فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
طالبان کے دور ميں منشيات پر پابندی؟ - کچھ حقائق
اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق 90 کی دہاہی ميں افغانستان اوپيم کی پيداوار میں دنيا ميں دوسرے نمبر پر تھا۔ صرف سال 1998 ميں 41،720 ايکٹر رقبے پر 1350 ميٹرک ٹن اوپيم گم کاشت کی گئ۔
سال 1988 میں افغانستان نے اقوام متحدہ کے ڈرگ کنونشن کے تحت منشيات کی روک تھام کے ايک معاہدے پر دستخط کيے تھے ليکن طالبان سميت کسی بھی سياسی دھڑے نے اس معاہدے پر عمل نہيں کيا۔ سال 1998 کے آخر تک طالبان کا کنٹرول افغانستان کے 80 فيصد علاقے پر تھا۔ جون 1998 ميں جلال آباد ميں 1 ٹن اوپيم کو نذر آتش کرنے کے علاوہ سرکاری سطح پر ايسا کوئ قدم نہيں اٹھايا گيا جس کے تحت مورفين يا ہيروئين بنانے والی کسی ليبارٹری، يا ہيروئين کی ترسيل کی کسی کھيپ يا منشيات کی سمگلنگ ميں ملوث کسی گروہ کو مستقل طور پر اس مذموم کاروبار سے روکا جاتا۔ اقوام متحدہ اور کئ نجی و سرکاری تنظيموں کی بے شمار رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ يورپ ميں سمگل کی جانے والی 80 فيصد منشيات افغانستان ميں تيار کی گئ تھی۔ سال 1998 کے آخر تک افغانستان ميں پيدا کی جانے والی 95 فيصد منشيات طالبان کے زير اثر 80 فيصد علاقوں ميں تيار کيا جاتی تھی۔
افغانستان کی مختلف ليبارٹريوں ميں تيار کی جانے والی ہيروئين اور مورفين کی تياری کے ليے ايسڈيک اينہائيڈرئيڈ نامی عنصر کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے جو کہ عام طور پر يورپ، چين اور بھارت سے حاصل کيا جاتا ہے۔ منشيات کی ترسيل کے ليے افغانستان سے ملحقہ پاکستان، ايران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحديں استعمال کی جاتی تھيں۔افغانستان ميں منشيات کے اس کاروبار کے منفی اثرات براہراست ان علاقوں ميں منشيات کی آسان دستيابی اور کھلے عام استعمال کی صورت ميں نمودار ہوۓ۔
منشيات کے حوالے سے طالبان کی پاليسی يہ تھی کہ اس کی روک تھام صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اقوام متحدہ نہ صرف طالبان کی حکومت کو سياسی سطح پر تسليم کرے بلکہ جن علاقوں ميں پوست کی کاشت کی جاتی ہے وہاں کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے مناسب فنڈز مہيا کيے جائيں۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کی جانب سے يہ اعلان کيا جا چکا تھا کہ منشيات کا استعمال اور اس کی پيداوار سے منسلک تمام کاروبار اسلام اور شريعت کے قوانين کے خلاف ہيں۔
سال 1997 ميں يو – اين – ڈی – سی – پی کے ڈائريکٹر آرلاچی نے طالبان کے ليڈر ملا عمر کے نام ايک خط لکھا تھا جس ميں ان سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جن علاقوں ميں کسانوں کو متبادل کاروبار کی سہوليات فراہم کی گئ ہيں وہاں منشيات کی پيداوار کی روک تھام کو يقينی بنايا جاۓ۔ اس کے علاوہ ان سے يہ اجازت بھی مانگی گئ کہ يو – اين – ڈی – سی – پی کو ان علاقوں تک رسائ دی جاۓ جہاں طالبان کے بقول منشيات کے کاروبار پر بين لگا ديا گيا ہے۔ طالبان سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا کہ منشيات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے ليے ضروری ہے نہ صرف ہيروئين کی تياری کی ليبارٹريوں کو ختم کيا جاۓ بلکہ ان گروہوں کا بھی خاتمہ کيا جاۓ جو منشيات کی تقسيم کے کاروبار ميں ملوث ہيں۔ طالبان کی جانب سے ان مطالبات کو اسی شرط پر تسليم کيا گيا کہ کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے فنڈز کی فراہمی کو يقينی بنايا جاۓ۔
http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=9507E1D9133CF932A25754C0A96F958260
http://www.un.org/ga/20special/featur/crop.htm
ليکن تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود سال 2000 تک منشيات کی کاشت نہ صرف جاری رہی بلکہ کچھ نۓ علاقے بھی اس کاروبار ميں شامل ہوگۓ۔ 1998 ميں مئ کے مہينے ميں پوست کی کاشت کے موقع پر يو – اين – ڈی – سی – پی کی جانب سے طالبان کو مطلع کيا گيا کہ لغمان، لوگار اور ننگرہار کے صوبوں کے کچھ نۓعلاقوں ميں پوست کی کاشت کا کام شروع ہو گيا ہے۔ يہی وہ موقع تھا جب 1 جون 1998 کو جلال آباد کے شہر ميں طالبان نے سرعام ايک ٹن منشيات کو سرعام آگ لگا کر يہ دعوی کيا تھا اس سال منشيات کی تمام پيداوار کو تلف کر ديا گيا ہے۔ ليکن اعداد وشمار کچھ اور حقيققت بيان کر رہے تھے۔ سال 2000 کے آخر تک منشيات کو کنٹرول کرنے کے کسی ايک بھی پروگرام پر عمل درآمد نہيں کيا گيا۔
http://www.nytimes.com/2000/09/18/world/18AFGH.html?ex=1215748800&en=f470637e39d1c243&ei=5070
منشيات کی روک تھام کی کئ نجی تنظيموں کی رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ طالبان اور شمالی اتحاد کے بہت سے سينير اہلکار براہراست منشيات کی ترسيل سے مالی فوائد حاصل کر رہے تھے۔ سال 1997 میں طالبان کے ايک اعلی افسر نے يہ تسليم کيا تھا کہ پوست کی کاشت ميں ملوث کسانوں سے طالبان حکومت 10 فيصد "مذہبی ٹيکس" وصول کرتی تھی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu