• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم صلح حدیبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی، جس میں کئی سربرآوردہ یہودی مارے گئے۔ اور بقیہ یہود میں تابِ مقاومت نہ رہی۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا حملہ نہ روک سکے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی دن جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کو شدید مقاومت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہود، مسلمانوں کو زیر کرنے سے مایوس ہو چکے تھے۔ اس لیے چپکے چپکے اس قلعے سے منتقل ہو کر قلعہ صعب میں چلے گئے اور مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کر لیا۔
قلعہ صعب بن معاذ کی فتح:
قلعہ ناعم کے بعد، قلعہ صعب قوت و حفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاریؓ کی کمان میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا۔ تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اسلم کی شاخ بنو سہم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم لوگ چور ہو چکے ہیں ... اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: یا اللہ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفروز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو۔ اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔ اس کے بعد لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب بن معاذ کی فتح عطا فرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہو۔ (ابن ہشام ۲/۳۳۲)
اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنو اسلم ہی پیش پیش تھے۔ یہاں بھی قلعے کے سامنے مبارزت اور مار کاٹ ہوئی۔ پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔ اور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبا بے (لکڑی کا ایک محفوظ اور بند گاڑی نما ڈبہ بنایا جاتا تھا جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعے کی فصیل کو جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زد سے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہی دبابہ کہلاتا تھا۔ اب ٹینک کو دبابہ کہا جاتا ہے) بھی پائے۔
ابن اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ لوگوں نے (فتح حاصل ہوتے ہی) گدھے ذبح کر دیے۔ اور چولہوں پر ہنڈیاں چڑھا دیں لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
قلعہ زبیر کی فتح:
قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود، نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر قلعہ زبیر میں جمع ہو گئے۔ یہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
ایک محفوظ قلعہ تھا، اور پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا۔ راستہ اتنا پر پیچ اور مشکل تھا کہ یہاں نہ سواروں کی رسائی ہو سکتی تھی نہ پیادوں کی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کے گرد محاصرہ قائم کیا۔ اور تین روز تک محاصرہ کیے پڑے رہے۔ اس کے بعد ایک یہودی نے آ کر کہا: اے ابو القاسم! اگر آپ ﷺ ایک مہینہ تک محاصرہ جاری رکھیں تو بھی انہیں کوئی پروا نہ ہو گی۔ البتہ ان کے پینے کا پانی اور چشمے زمین کے نیچے ہیں۔ یہ رات میں نکلتے ہیں پانی پی لیتے ہیں اور لے لیتے ہیں۔ پھر قلعہ میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اور آپ ﷺ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کا پانی بند کر دیں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ اس اطلاع پر آپ نے ان کا پانی بند کر دیا۔ اس کے بعد یہود نے باہر آ کر زبردست جنگ کی جس میں کئی مسلمان مارے گئے اور تقریباً دس یہودی بھی کام آئے لیکن قلعہ فتح ہو گیا۔
قلعہ ابی کی فتح:
قلعہ زبیر سے شکست کھانے کے بعد یہود، حصنِ ابی میں قلعہ بند ہو گئے۔ مسلمانوں نے اس کا بھی محاصرہ کر لیا۔ اب کی بار دوشہ زور اور جانباز یہودی یکے بعد دیگرے دعوت مبارزت دیتے ہوئے میدان میں اترے۔ اور دونوں ہی مسلمان جانبازوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ دوسرے یہودی کے قاتل سُرخ پٹی والے مشہور جانفروش حضرت ابو دجانہ سماک بن خرشہ انصاریؓ تھے۔ وہ دوسرے یہودی کو قتل کر کے نہایت تیزی سے قلعے میں جا گھسے۔ اور ان کے ساتھ ہی اسلامی لشکر بھی قلعے میں جا گھسا۔ قلعے کے اندر کچھ دیر تک تو زوردار جنگ ہوئی لیکن اس کے بعد یہودیوں نے قلعے سے کھسکنا شروع کر دیا۔ اور بالآخر سب کے سب بھاگ کر قلعہ نزار میں پہنچ گئے، جو خیبر کے نصف اوّل (یعنی پہلے منطقے) کا آخری قلعہ تھا۔
قلعہ نزار کی فتح:
یہ قلعہ علاقے کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور یہود کو تقریباً یقین تھا کہ مسلمان اپنی انتہائی کوشش صرف کر دینے کے باوجود اس قلعہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اس قلعے میں انہوں نے عورتوں اور بچوں سمیت قیام کیا جبکہ سابقہ چار قلعوں میں عورتوں اور بچوں کو نہیں رکھا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس قلعے کا سختی سے محاصرہ کیا۔ اور یہود پر سخت دباؤ ڈالا لیکن قلعہ چونکہ ایک بلند اور محفوظ پہاڑی پر واقع تھا اس لیے اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت بن نہیں پڑ رہی تھی۔ ادھر یہود قلعے سے باہر نکل کر مسلمانوں سے ٹکرانے کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ البتہ تیر برسا برسا کر اور پتھر پھینک پھینک کر سخت مقابلہ کر رہے تھے۔
جب اس قلعہ (نزار) کی فتح مسلمانوں کے لیے زیادہ دشوار محسوس ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے منجنیق کے آلات نصب کرنے کا حکم فرمایا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چند گولے پھینکے بھی جس سے قلعہ کی دیواروں میں شگاف پڑ گیا۔ اور مسلمان اندر گھس گئے۔ اس کے بعد قلعے کے اندر سخت جنگ ہوئی۔ اور یہود نے فاش اور بد ترین شکست کھائی۔ کیونکہ وہ بقیہ قلعوں کی طرح اس قلعے سے چپکے چپکے کھسک کر نہ نکل سکے بلکہ اس طرح بے محابا بھاگے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جا سکے اور انہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
اس مضبوط قلعے کی فتح کے بعد خیبر کا نصف اول یعنی نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہو گیا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے کچھ مزید قلعے بھی تھے۔ لیکن اس قلعے کے فتح ہوتے ہی یہودیوں نے ان باقی ماندہ قلعوں کو بھی خالی کر دیا۔ اور شہر خیبر کے دوسرے منطقے یعنی کتیبہ کی طرف بھاگ گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
خیبر کے نصف ثانی کی فتح:
نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہو چکا تو رسول اللہﷺ نے کتیبہ، وطیح اور سلالم کے علاقے کا رُخ کیا۔ سلالم بنو نضیر کے ایک مشہور یہودی ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ ادھر نطاۃ اور شق کے علاقے سے شکست کھا کر بھاگنے والے سارے یہودی بھی یہیں پہنچے تھے۔ اور نہایت ٹھوس قلعہ بندی کر لی تھی۔
اہل مغازی کے درمیان اختلاف ہے کہ یہاں کے تینوں قلعوں میں سے کسی قلعے پر جنگ ہوئی یا نہیں؟ ابن اسحاق کے بیان میں یہ صراحت ہے کہ قلعہ قموص کو فتح کرنے کے لیے جنگ لڑی گئی۔ بلکہ اس کے سیاق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ محض جنگ کے ذریعے فتح کیا گیا اور یہودیوں کی طرف سے خودسپردگی کے لیے یہاں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ (دیکھئے: ابن ہشام ۲/۳۳۱، ۳۳۶ ،۳۳۷)
لیکن واقدی نے دوٹوک لفظوں میں صراحت کی ہے کہ اس علاقے کے تینوں قلعے بات چیت کے ذریعے مسلمانوں کے حوالے کیے گئے۔ ممکن ہے قلعہ قموص کی حوالگی کے لیے کسی قدر جنگ کے بعد گفت و شنید ہوئی ہو۔ البتہ باقی دونوں قلعے کسی جنگ کے بغیر مسلمانوں کے حوالے کیے گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ اس علاقے - کتیبہ - میں تشریف لائے تو وہاں کے باشندوں کا سختی سے محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ چودہ روز جاری رہا۔ یہود اپنے قلعوں سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے قصد فرمایا کہ منجنیق نصب فرمائیں۔ جب یہود کو تباہی کا یقین ہو گیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے صلح کے لیے سلسلہ جنبانی کی۔
صلح کی بات چیت :
پہلے ابن ابی الحقیق نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ کیا میں آپ ﷺ کے پاس آ کر بات چیت کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور جب یہ جواب ملا تو اس نے آپ ﷺ کے پاس حاضر ہو کر اس شرط پر صلح کر لی کہ قلعے میں جو فوج ہے اس کی جان بخشی کر دی جائے گی۔ اور ان کے بال بچے انہیں کے پاس رہیں گے۔ (یعنی انہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
لونڈی اور غلام نہیں بنایا جائے گا) بلکہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر خیبر کی سر زمین سے نکل جائیں گے۔ اور اپنے اموال، باغات، زمینیں، سونے، چاندی، گھوڑے، زرہیں، رسول اللہ ﷺ کے حوالے کر دیں گے۔ صرف وہ کپڑا لے جائیں گے جو انسان کی پشت پر ہو گا۔ (لیکن سنن ابو داؤد میں یہ صراحت ہے کہ آپ نے اس شرط پر معاہدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے یہود کو اجازت ہو گی کہ خیبر سے جلا وطن ہوتے ہوئے اپنی سواریوں پر جتنا مال لاد سکیں لے جائیں۔ (دیکھئے: ابو داؤد باب ما جاء فی حکم ارض خیبر ۲/۷۶) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور اگر تم لوگوں نے مجھ سے کچھ چھپایا تو پھر اللہ اور اس کے رسول برئ الذمہ ہوں گے۔ یہود نے یہ شرط منظور کر لی اور مصالحت ہو گئی۔ (زاد المعاد ۲/۱۳۶) اس مصالحت کے بعد تینوں قلعے مسلمانوں کے حوالے کر دیے گئے۔ اور اس طرح خیبر کی فتح مکمل ہو گئی۔
ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں کی بد عہدی اور ان کا قتل:
اس معاہدے کے علی الرغم ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں نے بہت سا مال غائب کر دیا۔ ایک کھال غائب کر دی جس میں مال اور حیی بن اخطب کے زیورات تھے۔ اسے حیی بن اخطب مدینہ سے بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت اپنے ہمراہ لایا تھا۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کنانہ بن ابی الحقیق لایا گیا۔ اس کے پاس بنو نضیر کا خزانہ تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے دریافت کیا تو اس نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اسے خزانے کی جگہ کے بارے میں کوئی علم ہے۔ اس کے بعد ایک یہودی نے آ کر بتایا کہ میں کنانہ کو روزانہ اس ویرانے کا چکر لگاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کنانہ سے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر یہ خزانہ ہم نے تمہارے پاس سے برآمد کر لیا تو پھر تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے نا؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپ ﷺ نے ویرانہ کھودنے کا حکم دیا۔ اور اس سے کچھ خزانہ برآمد ہوا۔ پھر باقی ماندہ خزانہ کے متعلق آپ ﷺ نے دریافت کیا تو اس نے پھر ادائیگی سے انکار کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے اسے حضرت زبیرؓ کے حوالے کر دیا اور فرمایا: اسے سزا دو، یہاں تک کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب کا سب ہمیں حاصل ہو جائے۔ حضرت زبیرؓ نے اس کے سینے پر چقماق کی ٹھوکریں ماریں یہاں تک کہ اس کی جان پر بن آئی۔ پھر اسے رسول اللہ ﷺ نے محمد بن مسلمہؓ کے حوالے کر دیا۔ اور انہوں نے محمود بن مسلمہ کے بدلے اس کی گردن مار دی (محمود سایہ حاصل کر نے کے لیے قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے بیٹھے تھے کہ اس شخص نے ان پر چکی کا پاٹ گرا کر انہیں قتل کر دیا تھا)
ابن قیم کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو الحقیق کے دونوں بیٹوں کو قتل کرا دیا تھا۔ اور ان دونوں کے خلاف مال چھپانے کی گواہی کنانہ کے چچیرے بھائی نے دی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حیی بن اخطب کی صاحبزادی صفیہ کو قیدی بنا لیا۔ وہ کنانہ بن ابی الحقیق کے تحت تھیں۔ اور ابھی دلہن تھیں، انہیں حال ہی میں رخصت کیا گیا تھا۔
اموال غنیمت کی تقسیم:
رسول اللہ ﷺ نے یہود کو خیبر سے جلا وطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا۔ مگر یہود نے کہا: اے محمد! ہمیں اسی سرزمین میں رہنے دیجیے۔ ہم اس کی دیکھ ریکھ کریں گے۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں۔ ادھر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس اتنے غلام نہ تھے جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کا کام کر سکتے اور نہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے۔ اس لیے آپ نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کر دی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا۔ اور جب تک رسول اللہ ﷺ کی مرضی ہو گی اس پر برقرار رکھیں گے (اور جب چاہیں گے جلا وطن کر دیں گے) اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے۔
خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے ۳۶ حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہر حصہ ایک سو حصوں کا جامع تھا۔ اس طرح کل تین ہزار چھ سو (۳۶۰۰) حصے ہوئے۔ اس میں سے نصف، یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے تھے۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہ ﷺ کا بھی صرف ایک ہی حصہ تھا۔ باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیے الگ کر لیا تھا۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے ایک عطیہ تھا۔ جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی۔ اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ جو خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے۔ چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے۔ اور گھوڑے کا حصہ ڈبل، یعنی دو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دو سو شہ سواروں کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے۔ اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک حصے کے حساب سے بارہ سو حصے ملے۔ (زاد المعاد ۲/۱۳۷، ۱۳۸، مع توضیح)
خیبر کے اموال غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابن عمرؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ''ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔'' اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا: اب ہمیں پیٹ بھر کر کھجور ملے گی (صحیح بخاری ۳/۶۰۹) نیز جب رسول اللہ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کر دیے جو انصار
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نے امداد کے طور پر انہیں دے رکھے تھے۔ کیونکہ اب ان کے لیے خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہو چکے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۱۴۸ صحیح مسلم ۲/۹۶)
حضرت جعفر بن ابی طالب اور اشعری صحابہ کی آمد:
اسی غزوے میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ اشعری مسلمان یعنی حضرت ابو موسیٰ اور ان کے رفقاء بھی تھے۔ رضی اللہ عنہم ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا بیان ہے کہ یمن میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ظہور کا علم ہوا تو ہم لوگ یعنی میں اور میرے دو بھائی اپنی قوم کے پچاس آدمیوں سمیت اپنے وطن سے ہجرت کرنے کے لیے ایک کشتی پر سوار آپ ﷺ کی خدمت میں روانہ ہوئے۔ لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں پھینک دیا۔ وہاں حضرت جعفر اور ان کے رفقاء سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجا ہے۔ اور یہیں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا ہے اور آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ ٹھہر جایئے۔ چنانچہ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ ٹھہر گئے۔ اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وقت پہنچ سکے جب آپ ﷺ خیبر فتح کر چکے تھے۔ آپ ﷺ نے ہمارا بھی حصہ لگایا لیکن ہمارے علاوہ کسی بھی شخص کا جو فتح خیبر میں موجود نہ تھا، کوئی حصہ نہیں لگایا۔ صرف شرکاءِ جنگ ہی کا حصہ لگایا۔ البتہ حضرت جعفرؓ اور ان کے رفقاء کے ساتھ ہماری کشتی والوں کا بھی حصہ لگایا۔ اور ان کے لیے بھی مال غنیمت تقسیم کیا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۴۳ دیکھئے فتح الباری ۷/۴۸۴ تا ۴۸۷)
اور جب حضرت جعفرؓ نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے ان کا استقبال کیا۔ اور انھیں چوم کر فرمایا: واللہ! میں نہیں جانتا کہ مجھے کس بات کی خوشی زیادہ ہے۔ خیبر کے فتح کی یا جعفر کی آمد کی۔ (زاد المعاد ۲/۱۳۹، المعجم الصغیر للطبرانی ۱/۱۹)
یاد رہے کہ ان لوگوں کو بلانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عَمرو بن اُمیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تھا اور اس سے کہلوایا تھا کہ وہ ان لوگوں کو آپ کے پاس روانہ کرے۔ چنانچہ نجاشی نے دو کشتیوں پر سوار کر کے انہیں روانہ کر دیا۔ یہ کل سولہ آدمی تھے اور ان کے ساتھ ان کے باقی ماندہ بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ بقیہ لوگ اس سے پہلے مدینہ آ چکے تھے۔ (تاریخ خضری ۱/۱۲۸)
حضرت صفیہؓ سے شادی:
ہم بتا چکے ہیں کہ جب حضرت صفیہؓ کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق اپنی بد عہدی کے سبب قتل کر دیا گیا تو حضرت صفیہؓ قیدی عورتوں میں شامل کر لی گئیں۔ اس کے بعد جب یہ قیدی عورتیں جمع کی گئیں تو حضرت دِحیہ بن خلیفہ کلبیؓ نے نبی ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
دے دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے جا کر حضرت صفیہ بنت حییؓ کو منتخب کر لیا۔ اس پر ایک آدمی نے آپ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! آپ ﷺ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیّدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کر دیا حالانکہ وہ صرف آپ ﷺ کے شایانِ شان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دِحیہ کو صفیہ سمیت بلاؤ۔ حضرت دِحیہ ان کو ساتھ لیے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے انہیں دیکھ کر حضرت دِحیہ سے فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لے لو۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت صفیہ پر اسلام پیش کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے انھیں آزاد کر کے ان سے شادی کر لی۔ اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ مدینہ واپسی میں سدِّ صہباء پہنچ کر وہ حلال ہو گئیں۔ اس کے بعد ام سُلیم ؓ نے انھیں آپ ﷺ کے لیے آراستہ کیا۔ اور رات میں آپ ﷺ کے پاس رخصت کر دیا۔ آپ نے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صبح کی۔ اور کھجور، گھی اور ستو سان کر ولیمہ کھلایا۔ اور راستہ میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔ (صحیح بخاری ۱/۵۴، ۲/۶۰۴، ۶۰۶ زادا لمعاد ۲/۱۳۷) اس موقع پر آپ ﷺ نے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا۔ دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ کہنے لگیں: یا رسول اللہ! آپ ﷺ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آگرا ہے۔ واللہ! مجھے آپ ﷺ کے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا: یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کر رہی ہو۔ (ایضاً زاد المعاد ۲/۱۳۷۔ ابن ہشام ۲/۳۳۶)
زہر آلود بکری کا واقعہ:
خیبر کی فتح کے بعد جب رسول اللہ ﷺ مطمئن اور یکسو ہو چکے تو سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ کے پاس بھُنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا۔ اس نے پوچھ رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کون سا عضو زیادہ پسند کرتے ہیں؟ اور اسے بتایا گیا تھا کہ دستہ، اس لیے اس نے دستے میں خوب زہر ملا دیا تھا۔ اور اس کے بعد بقیہ حصہ بھی زہر آلود کر دیا تھا۔ پھر اسے لے کر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی۔ اور آپ ﷺ کے سامنے رکھا تو آپ نے دستہ اُٹھا کر اس کا ایک ٹکڑا چبایا۔ لیکن نگلنے کے بجائے تھوک دیا۔ پھر فرمایا کہ یہ ہڈی مجھے بتلا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے زینب کو بلایا تو اس نے اقرار کر لیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا: میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اس سے راحت مل جائے گی۔ اور اگر نبی ہے تو اسے خبر دے دی جائے گی۔ اس پر آپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔
اس موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرورؓ بھی تھے، انہوں نے ایک لقمہ نگل لیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
روایات میں اختلاف ہے کہ آپ نے اس عورت کو معاف کر دیا تھایا قتل کر دیا تھا۔ تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ پہلے تو آپ نے معاف کر دیا لیکن جب حضرت بشرؓ کی موت واقع ہو گئی تو پھر قصاص کے طور پر قتل کر دیا۔ (دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۳۹، ۱۴۰ فتح الباری ۷/۴۹۷ اصل واقعہ صحیح البخاری میں مطولاً اور مختصراً دونوں طرح مروی ہے۔ دیکھئے: ۱/۴۴۹، ۲/۶۱۰، ۸۶۰ نیز ابن ہشام ۲/۳۳۷،۳۳۸)
جنگ خیبر میں فریقین کے مقتولین:
خیبر کے مختلف معرکوں میں کل مسلمان جو شہید ہوئے ان کی تعداد سولہ ہے۔ چار قریش سے، ایک قبیلہ اشجع سے، ایک قبیلہ اسلم سے، ایک اہل خیبر سے، اور بقیہ انصار سے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ ان معرکوں میں کل ۱۸ مسلمان شہید ہوئے۔ علامہ منصور پوری نے ۱۹ لکھا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں: ''اہل سیر نے شہدائے خیبر کی تعداد پندرہ لکھی ہے۔ مجھے تلاش کرتے ہوئے ۲۳ نام ملے ... زنیف بن وائلہ کا نام صرف واقدی نے اور زنیف بن حبیب کا نام صرف طبری نے لیا ہے۔ بشر بن براء بن معرور کا انتقال خاتمہ جنگ کے بعد زہر آلود گوشت کھانے سے ہوا جو نبی ﷺ کے لیے زینب یہودیہ نے بھیجا تھا۔ بشر بن عبد المنذر کے بارے میں دو روایا ت ہیں۔ [۱] بدر میں شہید ہوئے۔ [۲] جنگ خیبر میں شہید ہوئے۔ میرے نزدیک روایتِ اوّل قوی ہے۔ (رحمۃ للعالمین ۲/۲۶۸، ۲۶۹، ۲۷۰)
دوسرے فریق، یعنی یہود کے مقتولین کی تعداد ۹۳ ہے۔
فدک:
رسول اللہﷺ نے خیبر پہنچ کر مُحیّصَہ بن مسعودؓ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے فدک کے یہود کے پاس بھیج دیا تھا۔ لیکن اہل فدک نے اسلام قبول کرنے میں دیر کی۔ مگر جب اللہ نے خیبر فتح فرما دیا تو ان کے دلوں میں رعب پڑ گیا۔ اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آدمی بھیج کر اہل خیبر کے معاملہ کے مطابق فدک کی نصف پیداوار دینے کے شرائط پر مصالحت کی پیشکش کی۔ آپ نے پیشکش قبول کر لی اور اس طرح فدک کی سرزمین خالص رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوئی کیونکہ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ (ابن ہشام ۲/۳۳۷، ۳۵۳) (یعنی اسے بزور شمشیر فتح نہیں کیا تھا) فدک کا موجودہ نام حائط ہے جو حائل کے منطقہ میں واقع ہے۔ اور مدینہ سے کم و بیش، ڈھائی سو کلومیٹر دور ہے۔
وادیٔ القریٰ:
رسول اللہ ﷺ خیبر سے فارغ ہوئے تو وادی القریٰ تشریف لے گئے۔ وہاں بھی یہود کی ایک جماعت
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
تھی۔ اور ان کے ساتھ عرب کی ایک جماعت بھی شامل ہو گئی تھی۔
جب مسلمان وہاں اترے تو یہود نے تیروں سے استقبال کیا۔ وہ پہلے سے صف بندی کیے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک غلام مارا گیا۔ لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت مبارک ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے جنگ خیبر میں مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے جو چادر چرائی تھی وہ آگ بن کر اس پر بھڑک رہی ہے۔ لوگوں نے نبی ﷺ کا یہ ارشاد سنا تو ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی ﷺ نے فرمایا : یہ ایک تسمہ یا دو تسمہ آگ کا ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۶۰۸)
اس کے بعد نبی ﷺ نے جنگ کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ترتیب اور صف بندی کی۔ پورے لشکر کا عَلَم حضرت سعد بن عُبادہؓ کے حوالے کیا۔ ایک پرچم حُبابؓ بن مُنذر کو دیا اور تیسرا پر چم عُبادہ بن بشر کو دیا اس کے بعد آپ ﷺ نے یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور ان کا ایک آدمی میدانِ جنگ میں اترا۔ ادھر سے حضرت زبیر بن عوامؓ نمودار ہوئے۔ اور اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر دوسرا آدمی نکلا۔ حضرت زبیرؓ نے اسے بھی قتل کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور آدمی میدان میں آیا۔ اس کے مقابلے کے لیے حضرت علی ؓ نکلے اور اسے قتل کر دیا۔ اس طرح رفتہ رفتہ ان کے گیارہ آدمی مارے گئے، جب ایک آدمی مارا جاتا تو نبی ﷺ باقی یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔
اس دن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھاتے اور پھر پلٹ کر یہود کے بالمقابل چلے جاتے اور انہیں اسلام، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے۔ اس طرح لڑتے لڑتے شام ہو گئی۔ دوسرے دن صبح آپ ﷺ پھر تشریف لے گئے۔ لیکن ابھی سورج نیزہ برابر بھی بلند نہ ہوا ہو گا کہ ان کے ہاتھ میں جو کچھ تھا اسے آپ ﷺ کے حوالے کر دیا۔ یعنی آپ نے بزورِ قوت فتح حاصل کی اور اللہ نے ان کے اموال آپ ﷺ کو غنیمت میں دیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت سارا ساز و سامان ہاتھ آیا۔
رسول اللہ ﷺ نے وادیٔ القریٰ میں چار روز قیام فرمایا۔ اور جو مال غنیمت ہاتھ آیا اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تقسیم فرما دیا۔ البتہ زمین اور کھجور کے باغات کو یہود کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ اوراس کے متعلق ان سے بھی (اہل خیبر جیسا) معاملہ طے کر لیا۔ (زاد المعاد ۲/۱۴۶، ۱۴۷)
تَیْمَاء:
تیماء کے یہودیوں کو جب خیبر، فدک اور وادی القری کے باشندوں کے سپر انداز ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی محاذ آرائی کا مظاہر کرنے کے بجائے از خود آدمی بھیج کر صلح کی پیش کش
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
کی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی پیشکش قبول فرما لی۔ اور یہ یہود اپنے اموال کے اندر مقیم رہے۔ (زاد المعاد ۲/۱۴۷) اس کے متعلق آپ نے ایک نوشتہ بھی تحریر فرما دیا جو یہ تھا:
''یہ تحریر ہے محمد رسول اللہ کی طرف سے بنو عادیا کے لیے۔ ان کے لیے ذمہ ہے۔ اور ان پر جزیہ ہے ان پر نہ زیادتی ہو گی نہ انہیں جلا وطن کیا جائے گا۔ رات معاون ہو گی اور دن پختگی بخش (یعنی یہ معاہدہ دائمی ہو گا) اور یہ تحریر خالد بن سعید نے لکھی۔'' (ابن سعد ۲/۲۷۹)
مدینہ کو واپسی:
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ واپسی کی راہ لی۔ واپسی کے دوران لوگ ایک وادی کے قریب پہنچے تو بلند آواز سے اللّٰہ اکبر اللّٰہ أکبر لا إلٰہ إلا اللّٰہ کہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے نفسوں کے ساتھ سہولت برتو تم لوگ کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو، بلکہ اس ہستی کو پکار رہے ہو جو سننے والی اور قریب ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۶۰۵)
نیز اثنائے راہ میں ایک بار رات بھر سفر جاری رکھنے کے بعد آپ نے اخیر رات میں راستے میں کسی جگہ پڑاؤ ڈالا اور حضرت بلال کو یہ تاکید کر کے سو رہے کہ ہمار ے لیے رات پر نظر رکھنا (یعنی صبح ہوتے ہی نماز کے لیے بیدار کر دینا) لیکن حضرت بلالؓ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ وہ (پورب کی طرف منہ کر کے) اپنی سواری پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ سو گئے پھر کوئی بھی بیدار نہ ہوا۔ یہاں تک کہ لوگوں پر دھوپ آ گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ؑ بیدار ہوئے۔ پھر (لوگوں کو بیدار کیا گیا) اور آپ اس وادی سے نکل کر کچھ آگے تشریف لے گئے۔ پھر لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ کسی دوسرے سفر میں پیش آیا تھا۔ (ابن ہشام ۲/۳۴۰ یہ واقعہ خاصا مشہور اور عام کتب حدیث میں مروی ہے۔ نیز دیکھئے: زادا لمعاد ۲/۱۴۷)
خیبر کے معرکوں کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی واپسی یا تو (۷ھ کے) صفر کے اخیر میں ہوئی تھی یا پھر ربیع الاول کے مہینے میں۔
سریہ ابان بن سعید:
نبی ﷺ سارے سپہ سالاروں سے زیادہ اچھی طرح یہ بات جانتے تھے کہ حرام مہینوں کے خاتمے کے بعد مدینہ کو مکمل طور پر خالی چھوڑ دینا تدبر اور دُور اندیشی کے بالکل خلاف ہے۔ درآں حالیکہ مدینہ کے گرد و پیش ایسے
 
Top