• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلاۃ توبہ :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

صلاۃ توبہ :

الحمد للہ:


اللہ سبحانہ و تعالى كى اس امت پر رحمت ہے كہ اس نے توبہ كا دروازہ كھلا ركھا ہے، اور يہ توبہ كا دروازہ اس وقت تك بند نہيں ہوگا جب تك روح نرخرے تك نہ پہنچ جائے، يا پھر سورج مغرب كى جانب سے طلوع نہ ہو جائے.

اسى طرح اس امت پر اللہ تعالى كى يہ بھى رحمت ہے كہ اس نے ان كے ليے سب افضل ترين عبادات مشروع كى ہيں، جنہيں اللہ تعالى اپنے اللہ كے ليے وسيلہ بناتا ہے، اور اپنى توبہ كى قبوليت كى اميد ركھتا ہے جو كہ نماز توبہ ہے، اور ذيل ميں اس كے متعلقہ چند ايك مسائل پيش كيے جاتے ہيں:

1 - نماز توبہ كى مشروعيت:


نماز توبہ كى مشروعيت پر اہل علم كا اجماع ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:


" جو كوئى بندہ بھى كوئى گناہ كرے اور پھر اچھى طرح وضوء كر كے دو ركعت نماز ادا كرے، اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:

{ اور جب ان سے كوئى فحش كام ہو جائےن يا كوئى گناہ كر بيٹھيں تو فورا اللہ كا ذكر،اور اپنے گناہوں كے ليے استغفار كرتے ہيں، يقينا اللہ تعالى كے سوا كون گناہوں كو بخش سكتا ہے ؟ اور وہ لوگ باوجود علم كے كسى برے كام پر اصرار نہيں كرتے }.

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1521 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ابو داود ميں صحيح كہا ہے.

اور مسند احمد ميں ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:


" جو شخص اچھى طرح پورا وضوء كر كے پھر دو يا چار ركعت ( راوى كو شك ہے ) اچھى طرح خشوع و خضوع اور اللہ كے ذكر سے ادا كرتا اور پھر اللہ تعالى سے بخشش طلب كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے بخش ديتا ہے "

مسند احمد كے محققين كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3398 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - نماز توبہ كا سبب:


نماز توبہ كا سبب مسلمان شخص كا معصيت و نافرمانى كا مرتكب ہونا ہے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ، تو اس سے اسے فورا توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ليے يہ دو ركعت ادا كرنى مندوب ہيں، اور پھر اسے توبہ كے وقت اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كوئى اچھا اور نيك عمل كرنا چاہيے، اور ان اعمال صالحہ ميں سب سے زيادہ افضل نماز ہے، تو اس نماز كو اللہ تعالى كے ہاں اپنا وسيلہ بنا كر يہ اميد ركھنى چاہيے كہ اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرمائيگا، اور اس كے گناہ بخش دےگا.

3 - نماز توبہ كا وقت:


مسلمان شخص جب كسى گناہ سے توبہ كرنے كا عزم كر چكے تو اسے اس وقت نماز توبہ ادا كر كے توبہ كرنى چاہيے، اور يہ اس گناہ كے فورا بعد ہو يا دير كے ساتھ اس ميں كوئى فرق نہيں، گنہگار شخص پر واجب ہوتا ہے كہ وہ توبہ كرنے ميں جلدى كرے، ليكن اگر وہ توبہ ميں تاخيركرتا ہے، يا پھر يہ كہے كہ توبہ كر لونگا، اور بعد ميں توبہ كر لى تو اس كى توبہ قبول ہو جاتى ہے، كيونكہ توبہ اس وقت تك قبول ہوتى ہے جب تك درج ذيل امور ميں سے كوئى ايك چيز نہ ہو جائے:

1 - جب روح نرخرہ تك پہنچ جائے يعنى نرخرہ بجنے لگے تو توبہ قبول نہيں ہوتى.


نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:


" يقينا اللہ تعالى بندے كى توبہ اس وقت تك قبول كرتا ہے جب تك ا سكا نرخرہ بجنا نہ شروع ہو "

علامہ البانى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 3537 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

2 - جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے تو توبہ قبول نہيں ہو گى.


نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:


" جس نے بھى سورج مغرب كى جانب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ كر لى اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2703 ).

اور يہ نماز ہر وقت ادا كرنى مشروع ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات ( مثلا نماز عصر كے بعد ) بھى شامل ہيں، كيونكہ يہ نماز ان نمازوں ميں شامل ہوتى ہے جو كسى سبب كى بنا پرادا كى جاتى ہے، تو اس كے سبب كے وجود كى بنا پر نماز ادا كرنى مشروع ہو گى.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:


" اسباب والى نمازوں كو اگر ممنوعہ وقت سے مؤخر كيا گيا تو وہ فوت ہو جائينگى، يعنى رہ جائينگى، مثلا: سجدہ تلاوت، اور تحيۃ المسجد سورج گرہن كى نماز، اور تحيۃ الوضوء كى دو ركعتيں، جيسا كہ بلال رضى اللہ عنہ كى حديث ميں ہے، اور اسى طرح نماز استخارہ اگر كسى شخص كو استخارہ كى ضرورت ہو اور اسے مؤخر كيا جائے تو وہ رہ جائيگا، اور اسى طرح نماز توبہ، تو جب گناہ كرے تو اس پر فورا توبہ كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے مندوب ہے كہ وہ دو ركعت ادا كر كے توبہ كرے، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 23 / 215 ).

