• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف حدیث

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ضعیف حدیث

"ضعیف" کی تعریف
لغوی اعتبار سے "ضعیف"، "قوی" کا متضاد ہے یعنی کمزور۔ کمزوری جسمانی بھی ہو سکتی ہے اور معنوی بھی۔ یہاں معنوی کمزوری مراد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں ضعیف وہ حدیث ہے جس میں حسن حدیث کی شرائط مکمل طور پر نہ پائی جاتی ہوں۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں:
و کل ما عن رتبة الحسن قصر
فهو الضعيف و هو اقسام کثر
ہر وہ حدیث جو حسن کے رتبے سے کم ہو، وہ ضعیف حدیث ہے اور اس کی کثیر اقسام ہیں۔
ضعیف حدیث کے درجات
جیسا کہ صحیح حدیث کے درجات میں فرق ہے، اسی طرح راویوں کی کمزوری کی شدت اور کمی کے باعث ضعیف حدیث کے درجات میں بھی فرق ہے۔ اس میں ضعیف، بہت زیادہ ضعیف، ضعیف ترین، منکر اور موضوع احادیث شامل ہیں۔ موضوع ( یعنی گھڑی ہوئی جعلی حدیث) کا درجہ بدترین ہے۔ (علوم الحدیث ص 89)
کمزور ترین اسناد
جیسا کہ صحیح حدیث کی بحث میں ہم صحیح ترین اسناد بیان کر چکے ہیں، اسی طرح ضعیف کی بحث میں اہل علم نے ضعیف ترین اسناد بیان کی ہیں جنہیں "اوھی الاسانید" کہا جاتا ہے۔ حاکم نیشاپوری نے ان کا ذکر کیا ہے۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 71-72) اوھی الاسانید میں سب سے بڑی وہ ہیں جو کہ بعض صحابہ یا بعض ممالک یا بعض شہروں سے متعلق ہیں۔ ہم حاکم کی کتاب سے ان کی کچھ مثالیں بیان کرتے ہیں:
٭ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب کمزور ترین سند: صدقۃ بن موسی الدقیقی—فرقد صبخی—مرۃ الطیب—ابوبکر۔
٭ اہل شام کی کمزور ترین سند: محمد بن قیس المصلوب—عبیداللہ بن زحر—علی بن یزید— قاسم—ابو امامہ
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کمزور ترین سند: سدی صغیر محمد بن مروان الکلبی—ابو صالح—ابن عباس۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ سلسلہ کذب ہے نہ کہ سلسلہ ذھب (یعنی یہ سونے کی نہیں بلکہ جھوٹ کی زنجیر ہے۔) (دیکھیے تدریب الراوی ج 1 ص 181)
ضعیف حدیث کی مثالیں
امام ترمذی حکیم الاثرم—ابی تمیمہ الھجیمی—ابوھریرہ—سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے کسی عورت سے حالت حیض میں یا غیر فطری مقام سے ازدواجی تعلقات قائم کیے یا وہ کسی کاہن کے پاس گیا تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمد پر نازل ہوئی۔"
امام ترمذی یہ سند بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہم سوائے اس سند کے اس حدیث کی کسی اور سند سے واقف نہیں ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اس سند میں حکیم الاثرم ضعیف راوی ہیں۔ امام بخاری نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ان کے متعلق لکھا ہے کہ "ان میں کمزوری پائی جاتی ہے۔"
نوٹ: بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔

اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کی سند بہت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بات بالکل غلط ہوتی ہے۔ اس صورت میں اہل علم نے درایت کے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں اس حدیث کے متن کا تجزیہ کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے۔

ضعیف حدیث کی روایت کا حکم
اہل حدیث کے نزدیک چند شرائط کی پابندی کے ساتھ ضعیف احادیث کو روایت کرنا اور اس کی اسناد بیان کرتے ہوئے اس حدیث کے ضعف کو بیان نہ کرنا جائز ہے۔ ایسا موضوع احادیث میں نہیں ہے کیونکہ انہیں کے جعلی پن کو بیان کیے بغیر انہیں روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ضعیف حدیث کو روایت کرنے کی شرائط یہ ہیں:
٭ یہ عقائد سے متعلق نہ ہوں۔
٭ یہ احکام شرعیہ سے متعلق نہ ہوں جن کے ذریعے حلال و حرام کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، اور قصے وغیرہ بیان کرنے کے لئے ان حدیثوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں سفیان ثوری، عبدالرحمٰن مہدی اور احمد بن حنبل جیسے ماہرین حدیث نے بھی نرمی برتی ہے۔ (علوم الحدیث ص 93 اور الکفایۃ ص 33)
نوٹ: اس زمانے کے محدثین نے حدیث کا ضعف بتانے کی ضرورت اس وجہ سے محسوس نہیں کی کہ ان کے قارئین سند دیکھ کر حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل اپنے زمانے کے اعتبار سے درست تھا مگر موجودہ دور میں اس کی وجہ سے بڑے فتنے پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر نوافل کے فضائل ضعیف احادیث کی بنیاد پر لوگ نفلی عبادات میں اتنے مشغول ہوئے کہ انہوں نے بیوی بچوں کی کفالت جیسے فرض کو نظر انداز کر دیا۔
موجودہ دور میں عام لوگوں کے لئے چونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں اور ضعیف احادیث کی بنیاد پر بہت سے فتنے بھی کھڑے کئے گئے ہیں، اس وجہ سے اہل علم کو اب احادیث کا صحیح و ضعیف ہونا بیان کرنا چاہیے۔
اس قسم کی احادیث کی روایت کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ یہ نہ کہا جائے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی"، بلکہ یہ کہا جائے کہ "حضور سے اس طرح سے روایت کیا گیا" یا "ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب یہ بات پہنچی ہے" یا اسی قسم کی کوئی اور بات۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ حدیث کے ضعف کو جانتے بوجھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم
اہل علم کے مابین ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک فضائل اعمال سے متعلق ضعیف احادیث پر تین شرائط کی بنیاد پر عمل کرنا مستحب ہے۔ ان کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
٭ حدیث میں شدید نوعیت کا ضعف نہ پایا جاتا ہو۔
٭ حدیث کو کسی اصل حدیث کے تحت درج کیا جائے (جو کہ صحیح ہو) اور اس پر عمل کیا جاتا ہو۔
٭ عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت شدہ ہونے پر یقین نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔ (تدریب الراوی ج 1 ص 298-299 اور فتح المغیث ج 1 ص 268)
ضعیف حدیث پر مشتمل مشہور تصانیف
٭ ایسی کتب جن میں ضعفاء (ضعیف راویوں) کا ذکر کیا گیا ہے جیسے ابن حبان کی کتاب الضعفاء، ذہبی کی میزان الاعتدال وغیرہ۔ ان کتب میں ان ضعیف احادیث کی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو اپنے راویوں کی کمزوری کے باعث ضعیف ہیں۔
٭ ایسی کتب جو ضعیف احادیث کی کسی خاص قسم سے متعلق ہوں جیسے کتب مراسیل، کتب علل، کتب مدرج وغیرہ۔ ابو داؤد کی کتاب المراسیل اور دارقطنی کی کتب العلل اس کی مثالیں ہیں۔
ربط
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔۔۔مفید معلومات ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بہت اچھی معلومات ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
ان میں ایک چیز کا مزید اضافہ کر لینا چاہیے۔
کسی حدیث کی صحت و ضعف کا حکم قطعی نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔ کیوں کہ ضعیف راوی بلکہ کذاب راوی بھی بسا اوقات صحیح روایت کر دیتا ہے (میری رائے یہ ہے کہ جس میں ضعف کم درجے کا ہو وہ تو اکثر ہی صحیح بیان کرتا ہے) اسی طرح ثقہ راوی بھی بسا اوقات غلطی کر جاتا ہے۔
علامہ عبد الحئی لکھنویؒ فرماتے ہیں:۔
حيث قال اهل الحديث هذا حديث صحيح او حسن فمرداهم فيما ظهر لنا عملا بظاهر الاسناد لا انه مقطوع بصحته في نفس الامر لجواز الخطأ والنسيان على الثقة
وكذا قولهم هذا حديث ضعيف فمرداهم انه لم تظهر لنا فيه شروط الصحة لا انه كذب في نفس الامر لجواز صدق الكاذب واصابة من هو كثير الخطأ هذا هو القول الصحيح الذي عليه اكثر اهل العلم كذا في شرح الالفية للعراقي وغيره


بندہ کی اس سلسلے میں رائے یہ ہے کہ جس حدیث میں راوی کے اعتبار سے ضعف کم درجے کا ہو اس کو ترک کرنے کے بجائے اس میں حتی الامکان تطبیق و تاویل کرنی چاہیے۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
بہت اچھی معلومات ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
ان میں ایک چیز کا مزید اضافہ کر لینا چاہیے۔
کسی حدیث کی صحت و ضعف کا حکم قطعی نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔ کیوں کہ ضعیف راوی بلکہ کذاب راوی بھی بسا اوقات صحیح روایت کر دیتا ہے (میری رائے یہ ہے کہ جس میں ضعف کم درجے کا ہو وہ تو اکثر ہی صحیح بیان کرتا ہے) اسی طرح ثقہ راوی بھی بسا اوقات غلطی کر جاتا ہے۔


ضعف کم درجے کا اس سے مراد کیا ہے؟ کونسا ضعف ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ضعف کم درجے کا اس سے مراد کیا ہے؟ کونسا ضعف ؟
محدثین نے ضعیف راوی کے لیے مختلف الفاظ وضع کیے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت زیادہ ضعف کو ظاہر کرتے ہیں جیسے کذاب، وضاع اور بعض کم ترین ضعف کو جیسے لیس بالقوی اور بعض درمیانی درجے کے ضعف کو واضح کرتے ہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بندہ کی اس سلسلے میں رائے یہ ہے کہ جس حدیث میں راوی کے اعتبار سے ضعف کم درجے کا ہو اس کو ترک کرنے کے بجائے اس میں حتی الامکان تطبیق و تاویل کرنی چاہیے۔
واللہ اعلم

محدثین نے ضعیف راوی کے لیے مختلف الفاظ وضع کیے ہیں۔ ان میں سے بعض بہت زیادہ ضعف کو ظاہر کرتے ہیں جیسے کذاب، وضاع اور بعض کم ترین ضعف کو جیسے لیس بالقوی اور بعض درمیانی درجے کے ضعف کو واضح کرتے ہیں۔
جی محترم بھائی میرے خیال میں یہ ایک فقہی اور سوچ کا اختلاف ہے جو غالبا احناف کے علماء اور اہل حدیث کے علماء میں پایا جاتا ہے
احناف وہی کہتے ہیں جو آپ کہ رہے ہیں کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق دیں گے اگرچہ ایک صحیح اور دوسری ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور پھر ضعیف حدیث اگر مشہور (احناف والی) ہے تو پھر تو لازما اسکو دیکھنا ہو گا اب اسکے لئے چاہے صحیح حدیث میں تاویل کرنی پڑے
اہل حدیث اور ان سے مطابقت رکھنے والے محدثین کے نزدیک چونکہ ہم کو جتنا مکلف بنایا گیا ہے ہم اس کے جواب دہ ہیں اور عقل کا جتنا استعمال کر کے کسی چیز کو درست سمجھ سکتے ہیں اتنا ہی ہمارے لئے فرض ہے پس ہم عقلی طور پر صحیح اور ضعیف حدیث کا پتا چل جانے کے بعد ان احتمالات کی فکر نہیں کرتے کہ پتا نہیں یہ معلومات درست بھی ہیں کہ نہیں جیسے قاضی فیصلہ کرتے وقت موجود اور علمی طور پر ثقہ گواہیوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرتا ہے دوسرے احتمالات کی پروا نہیں کرتا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث میں بھی یہی بات بتائی گئی ہے کہ کوئی مجھ سے اپنی زمان کی وجہ سے غلط فیصلہ کروائے گا تو اسکا انجام کیا ہو گا
پس میرے خیال میں یہ سوچوں کا فرق ہے جس پر ہر گروہ کے پاس اپنے دلائل ہیں آپ کے اپس بھی ہوں گے جو آپ قارئین کو بھی بتائیں مگر نہ ہم آپ پر زبردستی کر سکتے ہیں اور نہ آپ ہم پر- البتہ ایک دوسرے کی نیتوں پر شک نہیں کرنا چاہئے پس ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی معقول وجہ ہو گی اپنے نظریے کی واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جی محترم بھائی میرے خیال میں یہ ایک فقہی اور سوچ کا اختلاف ہے جو غالبا احناف کے علماء اور اہل حدیث کے علماء میں پایا جاتا ہے
احناف وہی کہتے ہیں جو آپ کہ رہے ہیں کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق دیں گے اگرچہ ایک صحیح اور دوسری ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور پھر ضعیف حدیث اگر مشہور (احناف والی) ہے تو پھر تو لازما اسکو دیکھنا ہو گا اب اسکے لئے چاہے صحیح حدیث میں تاویل کرنی پڑے
اہل حدیث اور ان سے مطابقت رکھنے والے محدثین کے نزدیک چونکہ ہم کو جتنا مکلف بنایا گیا ہے ہم اس کے جواب دہ ہیں اور عقل کا جتنا استعمال کر کے کسی چیز کو درست سمجھ سکتے ہیں اتنا ہی ہمارے لئے فرض ہے پس ہم عقلی طور پر صحیح اور ضعیف حدیث کا پتا چل جانے کے بعد ان احتمالات کی فکر نہیں کرتے کہ پتا نہیں یہ معلومات درست بھی ہیں کہ نہیں جیسے قاضی فیصلہ کرتے وقت موجود اور علمی طور پر ثقہ گواہیوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرتا ہے دوسرے احتمالات کی پروا نہیں کرتا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث میں بھی یہی بات بتائی گئی ہے کہ کوئی مجھ سے اپنی زمان کی وجہ سے غلط فیصلہ کروائے گا تو اسکا انجام کیا ہو گا
پس میرے خیال میں یہ سوچوں کا فرق ہے جس پر ہر گروہ کے پاس اپنے دلائل ہیں آپ کے اپس بھی ہوں گے جو آپ قارئین کو بھی بتائیں مگر نہ ہم آپ پر زبردستی کر سکتے ہیں اور نہ آپ ہم پر- البتہ ایک دوسرے کی نیتوں پر شک نہیں کرنا چاہئے پس ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی معقول وجہ ہو گی اپنے نظریے کی واللہ اعلم
محترم عبدہ بھائی مجھے اس سلسلے میں احناف کا موقف واضح نہیں معلوم۔ یہ میری اپنی رائے ہے۔ کسی حدیث یعنی نبی ﷺ کی کسی بات کو ہم اس بنا پر چھوڑ دیں کہ اس کے راوی میں تھوڑا سا ضعف ہے اور وہ بھی ہماری معلومات کی حد تک۔ کوئی لازمی و قطعی بات نہیں معلوم۔ مجھے یہ بہت عجیب محسوس ہوتا ہے اس لیے میں اس کے بجائے یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تطبیق کر لی جائے تاکہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل بھی ہو جائے اور حدیث شریف کو بھی کم از کم رد کرنا پڑے۔ واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم عبدہ بھائی مجھے اس سلسلے میں احناف کا موقف واضح نہیں معلوم۔ یہ میری اپنی رائے ہے۔ کسی حدیث یعنی نبی ﷺ کی کسی بات کو ہم اس بنا پر چھوڑ دیں کہ اس کے راوی میں تھوڑا سا ضعف ہے اور وہ بھی ہماری معلومات کی حد تک۔ کوئی لازمی و قطعی بات نہیں معلوم۔ مجھے یہ بہت عجیب محسوس ہوتا ہے اس لیے میں اس کے بجائے یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تطبیق کر لی جائے تاکہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل بھی ہو جائے اور حدیث شریف کو بھی کم از کم رد کرنا پڑے۔ واللہ اعلم
جزاک اللہ محترم بھائی میں نے یہ چیز اوپر لکھی ہے کہ یہ بھی ایک نظریہ کا فرق ہے اور لوگوں کی معلومات اور مشاہدہ اور رجحانات کی بنا پر اس طرح کے نظریے بنتے ہیں میں اس معاملے میں قطعی حکم یہ نہیں لگاتا کہ میرا نظریہ لازمی درست ہے البتہ مجھے جتنا مکلف بنایا گیا ہے اس بارے اگر مجھ سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا تو میں آج اپنے دل کو مطمئن پاتا ہوں کہ میں لا جواب نہیں ہوں گا
