• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پتا نہیں ہم بس فرقہ بندی یہ غلط وہ غلط
محترم بھائی!فرقہ بندی کا مطلب ہوتا ہے کہ ما انا علیہ واصحابی یا دوسرے الفاظ میں کتاب وسنت کو چھوڑ کر دوسرے رستے اختیار کرنا۔ غلط شے کو غلط کہنا فرقہ بندی تو نہیں ہے، اسے نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں بھی جگہ جگہ امورِ جاہلیت کو غلط کہا گیا اور ان کی اصلاح کی گئی ہے۔

قبر میں ان سب چیزوں کا کسی نے نہیں پوچھنا۔ہوسکے ان بحثوں کی بجائے قبر کے سوالوں کی تیاری کریں، تاکہ ہم وہاں سرخروہو سکیں۔ جزاک اللہ
میرے بھائی! قبر میں تو نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، سود، قتل وغارت اور دیگر اوامر ونواہی کی تفصیلات کے متعلق بھی سوال نہیں ہونا، وہاں تو اجمالاً اللہ، رسول اور دین کا سوال ہونا ہے، تو کیا باقی تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جائے؟؟

نہیں میرے بھائی! اللہ تعالیٰ کو رب ماننے، محمدﷺ کو رسول ماننے اور اسلام کو دین ماننے میں تمام نیکیوں پر خود عمل کرنا، دوسروں کو اس کی تلقین کرنا اور تمام برائیوں سے خود بھی بچنا، دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرنا شامل ہے۔ اسے اصطلاح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
شاہد بھائی میرا کہنے کا مقصد ہے ان فضول بحثوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ نہ تو آپ نے ان کی بات ماننی ہے اور نہ انہوں نے، تو پھر فائدہ ایسی بحث یا ایسے سوالات کرنے کا؟
اگر یہی منطق رسول کریمﷺ اختیار فرماتے تو کیا دین اسلام مکہ سے نکل پاتا؟؟ ہرگز نہیں!
حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کفار کے دلوں پر مہر لگاتے ہوئے ان کے بارے میں یہاں تک فرمادیا کہ اے نبی! آپ کا انہیں نصیحت کرنا یا نہ کرنا برابر ہے، وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے، لیکن اس کے باوجود نبی کریمﷺ نے انہیں دعوت دینا نہیں چھوڑا۔
میرے بھائی! کسی کے ساتھ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ حکمت کے ساتھ اسے جنت کا راستہ دکھا دیا جائے اور جہنم کے رستے سے بچنے کی تلقین کی جائے: ومن أحسن قولا ممن دعا إلى الله وعمل صالحا وقال إنني من المسلمين
تبلیغی جماعت والوں نے ہر حال میں فضائل اعمال پر ہی عمل کرنا ہے کوئی تبلیغی بھائی کسی صورت نہیں چھوڑتا فضائل اعمال کو، بہتر یہی ہے کہ ان سے فیس ٹو فیس بات کی جائے۔
آپ کی منطق کے مطابق تو فیس ٹو فیس بات کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ کسی نے ماننا ہی نہیں، تو پھر دعوت دینے کا فائدہ؟؟؟ کیا خیال ہے؟
میرے بھائی! مسلمان کا مطلب ہے اللہ رب العٰلمین کے ہر حکم (کتاب وسنت) کے سامنے - سیدنا ابراہیم﷤ کی طرح - سر جھکا دینا۔ اور جو اللہ کے حکم کے سر نہ جھکائے، سیدنا ابراہیم﷤ کی سنت نہ اپنائے اس سے بڑا بے وقوف اور اپنی ذات کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟؟؟
ومن يرغب عن ملة إبراهيم إلا من سفه نفسه ولقد اصطفينه في الدنيا وإنه في الآخرة لمن الصلحين إذ قال له ربه أسلم قال أسلمت لرب العلمين

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800

میرا خیال ہے کہ ہم لوگ امام مسلم رحم اللہ کا مقدمہ بھی پڑھ لیں جو انہوں نے صحیح مسلم کے شروع میں لکھا
دیکھیں کہ وہ کیاکہتے ہیں ضعیف احادیث کے بارے میں

جزاکم اللہ خیرا!

