• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاہر القادری نے مردے کو کلمہ پڑھایا.

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
محدث فورم وزٹ کرتے کرتے اس ٹاپک پر نظر پڑھی۔اگر چہ ٹاپک زرا پرانا ہے مگر میرا خیال ہے اس پراظہار خیال میں کوئی حرج نہیں
کسی سے اختلاف کرنا ہر ایک کا حق ہے مگر یہ اختلاف صرف مسلکی تعصب پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔اور پھر اس کا خیال رکھنا چاہئیے کہ اختلاف دائرہ تہذیب کے اندر ہو۔میں بھی طاہر القادری صاحب سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اسطرح کی بدزبانی شروع کردوں جس طرح کی بدزبانی چند دوستوں نے کی ہے خاص طور پر احسان باجوہ صاحب نے۔
دوسری بات ہے کی مخالف کا نقطہ نظر بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے اس کے بعد ٓپ کی مرضی کہ ٓپ اس اتفاق کریں یا نہ کریں۔
اس سلسلے میں، میں نے طاہرالقادری صاحب کی جماعت کا موئقف جاننے کی کوشش کی تو ایک سائٹ سے یہ کچھ مواد ملا ہے مجھے کنفرم نہیں کہ یہ ان کا ٓفیشل موئقف ہے یا ان کے کسی محب کا۔
بہرحال اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ معلومات میں اضافہ ہی ہو گا۔
سوال پوچھنے والے کا نام: عطاء الرحمن مقام: سعودی عرب
سوال نمبر 1041:
براہِ مہربانی ہماری رہنمائی کیجیے کہ اِنٹرنیٹ پر ایک ویڈیو کلپ میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اپنے ایک کارکن کو دفنانے کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہو کر کلمہ طیبہ اور قبر میں ہونے والے سوالات کے جوابات کی تلقین کر رہے ہیں۔ کیا یہ عمل شریعت کی رُو سے جائز ہے؟
جواب:
تلقینِ میت سے مراد ہے کہ :
مسلمان کو مرنے سے قبل حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کرنا
مسلمان کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہوکر کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت اور قبر میں پوچھے جانے والے سوالات کی تلقین کرنا
دونوں طرح کی تلقین کے بارے میں اَحادیثِ مبارکہ اور آثارِ صحابہ و تابعین میں واضح نظائر ملتی ہیں اور یہ اُمور شرعاً ثابت شدہ اور باعثِ فضیلت ہیں۔ ذیل میں اِس بابت وارِد ہونے والی چند روایات بطور نمونہ پیش کریں گے:
حالتِ نزع میں تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
(1) صحیح مسلم:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(صحيح مسلم، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 : 631، الرقم : 916)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کہنے کی تلقین کرو۔‘‘
(2) جامع ترمذی:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(جامع الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 : 306، الرقم : 976)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوہریرہ، اُم سلمہ، عائشہ صدیقہ، جابر اور سعدی مریہ زوجۂ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں
(3) سنن نسائی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1826)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(4) سنن نسائی بشرح السیوطی و حاشیۃ السندی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی بشرح السيوطی وحاشية السندی، 4 : 302)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲ کی تلقین کرو۔‘‘
(5) سنن ابن ماجہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 464، الرقم : 1444)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(6) سنن ابی داؤد :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن أبی داود، کتاب الجنائز، باب فی التلقين، 3 : 190، الرقم : 3117)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(7) السنن الکبری للنسائی :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(السنن الکبری للنسائی، کتاب الجنائز وتمني الموت، باب تلقين الميت، 1 : 601، الرقم : 1953)
’’اپنے مرنے والوں کو اس بات کی تلقین کیا کرو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘
(8) السنن الکبری للبیہقی :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ
أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِيحِ مِنْ حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ مَخْلَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ، وَأَخْرَجَهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ.
(السنن الکبری للبيهقی، کتاب الجنائز، باب ما يستحب من تلقين الميت إذا حضر، 3 : 383، الرقم : 6390)
’’یحییٰ بن عمارہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو
’’اسے امام مسلم نے الصحیح میں خالد بن مخلد کے طریق سے سلیمان سے روایت کیا ہے اور ابو حازم کے طریق سے ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔‘‘
امام بیہقی یہ نے حدیث اگلے نمبر 6391 پر بھی روایت کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے : ’’امام مسلم نے یہ حدیث الصحیح میں ابو بکر اور عثمان بن ابی شیبہ سے بھی روایت کی ہے۔‘‘
(9) مصنف ابن ابی شیبہ :
عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ.
(مصنف ابن أبی شيبة، کتاب الجنائز، باب فی تلقين الميت، 2 : 446، الرقم : 10857)
’’ابو حازم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(10) ریاض الصالحین للنووی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(رياض الصالحين، کتاب عيادة المريض، باب تلقين المختصر لا إله إلا اﷲ، 1 : 184، الرقم : 918)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(11) سنن ابن ماجہ :
امام ابن ماجہ نے السنن کی کتاب الجنائز کے باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر میں درج ذیل روایت بیان کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت نزع میں میت کو درود شریف پڑھنے کی تلقین کی جائے تاکہ اس کے لیے جاں کنی کا مرحلہ سہل ہوجائے :
قال : مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.
’’محمد بن المنکدر کہتے ہیں : میں جابر بن عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو۔‘‘
بعد اَز تدفین تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اوپر ہم نے میں حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ تلقین کرنے کے حوالے سے چند روایات پیش کی ہیں اگر ان روایات کے الفاظ کو حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو ان سے بعد اَز تدفین تلقین کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن چونکہ ائمہ کرام نے ان روایات کو قبل اَز مرگ تلقین پر محمول کیا ہے اس لیے ہم نے ان روایات کو حالت نزع مین تلقین کرنے کے ذیل میں ہی درج کیا ہے۔
امام ابن عابدین شامی نے اس پر نہایت جامع تبصرہ کیا ہے:
أما عند أهل السنة فالحديث أی : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ محمول علی حقيقته، لأن اﷲ تعالی يحييه علی ما جاء ت به الآثار.
(رد المختار، 2 : 191)
’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ ’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو‘‘ کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار موجود ہیں۔‘‘
یعنی لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تعمیل میں حالت نزع میں تلقین کی گئی تو یہ مجازی معنیٰ میں ہوگی اور مرنے کے بعد تلقین کی گئی تو یہ اِس حدیث کے حقیقی معنی پر عمل ہوگا۔ لہٰذا مجازی اور حقیقی دونوں معانی پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ اِسی میں میت کا فائدہ ہے۔
ذیل میں ہم تلقین بعد اَز تدفین پر چند واضح روایات پیش کریں گے جس سے نفس مسئلہ کے بارے میں پیدا شدہ اِشکال دور ہوجائے گا اور امام ابن عابدین شامی کے بیان کی تائید و مزید وضاحت بھی ہوجائے گی:
(1) سنن ابن ماجہ:
عبداﷲ بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ.
’’اپنے مردوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ (اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے)؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ.
(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 465، الرقم : 1446)
’’بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘
اِس روایت کے الفاظ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ سے ثابت ہورہا ہے کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ سے مراد فوت شدگان ہیں یعنی حدیث مبارکہ میں بعد اَز وصال / تدفین تلقین کرنے کی ترغیب ہے۔ اگر روایت کو اِس معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اِس وضاحتی سوال کی کیا توجیہ ہوگی؟ چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال تلقین کرنے کا حکم فرما رہے تھے، اِسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا کہ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ یعنی اِسے زندہ لوگوں کے لیے پڑھنا کیسا ہوگا!
(2) سنن نسائی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1827)
’’اپنے ہلاک ہوجانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(3) المعجم الکبیر للطبرانی :
امام طبرانی المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
إذا مات أحد من إخوانکم، فنثرتم عليه التراب، فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع، ولکن لا يجيبثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنا رحمک اﷲ، ولکن لا تشعرونثم ليقل : أذکر ما خرجت عليه من الدنيا، شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله، وأنک رضيت باﷲ ربا، وبمحمد نبيا، وبالإسلام دينا، وبالقرآن إمامافإنه إذا فعل ذلک، أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه، ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به، فقد لقن حجته، ولکن اﷲ لقنه حجته دونهمقال رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال: انسبه إلی حواء.
المعجم الکبير للطبرانی، 8 : 249، الرقم : 7979.
