انہوں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ بدفالی لیتےہیں – ﷺنے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں مگراسکی وجہ سے کوئی کام کرنے سے تمہیں باز نہیں رہنا چاہئیے -

آگے چل کر شیخ الاسلام اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں جب رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ جس کام کا آدمی نے عزم کیا اس کا م کو بدفالی کے سبب کرنے سے بازنہیں آنا چاہئے –تو ،رات اوردن میں سے کسی کو منحوس سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بلکہ جمعرات اورسنیچر اوردوشنبہ کو سفر کرنا مستحب ہے اورتما م ایام میں کسی دن سفر کرنے یا کسی کام سے روکا نہیں گیاہے –البتہ جمعہ کے بارے میں اختلاف ہے اگرسفر کے سبب نماز جمعہ فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس دن جمعہ سے پہلے سفر کرنے سے بعض علماء منع کرتے ہیں، اور بعض علماء کرام جائز بتاتے ہیں لیکن کاروبار اورجماع تو کبھی اورکسی دن مکروہ وممنوع نہیں (واللہ أعلم) (دیکھئیے خانہ ساز شریعت ص/174)

ب –-ماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت

ماہ صفرکے آخری بدھ کے بارے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس روز رسول ﷺنے بیماری سے شفا پائی اور آپ ﷺنے غسل صحت فرمایا اسی لئے بعض لوگ ما ہ صفر کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں ،اورسیروتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کی صحت یابی کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں – حالانکہ اس کا ثبوت نہ احادیث کی کتابوں سے اور نہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے ملتا ہے – بلکہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے چنانچہ اسد الغابہ( 1/41) میں ہے :

بدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ الذی مات منہ یوم الاربعاء لیلتین بقیتا من صفر سنۃ احدی عشرۃ فی بیت میمونۃ ثم انتقل حین اشتد مرضہ الی بیت عائشۃ وقبض یوم الاثنین ضحی فی الوقت الذی دخل فیہ المدینۃ لاثنتی عشرۃ من ربیع الاول

رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ ﷺاس دنیا سے تشریف لے گئے سن11ھ میں صفرکے مہینے کی جب دوراتیں باقی رہ گئی تھیں بدھ کے روز سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ہوا پھر جب آپ ﷺ کی بیماری شدت اختیارکر گئی تو آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے اور 12ربیع الاول سوموار کے دن چاشت کے وقت جس وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ کی روح اقدس کو قبض کرلیا گیا –

یہی عبارت الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (1/20) میں بھی ہے اور تاریخ خمیس (2/161) میں ہے

ابتدأبہ صداع فی اواخرصفرلیلتین بقیتا منہ یوم الاربعاء فی بیت میمونۃ

یعنی رسول ﷺکی بیماری کی ابتداء بدھ کے روز سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں صفرکے آخرمیں ہوئی۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (8/164)ترجمۃ الباب با ب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی شرح میں لکھا ہے کہ بیماری کا آغازصفر کے آخر میں ہوا

اورطبقات ابن سعد (2/377) میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 29 صفر سن 11ھ یو م چہار شنبہ کو بیمار ہوئے اور 12ربیع الاول سن 11ھ بروزدوشنبہ آپ ﷺنے وفات پائی – اور (البدایہ والنہایۃ (5/224)میں ہے :

ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ الی ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر وفی أول شہر ربیع الاول

رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے –صفر کی چند راتیں باقی رہ گئی تھیں یا ربیع الاول کی ابتدا میں ہوا

تاریخ الکامل (2/215)میں ہے ابتدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ اواخرصفر رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز صفر کے اواخر میں ہوا

سیرت ابن ہشام (5/224) میں ہے :

ابتدأ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ الی ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر او فی شہر ربیع الاول

رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ تعالی نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئیں یار بیع الاول کی ابتداء ہو چکی تھی اسوقت ہوا

تاریخ ابن خلدون (2/61) میں ہےکہ

بدأہ الوجع لیلتین بقیتا من صفر وتحاوی بہ وجعہ

صفرکی دو راتیں باقی رہ گئیں تھیں آپ ﷺکی بیماری شروع ہوئی پھر آپ ﷺبیمار ہی رہے

تاریخ طبری (2/161)

بدأ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وجعہ لیلتین بقیتا من صفر

رسول ﷺکی بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (سیرت النبی 2/172) لکھتے ہیں کہ زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺکل تیرہ دن بیمار رہے – اس بنا پر اگریہ تحقیقی طورپر متعین ہوجائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے –سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھربروایت صحیح آٹھ روز (دوشنبہ تک) بیمار رہے، وہیں وفات ہوئی، اسلئےایام علالت کی مدت آٹھ روزیقینی ہے عام روایت کے رو سے پانچ دن اور چاہئیں، اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے مدت علالت 13 دن صحیح ہے علالت کے پانچ دن آپ ﷺنے ازواج مطہرات کے حجروں میں بسر فرمائے – اس حساب سے علالت کا آغاز چہارشنبہ سے ہوتا ہے –

بہرحال محققین کے نزدیک آپ ﷺکی بیماری کا آغاز صفر میں آخری بدھ کو ہوا کچھ لوگوں نے دن اورتاریخ میں تھوڑا اختلاف کیا ہے – مگر یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ آ پ ﷺکی مرض الموت کی ابتدا صفر کی آخری تاریخوں میں ہوئی – پھر بتائیے کہ مسلمانوں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے نبی فداہ ابی وامی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں – زیب وزینت کرکے باغوں پارکوں اور سیر گاہوں میں تفریح کے لئے جائیں ،قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اورمیوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں ، خصوصاً عورتیں عیدین سے بڑہ کر خوشیاں منائیں ، اورخوب بن سنور کر سیر کے لئے نکلیں – ذرا غور کیجئے کیا آپ میں کوئی اپنے ماں باپ، بھائی بہن، رشتہ دار،یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا ؟ اچھے اچھے اورلذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گا؟ گھر میں آپ کا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہوتو آپ سیروتفریح کو جائیں گے ؟ جب آپ اپنے ایک عزیز دوست اوررشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہیں کرسکتے ، تو محمد عربیﷺ کی علالت کے آغاز کے دن کیسے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں فرمان نبوی ﷺ ہے :

لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین

( فتح الباری کتاب/الایمان باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان 1/80)

تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ سے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

مستقل فتوی کمیٹی کا اس ماہ کے بدعات کے سلسلے میں جواب:

سوال :ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کے وقت ایک ہی سلام کے ذریعہ چاررکعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے جس میں ہررکعت کے اندر 17بار سورہ فاتحہ و کوثر ،50بارسورہ اخلاص اور ایک ایک بارمعوذتین (قل أعوذبرب الفلق وقل أعوذ برب الناس) پڑہی جاتی ہے اوریہ عمل ہررکعت میں کیا جاتا ہے اور سلام پھیر دیا جاتا ہے ، پھر سلام کے فورابعد (اللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون) کو 360بار پڑھا جاتا ہے ،اسکے بعد جوہرالکمال کو3بار پڑھا جاتا ہے اورپھر

سبحان ربک رب العزۃعما یصفون ،وسلام علی المرسلین ،والحمد للہ رب العالمین

کے ذریعہ نماز ختم کردی جاتی ہے ۔ پھر فقراء ومسکین میں روٹی وغیرہ کا صدقہ کیا جاتا ہے ، خاص کرکے اس مذکورہ آیت کا صدقہ ،یہ سب ماہ صفرکے آخری بدھ میںنازل ہونے والی مصیبت وپریشانی کو دورکرنے کے اعتقادسے کیاجاتا ہے ۔

اوران کا کہنا کہ ہرسال 3لاکھ بیس ہزار آفتیں نازل ہوتی ہیں اورسب کے سب ماہ صفرکے آخری بدھ کو ہوتی ہیں تو اس اعتبارسے یہ دن سال کا سب سے مشکل دن ہوتا ہے توجوشخص مذکورہ نماز کو اسکے بیان کردہ کیفیت کے ساتھ پڑہےگا تواللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس نمازکے ذریعہ اس دن کو تما م نازل ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا اور اس سال اس کے گرد کوئی بھی مصیبت وآفت چکّرنہیں لگائے گی ۔۔۔ الخ؟

جواب : اللہ ورسول اوران کے آل وأصحاب پر درود و سلام کے بعد کمیٹی نے کہا کہ سؤال میں مذکورنفل نماز کے بارے میں کتاب وسنت سے ہم کوئی أصل نہیں جانتے اورنہ ہی سلف صالحین اورخلف میں سے کسی سے یہ فعل ثابت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ بدعت ہے ۔

اورنبی ﷺنے فرمایا ہے :

من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ وقال من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردّ

جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے اور دوسری روایت میں یوں فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے

اورجس نے اس نمازاوراسکے ساتھ جو کچھ ذکرکیا گیا ہےاسکی نسبت نبی ﷺیا کسی صحابی کی طرف کی تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا ،اوراللہ کی طرف سے جھوٹے لوگوں کی سزا کا مستحق ہوگا ۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ2/354)

اورشیخ محمد عبد السلام شقیری فرماتے ہیں کہ جاہلوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ سلام کی آیتوں جیسے سلام علی نوح فی العالمین ...الخ۔ کوصفرکے آخری بدھ کو لکھ کرپانی کے برتن میں ڈا لتےہیں پھراس پانی کو پیتے، اوراس سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دیتے ہیں ’اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے شراورمصیبتیں دورہوجاتی ہیں ۔جبکہ یہ فاسد اعتقاد اوربری نحوست ہے اور قبیح بدعت ہے جو شخص بھی کسی کویہ عمل کرتا دیکھےاسکے لئے اس سے روکنا ضروری ہے ۔۔(السنن والمبتدعات :ص/111-112)

ما ہ صفر میں واقع ہونے والے غزوات وسرایا

اس ماہ میں غزوات وسرایا کی تعداد بہت زیادہ ہے جیساکہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اسکی جانب اشارہ کیا ہے جیسے غزوۃ ابواء ،بئرمعونۃ، اورخیبر کا صفرہی میں فتح ہونا ،اسی طرح قبیلہ خثعم کی جانب صفر 9ھجری میں قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ کا بھیجنا وغیرہ۔

ماہ صفرسے متعلق کچھ ضعیف وموضوع حدیثیں

1- اس ماہ سے متعلق یہ حدیث مشہور ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوکوئی صفر کے مہینہ کے گزرنے کی خوشخبری دے،میں اسکو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سناتا ہوں لیکن حدیث صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس ما ہ یا آخری بدھ کے نحوست کے سلسلے میں جتنی بھی حدیثیں ہیں سب ضعیف اورموضوع ہیں

(دیکھئے :الموضوعات لابن الجوزی 3/73-74 )

2-علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ضعیف وموضوع روایت کی معرفت کے اصول وقواعد کے ضمن میں لکھتےہیں :

فصل : ان احادیث کے بارے میں جو آنے والی تاریخ سے متعلق ہیں

اسی میں سے یہ کہ : حدیث میں فلاں فلاں تاریخ کا ذکرہو جیسے انکا قول :جب فلاں فلاں سال ہوگا توایسا ایسا ہوگا اورفلاں مہینہ ہوگا تو یہ حادثہ واقع ہوگا

اور اسی طرح سخت جھوٹے کا قول :جب محرّم میں چاند گرہن لگے گا تو مہنگائی ،قتل وغارتگری اوربادشاہ وحکمران کی مشغولیت بڑہ جائیگی اورجب صفر میں چاند گرہن لگے گا توایسا ایساہوگا ، اس طرح اس کذاب نے سال کے ہرماہ کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی حدیث گڑھی ۔ اور اس باب میں جتنی بھی حدیثیں بیا ن کی جاتی ہیں سب کے سب موضوع اور جھوٹی ہیں( دیکھئے المنارالمنیف ص/64)

مذکورہ بالا کتاب وسنت اورعلمائے کرام کے اقوال وفتاوی کی روشنی میں یہ بات واضح اورواشگاف ہوگئ کہ دین اسلام میں کوئی دن اورمہینہ منحوس نہیں، نہ ہی ان ایام اور مہینوں کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیرہے اورنہ ہی انکا کسی کی وفات سے کوئی تعلق ہے

لہذا ہم تما م راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ماہ صفر سے متعلق بدعات، اور نحو ست وبدشگونی سے توبہ کریں اورصحیح عقیدہ کو اپنا کررب کریم اوررسول اکرم ﷺکی رضا وخوشنودی کا مستحق بنیں اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ ہم سب کو ہر طرح کی بدعت ونحوست سے محفوظ رکھے اورسچا مومن بنائے آمین۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وبارک وسلم

نوفمبر 2016
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ماہِ صفر ایک مطالعاتی جائزہ

عادل سہیل ظفر


ماہِ صفر ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس مہینے کی نہ کوئی فضلیت بیان نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے میں کِسی بھی حلال اور جائز کام کو کرنے سے رُکا جائے ، ، جو مہینے فضلیت اور حُرمت والے ہیں اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( اِنَّ الزَّمَانَ قَد استدَارَ کَھیئتِہِ یَومَ خَلَقَ اللہُ السَّمَوَاتِ وَ الارضَ السَّنَۃُ اثنا عَشَرَ شَھراً مِنھَا اربعَۃَ حُرُمٌ ، ثَلاثٌ مُتَوالیاتٌ ، ذو القعدہ ذوالحجۃِ و المُحرَّم و رجبُ مُضر الَّذِی بین جُمادی و شَعبان )

(سا ل اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمنیں اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبا ن کے درمیان ہے ) صحیح البُخاری /حدیث ٧٩١٣، ٢٦٦٤،

دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کی بارہ مہہینوں میں سے چار کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حُرمت والے ہیں یعنی اُن چار مہینوں میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہئیے ، اِس کے عِلاوہ کِسی بھی اور ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے !!!!

حیرانگی کی بات ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کے لیئے خاص کیا جاتا ہے اور کُچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ اُن میں کوئی خوشی والا کام ، کاروبار کا آغاز ، رشتہ ، شادی بیاہ ، یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیئے ، حیرانگی اِس بات کی نہیں کہ ایسے خیالات کہاں سے آئے ، یہ تو معلوم ہے جِس کا ذِکر اِنشاء اللہ ابھی کروں گا ، حیرانگی اِس بات کی ہے کہ جو باتیں اور عقیدے کِسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں ، دِلوں اور دِماغوں میں ڈالے جاتے ہیں اُنہیں تو فوراً قبول کر لِیا جاتا ہے لیکن جو بات اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور پوری تحقیق کے ساتھ سچے اور ثابت شُدہ حوالہ جات کے ساتھ بتائی جاتی ہے اُسے مانتے ہوئے طرح طرح کے حیلے بہانے ، منطق و فلسفہ ، دِل و عقل کی کسوٹیاں اِستعمال کر کر کے راہ فرار تلاش کرنے کی بھر پُور کوشش کی جاتی ہے اور کچھ اِس طرح کہا لکھا جاتا ہے کہ :::

اجی یہ بات دِل کو بھاتی نہیں ::: کچھ ایسا ہے کہ عقل میں آتی نہیں !!!!