4 - نماز توبہ دو ركعت ہيں، جيسا كہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں آيا ہے.


اور توبہ كرنے والے كے ليے اكيلے اور خلوت ميں نماز توبہ ادا كرنا مشروع ہے، كيونكہ يہ ان نوافل ميں سے ہے جن كى جماعت مشروع نہيں، اور اس كے بعد اس كے ليے استغفار كرنا مندوب ہے، اس ليے كہ ابو بكر رضى اللہ كى حديث سے ثابت ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ان ركعتوں ميں كوئى مخصوص سورتيں پڑھنا اور مخصوص اذكار ثابت نہيں، اس ليے وہ جو چاہے قرآت كر سكتا ہے.

اور نماز توبہ كے ساتھ توبہ كرنے والے كے ليے مستحب ہے كہ وہ نيك اور صالحہ اعمال كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ہاں يقينا ميں انہيں بخش دينے والا ہوں جو توبہ كريں اورايمان لائيں اور نيك عمل كريں، اور راہ راست پر بھى رہيں } طہ ( 82 ).


اور توبہ كرنے والے كے ليے نيك اور صالحہ اعمال ميں سب سے افضل عمل صدقہ ہے، كيونكہ صدقہ گناہوں كو مٹانے والے اسباب ميں سب سے بڑا اور عظيم عمل ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{ اگر تم صدقہ و خيرات ظاہر كرو تو وہ بھى اچھا ہے، اور اگر تم اسے پوشيدہ پوشيدہ مسكينوں كو دے دو تو يہ تمہارے حق ميں بہتر ہے، اللہ تعالى تمہارے گناہوں كو بخش دےگا } البقرۃ ( 271 ).


اور كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب اللہ تعالى نے ان كى توبہ قبول كى تو وہ كہنے لگے:


اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى توبہ ميں شامل ہے كہ ميں اپنا سارا مال اللہ اور اس كے رسول كے ليے صدقہ كردوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:


" اپنا كچھ مال ركھ لو، يہ تمہارے ليے بہتر ہے "

تو وہ كہنے لگے: ميں اپنا خيبر والا حصہ روك ليتا ہوں "

متفق عليہ.

تو خلاصہ يہ ہوا كہ:


1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز توبہ ثابت ہے.

2 - يہ نماز مسلمان كے ليے مشروع ہے جب بھى وہ كوئى گناہ كرے اور اس سے توبہ كرنے ليے نماز توبہ ادا كرے، چاہے گناہ كبيرہ ہو يا صغيرہ اور چاہے گناہ كے فورا بعد توبہ ہو يا كچھ مدت گزرنے كے بعد.

3 - نماز توبہ ہر وقت ادا كى جا سكتى ہے، اس ميں ممنوعہ اوقات بھى شامل ہيں.

4 - توبہ كرنے والے كے ليے نماز توبہ كے ساتھ ساتھ اللہ كے قرب والے دوسرے اعمال بھى كرنے مستحب ہيں، مثلا صدقہ وغيرہ.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ا نكى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

بشکریہ : الاسلام سوال و جواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نماز توبہ

سیدنا ابوبکر نے سچ کہا :
’’ عن اسماء بن الحكم الفزاري قال:‏‏‏‏سمعت عليا رضي الله عنه يقول:‏‏‏‏ كنت رجلا إذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا نفعني الله منه بما شاء ان ينفعني وإذا حدثني احد من اصحابه استحلفته فإذا حلف لي صدقته قال:‏‏‏‏ وحدثني ابو بكر وصدق ابو بكر رضي الله عنه انه قال:‏‏‏‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين ثم يستغفر الله إلا غفر الله له ثم قرا هذه الآية:‏‏‏‏ والذين إذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسهم ذكروا الله سورة آل عمران آية 135 إلى آخر الآية ".(سنن ابی داود ،حدیث نمبر: 1521 )

اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں ایسا آدمی تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو جس قدر اللہ کو منظور ہوتا اتنی وہ میرے لیے نفع بخش ہوتی اور جب میں کسی صحابی سے کوئی حدیث سنتا تو میں اسے قسم دلاتا، جب وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی بات مان لیتا، مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو گناہ کرے پھر اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے، پھر استغفار کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف نہ کر دے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *** إلى آخر الآية» ۱؎ ”جو لوگ برا کام کرتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں پھر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ۔ ۔ آیت کے اخیر تک“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۲ (۴۰۶)، وتفسیر آل عمران ۴ (۳۰۰۶)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (۴۱۴، ۴۱۵، ۴۱۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹۳ (۱۳۹۵)، (تحفة الأشراف:۶۶۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲، ۸، ۹، ۱۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سورة آل عمران : (۱۳۵) پوری آیت اس طرح ہے: «فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون» ۔
Narrated Abu Bakr as-Siddiq: Asma bint al-Hakam said: I heard Ali say: I was a man; when I heard a tradition from the Messenger of Allah ﷺ, Allah benefited me with it as much as He willed. But when some one of his companions narrated a tradition to me I adjured him. When he took an oath, I testified him. Abu Bakr narrated to me a tradition, and Abu Bakr narrated truthfully. He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ saying: When a servant (of Allah) commits a sin, and he performs ablution well, and then stands and prays two rak'ahs, and asks pardon of Allah, Allah pardons him. He then recited this verse: "And those who, when they commit indecency or wrong their souls, remember Allah" (iii. 134).
English Translation Reference:, Book 8, Number 1516
 
Top