مجمع الزوائد للهيثمی، 2 : 324؛ 3 : 45.
کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، 15 : 256257، الرقم : 42406
’’جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی حجت تلقین کی نہ کہ ان لوگوں نے۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو ’تلخیص الحبیر (2 : 3536)‘ میں بیان کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے اور اس روایت کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں
ابن ملقن انصاری نے ’خلاصۃ البدر المنیر (1 : 274275)‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں
(4) امام سیوطی :
امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27: يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوة الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَة ﴿اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)﴾ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وأخرج سعيد بن منصور عن راشد بن سعد وضمرة بن حبيب وحکيم بن عمير قالوا : إذا سوی علی الميت قبره وانصرف الناس عنه، کان يستحب أن يقال للميت عند قبره : يا فلان! قل لا إله إلا اﷲ، ثلاث مرات، يا فلان! قل : ربی اﷲ ودينی الإسلام ونبيی محمد، ثم ينصرف.
’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کے تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے
اس کے ساتھ امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے:
وأخرج ابن منده عن أبی أمامة رضی الله عنه قال : إذا مت فدفنتمونی، فليقم إنسان عند رأسی، فليقل : ياصدی بن عجلان! اذکر ما کنت عليه فی الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ.
’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
یہی روایت امام علاؤ الدین ہندی کنز العمال میں ذرا تفصیل کے ساتھ لائے ہیں۔
(5) کنز العمال للہندی :
عن سعيد الأموی، قال : شهدت أبا أمامةوهو فی النزاع، فقال لی : يا سعيد! إذا أنا مت فافعلوا بی کما أمرنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. قال لنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إذا مات أحد من إخوانکم فسويتم عليه التراب فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع ولکنه لا يجيب، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنارحمک اﷲ. ثم ليقل : اذکر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله وأنک رضيت باﷲ ربا وبمحمد نبيا وبالإسلام دينا وبالقرآن إماما، فإنه إذا فعل ذلک أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به قد لقن حجته فيکون اﷲ حجيجه دونهما. فقال له رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال : انسبه إلی حواء.
(کنز العمال، 15 : 311312، الرقم : 42934)
’’سعید اُموی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھےانہوں نے مجھے فرمایا : اے سعید! جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
اِمام ہندی کہتے ہیں کہ اِس روایت کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
(6) ابن رجب الحنبلی :
حافظ ابن رجب الحنبلی أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور میں لکھتے ہیں :
حدثنی بعض إخوانی أن غانما جاء المعافی بن عمران بعد ما دفن، فسمعه وهو يلقن فی قبره، وهو يقول : لا إله إلا اﷲ. فيقول المعافی : لا إله إلا اﷲ.
’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا۔ پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی۔ تلقین کرنے والا کہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲاور معافی بن عمران بھی جواباً کہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ۔‘‘
علاوہ ازیں ابن رجب الحنبلی نے کئی اور روایات بھی بیان کی ہیں جن سے مردے کو دفن کرنے کے بعد تلقین کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ نیز امام ابن ابی الدنیا اور امام سیوطی نے اِس موضوع پر متعدد روایات اپنی کتب میں ذکر کی ہیں۔
(7) ابن عابدین شامی :
امام شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قد روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه أمر بالتلقين بعد الدفن، فيقول : يا فلان بن فلان! اذکر دينک الذی کنت عليه من شهادة أن لا إله اللہ وأن محمد رسول اللہ، وأن الجنة حق والنار حق، وأن البعث حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن اللہ يبعث من فی القبور وأنک رضيت باللہ ربا وبالاسلام دينا، وبحمد صلی الله عليه وآله وسلم نبيا وبالقرآن إماما وبالکعبة قبلة، وبالمؤمنين إخوانا.
(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 : 191)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو، تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
لا نهی عن التلقين بعد الدفن لأنه لا ضرر فيه، بل فيه نفع، فإن الميت يستأنس بالذکر علی ما ورد فيه الآثار.
’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘
(8) امام ابو داؤد :
امام ابو داؤد السنن کی کتاب الجنائز کے باب الاستغفار عند القبر للميت فی وقت الانصراف (قبر کے پاس [دفن کے بعد] واپس مڑنے سے قبل میت کے لئے استغفار) میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيکُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ.
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘
علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(9) ملا علی قاری :
ملا علی قاری اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح (1 : 327) میں اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلی تلقين الميت بعد تمام دفنه وکيفيته مشهورة، وهو سنة علی المعتمد من مذهبنا خلافاً لمن زعم انه بدعة کيف. وفيه حديث صريح يعمل به فی الفضائل اتفاقاً بل اعتضد بشواهد يرتقی بها إلی درجة الحسن.
’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ہمارے مذہبِ (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے۔ بخلاف اِس قول کے کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
خلاصہ کلام
دنیاوی زندگی ختم ہونے پر اِنسان کے لیے دو وقت بڑے خطرناک ہیں : ایک حالتِ نزع کا؛ دوسرا تدفین کے بعد قبر میں ہونے والے سوالات کا۔ اگر مرتے وقت خاتمہ بالخیر نصیب نہ ہوا تو عمر بھر کا کیا دھرا سب برباد گیا اور اگر قبر کے امتحان میں ناکامی ہوئی تو اُخروی زندگی برباد ہوگئی۔ اِس لیے زندہ لوگوں کو چاہیے کہ ان کٹھن مراحل میں اپنے پیاروں کی بھرپور مدد کریں کہ مرتے وقت اس کے پاس کلمہ پڑھتے رہیں اور بعد اَز دفن بھی کلمہ پڑھتے رہیں تاکہ وہ اِس امتحان میں بھی کام یاب ہوجائے۔
آخر میں ہم صحیح بخاری میں مذکور روایت بیان کریں گے جس سے تلقین میت کے باب میں تمام اِشکالات اَز خود رفع ہو جائیں گے۔
صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل) میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اَمَرَ يوْمَ بَدْرٍ بِاَرْبَعَة وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيشٍ، فَقُذِفُوا فِي طَوِیٍّ مِنْ اَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ، وَکَانَ اِذَا ظَهرَ عَلَی قَوْمٍ اَقَامَ بِالْعَرْصَة ثَلَاثَ لَيالٍ. فَلَمَّا کَانَ بِبَدْرٍ الْيوْمَ الثَّالِثَ، اَمَرَ بِرَاحِلَتِه فَشُدَّ عَلَيها رَحْلُها، ثُمَّ مَشٰی وَاتَّبَعَه اَصْحَابُه، وَقَالُوا: مَا نُرٰی ينْطَلِقُ اِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِه حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَة الرَّکِيِّ، فَجَعَلَ ينَادِيهمْ بِاَسْمَائِهمْ وَاَسْمَائِ آبَائِهمْ: يا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! وَيا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! اَيسُرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمْ اﷲَ وَرَسُولَه. فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يا رَسُولَ اﷲِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ اَجْسَادٍ لَا اَرْوَاحَ لَها؟ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيدِه! مَا اَنْتُمْ باَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْهمْ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے روز کفارِ قریش کے چوبیس سرداروں کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا حکم فرمایا تھا۔ چنانچہ ان گندے لوگوں کو ایک گندے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کسی قوم پر غلبہ حاصل ہوتا تو تین راتیں وہاں قیام فرماتے تھے۔ جب میدان بدر میں تیسرا روز آیا تو اپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی پر کجاوہ کس دیا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پیچھے چل دیے اور ان حضرات کا بیان ہے کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ضرورت کے تحت جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کنوئیں کی منڈیر پر جا پہنچے (جہاں کفارِ قریش کو پھینکا گیا تھا) اور ان لوگوں کے نام مع ولدیت لے کر انہیں مخاطب فرمانے لگے : اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے۔ بے شک ہمارے رب نے ہم سے جس چیز کا وعدہ فرمایا تھا وہ ہمیں حاصل ہوگئی ہے۔ بتاؤ جس کا اس نے تمہارے لیے وعدہ کیا تھا وہ تمہیں ملی ہے یا نہیں؟ راوی کا بیان ہے کہ اس صورت حال پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم اِن سے زیادہ نہیں سنتے۔‘‘
صحیح بخاری اور دیگر متعدد کتب میں مذکور اِس روایت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ دفن کرنے کے بعد اگر میت کو مخاطب کرنا بے سود ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی کفار سے کلام نہ فرماتے۔ ان کفار کو وہی اَمر یاد دلایا گیا جس پر وہ اِس دنیا میں تھے، جب کہ بندۂ مومن کو اُس اَمر کی تذکیر کی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں ہوتا ہے، یعنی امر توحید و رسالت۔ پس ثابت ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد میت کو اُس کے عقائد کی تذکیر کرنا نہ صرف مستحب بلکہ ایک مسنون عمل ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے بھی بیان کیا تھا۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا :
مرنے والے مرتے ہیں، لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اُس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد فاروق رانا
تاریخ اشاعت: 2011-06-18
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محدث فورم وزٹ کرتے کرتے اس ٹاپک پر نظر پڑھی۔اگر چہ ٹاپک زرا پرانا ہے مگر میرا خیال ہے اس پراظہار خیال میں کوئی حرج نہیں
کسی سے اختلاف کرنا ہر ایک کا حق ہے مگر یہ اختلاف صرف مسلکی تعصب پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔اور پھر اس کا خیال رکھنا چاہئیے کہ اختلاف دائرہ تہذیب کے اندر ہو۔میں بھی طاہر القادری صاحب سے اختلاف رکھتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اسطرح کی بدزبانی شروع کردوں جس طرح کی بدزبانی چند دوستوں نے کی ہے خاص طور پر احسان باجوہ صاحب نے۔
دوسری بات ہے کی مخالف کا نقطہ نظر بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے اس کے بعد ٓپ کی مرضی کہ ٓپ اس اتفاق کریں یا نہ کریں۔
اس سلسلے میں، میں نے طاہرالقادری صاحب کی جماعت کا موئقف جاننے کی کوشش کی تو ایک سائٹ سے یہ کچھ مواد ملا ہے مجھے کنفرم نہیں کہ یہ ان کا ٓفیشل موئقف ہے یا ان کے کسی محب کا۔
بہرحال اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ معلومات میں اضافہ ہی ہو گا۔
سوال پوچھنے والے کا نام: عطاء الرحمن مقام: سعودی عرب
سوال نمبر 1041:
براہِ مہربانی ہماری رہنمائی کیجیے کہ اِنٹرنیٹ پر ایک ویڈیو کلپ میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اپنے ایک کارکن کو دفنانے کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہو کر کلمہ طیبہ اور قبر میں ہونے والے سوالات کے جوابات کی تلقین کر رہے ہیں۔ کیا یہ عمل شریعت کی رُو سے جائز ہے؟
جواب:
تلقینِ میت سے مراد ہے کہ :
مسلمان کو مرنے سے قبل حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کرنا
مسلمان کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہوکر کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت اور قبر میں پوچھے جانے والے سوالات کی تلقین کرنا
دونوں طرح کی تلقین کے بارے میں اَحادیثِ مبارکہ اور آثارِ صحابہ و تابعین میں واضح نظائر ملتی ہیں اور یہ اُمور شرعاً ثابت شدہ اور باعثِ فضیلت ہیں۔ ذیل میں اِس بابت وارِد ہونے والی چند روایات بطور نمونہ پیش کریں گے:
حالتِ نزع میں تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
(1) صحیح مسلم:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(صحيح مسلم، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 : 631، الرقم : 916)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کہنے کی تلقین کرو۔‘‘
(2) جامع ترمذی:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(جامع الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 : 306، الرقم : 976)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوہریرہ، اُم سلمہ، عائشہ صدیقہ، جابر اور سعدی مریہ زوجۂ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں
(3) سنن نسائی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1826)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(4) سنن نسائی بشرح السیوطی و حاشیۃ السندی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی بشرح السيوطی وحاشية السندی، 4 : 302)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲ کی تلقین کرو۔‘‘
(5) سنن ابن ماجہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 464، الرقم : 1444)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(6) سنن ابی داؤد :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن أبی داود، کتاب الجنائز، باب فی التلقين، 3 : 190، الرقم : 3117)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(7) السنن الکبری للنسائی :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(السنن الکبری للنسائی، کتاب الجنائز وتمني الموت، باب تلقين الميت، 1 : 601، الرقم : 1953)
’’اپنے مرنے والوں کو اس بات کی تلقین کیا کرو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘
(8) السنن الکبری للبیہقی :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ
أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِيحِ مِنْ حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ مَخْلَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ، وَأَخْرَجَهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ.