مُسلّم تھی جو بات خُرافات میں کھو گئی

اِن ہی خُرافات میں سے ماہ ِ صفر کو منحوس جاننا ہے۔

پہلے تو یہ سُن لیجیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کِسی چیز کو منحوس نہیں بنایا ، ہاں یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حِکمت ہے کہ وہ کِس چیزمیں کِس کے لیئے بر کت دے اور کِس کے لیئے نہ دے ، آئیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان آپ کو سُناؤں ، جو ہمارے اِس موضوع کے لیئے فیصلہ کن ہے۔

سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نحوست کا ذِکر کِیا گیا تو فرمایا:

اِن کانَ الشؤم فَفِی الثَّلاثۃِ ، المَراء ۃِ و الفُرسِ الدارِ (صحیح البُخاری / کتاب النکاح / باب ١٨ ، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٢٥)۔

) اگر نحوست( کِسی چیز میں) ہوتی تو اِن تین میں ہوتی،عورت ، گھر اور گھوڑا (

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( اگر نحوست کِسی چیز میں ہوتی ) صاف بیان فرماتا ہے کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی اور یہ بات بھی ہر کوئی سمجھتا ہے کہ جب ’’کوئی چیز ‘‘ ' کہا جائے گا تو اُس میں مادی و غیر مادی ہر چیز شامل ہو گی یعنی وقت اور اُس کے پیمانے بھی شامل ہوں گے، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان مُبارک سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ نحوست کِسی چیز کا ذاتی جُز نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ جِس چیز کو جِس کے لیئے چاہے برکت والا بنائے اور جِس کے لیئے چاہے بے برکتی والا بنائے ، یہ سب اللہ کی حکمت اور مشیئت سے ہوتا ہے نہ کہ کِسی بھی چیز کی اپنی صفت سے ، دیکھ لیجیئے کوئی دو شخص جو ایک ہی مرض کا شِکار ہوں ایک ہی دوا اِستعمال کرتے ہیں ایک کو شِفاء ہو جاتی ہے اور دوسرے کو اُسی دوا سے کوئی آرام نہیں آتا بلکہ بسا اوقات مرض بڑھ جاتا ہے ، کئی لوگ ایک ہی جگہ میں ایک ہی جیسا کارابار کرتے ہیں کِسی کوئی فائدہ ہوتا ہے کِسی کو نُقصان اور کوئی درمیانی حالت میں رہتا ہے ، کئی لوگ ایک ہی جیسی سواری اِستعمال کرتے ہیںکِسی کا سفر خیر و عافیت سے تمام ہوتا ہے اور کِسی کا نہیں ، اِسی طرح ہر ایک چیز کا معاملہ ہے۔

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برکت اور اضافے میں بہت فرق ہوتا ہے ، کِسی کے لیئے کِسی چیز میں اضافہ ہونا یا کِسی پاس کِسی چیز کا زیادہ ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ اُسے برکت دی گئی ہے ، عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ کافروں ، اور بدکاروں کو مسلمانوں اور نیک لوگوں کی نسبت مال و دولت ، اولاد ، حکومت اور دُنیاوہ طاقت وغیرہ زیادہ ملتی ہے ، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُنہیں برکت دی گئی ہے ، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے اُن پر آخرت کا مزید عذاب تیار کرنے کا سامان ہوتا ہے ، کہ ، لو اور خُوب آخرت کا عذاب کماؤ ، یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے لہذا اِس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا رہی۔

بات صفر کے مہینے کی ہو رہی تھی کہ نہ تو اِس کی کوئی فضلیت قُران و سُنّت میں ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے کو بے برکت یا بُرا سمجھا جائے ، جی ہاں ، اِسلام سے پہلے عرب کے کافر اِس مہینے کومنحوس اور باعثِ نُقصان سمجھتے تھے ، اور یہ سمجھتے تھے کہ صفر ایک کیڑا یا سانپ ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے اور جِس کے پیٹ میں ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیتا ہے اور دوسروں کے پیٹ میں بھی مُنتقل ہو جاتا ہے ، یعنی چُھوت کی بیماری کی طرح اِس کے جراثیم مُنتقل ہوتے ہیں ، اور اِسی لیئے اپنے طور پر ایک سال چھوڑ کر ایک سال میں اِس مہینے کو محرم سے تبدیل کر لیتے اورمحرم کی حُرمت اِس پر لاگو کرتے کہ شایدحُرمت کی وجہ سے صفر کی نحوست کم یا ختم ہو جائے،اور دوسرا سبب یہ ہوتا کہ محرم کی حُرمت صفرپر لاگو کرکے محرم کو دوسرے عام مہینوں کی طرح قرار دے کر اُسمیں وہ تمام کام کرتے جو حُرمت کی بنا پر ممنوع ہوتے۔

