• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں

غزوۂ غابہ یا غزوہ ذی قرد:
یہ غزوہ درحقیقت بنو فزارہ کی ایک ٹکڑی کے خلاف جس نے رسول اللہ ﷺ کے مویشیوں پر ڈاکہ ڈالا تھا، تعاقب سے عبارت ہے۔
حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے یہ پہلا اور واحد غزوہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کو پیش آیا۔ امام بخاری نے اس کا باب منعقد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا تھا۔ اور یہی بات اس غزوے کے خصوصی کار پرداز حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کی روایت صحیح مسلم میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جمہور اہل مغازی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے لیکن جو بات صحیح میں بیان کی گئی ہے اہلِ مغازی کے بیان کے مقابل میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئے: صحیح بخاری باب غزوۃ ذات قرد ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۳،۱۱۴، ۱۱۵فتح الباری ۷/ ۴۶۰،۴۶۱،۴۶۲، زاد المعاد ۲/۱۲۰۔ حدیبیہ سے اس غزوے کے موخر ہونے پر حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ دیکھئے: مسلم: کتاب الحج باب الترغیب فی سکنی المدینۃ والصبر علی لاوائہا حدیث نمبر ۴۷۵ (۱۳۷۴) ۲/۱۰۰۱)
اس غزوہ کے ہیرو حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے جو روایات مروی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ اپنے غلام رباح کے ہمراہ چرنے کے لیے بھیجے تھے۔ اور میں بھی ابو طلحہ کے گھوڑے سمیت ان کے ساتھ تھا کہ اچانک صبح دم عبد الرحمن فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا۔ اور ان سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو قتل کر دیا۔ میں نے کہا کہ رباح! یہ گھوڑا لو۔ اسے ابو طلحہ تک پہنچا دو۔ اور رسول اللہ ﷺ کو خبر کر دو۔ اور خود میں نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مدینہ کی طرف رُخ کیا۔ اور تین بار پکار لگائی: یا صَبَاحاہ! ہائے صبح کا حملہ۔ پھر حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلا۔ ان پر تیر برساتا جاتا تھا اور یہ رجز پڑھتا جاتا تھا۔ أنا ابن الأکوع والیـوم یـوم الـرضـع
''(لو) میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے (یعنی آج پتہ لگ جائے گا کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے)''
سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ واللہ میں انھیں مسلسل تیروں سے چھلنی کرتا رہا۔ جب کوئی سوار میری طرف پلٹ کر آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا۔ پھر اسے تیر مار کر زخمی کر دیتا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ پہاڑ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور پتھروں سے ان کی خبر لینے لگا۔ اس طرح میں نے مسلسل ان کا پیچھا کیے رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے جتنے بھی اونٹ تھے میں نے ان سب کو اپنے پیچھے کر لیا۔ اور ان لوگوں نے میرے لیے ان اونٹوں کو آزاد چھوڑ دیا۔
لیکن میں نے پھر بھی ان کا پیچھا جاری رکھا۔ اور ان پر تیر برساتا رہا یہاں تک کہ بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں اس پر (بطور نشان) تھوڑے سے پتھر ڈال دیتا تھا تاکہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقاء پہچان لیں (کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔) اس کے بعد وہ لوگ ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانے لگے۔ میں بھی ایک چوٹی پر جا بیٹھا۔ یہ دیکھ کر ان کے چار آدمی پہاڑ پر چڑھ کر میری طرف آئے (جب اتنے قریب آ گئے کہ بات سن سکیں تو) میں نے کہا: تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں سلمہ بن اکوعؓ ہوں، تم میں سے جس کسی کو دوڑاؤں گا بے دھڑک پا لوں گا اور جو کوئی مجھے دوڑائے گا ہرگز نہ پا سکے گا۔ میری یہ بات سن کر چاروں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی جگہ جما رہا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے درمیان سے چلے آ رہے ہیں۔ سب سے آگے اخرم تھے۔ ان کے پیچھے ابو قتادہ، اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود۔ (محاذ پر پہنچ کر) عبدالرحمن اور حضرت اخرم میں ٹکر ہوئی۔ حضرت اخرم نے عبد الرحمن کے گھوڑے کو زخمی کر دیا لیکن عبد الرحمن نے نیزہ مار کر حضرت اخرم کو قتل کر دیا۔ اور ان کے گھوڑے پر جا پلٹا مگر اتنے میں حضرت قتادہؓ ، عبدالرحمن کے سر پر جا پہنچے اور اسے نیزہ مار کر زخمی کر دیا۔ بقیہ حملہ آور پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اور ہم نے انھیں کھدیڑنا شروع کیا۔ میں اپنے پاؤں پر اچھلتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان لوگوں نے اپنا رخ ایک گھاٹی کی طرف موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے اور وہاں پانی پینا چاہتے تھے لیکن میں نے انھیں چشمے سے پرے ہی رکھا اور وہ ایک قطرہ بھی نہ چکھ سکے۔ رسول اللہ ﷺ اور شہسوار صحابہ دن ڈوبنے کے بعد میرے پاس پہنچے۔ میں نے عرض : یا رسول اللہ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان کے جانور بھی چھین لوں۔ اور ان کی گردنیں پکڑ کر حاضر خدمت بھی کر دوں۔ آپ نے فرمایا: اکوع کے بیٹے! تم قابو پا گئے ہو تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت بنو غطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جا رہی ہے۔