اصل میں میرا دل یہ کہتا ہے اور جیسے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور عقلی منطق کا حوالہ بھی اوپر دیا ہے کہ اگر ہم ضعیف حدیث اور صحیح حدیث کو تطبیق دینے لگے تو پھر ضعیف حدیث کے کم از کم درجے کو متعین کون کرے گا یعنی کتنا ضعف قابل قبول ہو گا جیسا کہ آپ نے ایک معیار بتایا ہے کہ موضؤع وغیرہ کو چھوڑ کر باقی کو قبول کریں گے (قبول کرنا میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ قبول کرنے کے بعد ہی تو تطبیق دی جا سکتی ہے)
میں نے ابھی تک محدثین کے بارے یہ سنا ہے کہ انھوں نے اس کا کم از کم معیار مقرر کیا ہو اور مجھے تو یہ بات اس لئے بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ محدثین نے کم از کم کا معیار ہی تو حسن حدیث مقرر کیا ہے پھر ہم اس معیار کو کم کس عقلی دلیل پر کر رہے ہیں جو عقلی دلیل آپ نے دی ہے اس پر میں نے اپنے اشکال اوپر پوسٹ نمبر6 میں لکھے ہیں اور آپ نے میرے موقف پر جو اشکالات بتائے ہیں اس کی وضآحت کی ہے اس لئے میرا دل ابھی اسی بات پر مطمئن ہے باقی ہم اپنے علماء کرام سے پوچھ سکتے ہیں
محترم خضر حیات بھائی محترم انس بھائی
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاک اللہ محترم بھائی میں نے یہ چیز اوپر لکھی ہے کہ یہ بھی ایک نظریہ کا فرق ہے اور لوگوں کی معلومات اور مشاہدہ اور رجحانات کی بنا پر اس طرح کے نظریے بنتے ہیں میں اس معاملے میں قطعی حکم یہ نہیں لگاتا کہ میرا نظریہ لازمی درست ہے البتہ مجھے جتنا مکلف بنایا گیا ہے اس بارے اگر مجھ سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا تو میں آج اپنے دل کو مطمئن پاتا ہوں کہ میں لا جواب نہیں ہوں گا
اصل میں میرا دل یہ کہتا ہے اور جیسے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور عقلی منطق کا حوالہ بھی اوپر دیا ہے کہ اگر ہم ضعیف حدیث اور صحیح حدیث کو تطبیق دینے لگے تو پھر ضعیف حدیث کے کم از کم درجے کو متعین کون کرے گا یعنی کتنا ضعف قابل قبول ہو گا جیسا کہ آپ نے ایک معیار بتایا ہے کہ موضؤع وغیرہ کو چھوڑ کر باقی کو قبول کریں گے (قبول کرنا میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ قبول کرنے کے بعد ہی تو تطبیق دی جا سکتی ہے)
میں نے ابھی تک محدثین کے بارے یہ سنا ہے کہ انھوں نے اس کا کم از کم معیار مقرر کیا ہو اور مجھے تو یہ بات اس لئے بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ محدثین نے کم از کم کا معیار ہی تو حسن حدیث مقرر کیا ہے پھر ہم اس معیار کو کم کس عقلی دلیل پر کر رہے ہیں جو عقلی دلیل آپ نے دی ہے اس پر میں نے اپنے اشکال اوپر پوسٹ نمبر6 میں لکھے ہیں اور آپ نے میرے موقف پر جو اشکالات بتائے ہیں اس کی وضآحت کی ہے اس لئے میرا دل ابھی اسی بات پر مطمئن ہے باقی ہم اپنے علماء کرام سے پوچھ سکتے ہیں
محترم خضر حیات بھائی محترم انس بھائی
جی بھائی! میں بھی کوئی خود کو لازمی صحیح قرار نہیں دیتا اور میں جانتا ہوں کہ یہ ایک ہی چیز کو دو انداز سے دیکھنے کا فرق ہے۔
مجھے یہ طرز طبعی طور پر زیادہ اچھا لگتا ہے۔ محدثین کے انداز کا بھی تھوڑا بہت علم ہے۔ اصل میں میرا مطالعہ زیادہ نہیں ہے لیکن مشکاۃ وغیرہ کی جو شروحات پڑھی ہیں ان میں حدیث کے ضعف کی بنسبت ترجیح و تطبیق زیادہ دیکھی ہے حالاں کہ ان میں علامہ خطابی اور ملا علی قاری جیسے بڑے علماء بھی ہیں۔ اسی حدیث کو جب ہم دوسرے طور سے دیکھیں تو علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہوتا ہے لیکن یہ محدثین اس کے ضعف پر بات نہیں کرتے۔
البتہ یہ ہے کہ تطبیق دیتے وقت ایک کو اصل مان کر دوسرے میں تاویل بھی کی جاتی ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو زیادہ صحیح ہو اسے اصل مان کر ضعیف میں تاویل کر دی جائے۔ یا الگ الگ معانی پر محمول کر لیا جائے۔