تفصیلات کے لیے دیکھیے:

(فتح الباری شرح صحیح البُخاری / الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی ، عُمدۃ القاری شرح صحیح البُخاری / عِلامہ بدر الدین العینی، شرح اِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، عَونُ المَعبُود شرح سُنن ابی داؤد /علامہ شمس الحق العظیم آبادی ،الدیباج علیٰ صحیح مُسلم /امام السیوطی ، فیض القدیر شرح جامع الصغیر / عبدالرؤف المناوی )

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا اِن سب اور اِن جیسے دوسرے عقیدوں کو غلط قرار فرمایا۔

سیدنا ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لا عَدوٰی و لاھامّۃ و لا طیرۃَ و لا صفر ) ( نہ ( کوئی ) چُھوت ( کی بیماری )ہے ، نہ ھامہ ہے ، نہ پرندوں ( یا کِسی بھی چیز )سے شگون لینا (کوئی حقیقت رکھتا) ہے ، نہ صفر ( کوئی بیماری یا نحوست والا مہنیہ ہے اور نہ اِس کی کِسی اور مہینہ کے ساتھ تبدیلی )ہے۔

(صحیح البُخاری / کتاب الطب / باب ٤٤، صحیح مُسلم / حدیث ٢٢٢٠)

الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث دیگر صحابہ سے بھی روایت کی گئی ہے اور تقریباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے ، میں نے حوالے کے لیئے صِرف صحیح البُخاری اور صحیح مُسلم پر اِکتفاء کِیا ہے کہ اِن کے حوالے کے بعد کِسی اور حوالے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور قوسین () کے درمیان جو الفاظ لکھے گئے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں لیکن سب کے سب اِن احادیث کی شرح سے اور جِن کتابوں کا حدیث کے ساتھ حوالہ دِیا گیا ہے اُن میں سے لیئے گئے ہیں اپنی طرف سے نہیں لکھے گئے۔

تو عرب صفر کے مہینے کے بار ے میں منحوس ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ، افسوس کہ اِسی قِسم کے خیالات آج بھی مُسلمانوں میں پائے جاتے ہیں ، اور وہ اپنے کئی کام اِس مہینے میں نہیں کرتے ، آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس مہینے کے بارے میں پائے جانے والے ہر غلط عقیدے کو ایک حرفِ میں بند کر کے مُسترد فرما دِیا ، سال کے دیگر مہینوں کی طرح اِس مہینے کی تاریخ میں بھی ہمیں کئی اچھے کام ملتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے اُسکے بندوں نے کیئے ، مثلاً ،

::::: ہجرت کے بعد جہاد کی آیات اللہ تعالیٰ نے اِسی مہینے میں نازل فرمائیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے پہلا غزوہ اِسی مہینے میں کِیا ، جِسے غزوہ الابوا بھی کہا جاتا ہے اور ’’ ودّان ‘‘بھی ،

اِیمان والوں کی والدہ مُحترمہ خدییجہ بنت الخولید رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی مُبارک اِسی مہینے میں ہوئی ،

::::: خیبر کی فتح خیبر اِسی مہینے میں ہوئی ،

یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون مُسلمان ایسا ہو گا جو اِس مہینے کو یا کِسی بھی مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اُس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے۔

ابھی جو حدیث نقل کی گئی اُس میں ’’ھامہ ‘‘کا ذِکر تھا ، بہت اختصار کے ساتھ اُس کا معنی بیان کرتا چلوں ، یہ بھی عربوں کے غلط جھوٹے عقائد میں سے ایک تھا ، کہ جِسے قتل کیا جاتا ہے اس کی روح اُلّو بن جاتی ہے اور اپنا انتقام لینے کے لیئے رات کو نکلتی ہے ، اور جب تک اُس کا اِنتقام پورا نہیں ہوتا وہ اُلّو بن کر راتوں کو گھومتی رہتی ہے ، اور سانپوں کے بارے میں بھی ایسا ہی عقیدہ پایا جاتا تھا ، اور کُچھ اور معاشروں میں اِسی قِسم کا عقیدہ چمگادڑ وغیرہ کے بارے میں پایا جاتا ہے ، عرب اپنے اِس باطل عقیدے کی وجہ سے اُلّو کی آواز کو بھی منحوس جانتے اور اُس کو دیکھنا بھی بدشگونی مانتے ، سانپوں کے انتقام ، چمگادڑوں اور اُلوؤں کے عجیب و غریب کاموں اور قوتوں اور اثرات کے بارے میں بے بُنیاد جھوٹے قصے آج بھی مروج ہیں اور اُسی طرح کے جھوٹے عقائد بھی لوگوں کے دِلوں و دِماغوں میں گھر بنائے ہوئے ہیں ،