اتنی علمی پوسٹ کا شکریہ! لیکن اگر آپ اس مقدمے میں سے موضوع سے متعلق جملوں کو ہائی لائٹ کر دیتے یا صرف انہیں ہی ذکر کر دیتے تو زیادہ فائدہ ہوتا۔

اصل اہمیت ایک بہت لمبے اقتباس یا پوری کتاب کو پیش کرنے کی نہیں، بلکہ ٹو دی پوائنٹ بات کرنے میں ہے۔ اس وقت گوگل میں اتنا ڈیٹا موجود ہے کہ ہر موضوع کے متعلق سینکڑوں صفحات کاپی پیسٹ کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ حقیقی فائدہ تو یہ ہے کہ اس میں سے متعلقہ مواد الگ کرکے اچھے انداز سے سمجھا دیا جائے۔ اسی کو علم کہتے ہیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ والدین کی ذمہ داری ہے جب بچوں کی سالانہ چھٹیاں ہو تو ہوم ورک کے ساتھ ساتھ وہ گھر پر بچوں کو احادیث اور دوسرے اُمور پر دین کی تعلیم لازمی طور پر دیں یا پھر ہمارے علماء کرام وہ اس دوران اسکائپ پر اس طرح کے کورسسز بچوں کے لئے شروع کریں ہمیں راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے آج ہمارا معاشرہ جس تنزلی کا شکار ہے اس کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو والدین جو دنیاوی تعلیم کو بچے کے لئے ضروری سمجھتے اور دین کے معاملے میں بس بچے کو اس حد تک تعلیم دیتے ہیں کے وہ اپنی زندگی میں ایک بار قرآن پڑھ لے یہ غلط ہے ہماری دنیاوی اُمور ہمارے دین میں پنہاں ہیں جھوٹ، حلال، حرام، جائز ناجائز یہ تعلیمات ہمیں ہمارے دین سے ملی ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم ان چھٹیوں میں اپنے بچوں کو احادیث یاد کروائیں جو معاشرتی اعتبار سے عمل کے لحاظ سے فوقیت رکھتی ہو تاکہ بچہ جب اسکول جائے اور وہاں پر کوئی ایسا بات یا کوئی ایسا کام ہوتا دیکھے تو وہ دوسرے بچوں کو اس کی تعلیم دے۔ اپنے حصے کا چراغ جلائیں باقی اللہ مدد کرنے والا ہے۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ثانیاً: احناف کے نزدیک خبر واحد - خواہ وہ صحیح بخاری کی روایت ہی کیوں نہ ہو ۔ ظنی ہے، لہٰذا لہٰذا اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا، نہ قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ لیکن جب یہ حضرات ضعیف احادیث سے اصول (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل ہو سکتا ہے) کے نام پر عقیدے بنانے لگیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ اور خوابوں وغیرہ سے عقیدہ کے مسائل ثابت نہیں کیے گئے؟؟؟ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُ‌هُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ٣٦ ﴾ ... سورة يونس
اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے (36)
مجھے اس پر واقعتابہت تعجب ہوتاہے کہ احناف کے نزدیک خبر واحد سے بھی عقیدہ ثابت نہیں ہوتااوریار لوگ قصے کہانیوں سے احناف کے عقائد کا اثبات کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ محض واقعات ہیں ۔یہ سچ بھی ہوسکتے ہیں اورغلط بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کو عقیدہ کا درجہ دینااوراحناف کا عقیدہ بناناآپ کے قلم کا توکرشمہ ہوسکتاہے لیکن یہ احناف کا عقیدہ نہیں ہوسکتا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مجھے اس پر واقعتابہت تعجب ہوتاہے کہ احناف کے نزدیک خبر واحد سے بھی عقیدہ ثابت نہیں ہوتااوریار لوگ قصے کہانیوں سے احناف کے عقائد کا اثبات کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ محض واقعات ہیں ۔یہ سچ بھی ہوسکتے ہیں اورغلط بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کو عقیدہ کا درجہ دینااوراحناف کا عقیدہ بناناآپ کے قلم کا توکرشمہ ہوسکتاہے لیکن یہ احناف کا عقیدہ نہیں ہوسکتا۔



فضائل اعمال میں جو من گھڑت اور بیہودہ واقعات درج ہیں - ان کو نکال کیوں نہیں دیا جاتا - اگر بابوں نے غلط لکھ دیا ہے تو اس کو تحفظ دینے کے بجانے اس کا رد کرنا چاہیے - لکن تبلیغی جماعت ابھی بھی اپنی بغلوں میں اس کتاب کو دبائے درس وتدریس میں مشغول ہے

