گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
ضعیف حدیث
"ضعیف" کی تعریف
لغوی اعتبار سے "ضعیف"، "قوی" کا متضاد ہے یعنی کمزور۔ کمزوری جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور معنوی بھی۔ یہاں معنوی کمزوری مراد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں ضعیف وہ حدیث ہے جس میں حسن حدیث کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں:
ضعیف حدیث کے درجاتو کل ما عن رتبة الحسن قصرہر وہ حدیث جو حسن کے رتبے سے کم ہو، وہ ضعیف حدیث ہے اور اس کی کثیر اقسام ہیں۔
فهو الضعيف و هو اقسام کثر
جیسا کہ صحیح حدیث کے درجات میں فرق ہے، اسی طرح راویوں کی کمزوری کی شدت اور کمی کے باعث ضعیف حدیث کے درجات میں بھی فرق ہے۔ اس میں ضعیف، بہت زیادہ ضعیف، ضعیف ترین، منکر اور موضوع احادیث شامل ہیں۔ موضوع ( یعنی گھڑی ہوئی جعلی حدیث) کا درجہ بدترین ہے۔ (علوم الحدیث ص 89)
کمزور ترین اسناد
جیسا کہ صحیح حدیث کی بحث میں ہم صحیح ترین اسناد بیان کر چکے ہیں، اسی طرح ضعیف کی بحث میں اہل علم نے ضعیف ترین اسناد بیان کی ہیں جنہیں "اوھی الاسانید" کہا جاتا ہے۔ حاکم نیشاپوری نے ان کا ذکر کیا ہے۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 71-72) اوھی الاسانید میں سب سے بڑی وہ ہیں جو کہ بعض صحابہ یا بعض ممالک یا بعض شہروں سے متعلق ہیں۔ ہم حاکم کی کتاب سے ان کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:
ضعیف حدیث کی مثالیں٭ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب کمزور ترین سند: صدقۃ بن موسی الدقیقی—فرقد صبخی—مرۃ الطیب—ابوبکر۔
٭ اہل شام کی کمزور ترین سند: محمد بن قیس المصلوب—عبیداللہ بن زحر—علی بن یزید— قاسم—ابو امامہ
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کمزور ترین سند: سدی صغیر محمد بن مروان الکلبی—ابو صالح—ابن عباس۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ سلسلہ کذب ہے نہ کہ سلسلہ ذھب (یعنی یہ سونے کی نہیں بلکہ جھوٹ کی زنجیر ہے۔) (دیکھیے تدریب الراوی ج 1 ص 181)
امام ترمذی حکیم الاثرم—ابی تمیمہ الھجیمی—ابوھریرہ—سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے کسی عورت سے حالت حیض میں یا غیر فطری مقام سے ازدواجی تعلقات قائم کیے یا وہ کسی کاہن کے پاس گیا تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمد پر نازل ہوئی۔"
امام ترمذی یہ سند بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہم سوائے اس سند کے اس حدیث کی کسی اور سند سے واقف نہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اس سند میں حکیم الاثرم ضعیف راوی ہیں۔ امام بخاری نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ "ان میں کمزوری پائی جاتی ہے۔"
نوٹ: بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔
اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کی سند بہت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بات بالکل غلط ہوتی ہے۔ اس صورت میں اہل علم نے درایت کے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں اس حدیث کے متن کا تجزیہ کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے۔
ضعیف حدیث کی روایت کا حکم
اہل حدیث کے نزدیک چند شرائط کی پابندی کے ساتھ ضعیف احادیث کو روایت کرنا اور اس کی اسناد بیان کرتے ہوئے اس حدیث کے ضعف کو بیان نہ کرنا جائز ہے۔ ایسا موضوع احادیث میں نہیں ہے کیونکہ انہیں کے جعلی پن کو بیان کیے بغیر انہیں روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ضعیف حدیث کو روایت کرنے کی شرائط یہ ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے کہ وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، اور قصے وغیرہ بیان کرنے کے لئے ان حدیثوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں سفیان ثوری، عبدالرحمٰن مہدی اور احمد بن حنبل جیسے ماہرین حدیث نے بھی نرمی برتی ہے۔ (علوم الحدیث ص 93 اور الکفایۃ ص 33)٭ یہ عقائد سے متعلق نہ ہوں۔
٭ یہ احکام شرعیہ سے متعلق نہ ہوں جن کے ذریعے حلال و حرام کا تعین کیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں عام لوگوں کے لئے چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں اور ضعیف احادیث کی بنیاد پر بہت سے فتنے بھی کھڑے کئے گئے ہیں، اس وجہ سے اہل علم کو اب احادیث کا صحیح و ضعیف ہونا بیان کرنا چاہیے۔نوٹ: اس زمانے کے محدثین نے حدیث کا ضعف بتانے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس نہیں کی کہ ان کے قارئین سند دیکھ کر حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل اپنے زمانے کے اعتبار سے درست تھا مگر موجودہ دور میں اس کی وجہ سے بڑے فتنے پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر نوافل کے فضائل ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگ نفلی عبادات میں اتنے مشغول ہوئے کہ انہوں نے بیوی بچوں کی کفالت جیسے فرض کو نظر انداز کر دیا۔
اس قسم کی احادیث کی روایت کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ یہ نہ کہا جائے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی"، بلکہ یہ کہا جائے کہ "حضور سے اس طرح سے روایت کیا گیا" یا "ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب یہ بات پہنچی ہے" یا اسی قسم کی کوئی اور بات۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ حدیث کے ضعف کو جانتے بوجھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم
اہل علم کے مابین ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک فضائل اعمال سے متعلق ضعیف احادیث پر تین شرائط کی بنیاد پر عمل کرنا مستحب ہے۔ ان کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
ضعیف حدیث پر مشتمل مشہور تصانیف٭ حدیث میں شدید نوعیت کا ضعف نہ پایا جاتا ہو۔
٭ حدیث کو کسی اصل حدیث کے تحت درج کیا جائے (جو کہ صحیح ہو) اور اس پر عمل کیا جاتا ہو۔
٭ عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت شدہ ہونے پر یقین نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔ (تدریب الراوی ج 1 ص 298-299 اور فتح المغیث ج 1 ص 268)
٭ ایسی کتب جن میں ضعفاء (ضعیف راویوں) کا ذکر کیا گیا ہے جیسے ابن حبان کی کتاب الضعفاء، ذہبی کی میزان الاعتدال وغیرہ۔ ان کتب میں ان ضعیف احادیث کی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو اپنے راویوں کی کمزوری کے باعث ضعیف ہیں۔
٭ ایسی کتب جو ضعیف احادیث کی کسی خاص قسم سے متعلق ہوں جیسے کتب مراسیل، کتب علل، کتب مدرج وغیرہ۔ ابو داؤد کی کتاب المراسیل اور دارقطنی کی کتب العلل اس کی مثالیں ہیں۔
ربط