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن تمام عقائد کو باطل قرار دِیا ہے جیسا کہ ابھی بیان کِیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اِن مختصر معلومات کو پڑھنے والوں کی ہدایت کا سبب بنائے اور میری یہ کوشش قُبُول فرمائے اور میری لیئے آخرت میں آسانی اور مہربانی اور مغفرت کا سبب بنائے ۔



ماہِ صفر کی مخصوص عبادات

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:

اللہ تعالى كى تعريفات اور اس كى رسول صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد

ہمارے ملك ميں بعض علماء كا خيال ہے كہ صفر كے مہينہ كے آخرى بدھ ميں چاشت كے وقت ايك سلام كے ساتھ چار ركعت نفل كرين ہر ركعت ميں سترہ ( 17 )بار سورۃ فاتحہ اور سورۃ الكوثر اور پچاس بار سورۃ الاخلاص (قل ہو اللہ احد ) اور معوذتين ( سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ) ايك ايك بار پڑھيں، ہر ركعت ميں ايسا ہى كريں اور سلام پھيرى جائے، اور جب سلام پھيرى جائے تو تين سو ساٹھ( 360 ) بار{الله غالب على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون}اور تين بار جوہر كمال پڑھنا مشروع ہے، اور سبحان ربك رب العزة عما يصفون ، وسلام على المرسلين ، والحمد لله رب العالمين پڑھ كر ختم كى جائے، اور فقراء و مساكين پر كچھ روٹى صدقہ كى جائے.اور اس آيت كى خاصيت يہ ہے كہ يہ صفر كے مہينہ كے آخري بدھ كو پہنچنے والى تكليف اور پريشانى كو دور كرتى ہے

۔اور ان كا كہنا ہے كہ:

ہر برس تين سو بيس تكليفيں اور آزمائشيں اترتى ہيں، اور يہ ساري كى سارى ماہ صفر كے آخرى بدھ ميں ہيں، تو اس طرح پورے سال ميں يہ دن سب سے مشكل ترين دن ہوتا ہے، اس ليے جو بھى اس مذكورہ كيفيت ميں نماز ادا كرے گا اللہ تعالى اپنے فضل و كرم سے اس دن ميں نازل ہونے والى سارى تكليفوں پريشانيوں اور آزمائشوں سے اس كى حفاظت فرمائے گا، تو كيا يہى حل ہے؟.

مذكور نوافل كے متعلق كتاب و سنت ميں كوئى اصل اور دليل نہيں، اور ہمارے نزديك تو امت كے سلف صالحين ميں سے كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ اس پر كسى نے عمل كيا ہو، بلكہ يہ بدعت اور منكرات ميں سے ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ثابت ہے كہ:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جو ہمارے دين ميں نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں نہيں تو وہ مردود ہے"

اور جس كسى نے بھى اس نماز اور اس كے ساتھ جو كچھ ذكر كيا گيا ہے كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى صحابى كى طرف منسوب كيا تو اس نے بہت عظيم بہتان بازى كى، اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے جھوٹے اور كذاب لوگوں كى سزا كا مستحق ٹھرے گا.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 2 / 354 ).

اور شيخ محمد عبد السلام الشقيرى فرماتے ہیں:

جاہلوں كى عادت بن چكى ہے كہ سلام والى آيات مثلا { سلام على نوح في العالمين}الايۃ لكھ كر برتنوں ميں ركھ كر ماہ صفر كے آخرى بدھ كو پيتے اور اس سے تبرك حاصل كرتے اور ايك دوسرے كو ہديہ اور تحفہ ميں ديتے ہيں، كيونكہ ان كا اعقاد ہے كہ اس سے شر اور برائى جاتى رہتى ہے، يہ اعتقاد باطل اور فاسد اور اس سے نحوست پكڑنا مذموم ، اور بہت ہى قبيح قسم كى بدعت ہے، جو شخص بھى كسى كو يہ عمل كرتے ہوئے ديكھے اس سے روكنا واجب اور ضرورى ہے.

ديكھيں: السنن و المبتدعات ( 111 - 112 ).
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صفر کا مہینہ کی نحوست
اور دینی ایس ایم ایس وغیرہ سے متعلق
19 Nov,2017

کتبہ :عبد الرحمن شاکر
صححہ: مفتی محمد شریف علی

سوال: کیاصفر کا مہینہ منحوس ہے؟کیا اسلام میں کسی مہینے یا دن کی نحوست ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب:اگر انسان اپنے ذہن میں کسی چیز کے بارے میں منفی سوچ رکھتا ہےتواس میںاس کے لیے اتنی ہی برائی اور نحوست ہوسکتی ہے کہ وہ اگر اچھی سوچ رکھے تواس کے لیے اچھائی کا دروازہ کھل سکتاہے حدیث قدسی ہے
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي(صحیح البخاری 7405)
’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں‘‘ آپ یہ جان کر حیران تو ضرور ہونگے کہ جب ہم نیند میں بھاگنے کا خواب دیکھتے ہیں توایک دم بیدار ہونے پر ہمیں اپنے جسم پر پسینہ نظرآتا ہے جیساکہ حقیقی زندگی کی دوڑ میں ہوتا ہے اس میں نہ آپ کے پاؤں ہلتے ہیں نہ ہاتھ لیکن جب دماغ نے قبول کرلیا کہ آپ بھاگ رہے ہیں تو جسم نے وہی عمل کیا۔
اسی طرح کوئی بھی دن یا مہینہ نحوست والانہیں ہوتا یہ انسان کے اعمال اور سوچ کا نتیجہ ہےکہ وہ زمانے کو قصوروارٹھہراتا ہے ۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے
لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ(المسلم2246)
زمانہ کو گالی مت دو اللہ ہی زمانہ ہے(یعنی زمانہ کی تدبیر کرنے والا اللہہےکسی بھی چیز کی برائی کو اس مدبر کی برائی میں شامل کیا جاتا ہے )
رہا صفر کا مہینہ کہ جس میں کچھ لوگ شادی بیاہ ،تجارت وغیرہ نہیں کرتے اور محتاط رہتے ہیںاور اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیںتویاد رہے کہ صفر کا مہینہ بھی باقی مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ (التوبۃ 36)
بےشک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘ اللہ کے قانون میں ‘ جس دن سے اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے
مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ؟، قَالَ: " تَقُولُ: اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ (المعجم الکبیر للطبرانی 38)
جس کو بدفالی نےکسی کام سے روکا یقیناً اس نے شرک کیا توصحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ﷺتو اس کا کفارہ کیا ہے تو فرمایا کہ وہ یہ دعا پڑھے:
اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
نہ کوئی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر متعدی ہوتی ہے اور نہ بدفالی (نحوست)درست ہے اور مجھے فال سے محبت ہے تو پوچھا گیا کہ فال کیا ہے عرض کی :اچھا کلمہ ۔
اس سے ثابت ہوا کے اسلام نے ہمیں ہمیشہ اچھا سوچنے کی ترغیب دی اوربری سوچ اور نحوست سمجھنے سے منع فرمایا ہے۔شریعت سے کسی مہینے یادن کی نحوست ثابت نہیں البتہ کچھ ایام اور مہینوں کی فضلیت ثابت ہےجیساکہ ’’عشرہ ذی الحجہ،یوم عاشوراء،رمضان اور أشہر الحرم‘‘وغیرہ
اپنی زندگی کے مصائب کا ڈیٹا جمع کریں پھرسال کے سارے مہینے اور دن محفوظ کرلیں ،آپ کو سارے دن مصائب زدہ نظر آئینگےلیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دن یا مہینے منحوس ہیں چنانچہ اللہ پر توکل کریںکوئی دن نحوست والا نہیں ہے صرف صفر کے مہینے کو منحوس جانناجاہلیت کے رسموں میںسے ہےاس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے ۔
لاَ عَدْوَى وَلاَ صَفَرَ وَلاَ هَامَةَ(البخاری5717)
’’مرض کے متعدی ہونے اور(ماہ) صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘( واللہ اعلم بالصواب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل اسلامی میسجز جوموبائلوں میں زیادہ ترآتے ہیں کیا ان میسجز کی کوئی حد یا قید ہے یا فوراً آگے بھیج دیناچاہئے؟

جواب: جومیسجز یا ویڈیوزقرآنی آیت یا صحیح حدیث پر مشتمل ہوں تو اسے آگے فارورڈ کیا جاسکتاہے بشرطیکہ جس کی طرف قرآنی آیت بھیجی جارہی ہے وہ مسلمان ہو البتہ پبلک میسجز کو بھیجتے وقت چند اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
1: اللہ تعالی کا فرمان ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات:6)
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ اگر بات کسی فاسق آدمی سے سنی ہو تو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے اور جب تک تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اسے آگے نہ بھیجا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اہل علم سے معلوم کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(الانبیاء7)

2۔کبھی کبھی صحیح احادیث اور قرآنی آیات میسجز میں آتی ہیں لیکن آخر میں لکھا ہوتا ہے دس لوگوں کو سینڈ کرو، دو دنوںمیں خوشی ملے گی ۔اس میں وہ قرآنی آیت یاحدیث میں کوئی شک نہیں ہوتا لیکن کمزور ایمان والے لوگ اسےدس لوگوں کو سینڈ کرکے کسی معجزاتی خوشی کا انتظار کرتے ہیںجب انہیں کوئی خوشی نہیں ملتی تو وہ اسلام سے بد ظن هہونے لگتے ہیں ۔ایسے میں کوئی فرد اس طرح کے جرم میں شریک ہوکر قصور وار ہوتا ہے اس صورت میں قرآنی آیات یاحدیث صحیح پر عمل کرنا چاہیے لیکن اسے آگے بھیج کر بدعقیدگی پھیلانے سے بچیں بصورت صحت حدیث وقرآنی آیات

3۔کبھی کبھار بہترین اقوال زریں لکھ کر اسے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کیاجاتا ہے اس صورت میں قول،زندگی کے لیے کتنا بھی مفید ہی کیوں نہ ہو لیکن رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنےکے زمرے میں آئے گا ۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ؛
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(صحیح البخاری110)
جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔(واللہ اعلم بالصواب)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا ماہ وسال اور دن و رات بھی منحوس ہوتے ہیں ؟
14 Oct,2018

