• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
علمی مسائل پربات چل رہی ہےمجھےاس میں ایک علمی لطیفہ یادآگیاجو امام ابن الجوزی نےتلبیس ابلیس میں نقل فرمایا ہے کہ ایک دفعہ ایک مسجدمیں ابن حمبل اوریحی بن معین نےعصرکی نمازپڑھی نماز کےبعداتفاق سے ایک صاحب نےکھڑے ہوکرلاالہ کےفضائل پر ایک طویل ضعیف حدیث پڑھی جس میں تھاکہ جو لاالہ پڑتاہے اس کیلے سمندرمیں مچھلیاں آسمانوں میں فرشتےزمین پرچیونٹیاں وغیرہ وغیرہ دعائیں کرتی ہیں۔مزےکی بات یہ تھی وہ حدیث اس نےیحی بن معین سے روایت کی جبکہ اسے نہیں علم تھاکہ یحی بن معین تو ادھر بیٹھےہوئے ہیں۔اورروایت کمال درجےکی ضعیف تھی۔ تو جب وہ روایت بیان کررہےتھےتو دونوں بزرگوں ایک دوسرےکی طرف حیرت کےساتھ سوالیہ انداز میں دیکھاجس پر دونوں ہی نےنگاہوں میں ہی ایک دوسرے کوانکارمیں جواب دیا۔خیرجب وہ روایت کرچکےتو بعدمیں چندےکی اپیل کی لوگ اتنی پراثرروایت سننےکےبعددھڑادھڑفنڈدینےلگے۔جب وہ اپنادامن لےکر یحی بن معین کےپاس آئے توانہوں نےکہا جناب میں یحی بن معین ہوں میں نےتو یہ روایت نہیں بیان کی جو آپ نےمیرےحوالے سے نقل کردی ہےاس پروہ کمال درجےکی چابکدستی سے فرمانےلگےاےجی جناب! دنیامیں صرف آپ ہی یحی بن معین ہیں؟اؤرکوئی نہیں؟ (یعنی میں جس یحی بن معین سے روایت کررہاہوں وہ کوئی اؤرہے)یحی بن معین کہتےہیں میں توحیرت سے تکتاہی رہہ گیا۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
السلام علیکم ،
بھائی جزاک اللہ۔۔۔۔لیکن یہ پڑھ کر تو میں تشویش میں مبتلا ہوں کہ اس طرح تو ہم بدعت تک نہ پہنچ جائیں گے؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
پتا نہیں ہم بس فرقہ بندی یہ غلط وہ غلط، قبر میں ان سب چیزوں کا کسی نے نہیں پوچھنا۔ہوسکے ان بحثوں کی بجائے قبر کے سوالوں کی تیاری کریں، تاکہ ہم وہاں سرخروہو سکیں۔ جزاک اللہ
حسن شبیر بھائی مجھے تو اس میں فرقہ بندی والی کوئی بات نظر نہیں آئی ۔بہن نے ایک بہت ہی اہم سوال کیا ہے جس کا علم سب کو ہونا چاہئے۔اگر آپ کو کوئی بات فرقہ بندی والی لگی ہے تو اس کو نشان دہی کریں۔

شاہد بھائی میرا کہنے کا مقصد ہے ان فضول بحثوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ نہ تو آپ نے ان کی بات ماننی ہے اور نہ انہوں نے، تو پھر فائدہ ایسی بحث یا ایسے سوالات کرنے کا؟
تبلیغی جماعت والوں نے ہر حال میں فضائل اعمال پر ہی عمل کرنا ہے کوئی تبلیغی بھائی کسی صورت نہیں چھوڑتا فضائل اعمال کو، بہتر یہی ہے کہ ان سے فیس ٹو فیس بات کی جائے۔
جی حسن بھائی یہ کوئی فرقہ پرستی کی بات نہیں۔۔۔اور واقعی ہی ہمیں اس کا علم ہونا چاہیئے۔ان سے فیس ٹو فیس بات کرنے کے لیے ہمیں دلیل سے علم ہونا چاہیئے اور یہی میرا بھی مقصد ہے۔اللہ تعالی ہمیں ہدایت عطا کرے۔آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جی حسن بھائی یہ کوئی فرقہ پرستی کی بات نہیں۔۔۔اور واقعی ہی ہمیں اس کا علم ہونا چاہیئے۔ان سے فیس ٹو فیس بات کرنے کے لیے ہمیں دلیل سے علم ہونا چاہیئے اور یہی میرا بھی مقصد ہے۔اللہ تعالی ہمیں ہدایت عطا کرے۔آمین


