• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضرورت كے وقت سودى كريڈٹ كارڈوں كے ساتھ لين دين !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ضرورت كے وقت سودى كريڈٹ كارڈوں كے ساتھ لين دين


رينٹ كار كرايہ پر حاصل كرنے كى شرط ہے كہ ہمارے پاس كريڈٹ كارڈ ہو، كارڈ كے ذريعہ كچھ رقم ادا كرنا ضرورى نہيں بلكہ صرف بطور ضمانت كارڈ دكھانا ہوتا ہے، اور گاڑى واپس كرتے وقت نقد اجرت كرتے ہيں اور كارڈ بالكل استعمال نہيں كرتے، تو كيا ميں اس غرض كى بنا پر كارڈ جارى كروا سكتا ہوں ؟

الحمد للہ:

اصل تو يہى ہے كہ سودى معمالات حرام ہيں، اور ان ميں پڑنا جائز نہيں، اور انہيں سودى شرائط ميں سے كريڈٹ كارڈ كے معاہدہ ميں بھى يہ شرائط موجود ہيں، اور بعض ممالك ميں ان كارڈوں پر زيادہ اعتماد كيا جاتا ہے، حتى كہ كوئي شخص اس كے استعمال سے عليحدہ نہيں ہو سكتا.

مندرجہ ذيل سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا گيا:

ويزا كارڈ سودى شرائط پر مشتمل ہوتا ہے، اگر ادائيگى ميں تاخير ہو جائے تو مجھ پر انہوں نے جرمانہ ركھا ہے، ليكن امريكہ ميں ميں جس جگہ رہائش پذير ہوں وہاں ميرے ليے كارڈ كے بغير گاڑى كرايہ پر حاصل كرنا ممكن ہى نہيں، اور نہ ہى كو جگہ كرايہ پر حاصل كرسكتا ہوں، اور اسى طرح بہت سے عمومى امور بھى ويزا كارڈ كے بغير نہيں كيے جاسكتے، اور اگر ميں اس كے ساتھ لين دين نہيں كرتا تو ميرے ليے بہت زيادہ حرج اور مشكلات پيش آتى ہيں جنہيں ميں برداشت كرنے كى طاقت نہيں ركھتا، تو كيا ميرا وقت محدد ميں ادائيگى پر التزام كرنا تا كہ ميں سود ميں پڑوں ميرے ليے اس كارڈ كے ساتھ لين دين كو مباح كرتا ہے تا كہ اس حرج كو ختم كيا جاسكے جس ميں ميں رہتا ہوں؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگر تو حرج كا يقين ہو اور وقت مقررہ كے اندر ادائيگى سے تاخير كا احتمال بالكل ضعيف اور كمزور اور نہ ہونے كے برابر ہو تو مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں.

سوال:؟

كيا سودى اور فاسد شرط معاہدے كو باطل كرتى ہے يا نہيں؟

جواب:

اگر معاہدے ميں باطل شرط ہو تو كئى ايك امور كى بنا پر يہ معاہدے كو باطل نہيں كرتى:

( 1 ) ضرورت ( 2 ) اور اس ليے كہ يہ ثابت ہى نہيں ہوتى، كيونكہ آدمى كا ظن غالب يہى ہے كہ وہ ادائيگى كردے گا، اس وجہ سے كہ اس كا ظن غالب يہى ہے كہ وہ ادائيگى كردے گا، اور شرط ثابت نہيں ہوگى، اور ضرورت كى بنا پر - اور يہ آخرى نقطہ اہم ہے - مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں؛ كيونكہ ہمارے پاس ثابت اور تحقيق شدہ امر ہے اور وہ ضرورت ہے، اور ہمارے پاس ايك مشكوك امر ہے جو كہ تاخير ہے، لھذا يقينى امر كا خيال كرنا اولى ہے. واللہ تعالى اعلم.