مسلم تھی جو بات خرافات میں کھو گئی

محترم قارئین ! ہمارے معاشرے میں اکثر ضعیف الاعتقاد لوگ مختلف دن اور مہینوں کو منحوس سمجھ کران میں سفر اور شادی و بیاہ سے ڈرتے ہیں ۔جب کہ ایام میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں ایام کو تو اللہ رب العالمین ہی بدلتا رہتا ہے ۔

رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے :

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :‏‏‏‏ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں۔ (صحيح بخاري : 4826)

اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا ہے کہ زمانے کو برا بھلا کہنا منع ہے ۔اگر ماہ وغیرہ میں کوئی نحوست ہوتی تو اللہ رب العالمین اور اس کے رسول ﷺ ضرور وضاحت فرما دیتے جیسا کہ بارہ مہینوں سے چار مہینوں کی حرمت کو واضح فرمایا ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :

ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :‏‏‏‏ إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ(صحیح البخاری:5094)

رسول اللہ ﷺکے سامنے نحوست کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ۔

رسول اللہ ﷺکے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی ۔قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ نحوست بدشگونی کا عقیدہ جہالت پر مبنی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ نبی کائنات ﷺ نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے کسی ماہ یا دن کو منحوس کہا ہے دور جاہلیت میں اور اب بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس کہتے ہیں اور اس سے بدشگونی لیتے ہیں یہ دور جہالت کي روش ہے کہ وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے نبی کریم ﷺ نے ان کے اس نظریے کا رد کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ (صحیح بخاری : 5757 )
چھوت لگ جانا بدشگونی یا الو یا صفر کی نحوست یہ کوئی چیز نہیں ہے۔

اسی طرح بعض لوگ ماہ شوال کو بھی منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ کرنے سے منع کرتے تھے اور آج بھی روکتے ہیں جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ :
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي .(سنن نسائی : 3379)
رسول اللہ ﷺنے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی، ( لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں ) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپﷺ کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت کے اندر کوئی بھی مہینہ منحوس نہیں ہے یہ فقط لوگوں کے توہمات وخیالات ہی ہیں جیسا کہ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا :
يَا رَسُولَ اللهِ أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ . قَالَ قُلْتُ : كُنَّا نَتَطَيَّرُ قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ .( صحیح مسلم : 5813 )
اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کچھ کام ایسے تھے جو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا : تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو ۔ میں نے عرض کی : ہم بدشگونی لیتے تھے ، آپ نے فر ما یا :
یہ ( بدشگونی ) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے ، یہ تمھیں ( کسی کام سے ) نہ روکے ۔

امام داود رحمہ اللہ نے محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ سے نقل فرمايا ہے کہ :
وکثیر من الجھال یتشاؤم بصفر ، و ربما ینھی عن السفر فیہ ، والتشاؤم بیوم من الایام کیوم الاربعاء ( لطائف المعارف، ص: 147)
بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس میں سفر کرنے سے رکے رہتے ہیں ۔ صفر کو منحوس سمجھنا یہ بدشگونی کی جنس سے ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ اسی طرح کسی دن کو منحوس سمجھنا جیسے بدھ کا دن ہے ، یہ بھی منع ہے ۔

امام محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے واضح ہوتا ہے کہ مہینوں کی طرح دن ورات بھی نحوست و بدشگونی سے پاک ہیں کسی دن یا رات کو منحوس سمجھنا اور کہنا جاہلی توہمات میں سے ہے ۔ماہ و سال، لیل ونہار اور وقت کے خالق اللہ رب العالمین ہی ہیں اللہ تعالی نے کسی ماہ ، دن یا رات کو منحوس قرار نہیں دیا ۔ ہاں ! جو حادثہ یا واقعہ تقدیر میں لکھا گیا وہ تو ہوکر ہی رہے گا اگر کسی مہینے ، دن یا رات کو کوئی حادثہ یا غمناک واقعہ پیش آجائے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ منحوس ہیں !بلکہ کسی دن یا رات کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے اس زمانے میں جو دن رات پر مشتمل ہے عیب لگانا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں گزرچکا ہے ۔(صحيح بخاري : 4826)

معلوم ہوا کہ مہینے ، دن اور رات اللہ تعالی کے ہی پیدا کردہ ہیں کسی مہینے دن یا رات کو منحوس کہنا یا عیب دار ٹھہرانا اللہ سبحانہ و تعالی کی کاریگری میں عیب نکالنا ہے ۔ یاد رہے کہ کسی چیز کو منحوس سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین بار فرمایا :
الطِّيَرَةُ شِرْكٌ(سنن ابی داود:3910 )
بدشگونی لینا شرک ہے ۔

لہٰذا بدشگونی لینا یا کسی لمحہ کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ جو بھی کوئی آفت ،مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ من جانب اللہ ہوتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ صحیح عقائد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 
Top