- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی، جس میں کئی سربرآوردہ یہودی مارے گئے۔ اور بقیہ یہود میں تابِ مقاومت نہ رہی۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا حملہ نہ روک سکے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی دن جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کو شدید مقاومت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہود، مسلمانوں کو زیر کرنے سے مایوس ہو چکے تھے۔ اس لیے چپکے چپکے اس قلعے سے منتقل ہو کر قلعہ صعب میں چلے گئے اور مسلمانوں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کر لیا۔
قلعہ صعب بن معاذ کی فتح:
قلعہ ناعم کے بعد، قلعہ صعب قوت و حفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاریؓ کی کمان میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا۔ تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اسلم کی شاخ بنو سہم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم لوگ چور ہو چکے ہیں ... اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: یا اللہ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفروز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو۔ اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔ اس کے بعد لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب بن معاذ کی فتح عطا فرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہو۔ (ابن ہشام ۲/۳۳۲)
اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنو اسلم ہی پیش پیش تھے۔ یہاں بھی قلعے کے سامنے مبارزت اور مار کاٹ ہوئی۔ پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔ اور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبا بے (لکڑی کا ایک محفوظ اور بند گاڑی نما ڈبہ بنایا جاتا تھا جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعے کی فصیل کو جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زد سے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہی دبابہ کہلاتا تھا۔ اب ٹینک کو دبابہ کہا جاتا ہے) بھی پائے۔
ابن اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ لوگوں نے (فتح حاصل ہوتے ہی) گدھے ذبح کر دیے۔ اور چولہوں پر ہنڈیاں چڑھا دیں لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
قلعہ زبیر کی فتح:
قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود، نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر قلعہ زبیر میں جمع ہو گئے۔ یہ
قلعہ صعب بن معاذ کی فتح:
قلعہ ناعم کے بعد، قلعہ صعب قوت و حفاظت کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت حُباب بن منذر انصاریؓ کی کمان میں اس قلعہ پر حملہ کیا اور تین روز تک اسے گھیرے میں لیے رکھا۔ تیسرے دن رسول اللہ ﷺ نے اس قلعہ کی فتح کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اسلم کی شاخ بنو سہم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم لوگ چور ہو چکے ہیں ... اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: یا اللہ! تجھے ان کا حال معلوم ہے، تو جانتا ہے کہ ان کے اندر قوت نہیں اور میرے پاس بھی کچھ نہیں کہ میں انہیں دوں۔ لہٰذا انہیں یہود کے ایسے قلعے کی فتح سے سرفروز فرما جو سب سے زیادہ کار آمد ہو۔ اور جہاں سب سے زیادہ خوراک اور چربی دستیاب ہو۔ اس کے بعد لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اللہ عزوجل نے قلعہ صعب بن معاذ کی فتح عطا فرمائی۔ خیبر میں کوئی ایسا قلعہ نہ تھا جہاں اس قلعے سے زیادہ خوراک اور چربی رہی ہو۔ (ابن ہشام ۲/۳۳۲)
اور جب دعا فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اس قلعے پر حملے کی دعوت دی تو حملہ کرنے میں بنو اسلم ہی پیش پیش تھے۔ یہاں بھی قلعے کے سامنے مبارزت اور مار کاٹ ہوئی۔ پھر اسی روز سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۔ اور مسلمانوں نے اس میں بعض منجنیق اور دبا بے (لکڑی کا ایک محفوظ اور بند گاڑی نما ڈبہ بنایا جاتا تھا جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعے کی فصیل کو جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زد سے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہی دبابہ کہلاتا تھا۔ اب ٹینک کو دبابہ کہا جاتا ہے) بھی پائے۔
ابن اسحاق کی اس روایت میں جس شدید بھوک کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ لوگوں نے (فتح حاصل ہوتے ہی) گدھے ذبح کر دیے۔ اور چولہوں پر ہنڈیاں چڑھا دیں لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
قلعہ زبیر کی فتح:
قلعہ ناعم اور قلعہ صعب کی فتح کے بعد یہود، نطاۃ کے سارے قلعوں سے نکل کر قلعہ زبیر میں جمع ہو گئے۔ یہ