الشيخ محمد بن صالح العثيمين
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كارڈوں كے ذريعہ خريدارى


ہمارى گزارش ہے كہ ہميں سعودى نيٹ كارڈ كے ذريعہ سپر ماركيٹوں سے بعض ضرورى اشياء كى خريدارى كا حكم بتائيں، خريدارى كا طريقہ مندرجہ ذيل ہے:

جب خريدارى كى قيمت محدد ہو مثلا ( 150 ) ريال تو فروخت كرنے والے كو كارڈ ديا جاتا ہے اور وہ اپنے پاس موجو آلہ ميں يہ كارڈ ڈالتا ہے اور اسى وقت خريدارى كى قيمت خريدارى كے اكاونٹ سے دوكاندار كے اكاونٹ ميں منتقل ہو جاتى ہے، يعنى خريدار كے سپر ماركيٹ سے نكلنے سے قبل ہى ؟

الحمد للہ:

اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا كہ بيان كيا گيا ہے تو مذكورہ كارڈ كے استعمال ميں كوئى مانع نہيں جب خريدار كے اكاونٹ ميں اتنى رقم ہو جو مطلوبہ رقم كو پورى كردے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 13 / 527 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ويزا اور سامبا كريڈٹ كارڈ


، اور اگر يہ كارڈ گولڈن ہو تو اس كى قيمت ( 548 ) ريال ہے اور اگر سلور ہو تو اس كى قيمت ( 245 ) ريال ہے جو اس كارڈ كو حاصل كرنے والے نے سالانہ فيس كى مد ميں بنك كو ادا كرنا ہوتى ہے.

اور اس كارڈ كا طريقہ استعمال يہ ہے كہ جس كے پاس يہ كارڈ ہو وہ بنك كى شاخوں سے بطور ادھار جتنى رقم چاہے نكلوا سكتا ہے، اور يہ رقم زيادہ سے زيادہ چون ( 54 ) يوم كے اندر ادا كرنى ہوتى ہے، اور اگر نكلوائى گئى يہ ادھار رقم مقررہ مدت كے اندر ادا نہ كى جائے تو بنك نكلوائى گئى ادھار رقم كے ہر سو ريال پر فائدہ ليتا ہے جو ايك ريال اور پچانوے ہللے ( 1.95 ) ہے، اور اسى طرح بنك كارڈ ہولڈر سے ہر بار نقد رقم نكلوانے كى فيس ہر سو ريال نكلوانے پر ( 3.5 ) ريال ليتا ہے، يا پھر ہر نقد رقم نكلوانے پر زيادہ سے زيادہ ( 45 ) ريال ليتے ہيں.

اور كارڈ ہولڈر ان ماركيٹوں سے جو اس بنك كے ساتھ لين دين كرتے ہيں بغير كسى نقد رقم كے ادا كيے خريدارى كر سكتا ہے، اور يہ خريدارى اس پر بنك كا ادھار ہو گا، اور جب وہ خريدارى كى قيمت كى ادائيگى چون يوم سے تاخير كر دے تو بنك كارڈ ہولڈر سے اس خريدارى كے ہر سو ريال پر ( 1.95 ) ريال فائدہ ليتے ہيں .

لہذا اس كارڈ كے استعمال كا حكم كيا ہے؟ اور اس بنك كے ساتھ اس كارڈ سے استفادہ كرنے كے ليے سالانہ اشتراك كرنا كيسا ہے ؟

الحمد للہ:

يہ سوال مستقل فتوى كيمٹى كے سامنے پيش كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

اگر تو اس كارڈ ( سامبا ويزا ) كا حال يہى ہے جيسا بيان كيا گيا ہے تو سودى كاروبار كرنے والوں كى جانب سے يہ ايك نئى پيشكش اور لوگوں كا ناحق اور حرام طريقہ سے مال كھانا اور انہيں گنہگار كرنا اور ان كى كمائى اور معاملات كو پراگندہ اور خراب كرنا ہے.

اور يہ دور جاہليت كے سود كے حكم سے خارج نہيں جو شريعت مطہرہ ميں حرام ہے ( يا تو آپ اس كى ادائيگى كريں يا پھر سود ) لہذا اس طرح كے كارڈ جارى كرنے اور ان كے ذريعہ لين كرنا جائز نہيں.
اور اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحتوں كا نزول فرمائے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے اس كے متعلق سوال كيا گيا تو ان كا كہناتھا:

الجواب:

اس طريقہ پر معاہدہ كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سود ہے اور وہ ويزا كارڈ كى قيمت ہے، نيز اس ميں يہ بھى ہے كہ اگر ادائيگى ميں تاخير ہو گئى تو سود لازم كرديا جاتا ہے. اھـ

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خاوند كے ليے ويزا كارڈ جارى كروانے ميں مدد !!!


ميرے پاس كريڈٹ كارڈ تھا جو ميں نے گاڑى كرايہ ليتے وقت حاصل كيا تھا، ميں اس پر بہت حريص تھى كہ جتنى ادائيگى كى استطاعت ہے اس سے تجاوز نہ كروں تا كہ مجھے فائدہ ادا كرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے، ليكن ايك بار ميں پورا بل ادا نہ كر سكى اور فائدہ ادا كرنا پڑا، اور كچھ ماہ بعد ميں نے خاوند كى مدد سے رقم كى ادائيگى كردى جو كبھى كبھار كارڈ استعمال كرتا رہتا تھا.
ميں نے بل كى ادائيگى كے بعد خاوند كو بتايا كہ ميں اس كارڈ سے چھٹكارا حاصل كرلونگى تا كہ دوبارہ سود ميں نہ پڑوں ، ليكن ميرے خاوند نے مجھ سے مطالبہ كيا كہ جب ميں اپنے كارڈ سے چھٹكارا پانا ہى چاہتى ہوں تو كارڈ اس كے نام جارى كرنے كى درخواست دوں، حالانكہ اس كے پاس پہلے بھى دو كارڈ تھے ليكن اس ميں ادائيگى كى استطاعت نہيں تھى، وہ شديد غضبناك اور تكليف دہ بن گيا، حتى كہ ميں سلام پر مداومت كرنے لگى، ميں نے اس كے ليے كارڈ جارى كروا ليا، اور اس نے يہ كہا كہ اگر ادائيگى نہ كرسكا تو كارڈ كا مسئول وہ ہو گا، ميں نے يہ كارڈ بالكل استعمال نہيں كيا، اور پچھلے چھ ماہ كے دوران ميرا خاوند ادائيگى نہيں كرسكا جس كى بنا پر فائدہ بہت زيادہ ہو گيا ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: اس كارڈ كا اللہ تعالى كے ہاں كون جواب دہ ہے؟ ميں، اس ليے كہ ميں نے اس كو وجہ سے كارڈ جارى كروايا تھا، يا كہ وہ خود كيونكہ اس نے طلب كيا تھا؟ اگر تو ميں اس كى مسئول اور جواب دہ ہوں تو اس رقم كى ادائيگى كے ليے مجھ پر كيا واجب ہے؟ حالانكہ ميرے خاوند نے مجھے ملازمت كرنےسے بھى روك ديا ہے، اور وہ خود تھوڑى سى رقم كى ادائيگى كرنے كى استطاعت بھى نہيں ركھتا ؟

الحمد للہ:

آپ كو چاہيے كہ آپ نے يہ سودى كارڈ جارى كروا كے اپنے خاوند كى گناہ اورمعصيت ميں جو مدد اور تعاون كيا ہے اس پر اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں-


كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{اور تم نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور گناہ اور دشمنى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو}

اور آپ پر واجب تو يہ تھا كہ كارڈ جارى كروانے سے باز رہتيں اورآپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل فرمان پر عمل كرتے ہوئے اس كے اس مطالبہ كو قبول نہ كرتيں، اگرچہ وہ اس پر اصرار بھى كرتا:


نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ عزوجل كى معصيت ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں ہے"
اسے امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے مسند على رضي اللہ تعالى ميں روايت كيا ہے، اور يہ حديث صحيح الجامع ميں بھى ہے ديكھيں: صحيح الجامع حديث نمبر ( 7520 ).


واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
( ويزا ، سامبا ) ان كارڈوں كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے اگرچہ محدود وقت كے اندر ہى ادائيگى كردى جائے !!!!

ميں نے سنا ہے كہ ( ويزا اور سامبا ) كارڈوں كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے، ليكن اگر مجھے يقين ہو كہ ميں بنك كو مقررہ مدت كے اندر رقم كى ادائيگى كردونگا، تو بنك اس بنا پر مجھ سے كوئى فائدہ حاصل نہيں كرسكے گا، تو كيا اس كا حكم بھى حرام ہى ہے ؟

الحمد للہ:

( ويزا اور سامبا ) كارڈ كے ساتھ لين دين كرنے كے حرمت كے متعلق سوال كرنے والے آپ نے جو كچھ سنا ہے وہ بالكل صحيح ہے، اور اس كا بيان سوال نمبر ( 13735 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے، اس كا ضرور مطالعہ كريں.

اس كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے اگرچہ كھاتے دار كو يہ يقين ہو كہ وہ بنك كو مقررہ مدت كے اندر بنك كو رقم ادا كردے گا.

اس سوال كے جواب ميں يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ يہ حرام ہے كيونكہ بنك كھاتے دار كو فائدہ كے بدلے ميں رقم فراہم كرتا ہے، اور يہ فائدہ ويزا ميں سالانہ شراكت كى فيس ہے، اور اس كے ساتھ دوسرے فوائد بھى بنك كو حاصل ہوتے ہيں، جو كہ كھاتہ دار كى ادائيگى ميں تاخير كى صورت ميں حاصل ہوتے ہيں.

لھذا ويزا كارڈ كى قيمت ايسے سود كى شكل ميں ہے جو كھاتے دار بنك كو ادا كرتا ہے، اور يہ سود كھاتے دار نے ادا كرنا ہى ہے چاہے ادائيگى وقت پر كردے يا نہ كرے.

اور يہ بھى ہے كہ: كھاتے دار بنك كے ساتھ لين دين كرنے لگا ہے اور جب وہ ادائيگى ميں تاخير كرے گا تو اسے سود ادا كرنا ہوگا، اور يہ بھى حرام ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ فعل كا التزام كرے.

اور ہو سكتا ہے كہ كھاتے دار يہ گمان ركھتا ہو كہ وہ وقت مقررہ پر ادائيگى كردے گا، اور پھر كوئي ايسا مانع پيش آ جائے جس كى بنا پر وہ ادائيگى نہ كرسكے تو وہ بنك كو سود ادا كرے گا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى عنہ اس لين دين كے حكم ميں كہتے ہيں:

اس طريقہ اور صفات والا معاہدہ جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سود ہے جو كہ ويزا كارڈ كى قيمت ہے، نيز اگر ادائيگى ميں تاخير ہو جائے تو اس ميں سود لازمى ہے. اھـ .

اور ايك دوسرے فتوى ميں ہے:

لين دين كا يہ معاملہ حرام ہے، يہ اس ليے كہ اس ميں اگر وقت مقررہ پر ادائيگى نہ كى جائے تو سود دينے كا التزام پايا جاتا ہے، اور يہ التزام باطل ہے، اگرچہ انسان يہ گمان ركھتا ہو يا اس كا ظن غالب يہ ہو كہ وہ وقت مقررہ سے قبل ادائيگى كردے گا، كيونكہ ہو سكتا ہے امور مختلف ہو جائيں اور وہ ادائيگى كى استطاعت نہ ركھے، اور يہ مستقبل كا معاملہ ہے اور انسان مستقبل كے متعلق كچھ نہيں جانتا كہ اس كو كيا پيش آنے والا ہے، لہذا اس طريقہ پر لين دين كرنا حرام ہے. واللہ تعالى اعلم. اھـ

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
Top