میرا خیال ہے کہ ہم لوگ امام مسلم رحم اللہ کا مقدمہ بھی پڑھ لیں جو انہوں نے صحیح مسلم کے شروع میں لکھا
دیکھیں کہ وہ کیاکہتے ہیں ضعیف احادیث کے بارے میں

 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
ضعیف احادیث پر عمل کرنے کے بارے میں علمائے دین نے جو شرائط بیان کی ہے اگر ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کوئی ضعیف حدیث پہ عمل کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
" ضعیف حدیث " پرعـمـل کـا حـکم
الإمام مُحي الدین النووي الشافعي رحمه الله نے اپنی بہت ساری نے کتب میں تمام
محدثين وفقهاء کا اتفاق نقل کیا هے کہ " فضائلُ الأعمال وترغيب وترهيب " میں " ضعیف حدیث " کولینا اوراس پرعمل کرنا جائزهے ،
الإمام النووي الشافعي رحمه الله نے یہ بات اپنی کتب (الروضه) اور (الإرشاد والتقريب) اور (الأذكار) وغیره میں نقل کی هے ، اور یہی الإمام النووي رحمه الله کا مذهب هے ، اور اسی طرح کی تصریح دیگرکبارائمہ حدیث نے بهی کی هے ، مثلا الحافظ إبن حجر العسقلاني ، والإمام النووي ، والإمام إبن جماعة ، والإمام الطيبي ، والإمام سراج الدين البلقيني ، والحافظ زين الدين أبو الفضل العراقي ، والإمام إبن دقيق العيد ، والحافظ إبن حجر الهيتمي ، والإمام إبن الهمام ، والإمام إبن علان ، والإمام الصنعاني ، وغیرهم
اورحتی کہ آج کل کے عرب کے سلفی علماء میں سے الشيخ بن باز ، والشيخ صالح اللحيدان ، والشيخ صالح الفوزان ، والشيخ عبدالعزيز آل الشيخ ، والشيخ صالح آل الشيخ ، والشيخ علي حسن الحلبي ، وغیرهم بهی یہی کہتے هیں ،
ان علماء امت کی چند تصریحات ملاحظہ کریں
وقال الحافظ السخاوي "وممن اختاروا ذالك أيضاً إبن عبدالسلام وإبن دقيق العيد" [القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع (ص195)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني "تجوز رواية الحديث الضعيف إن كان بهذا الشرطين : ألا يكون فيه حكم ، وأن تشهد له الأصول" [الإصابة في تميز الصحابة (5/690)] .
وقال الإمام إبن علان "ويبقى للعمل بالضعيف شرطان : أن يكون له أصل شاهد لذالك كاندراجه في عموم أو قاعدة كلية ، وأن لا يُعتقد عند العمل به ثبوته بل يُعتقد الاحتياط" [الفتوحات الربانية (1/84)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني "ولا فرق في العمل بالحديث الضعيف في الأحكام أو الفضائل إذ الكُّل شُرع" [تبين العجب (ص04)] .
وقال الإمام الصنعاني "الأحاديث الواهية جوزوا أي أئمة الحديث التساهل فيه ، وروايته من غير بيان لِضعفه إذا كان وارداً في غير الأحكام وذالك كالفضائل والقصص والوعظ وسائر فنون الترغيب والترهيب" [توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (2/238)] .
وقال العلامة إبراهيم بن موسى الأبناسي "الأحاديث الضعيفة التي يُحتمل صِدقها في الباطن حيث جاز روايتها في الترغيب والترهيب" [الشذ الفياح من علوم إبن صلاح (1/223)] .
وقال العلامة طاهر الجزائري الدمشقي "الظاهر أنه يلزم بيان ضِعف الضعيف الوارد في الفضائل ونحوها كي لا يُعتقد ثبوته في نفس الأمر ، مع أنه رُبما كان غير ثابت في نفس الأمر" [توجيه النظر إلى أصول الأثر (2/238)] .
