صحابہ کراماور تابعین عظام رحمہم اللہ بڑی جانفشانی کے ساتھ عوام تک قرآنی حروف کو منتقل کرتے رہے،لیکن جیسے جیسے قرآن کریم سیکھنے والوں کی تعداد میں اِضافہ ہو رہا تھا ویسے ویسے اس خدشے میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھاکہ کہیں ثابتہ وغیر ثابتہ، مشہور، مستفیض اور آحاد وشاذ قراء ات کو آپس میں خلط نہ کر دیا جائے۔ لہٰذا فن قراء ات کے ماہر اَفراد نے کچھ ایسے اُصول اور ضابطے مقرر کیے جن کی مدد سے قرآنی اور غیر قرآنی حروف کے مابین امتیاز کیا جا سکے۔ اس کے لیے تین قسم کے قواعد کا اِجراء کیا گیا:
(١) سند کا تواتر کے ساتھ رسول اللہﷺتک متصل ہونا۔
(٢) روایت کا مصحف عثمانیہ کی رسم کے موافق ہونا۔
(٣) لغت عرب کی کسی بھی وجہ سے موافقت۔
٭اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ کیا صرف مصحف عثمانیہ سے ہی مطابقت کافی نہ تھی، کیونکہ وہ ان تینوں شرائط کا حامل تھا۔
٭تو اس کا جواب یہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں بہت سی جگہوں پر مختلف وجوہ کا احتمال پایا جاتا ہے جن کی تحدید صرف روایت کے ساتھ ہوسکتی ہے اور صرف کتابت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ کلمہ
’ ملک یوم الدین‘ دس وجوہ کو گھیرے ہوئے ہے اور اہل بدعت نے اس دروازے سے قرآن کریم میں ایسے حروف کا اِضافہ کیا جو ان کی خواہشات کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتاتھا۔اگر معاملہ ضبط روایت کے بغیر ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا تو اس سے قرآن کریم میں بہت سے خلط اور اِضطراب کا امکان تھا۔جیسا کہ بعض قراء کا خیال ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں جتنی وجوہ کا بھی احتمال ہے اگروہ لغت عرب کے موافق ہوں تو ان کا پڑھنا جائز ہے اگرچہ وہ روایتاً ثابت نہ بھی ہوں۔ جیسا کہ حافظ محمد بن الحسن المشہور ابن مقسم رحمہ اللہ کا خیال ہے۔ قراء کرام نے اس قول کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے اور بھرپور دلائل کے ساتھ اس کا محاکمہ کیا ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ نے ان تین شروط کو تین اشعار میں بیان کر دیا ہے، فرماتے ہیں:
فکل ما وافق وجہ نحو
وکان للرسم احتمالا یحوی
وصح إسنادا ہو القرآن
فہذہ الثلاثۃ الأرکان
وحیثما یختل رکن أثبت
شذوذہ لو أنہ فی السبعۃ
’’ہر وہ قراء ت جو نحوی وجہ کے موافق ہو،ر سم کے (حقیقی یا) احتمالی طور پر موافق ہو جس کی سند صحیح ہو وہ قرآن ہے، یہی تین ارکان قراء ات ہیں۔ جس جگہ کسی بھی رکن میں خلل آگیا تو وہ قراء ات شاذہ قرار پائے گی، اگرچہ قراء ات سبعہ میں سے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
٭ اب ہم ترتیب وار ان تینوں شروط کی تفصیل پیش کرتے ہیں: