عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس کو ’’بغور‘‘ پڑھیں ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر اور صرف اہلِ علم حضرات تبصرہ کریں شکریہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آجکل کے اہلِ حدیث کہلانے والوں سے جب سے واسطہ پڑھا ہے اس وقت سے ایک بات بڑی شدت سے محسوس ہوئی کہ احناف جو احادیث پیش کرتے ہیں ان کو آجکل کے اہلِ حدیث ’’ضعیف‘‘ کا فتویٰ لگا کر ’’رد‘‘ کر دیتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اختلافی مسئلہ میں جو وہ احادیث پیش کرتے ہیں وہ بھی ان کے اصول کے مطابق نہ صرف ضعیف بلکہ اکثر قرآنِ پاک اور صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں۔ عام مسلم چونکہ ان باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ دھوکہ میں آجاتے ہیں۔
حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ الحدیث۔(ابوداؤد) ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے حفظ کیا اور یاد رکھا“۔
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ الحدیث(احمد) ” جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
حدیث کے ضعف کے اسباب
اس کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے جو اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی ہیں وہ ہے ’’ضعیف راوی‘‘یا ’’مدلس راوی‘‘کی موجودگی۔
ضعیف راوی
تفہیم طلب بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل تحریر ہے اس میں موجود روات کی لڑی میں ایک راوی ضعیف (یا مدلس) ہے باقی سب ثقہ ہیں۔ اوپر ذکر ہوچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جھوٹ کی نسبت ’عمداً‘ کرنے والا جہنمی ہے۔ اگر ضعیف راوی نے جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی ہے تو اس کو روایت کرنے والے ’ثقہ‘ روات اور محدث کیا اس جرم کے مرتکب نہیں؟ جو محدث ایسی حدیث روایت کر رہا ہے اور ساتھ میں اس میں موجود راوی کی نشاندہی بھی کر رہا ہے وہ بدرجہ اولیٰ ’جان بوجھ‘ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جھوٹ لکھنے والا نہ ہوگا؟
میرا فہم
میرے خیال میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ’جان بوجھ‘ کر جھوٹ منسوب نہیں کر سکتا۔ ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ ایسی روایات جن میں ضعیف راوی کی نشان دہی کی گئی ہو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث سے استدلال لینے میں محتاط رہیں کہ مذکورہ راوی جان بوجھ کر تو جھوٹی بات نہیں کرے گا لیکن اس سے حدٰث بیان کرنے میں گڑبڑ کا امکان ہے۔ کیونکہ وہ قولی حدیث کو ’بالمعنیٰ‘ بیان کرنے میں غلطی کھا سکتا ہے اور مختلف احادیث کو ’ضم‘ کرسکتا ہے اور راوی کے ’تشریحی‘ کلمات کو حدیث کا حصہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی احادیث کے ’متون‘ پر توجہ دیں۔ اگر اسلامی اجتماعی سوچ کے مطابقچ ہوں تو قابل قبول وگرنہ کہا جائے گا کہ اس میں راوی سے ’سہو‘ ہؤا نہ یہ کہ راوی نے جھوٹ بولا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ضعیف رواۃ کی حقیقت
آجکل کے اہلِ حدیث کہلانے والوں سے جب سے واسطہ پڑھا ہے اس وقت سے ایک بات بڑی شدت سے محسوس ہوئی کہ احناف جو احادیث پیش کرتے ہیں ان کو آجکل کے اہلِ حدیث ’’ضعیف‘‘ کا فتویٰ لگا کر ’’رد‘‘ کر دیتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اختلافی مسئلہ میں جو وہ احادیث پیش کرتے ہیں وہ بھی ان کے اصول کے مطابق نہ صرف ضعیف بلکہ اکثر قرآنِ پاک اور صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں۔ عام مسلم چونکہ ان باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ دھوکہ میں آجاتے ہیں۔
حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ الحدیث۔(ابوداؤد) ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے حفظ کیا اور یاد رکھا“۔
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ الحدیث(احمد) ” جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
حدیث کے ضعف کے اسباب
اس کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے جو اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی ہیں وہ ہے ’’ضعیف راوی‘‘یا ’’مدلس راوی‘‘کی موجودگی۔
ضعیف راوی
تفہیم طلب بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل تحریر ہے اس میں موجود روات کی لڑی میں ایک راوی ضعیف (یا مدلس) ہے باقی سب ثقہ ہیں۔ اوپر ذکر ہوچکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جھوٹ کی نسبت ’عمداً‘ کرنے والا جہنمی ہے۔ اگر ضعیف راوی نے جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی ہے تو اس کو روایت کرنے والے ’ثقہ‘ روات اور محدث کیا اس جرم کے مرتکب نہیں؟ جو محدث ایسی حدیث روایت کر رہا ہے اور ساتھ میں اس میں موجود راوی کی نشاندہی بھی کر رہا ہے وہ بدرجہ اولیٰ ’جان بوجھ‘ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جھوٹ لکھنے والا نہ ہوگا؟
میرا فہم
میرے خیال میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ’جان بوجھ‘ کر جھوٹ منسوب نہیں کر سکتا۔ ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ ایسی روایات جن میں ضعیف راوی کی نشان دہی کی گئی ہو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث سے استدلال لینے میں محتاط رہیں کہ مذکورہ راوی جان بوجھ کر تو جھوٹی بات نہیں کرے گا لیکن اس سے حدٰث بیان کرنے میں گڑبڑ کا امکان ہے۔ کیونکہ وہ قولی حدیث کو ’بالمعنیٰ‘ بیان کرنے میں غلطی کھا سکتا ہے اور مختلف احادیث کو ’ضم‘ کرسکتا ہے اور راوی کے ’تشریحی‘ کلمات کو حدیث کا حصہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی احادیث کے ’متون‘ پر توجہ دیں۔ اگر اسلامی اجتماعی سوچ کے مطابقچ ہوں تو قابل قبول وگرنہ کہا جائے گا کہ اس میں راوی سے ’سہو‘ ہؤا نہ یہ کہ راوی نے جھوٹ بولا۔