(اس غزوے پر) رسول اللہ ﷺ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابو قتادہ اور سب سے بہتر پیادہ سلمہ ہیں۔ اور آپ نے مجھے دو حصے دیے۔ ایک پیادہ کا حصہ اور ایک شہسوار کا حصہ۔ اور مدینہ واپس ہوتے ہوئے مجھے (یہ شرف بخشا کہ) اپنی عضباء نامی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار فرما لیا۔
اس غزوے کے دوران رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کا انتظام حضرت ابن اُمِ مکتوم کو سونپا تھا۔ اور اس غزوے کا پرچم حضرت مقداد بن عمروؓ کو عطا فرمایا تھا۔ (سابقہ مآخذ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
غزوہ خیبر اور غزوۂ وادی القریٰ

(محرم ۷ھ)​
خیبر، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب و ہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔
غزوے کا سبب:
جب رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہو گئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دو بازوؤں -یہود اور قبائل نجد- سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہر جانب سے مکمل امن و سلامتی حاصل ہو جائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پا کر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہو جائیں۔
چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔
رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تو اس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل خیبر ہی تھے جو جنگ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھا لائے تھے۔ پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدر و خیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو - بنو غطفان اور بدوؤں - سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اور اپنی ان کارروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو بار بار فوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً: "سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم'' کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑا تھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت - یعنی قریش- جو ان یہود سے زیادہ بڑی، طاقتور، جنگجو اور سرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رُخ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جونہی قریش کے ساتھ اس محاذ آرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہو گئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
خیبر کو روانگی:
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے واپس آ کر ذی الحجہ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا۔ پھر محرم کے باقی ماندہ ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہو گئے۔
مفسرین کا بیان ہے کہ خیبر اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا جو اس نے اپنے ارشاد کے ذریعہ فرمایا تھا :
وَعَدَكُمُ اللَّـهُ مَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِ (۴۸: ۲۰)
''اللہ نے تم سے بہت سے اموال غنیمت کا وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کرو گے تو اس کو تمہارے لیے فوری طور پر عطا کر دیا۔''
''جس کو فوری طور پر ادا کر دیا'' اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور ''بہت سے اموالِ غنیمت '' سے مراد خیبر ہے۔
اسلامی لشکر کی تعداد:
چونکہ منافقین اور کمزور ایمان کے لوگ سفر حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان کے بارے میں حکم دیتے ہوئے فرمایا :
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُ‌ونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِ‌يدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّـهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّـهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۴۸: ۱۵)
''جب تم اموال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے گئے لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات بدل دیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اللہ نے پہلے ہی سے یہ بات کہہ دی ہے (اس پر) یہ لوگ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو۔ (حالانکہ حقیقت یہ ہے) کہ یہ لوگ کم ہی سمجھتے ہیں۔''
چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی روانگی کا ارادہ فرمایا تو اعلان فرما دیا کہ آپ کے ساتھ صرف وہی آدمی روانہ ہو سکتا ہے جسے واقعۃً جہاد کی رغبت اور خواہش ہے۔ اس اعلان کے نتیجہ میں آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ جا سکے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی۔ اور ان کی تعداد صرف چودہ سو تھی۔
اس غزوے کے دوران مدینہ کا انتظام حضرت سباع بن عرفطہ غفاری کو ــ--- اور ابن اسحاق کے بقول --- نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو سونپا گیا تھا۔ محققین کے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ (دیکھئے: فتح الباری ۷/۴۶۵ ، زاد المعاد ۲/۱۳۳)
اسی موقع پر حضرت ابو ہریرہؓ بھی مسلمان ہو کر مدینہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت حضرت سباع بن عرفطہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو ہریرہؓ ان کی خدمت میں پہنچے۔ انہوں نے توشہ فراہم کر دیا۔ اور حضرت ابو ہریرہؓ خدمت نبوی ﷺ میں حاضری کے لیے خیبر کی جانب چل پڑے۔ جب خدمت نبوی میں پہنچے تو (خیبر فتح ہو چکا تھا) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے گفتگو کر کے حضرت ابو ہریرہ اور ان کے رفقاء کو بھی مال غنیمت میں شریک کر لیا۔
یہود کے لیے منافقین کی سرگرمیاں:
اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ و دو کی۔ چنانچہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے یہودِ خیبر کو یہ پیغام بھیجا کہ اب محمد ﷺ نے تمہار ا رُخ کیا ہے۔ لہٰذا چوکنا ہو جاؤ، تیاری کر لو۔ اور دیکھو!ڈرنا نہیں۔ کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا ساز و سامان زیادہ ہے۔ اور محمد ﷺ کے رفقاء بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں۔ اور ان کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں۔
جب اہل خیبر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس کو حصولِ مدد کے لیے بنو غطفان کے پاس روانہ کیا۔ کیونکہ وہ خیبر کے یہودیوں کے حلیف اور مسلمانوں کے خلاف ان کے مدد گار تھے۔ یہود نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر انہیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو گیا تو خیبر کی نصف پیداوار انہیں دی جائے گی۔
خیبر کا راستہ:
رسول اللہ ﷺ نے خیبر جاتے ہوئے۔ جبل عِصْر کو عبور کیا - عِصْر کے عین کو زیر ہے اور ص ساکن ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ دونوں پر زبر ہے - پھر وادی صہباء سے گذرے۔ اس کے بعد ایک اور وادی میں پہنچے جس کا نام رجیع ہے۔ (مگر یہ وہ رجیع نہیں جہاں عضل وقارہ کی غداری سے بنو لحیان کے ہاتھو ں آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت اور حضرت زید و خبیب رضی اللہ عنہما کی گرفتاری اور پھر مکہ میں شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا)
رجیع سے بنو غطفان کی آبادی صرف ایک دن اور ایک رات کی دوری پر واقع تھی اور بنو غطفان نے تیار ہو کر یہود کی اِمداد کے لیے خیبر کی راہ لے لی تھی۔ لیکن اثناءِ راہ میں انھیں اپنے پیچھے کچھ شور و شغب سنائی پڑا تو انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کر دیا ہے اس لیے وہ واپس پلٹ کر آ گئے اور خیبر کو مسلمانوں کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں ماہرینِ راہ کو بلایا جو لشکر کو راستہ بتانے پر مامور تھے ان میں سے ایک کا نام حسیل تھا - ان دونو ں سے آپ نے ایسا مناسب ترین راستہ معلوم کرنا چاہا جسے اختیار کر کے خیبر میں شمال کی جانب سے یعنی مدینہ کے بجائے شام کی جانب سے داخل ہو سکیں۔ تاکہ اس حکمت عملی کے ذریعے ایک طرف تو یہود کے شام بھاگنے کا راستہ بند کر دیں۔ اور دوسری طرف بنو غطفان اور یہود کے درمیان حائل ہو کر ان کی طرف سے کسی مدد کی رسائی کے امکانات ختم کر دیں۔
ایک راہنما نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو ایسے راستے سے لے چلوں گا۔ چنانچہ وہ آگے آگے چلا۔ ایک مقام پر پہنچ کر جہاں متعدد راستے پھوٹتے تھے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان سب راستوں سے آپ منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہر ایک کا نام بتائے۔ اس نے بتایا کہ ایک کام حَزن (سخت اور کھردرا) ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر چلنا منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا: دوسرے کانام شاش (تفرق و اضطراب والا) ہے۔ آپ نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا: تیسرے کا نام حاطب (لکڑ ہارا) ہے آپ نے اس پر بھی چلنے سے انکار کر دیا۔ حُسَیْل نے کہا: اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس کا نام کیا ہے؟ حُسیل نے کہا: مرحب۔ نبی ﷺ نے اسی پر چلنا پسند فرمایا۔
راستے کے بعض واقعات :
حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے۔ رات میں سفر طے ہو رہا تھا۔ ایک آدمی نے عامر سے کہا: اے عامر! کیوں نہ ہمیں اپنے کچھ نوادرات سناؤ -عامر شاعر تھے - سواری سے اترے اور قوم کی حدی خوانی کرنے لگے۔ اشعار یہ تھے:
اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینـا
فـاغفر فداء لک ما اتقینا وثبت الأقدام إن لاقینا
وألقیــن سکینــۃ علینــا إنــا إذا صیح بنـا أبینـا
وبالصیـاح عولـوا علینـــا
''اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے۔ ہم تجھ پر قربان! تو ہمیں بخش دے۔ جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں۔ اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑ جاتے ہیں، اور للکار میں ہم پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے۔''
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے؟ لوگوں نے کہا: عامر بن اکوع۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا: اب تو (ان کی شہادت) واجب ہو گئی۔ آپ نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ور کیوں نہ فرمایا۔(صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵)
صحابہ کرام کو معلوم تھا کہ (جنگ کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تو وہ شہید ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم ۲/۱۱۵) اور یہی واقعہ جنگِ خیبر میں (حضرت عامر کے ساتھ) پیش آیا۔ (اسی لیے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
انہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازی عمر کی دعا کی گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے)
خیبر کے بالکل قریب وادی صہباء میں آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لایا گیا۔ آپ ﷺ کے حکم سے سانا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ مغرب کے لیے اُٹھے تو صرف کلی کی۔ صحابہ نے بھی کلی کی۔ پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔ (ایضا، صحیح بخاری ۲/۶۰۳ (پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا) پھر آپ ﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی۔ (مغازی الواقدی غزوہ خیبر ص ۱۱۲)
نیز جب آپ ﷺ خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی پڑنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ لشکر ٹھہر گیا۔ اور آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی:
اللہم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضین السبع وما أقللن، ورب الشیاطین وما أضللن فإنا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر أہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شر ہذہ القریۃ وشر أہلہا وشر ما فیہا
''اے اللہ! ساتوں آسمان ، اور جن پر وہ سایہ فگن ہیں، ان کے پروردگار! اور ساتوں زمین، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے پروردگار! اور شیاطین، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا، ان کے پروردگار! ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی، اس کے باشندوں کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس بستی کے شر سے، اس کے باشندوں کے شر سے، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔'' (ابن ہشام ۲/۳۲۹)
اسلامی لشکر خیبر کے دامن میں:
مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گزاری لیکن یہودیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ نبی ﷺ کا دستور تھا کہ جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے۔ چنانچہ اس رات جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے غلس (اندھیرے) میں فجر کی نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد مسلمان سوار ہو کر خیبر کی طرف بڑھے۔ ادھر اہل خیبر بے خبری میں اپنے پھاوڑے اور کھانچی وغیرہ لے کر اپنی کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو اچانک لشکر دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم! محمد لشکر سمیت آ گئے ہیں۔
نبی ﷺ نے (یہ منظر دیکھ کر) فرمایا: اللہ اکبر! خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر! خیبر تباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بُری ہو جاتی ہے۔ (صحیح بخاری: باب غزوہ خیبر ۲/۶۰۳، ۶۰۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
خیبر کے قلعے :
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے:
حصن ناعم
حصن صعب بن معاذ
حصن قلعہ زبیر
حصن ابی
حصن نزار
ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا۔ اور بقیہ دوقلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کَتیبَہ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے :
حصن قموص (یہ قبیلہ بنو نضیر کے خاندان ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ )
حصن وطیح
حصن سلالم
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں، مگر وہ چھوٹی تھیں اور قوت وحفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی۔ دوسرے منطقے کے تینوں قلعے لڑنیوالوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔
لشکر کا پڑاؤ :
نبیﷺ نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ اس پر حباب بن منذرؓ نے آکر عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بتلایئے کہ اس مقام پر اللہ نے آپ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا ہے یایہ محض آپ کی جنگی تدبیر اور رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں یہ محض ایک رائے اور تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ مقام قلعہ ٔنطاۃ سے بہت ہی قریب ہے اور خیبر کے سارے جنگ جو افراد اسی قلعے میں ہیں۔ انہیں ہمارے حالات کا پورا پورا علم رہے گا اور ہمیں ان کے حالات کی خبر نہ ہوگی۔ ان کے تیر ہم تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہمارے تیر ان تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ہم ان کے شبخون سے بھی محفوظ نہ رہیں گے۔ پھر یہ مقام کھجوروں کے درمیا ن ہے۔ پستی میں واقع ہے۔ اور یہاں کی زمین بھی وبائی ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمائیں جو ان مفاسد سے خالی ہو۔ اور ہم اسی جگہ منتقل ہوکر پڑاؤ ڈالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے جورائے دی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد آپ دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