کیا یہ والے عقائد اسلام میں ہیں​
کیا یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم​
دشمن نہیں​
کوئی بھی​

اہلحدیث ھو
دیوبندی ھو
بریلوی ھو


کوئی بھی بزرگ اگر کوئی ایسی بات کرے گا جو قرآن یا صحیح احادیث
سے ٹکرا ے گی رد کر دی جا ے گی



وارننگ:

لولی آل ٹائم آپ سے گزارش ہے کہ الفاظ کا استعمال احتیاط سے کریں۔ اس بار تدوین کردی گئی ہے۔ آئندہ ایسے الفاظ پر مشتمل پوسٹ کو موڈریٹ کیا جاتا رہے گا۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
ثانیاً: احناف کے نزدیک خبر واحد - خواہ وہ صحیح بخاری کی روایت ہی کیوں نہ ہو ۔ ظنی ہے، لہٰذا لہٰذا اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو سکتا، نہ قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ لیکن جب یہ حضرات ضعیف احادیث سے اصول (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل ہو سکتا ہے) کے نام پر عقیدے بنانے لگیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ کیا فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ اور خوابوں وغیرہ سے عقیدہ کے مسائل ثابت نہیں کیے گئے؟؟؟ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُ‌هُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ٣٦ ﴾ ... سورة يونس
اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا یہ جو کچھ کررہے ہیں یقیناً اللہ کو سب خبر ہے (36)

مجھے اس پر واقعتابہت تعجب ہوتاہے کہ احناف کے نزدیک خبر واحد سے بھی عقیدہ ثابت نہیں ہوتااوریار لوگ قصے کہانیوں سے احناف کے عقائد کا اثبات کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ محض واقعات ہیں ۔یہ سچ بھی ہوسکتے ہیں اورغلط بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کو عقیدہ کا درجہ دینااوراحناف کا عقیدہ بناناآپ کے قلم کا توکرشمہ ہوسکتاہے لیکن یہ احناف کا عقیدہ نہیں ہوسکتا۔
جمشید بھائی آپ سمجھے نہیں ۔
لفظ ’’متواتر‘‘ تو ایک بہانہ ہے انکار حدیث کا ۔
جوحدیث من کو نہیں بھائی پٹ سے کہہ دیا کہ یہ خبر واحد ہے اس لئے اس سے فرض ثابت نہیں ہوتا یا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔
لیکن نام نہاد بزرگوں نے کوئی بات کی اور وہ پسند آگئی تو جھٹ سے اس کی تائید میں کوئی بے سر پیر کے روایت تلاش کرلی اور اسے کافی سمجھ لیا گرچہ وہ متواتر تو دور کی بات خبرا واحد بھی ثابت نہ ہو بلکہ خود ساختہ اور من گھڑت ہو۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
اگر ایک عام شخص صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں احادیث پڑھ کر عمل کرتا رہتا ہے لیکن وہ حدیث ضعیف ہو تو کیا اس کا یہ عمل باطل ہو جائے گا اور قیامت کے دن اس کو سزا ملے گی؟ ازراہ کرم تفصیلی جواب سے مطلع فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے مابین ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک فضائل اعمال سے متعلق ضعیف احادیث پر تین شرائط کی بنیاد پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
1۔ حدیث میں شدید نوعیت کا ضعف نہ پایا جاتا ہو۔
2۔ حدیث کو کسی اصل حدیث کے تحت درج کیا جائے (جو کہ صحیح ہو) اور اس پر عمل کیا جاتا ہو۔
3۔ عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت شدہ ہونے پر یقین نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔ (تدریب الراوی ج 1 ص 298-299 اور فتح المغیث ج 1 ص 268)
اگر کوئی شخص غلطی سے ضعیف حدیث پر عمل کرتا رہا ہےلیکن وہ عمل دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے تو وہ اللہ کے ہا مقبول وماجور ہے،اور اگر وہ عمل دیگر احادیث سے ثابت نہ ہو تو جہالت کی بنیاد پران شاء اللہ اس کا وہ عمل اللہ کے ہاں قابل معافی ہے۔کیونکہ حدیث نبویﷺ ہے:​
’’ إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه ‘‘
اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی سے، بھول کر، یا مجبور ہو کر کیے گئے اعمال سے در گزر کر لیا ہے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتویٰ​
 
Top