بے شمار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک حدیث کو ضعیف قرار دے کر چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اسی مضمون کی کوئی صحیح سند مل گئی۔ تو ایسی صورت میں جو ہم نے ضعف کا حکم لگایا تھا وہ تو ختم ہو گیا اور تعارض اور مسئلہ واپس لوٹ آیا۔
پھر ایک ہی حدیث بعض محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے اور ہم انہیں جمہور کہنے کی وجہ سے ترجیح دے رہے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دیگر بعض محدثین کے نزدیک تو وہ صحیح ہوتی ہے تو ان کے حساب سے مسئلہ کا حل ہمارے پاس نہیں ہوتا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہوتا ہے لیکن یہ محدثین اس کے ضعف پر بات نہیں کرتے۔
پھر ایک ہی حدیث بعض محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے اور ہم انہیں جمہور کہنے کی وجہ سے ترجیح دے رہے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دیگر بعض محدثین کے نزدیک تو وہ صحیح ہوتی ہے تو ان کے حساب سے مسئلہ کا حل ہمارے پاس نہیں ہوتا۔
محترم بھائی میرے خیال میں یہاں محل نزاع نہیں ہے کیونکہ ہماری بحث اس پر ہے جسکے بارے ہمارا موقف واضح ہو چکا ہو کہ یہ ضعیف ہے البتہ جب ایک حدیث کو کچھ صحیح کہ رہے ہوتے ہیں اور دوسرے ضعیف تو وہ بحث یہاں نہیں ہے اسکے لئے ہمیں پہلے انکے اختلاف میں فیصلہ کرنا ہو گا کیسے کرنا ہو گا اسکی بحث علیحدہ ہے

البتہ یہ ہے کہ تطبیق دیتے وقت ایک کو اصل مان کر دوسرے میں تاویل بھی کی جاتی ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو زیادہ صحیح ہو اسے اصل مان کر ضعیف میں تاویل کر دی جائے۔ یا الگ الگ معانی پر محمول کر لیا جائے۔
محترم بھائی تطبیق میں مطلقا ایسا نہیں کیا جاتا کہ جو صحیح ہو اسکو اصل مان کر دوسرے کو اس کے موافق بنایا جائے
اگر ایسی بات ہے تو زیادہ تر ہمارا اور آپ کا اختلاف ختم ہو جائے گا کیونکہ آپ نے بھی دیکھا ہو گ کہ اہل حدیث عالم جب کسی ضعیف حدیث کا رد کر رہ ہوتا ہے حتی کہ موضوع کا رد کر رہا ہوتا ہے جیسے لولاک والی حدیث ہے تو کہتا ہے کہ اگر یہ صحیح بھی ہو تو اسکا معنی فلاں ہو گا
پس ہمارا زیادہ تر اس پر اعتراض نہیں ہوتا کہ ضعیف حدیث کو صحیح کے مطابق بدلنے کی شرط پر صحیح تسلیم کیا جائے بلکہ ہمیں اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس کو محض صحیح تصور کر لیا جائے ایسی صورت میں پھر جب آپ تطبیق دے رہے ہوتے ہیں تو تطبیق کے لئے خالی راجح مرجوح کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ مفہوم میں تبدیلی کر کے بھی تو تطبیق کی جا سکتی ہے تو اس وقت ہمیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں صحیح کے مفہوم کو تبدیل کر کے ضعیف کے موافق نہ بنا دیا جائے واللہ اعلم

بے شمار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک حدیث کو ضعیف قرار دے کر چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اسی مضمون کی کوئی صحیح سند مل گئی۔ تو ایسی صورت میں جو ہم نے ضعف کا حکم لگایا تھا وہ تو ختم ہو گیا اور تعارض اور مسئلہ واپس لوٹ آیا۔
محترم بھائی ایسی صورت میں بھی ہمارے والے موقف پر اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک علم نہیں ہوتا اس وقت تک آپ کے ہاں بھی جتنا علم ہوتا ہے اسی کے مطابق فیصلہ دیا جاتا ہے پس جب تعارض واپس لوٹے گا یعنی ضعیف کی سند مل جائے گی تو ہمارا عمل بھی اسی طرح تبدیل ہو جائے گا اور اسکی کافی مثالیں موجود ہیں بلکہ اسکے معکوس کی بھی مثالیں موجود ہیں واللہ اعلم
 
Top