جنگ کی تیاری اور فتح کی بشارت:
جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہ ﷺ داخل ہوئے فرمایا: میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! ان کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے۔ (اسی بیماری کی وجہ سے پہلے پہل آپ پیچھے رہ گئے تھے، پھر لشکر سے جا ملے) فرمایا: انہیں بلا لاؤ۔ وہ لائے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ شفایاب ہو گئے، گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا: اطمینان سے جاؤ یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے ہیں ان سے آگاہ کرو۔ واللہ تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۵ ، ۶۰۶ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے ایک قلعے کی فتح میں متعدد کوششوں کی ناکامی کے بعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا لیکن محققین کے نزدیک راجح وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔)
معرکے کا آغاز اور قلعہ ناعم کی فتح :
بہرحال یہود نے جب لشکر دیکھا تو سیدھے شہر میں بھاگے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہو گئے۔ اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ جنگ گے لیے تیارہو جائیں مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ کیونکہ یہ قلعہ اپنے محلِ وقوع کی نزاکت اور اسٹراٹیجی کے لحاظ سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور یہی قلعہ مَرْحب نامی اس شہ زور اور جانباز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کے برابر مانا جاتا تھا۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ مسلمانوں کی فوج لے کر اس قلعے کے سامنے پہنچے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ تو انہوں نے یہ دعوت مسترد کر دی۔ اور اپنے بادشاہ مرحب کی کمان میں مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اتر کر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی جس کی کیفیت سلمہ بن اکوعؓ نے یوں بیان کی ہے کہ جب ہم لوگ خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لے کر ناز و تکبر کے ساتھ اَٹْھلاتا اور یہ کہتا ہو نمودار ہوا:
قد علمت خیبر أنی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
إذا الحروب أقبلت تلہب
خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار! جب جنگ و پیکار شعلہ زن ہو۔
اس کے مقابل میرے چچا عامر نمودار ہوئے اور فرمایا:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
قد علمت خیبر أنی عامر
شاکی السلاح بطل مغامر
''خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو۔''
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کے ڈھال میں جا چبھی۔ اور عامر نے اسے نیچے سے مارنا چاہا۔ لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی۔ انہوں نے یہودی کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آ لگا۔ اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ نبی ﷺ نے اپنی دو انگلیاں اکٹھا کر کے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے۔ کم ہی ان جیسا کوئی عرب رُوئے زمین پر چلا ہو گا۔ (صحیح مسلم، باب غزوۂ خیبر ۲/۱۲۲ باب غزوہ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵ صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳)
بہرحال حضرت عامر کے زخمی ہو جانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علیؓ تشریف لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ نے یہ اشعار کہے:
أنا الذي سمتني أمي حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ
أوفیہم بالصاع کیل السندرہ
''میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔''
اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ پھر حضرت علیؓ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ (مرحب کے قاتل کے بارے میں مآخذ کے اندر بڑا اختلاف ہے۔ اور اس میں بھی سخت اختلاف ہے کس دن وہ مارا گیا اور کس دن یہ قلعہ فتح ہوا۔ صحیحین کی روایت کے سیاق میں بھی کسی قدر اس اختلاف کی علامت موجود ہے۔ ہم نے اوپر جو ترتیب ذکر کی ہے وہ صحیح بخاری کی روایت کے سیاق کو ترجیح دیتے ہوئے قائم کی گئی ہے)
جنگ کے دوران حضرت علیؓ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو ایک یہودی نے قلعہ کی چوٹی سے جھانک کر کہا: تم کون ہو؟ حضرت علیؓ نے کہا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ یہودی نے کہا: اس کتاب کی قسم جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی! تم لوگ بلند ہوئے۔ اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیرؓ میدان اترے۔ اس پر ان کی ماں حضرت صفیہ ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا میرا بیٹا قتل کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے یاسر کو قتل کر دیا۔
 
Top