وقال العلامة علي القاري "الأعمال التي تثبت مشروعيتها بما تقوم الحجة به شرعاً ، ويكون معه حديث ضعيف ففي مثل هذا يُعمل به في فضائل الأعمال ؛ لأنه ليس فيه تشريع ذالك العمل به ، وإنما فيه بيان فضل خاص يُرجى أن يناله العامل به" [المرقاة (2/381)] .
وقال العلامة حبيب الرحمن الأعظمي "والضعيف من الحديث وإن كان قبولاً في فضائل الأعمال ، ولابأس بإيراده فيها عند العلماء" [مقدمة مختصر الترغيب والترهيب (ص06)] .
وقال الإمام إبن الهمام في كتاب الجنائز من فتح القدير "الاستحباب يثبت بالضعيف غير الموضوع"
وقال الإمام إبن حجر الهيتمي في الفتح المبين "أتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال لأنه إن كان صحيحاً في نفس الأمر فقد أُعطي حقه من العمل به"
وقال الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ "أما في فضائل الأعمال فيجوز أن يستشهد بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال وأن يذكر لأجل ترغيب الناس في الخير، وهذا هو المنقول عن أئمة الحديث وأئمة السلف" [محاضرة بعنوان وصايا عامة (الوجه الثاني)] .
وقال الشيخ محمود الطحان "يجوز عند أهل الحديث وغيرهم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان لِضعفها في مثل المواعظ والترغيب والترهيب والقصص وما أشبه ذالك" [تيسير مصطلح الحديث (ص65)] .
" ضعیف حدیث "كـى تـعـريف
یاد رکهیں کہ مُحدثین کرام کے " حديث ضعيف " کی اصطلاحی تعریف میں مختلف اقوال وآراء هیں، تين أقوال بطورخلاصہ وبغرض فائده نقل کرتاهوں ،
1 = {كل حديث لم تجتمع فيه صفات الحديث الصحيح ولا صفات الحديث الحسن}
هروه حدیث جس میں "حدیث صحیح اورحدیث حسن " کے صفات وشرائط موجود نہ هوں تو وه " حديث ضعيف " هے ،
اور یہ مشہور مُحدث امام ابنُ الصلاح الشافعی رحمہ الله کا قول هے ،
اوراسی تعریف کوان کے بعد حافظ ابن جماعة اورحافظ ابن كثيراورحافظ نووي اورحافظ جرجاني وغيرهم رحمہم الله نے ذکرکیا هے ،
اورپهراسی تعریف پردیگر مُحدثین کے کچهہ تعقیبات بهی هیں ، جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتب میں موجود هے ۰
2 = { كل حديث لم تجتمع فيه صفات القبول }
هروه حدیث جس میں صفات قبول موجود نہ هوں ،
یہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله کا قول هے ، اوربعض دیگرمُحدثین نے بهی اسی کواختیارکیا هے ، اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
3 = {ما قصر عن درجة الحسن قليلا }
هروه حدیث جودرجہ میں "حدیث حسن " سے کم هو ،
حافظ الذهبي رحمہ الله نے اپنی کتاب { الموقظة } میں یہ تعریف کی هے ، اور اصل اس تعریف کا امام ابن دقيق العيد اور علامہ عراقي کا کلام هے ،
اور اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
حاصل کلام یہ هے کہ حافظ ابنُ الصَلاح الشافعی رحمہ الله اپنی کتاب{مقدمة ابنُ الصلاح }میں فرماتے هیں کہ
وه حدیث جس میں چهہ شرائط پائے جائیں تو وه " صحيح " هے ، اور وه چهہ شرائط یہ هیں ،
1 = اتصال سند
2 = عدالة الرُواة
3 = ضبط الرواة
4 = السلامة من الشذوذ
5 = السلامة من العلة
6 = وجود العاضد
اور جمهورمتأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث حسن " کی تعریف بهی یہی هے جس میں شروط سابقہ پائ جائیں ، مگر " حديث حسن " کا راوی اگرچہ حافظ هوتا هے لیکن حفظ میں " حدیث صحیح " کے راوي سے کم هوتا هے ،
اور پهر " حديث ضعيف " بهی اسی کے ساتهہ مُلحق هے ،
لہذا متأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث ضعيف " کی تعریف یہ هے کہ جس میں ان شروط مذكورة بالا میں سے کوئ ایک شرط یا اکثر مفقود هوں ،
پهراس کے بعد " حديث ضعيف " کے أنواع واقسام کی ایک طویل بحث هے ۰
{ من شاء المزید فلیراجع الی المطولات}
فحاصل الكلام انهم عرفوا الحديث الضعيف بأنه :هو ما فقد شرطا من شروط الحديث المقبول وهي ستة:
1 =ألعدالة: أي الصدق والتقوى والالتزام الظاهر بأحكام الإسلام.
2 =ألضبط: هو الدقة في الحفظ والإتقان ثم الاستحضار عند الأداء .
3 =ألاتصال: أي كل واحد من الرواة قد تلقاه من رواة الحديث حتى النهاية دون إرسال أو انقطاع.
4= عدم الشذوذ: وهو مخالفة الراوي الثقة لمن هو أثق منه .
5= عدم وجود العلة القادحة: أي سلامة الحديث من وصف خفي قادح في صحة الحديث والظاهر السلامة منه .
6 =ألعاضدُ عند الاحتياج إليه .
راجع : مقدمة ابن الصلاح(ج 1 / ص 6 ) والباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث(ج 1 / ص 5 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 73 ) والتقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث(ج 1 / ص 2 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 120 ) .
اس مختصر بحث اورائمہ حدیث کی تصریحات سے یہ واضح هوا ، کہ حدیث کی تعریف وتقسیم وغیره سب مُحدثین کے اجتہاد کا ثمره هے ، اس لیئے اس باب میں مُحدثین کے اقوال وآراء اختلاف بهی پایا جاتا هے ، اور حدیث کا هرطالب ان سب تعریفات واصطلاحات خالص تقلید میں پڑهتا هے اوراستعمال کرتا هے ،
میری سمجهہ میں نہیں آتا کہ وهی تقلید فقهاء کرام کے اجتہادات کی هو تو فرقہ جدید کےنزدیک شرک وبدعت وجہالت بن جائے ، اور وهی خالص تقلید مُحدثین کی هوتو کچهہ فرق نہ پڑے ، حالانکہ فقہاء کرام ومُجتهدین عظام کے تمام اجتہادات دلائل کےساتهہ موجود هیں ، جب کہ مُحدثین کے ان اجتہادات کی کوئ دلیل بهی نہیں هے ، هرمُحدث نے اپنی ذوق وفہم وبصیرت سے یہ تعریفات واصطلاحات وضع کی هیں ۰
الله تعالی تمام اهل اسلام کوصحیح فہم وبصیرت عطا فرمائے ۰
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ،
حال ہی میں تبلیغی جماعت سے گفتگو میں ان کی جانب سے اقرار کیا گیا کہ "فضائل اعمال" کی احادیث ضعیف اور من گھڑت ہیں۔مگر اس پر ان کا موقف تھا کہ ایسی احادیث جو اعمال کی طرف رغبت دلائیں اور ان سے اصلاح ممکن ہو تو ان پر عمل کرنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔اب سوال یہ بنتا ہے کہ جب ضعیف حدیث سے نبی کریمﷺ کا عمل ہی ثابت نہیں ہے تو کیا اس عمل سے حاصل ہونے والا ثواب شمار کیا جائے گا؟ جب کہ تبلیغی جماعت والے عمل کو ہی ترجیح دے رہیں ہیں۔
اس پر کوئی وضاحت کریں کہ تاکہ تبلیغی جماعت والے اپنی اصلاح کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بہن! آپ کے سوال کا یہ جملہ
جب ضعیف حدیث سے نبی کریمﷺ کا عمل ہی ثابت نہیں ہے تو کیا اس عمل سے حاصل ہونے والا ثواب شمار کیا جائے گا؟
نہایت اہم ہے، اسی میں اس کا جواب بھی پوشیدہ ہے۔

