aqeel
مشہور رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 300
- ری ایکشن اسکور
- 315
- پوائنٹ
- 119
انتظامیہ سے برداشت نہیں ہورہا ہے یہاں ہی سے پڑھ لو
صوفیاء اہلحدیث رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا طریق السلوک
صوفیاء اہلحدیث رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا طریق السلوک
تو یہ تو اس گنہگار کی اپنی رائے ہوئی نا؟؟؟۔۔۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’ قول جمیل‘‘ میں لطائف وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی ہے،اسکے علاوہ اس موضوع پر آپکی ایک کتاب’’الطاف القدس‘‘ بھی ہےقول جمیل‘
مولانا ابراہیم میر سیا لکوٹی ؒ نے اپنی کتاب ’’سراجا منیرا‘‘میں ’’ ‘کو بارکت قول جمیل لکھا ہے۔اور حاشیہ میں فرماتے ہیں:۔سراجاًمنیراص ۱۸
’’اس عاجز نے اس کتاب کو با برکت اسلئے کہا ہے ، کہ مجھ گنہگار کو اس کتاب نے رنگ دیا ہے۔ورنہ میں گنہگار کہاں اور یہ فیض برکات کہاں۔()
مولانا میرؒ کے اس حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپکا طر یق السلوک بھی نقشبندیہ تھا
محترم مجھے آپ کی بات سے اختلاف نہیں،مجھے اختلاف ان بد بختوں،جہلا اور ضدی لوگوں سے ہے ،جو مطلق اسکے مخالف ہیں اور بغیر تمیز کیےتصوف اسلامی پر لعن کرتے ہیں ، دین اسلام قیامت تک سلامت رہئے گا۔اور تصوف جزو دین ہے ،اور یہ بھی قیامت تک اپنی اصل میں ملے گا ۔مگر اسکو جس کی طلب سچی اور کھری ہو گی۔تو یہ تو اس گنہگار کی اپنی رائے ہوئی نا؟؟؟۔۔۔
راہ تصوف کے سالک مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ خود فرماتے ہیں!
پہلے دور کو چھوڑ کر دوسرے اور تیسرے ادوار میں اہل سنت والجماعت کے نام پر باطل تصوف اور خانقاہی نظام کا رواج عام رہا اور ہے اور جسے حکومت وقت کی ہمیشہ سرپرستی حاصل رہی اور آج بھی ہے۔۔۔
وہ پیشہ ور اورجاہ طلب وحقیقت فروش اور الحاد شعار اور فاسد العقیدہ، نام نہاد صوفی ہیں جنہوں نے دین میں تحریف کرنے، مسلمانوں کو گمراہ کرنے، معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، آزادی وبےقیدی کی تبلیغ کرنے کے لئے تصوف کو آلہ کار بنایا اور اس کے محافظ وعلمبردار بن کر لوگوں کے سامنے آئے، نتیجہ یہ ہوا کے اہل غیرت واہل حمیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے بدظن ہوگئی، کچھ غیر محقق صوفی ایسے تھے جو اس شعبہ کی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا تھے وہ مقصد ووسیلہ میں تمیز نہ کرسکے بعض اوقات انہوں نے وسائل پر تو بہت اصرار کیا اور مقاصد کو نظر انداز کردیا، اور اس شعبہ یا اس فن میں ایسی چیزیں داخل کیں جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس کو فن کی روح اور اس کا کمال قرار دیا بلکہ مقصود ومطلبوب سمجھ بیٹھے ( تزکیہ واحسان صفحہ ١٥-١٦، بحوالہ تعمیر ملب، مفکر اسلام صفحہ نمبر ٢٨ مجریہ ١٠ جولائی تا ٢٥ اگست ٢٠٠٥)۔۔۔
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پچاری تمام
حقیقت خرافات میں کھوگئیوہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
یہ امت روایات میں کھوگئی
محبت میں یکتا، حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھوگیا۔
یہ سالک مقامات میں کھوگیا
۔ابن عربی جسے صوفیاء شیخ اکبر کا لقب دیتے ہیں۔۔۔اس کا عقیدہ تھا کہ خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے اللہ ہی خالق ہے اور مخلوق ہی اللہ ہے۔۔
الفاط کا انتخاب دیکھئے’’ رکھتا ہے‘‘جنید بغدادی نو آموز لوگوں کے لئے یہ شروط رکھتا ہے کہ وہ تین چیزوں میں اپنے آپ کو نہ مشغو رکھیں۔۔۔
طلب رزق، طلب حدیث اور شادی کیونکہ انسان جب ان چیزوں سے دور رہے گا تو اس کے پاس زیادہ دلجمعی اور سکون واطمینان ہوگا۔۔۔
مشہود بھائی!۔ ایک بات بتائیں۔۔۔ خالق کو آپ خالق تصور کررہے پہلے تو اس پر مبارک باد قبول کیجئے، دوسری تاویل جو آپ نے پیش کی مگر خالق کی اپنی مخلوق میں کارگری ظاہر ہوتا کیا کہیں گے۔۔۔ تو اس کا بہترین جواب ہے دین سے ناواقفیت میں مثال دوں۔۔ ایک بات کا جواب دیں یہ ساری عقل اللہ رب العالمین نے متاخرین کو ہی کیوں دے دی؟؟؟۔۔۔ پھر دنیاوی مثالوں کو دے کر بہلانا۔۔۔ کے لڑکا اپنے باپ کے اوپر گیا۔۔۔ تو یہ فطری چیز ہے پڑوسی پر تو جانے سے رہا۔۔۔ لیکن کیا رب کا کوئی بیٹا ہے یا کوئی یہ دعوٰی کرسکتا ہے کہ میں رب کا بیٹا ہوں دیکھیں اس طرح کے دعوے نصرانیوں نے بھی کئے حضرت عٰیسی علیہ السلام کو لیکر کیا ہوا۔۔۔ گیم سے آوٹ ہوگئے یعنی کافر قرار پائے یہ ہی غیرذمہ دارانہ مثالیں زناکاری کی کمائی کو کرائے میں ادا کئے جانے پر حلال ہوجاتی ہیں بین اُسی طرح مخلوق میں کارگری ظاہر ہونے لگتی ہے چلیں ہم آپ کی اس بات پر امنا صدقنا کئے لیتے ہیں اب فرض کیجئے جیسا آپ نے لڑکے کی مثال دی۔۔۔ اسی میں ہم ایک سوال جوڑدیں کے ہر چوتھا بندہ یہ دعوٰی کرنے لگے تو سچائی کیسے جان پائیں گے کہ یہ ہی وہ بندہ ہے جس میں خالق کی کارگری ظاہر ہوئی ہے؟؟؟ پھر یہ اپنے دعوٰی میں کتنا صحیح ہے اس معیار کا تعین کیسے ہوگا۔۔۔ اس طرح تو رافضیوں میں نصیری علی رضی اللہ عنہ کو رب مانتے ہیں تو کیا وہاں بھی یہ فارمولا استعمال ہوگا یا پھر اس فارمولے کو برصغیر میں صوفیت کی چادر میں لپیٹ کر امپورٹ کیا جارہا ہے؟؟؟۔۔۔ اسی طرح آج کا صوفی مقام اورمرتبے میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کے قحط پڑھ رہا ہے امیر المومنین بھی ہیں گواہی بھی ہے کہ میرے بعد اگر اس امت میں کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔۔۔ وہاں ایسا کچھ نہ ہوا نہ ہوتا دکھائی دیا۔۔۔۔
جناب سمجھ کا پھیر ہے خالق تو خالق ہے ہی مگر خالق کی اپنی مخلوق میں کارگری ظاہر ہوتا کیا کہیں گے ۔ جیسا عرف عام میں کہا جاتا یہ لڑکا اپنے باپ کے اوپر گیا اور یہ جو کہا جاتا گرگ زادہ گرگ شود
مراد صفات ہیں مخلوق میں خالق کی صفات ظاہر ہو رہی ہیں
اس پر میں کیا جواب دوں؟؟؟۔۔۔ بس اتنا ہی کہوں گا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کے اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہو تاکہ روز قیامت مجھے کثرت امت پر فخر ہو۔۔۔بس حدیث شریف کا یاد رکھو بیوی بچوں کو بھول جاؤ کیا یہ یا دنہیں دنیا اور دنیا کی تمام چیز ملعون ہے یہ بھی تو غالباً حدیث شریف کے الفاظ ہیں قرٰن شریف میں بال بچوں اور دنیا کو لہو لعب قرار دیا ہے جی فرمائے
مشہود خان صاحب قرآن کریم کو سب سے زیادہ سمجھنے والے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے تو کبھی بیوی بچوں کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار نہیں کی۔قرٰن شریف میں بال بچوں اور دنیا کو لہو لعب قرار دیا ہے
اسی طرح ایک حدیث میں ہے:ابوعباس شاعر نے خبر دی ، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے اور ایک بھی نہیں چھوڑتا اور (رات بھر) نماز پڑھتا رہتا ہے؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح؟ فرمایا کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی، اے اللہ کے نبی! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیرجاؤں۔ عطاء نے کہا کہ مجھے یاد نہیں (اس حدیث میں) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا! (البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا)
دنيا کو لہو و لعب قرار دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ساتھ ہر قسم کا تعلق ختم کر دیا جائے۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ تین حضرات (علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
حرب بن شداد صاحب اگر آپ اور مولانا عمران اسلم صاحب اور مشہھود صاحب بھی مناسب سمجھے تو اس تصوف پر مباحث کسی اور فورم پر لے چلتے ہیں کیانکہ اب انتظامیہ سے یہ کڑوے سچ برداشت نہیں ہورہے ہیں الحمد للہ ہمارے اکابرین اہلحدیث صوفی تھے اور انہوں نے تصوف پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے،آپ جو بھی مناسب فورم سمجھے اس پر آجائے تاکہ اچھے طریقے سے ہماری بات جاری رہ سکے۔دراصل ابھی تک تصوف کی شکل واضح نہیں ہوئی ہے۔۔۔
یہ کچھ تحفظات ہیں اس بارے میں تھوڑی دضاحت درکارہے۔۔۔
مثال کے طور پر۔۔۔
ابن عربی جسے صوفیاء شیخ اکبر کا لقب دیتے ہیں۔۔۔اس کا عقیدہ تھا کہ خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے اللہ ہی خالق ہے اور مخلوق ہی اللہ ہے۔۔۔
جنید بغدادی نو آموز لوگوں کے لئے یہ شروط رکھتا ہے کہ وہ تین چیزوں میں اپنے آپ کو نہ مشغو رکھیں۔۔۔
طلب رزق، طلب حدیث اور شادی کیونکہ انسان جب ان چیزوں سے دور رہے گا تو اس کے پاس زیادہ دلجمعی اور سکون واطمینان ہوگا۔۔۔
ابویزید بسطامی اپنی الوھیت کا اعلان کرتے ہوئے بکتا ہے
(سبحانی سبحانی ما اعظم شانی) میری ذات پاک ہے پاک ہے میری عظیم شان ہے۔۔۔
جبکہ ایک دوسرا صوفی لباس پہن کر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اس طرح اللہ کا مذاق اڑاتا ہے اس حبہ (کرتا) میں اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے استغفراللہ ہم ان ساری کفریہ باتوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔۔۔
عقیل صاحب آپ بھی ماشاء اللہ صوفی ہیں تو آپ ہمارے اعتراضات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟حرب بن شداد صاحب اگر آپ اور مولانا عمران اسلم صاحب اور مشہھود صاحب بھی مناسب سمجھے تو اس تصوف پر مباحث کسی اور فورم پر لے چلتے ہیں کیانکہ اب انتظامیہ سے یہ کڑوے سچ برداشت نہیں ہورہے ہیں الحمد للہ ہمارے اکابرین اہلحدیث صوفی تھے اور انہوں نے تصوف پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے،آپ جو بھی مناسب فورم سمجھے اس پر آجائے تاکہ اچھے طریقے سے ہماری بات جاری رہ سکے۔
فورم پر بعض نا قدین کے غلظ رویہ کے باعث پہلے سے مفتی عابد الرحمن صاحب عدم دلچسبی لے رہئے ہیں ،لہذا مجھے آپکے جواب کا انتظہار رہئے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک ہی بات کا روز روز جواب نہیں دیا جاتا سراجا منیر یہاں پر اپ لوڈ کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہاں تصوف پر مکمل بادلائل قران وحدیث سے لکھا گیا ہے اورپھر لکھا بی ایک معتبر عالم ایلحدیث کے قلم سے ہے ،تو میں چاہتا ہوں کہ بات اب اس سے آگے کے شروع کی جائے ،ابھی آپ جان چکے ہونگے میں کتابیں پڑھنے کی بات کیوں کرتا ہوں۔عقیل صاحب آپ بھی ماشاء اللہ صوفی ہیں تو آپ ہمارے اعتراضات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟
ہم جو بھی سوال کرتے ہیں آپ کسی کتاب کے پڑھنے کا مشورہ دے مارتے ہیں۔
یہی اعتراض انکے زمانے میں منکرین تصوف کرتے تھے اور آج بھی وہی دوہرائے جا رہئے ہیں آپ اکابرین اہلحدیث کے تصوف پر دلائل کو لے اور پھر اعتراض کریں تا کی بات مفید اور بامقصد ہو سکے۔اگر اکابر اعتراضات کا جواب دیتے رہے ہیں تو آپ بھی کمر ہمت باندھیے نا!
جی وقت ہمارا ہی فالتو ہے ،جو اصول آپ نے فورم کے معاملے میں بتایا ہے یقیناً باقی تحقیقات بھی آپ سی طرح کر رہئے ہونگے۔ بالخصوص تصوف وسلوک پر۔جہاں تک کسی دوسرے فورم پر جانے کی بات ہے تو جناب میں نے آج تک کبھی محدث فورم کے علاوہ کوئی اور فورم استعمال نہیں کیا۔
اور وقت کی قلت کی وجہ سے اس جنجھٹ میں پڑنا بھی نہیں چاہتا۔
جی بڑے عارف تو شاکر صاحب ہی ہیں اور یہ مسئلہ انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔آپ کسی عارف کی خدمت حاصل کیجئے شاید آپ کے کمپیوٹر کا مسئلہ حل ہو جائے۔
والسلام