اولاً: ثواب کسی فرض یا مستحب کام پر ہوتا ہے، کسی چیز کا استحباب ظاہر ہے کہ کسی نص (وحی اور ما انزل اللہ) سے ہی ہو سکتا ہے۔ اپنی طرف سے ذاتی طور پر تو کوئی بھی کسی شے کو فرض یا مستحب قرار نہیں دے سکتا۔ اگر قرار دیا جائے تو یہ ’تشریع جدید‘ یا 'افتراء علی اللہ' ہوگا جو شرک کے برابر جرم ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِ‌يعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ‌ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ١٨ ﴾ ... سورة الجاثية
پھر ہم نے آپ کو دین کی (ظاہر) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں (18)

﴿ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ٣ ﴾ ... سورة الأعراف
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو (3)

نیز غیر ثابت شدہ چیزوں کو دین سمجھنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ أَمْ لَهُمْ شُرَ‌كَاءُ شَرَ‌عُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ٢١ ﴾ ... سورة الشورىٰ
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر فیصلے کے دن کا وعده نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ یقیناً (ان) ظالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے (21)

ضعیف حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہو سکی۔ اور جس بات کی نسبت نبی کریمﷺ کی طرف نہ کی جا سکے وہ وحی اور ما انزل اللہ نہیں ہے، لہٰذا دین بھی نہیں ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور پھر اس پر ثواب بھی ہو۔

اگر ضعیف حدیث وحی اور ما انزل اللہ ہے تو پھر اس عمل بھی ہو سکتا ہے اور اگر نہیں تو پھر نہیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ثانیاً: احناف کے نزدیک خبر واحد - خواہ وہ صحیح بخاری کی روایت ہی کیوں نہ ہو ۔ ظنی ہے، لہٰذا لہٰذا اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا، نہ قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ لیکن جب یہ حضرات ضعیف احادیث سے اصول (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل ہو سکتا ہے) کے نام پر عقیدے بنانے لگیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ اور خوابوں وغیرہ سے عقیدہ کے مسائل ثابت نہیں کیے گئے؟؟؟ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُ‌هُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ٣٦ ﴾ ... سورة يونس
اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے (36)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ثالثا: جن حضرات کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے، انہوں نے بھی اس کی شرائط میں یہ ذکر کیا ہے کہ دین سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا جائے، کیونکہ اگر ضعیف حدیث کو اگر دین سمجھا جائے تو یہ ’تشریعِ جدید‘ کے مترادف ہے۔

ضعیف حدیث کی حیثیت بالکل اسرائیلیات کی سی ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

« لا تصدقوا أهلَ الكتابِ ولا تكذبوهم، وقولوا: ﴿ آمنا بالله وما أنزل إلينا ﴾ الآيةَ »
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7362

کہ اہل کتاب کی (باتوں کی) نہ تو تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب بلکہ کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہم پر نازل ہوا اس پر ایمان لاتے ہیں۔

مزید تفصیل کیلئے یہ قیمتی آرٹیکل ملاحظہ کیجئے!
http://forum.mohaddis.com/threads/علامہ-محمد-ناصر-الدین-البانی-ؒاور-ضعیف-احادیث.7473/
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
علماء میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے
احکام شرع اور شرعی دلیل میں ضعیف احادیث کا استعمال مناسب نہیں لیکن فضائل میں چند شرائط پر عمل جائز ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم
اور آخری شرط یہی ہے کہ اسے دین نہ سمجھا جائے، کیونکہ ضعیف حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا۔

البتہ ائمہ یحییٰ بن معین، بخاری، مسلم، ابن حزم، ابن تیمیہ، شاطبی، ابن العربی، احمد شاکر اور علامہ البانی ﷭ وغیرہم کے نزدیک اس پر عمل بھی جائز نہیں اور یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
 
Top