(السنن الکبری للبيهقی، کتاب الجنائز، باب ما يستحب من تلقين الميت إذا حضر، 3 : 383، الرقم : 6390)
’’یحییٰ بن عمارہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو
’’اسے امام مسلم نے الصحیح میں خالد بن مخلد کے طریق سے سلیمان سے روایت کیا ہے اور ابو حازم کے طریق سے ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔‘‘
امام بیہقی یہ نے حدیث اگلے نمبر 6391 پر بھی روایت کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے : ’’امام مسلم نے یہ حدیث الصحیح میں ابو بکر اور عثمان بن ابی شیبہ سے بھی روایت کی ہے۔‘‘
(9) مصنف ابن ابی شیبہ :
عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ.
(مصنف ابن أبی شيبة، کتاب الجنائز، باب فی تلقين الميت، 2 : 446، الرقم : 10857)
’’ابو حازم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(10) ریاض الصالحین للنووی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(رياض الصالحين، کتاب عيادة المريض، باب تلقين المختصر لا إله إلا اﷲ، 1 : 184، الرقم : 918)
’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(11) سنن ابن ماجہ :
امام ابن ماجہ نے السنن کی کتاب الجنائز کے باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر میں درج ذیل روایت بیان کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت نزع میں میت کو درود شریف پڑھنے کی تلقین کی جائے تاکہ اس کے لیے جاں کنی کا مرحلہ سہل ہوجائے :
قال : مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.
’’محمد بن المنکدر کہتے ہیں : میں جابر بن عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو۔‘‘
بعد اَز تدفین تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اوپر ہم نے میں حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ تلقین کرنے کے حوالے سے چند روایات پیش کی ہیں اگر ان روایات کے الفاظ کو حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو ان سے بعد اَز تدفین تلقین کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن چونکہ ائمہ کرام نے ان روایات کو قبل اَز مرگ تلقین پر محمول کیا ہے اس لیے ہم نے ان روایات کو حالت نزع مین تلقین کرنے کے ذیل میں ہی درج کیا ہے۔
امام ابن عابدین شامی نے اس پر نہایت جامع تبصرہ کیا ہے:
أما عند أهل السنة فالحديث أی : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ محمول علی حقيقته، لأن اﷲ تعالی يحييه علی ما جاء ت به الآثار.
(رد المختار، 2 : 191)
’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ ’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو‘‘ کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار موجود ہیں۔‘‘
یعنی لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تعمیل میں حالت نزع میں تلقین کی گئی تو یہ مجازی معنیٰ میں ہوگی اور مرنے کے بعد تلقین کی گئی تو یہ اِس حدیث کے حقیقی معنی پر عمل ہوگا۔ لہٰذا مجازی اور حقیقی دونوں معانی پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ اِسی میں میت کا فائدہ ہے۔
ذیل میں ہم تلقین بعد اَز تدفین پر چند واضح روایات پیش کریں گے جس سے نفس مسئلہ کے بارے میں پیدا شدہ اِشکال دور ہوجائے گا اور امام ابن عابدین شامی کے بیان کی تائید و مزید وضاحت بھی ہوجائے گی:
(1) سنن ابن ماجہ:
عبداﷲ بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ.
’’اپنے مردوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ (اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے)؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ.
(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 465، الرقم : 1446)
’’بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘
اِس روایت کے الفاظ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ سے ثابت ہورہا ہے کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ سے مراد فوت شدگان ہیں یعنی حدیث مبارکہ میں بعد اَز وصال / تدفین تلقین کرنے کی ترغیب ہے۔ اگر روایت کو اِس معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اِس وضاحتی سوال کی کیا توجیہ ہوگی؟ چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال تلقین کرنے کا حکم فرما رہے تھے، اِسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا کہ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ یعنی اِسے زندہ لوگوں کے لیے پڑھنا کیسا ہوگا!
(2) سنن نسائی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1827)
’’اپنے ہلاک ہوجانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(3) المعجم الکبیر للطبرانی :
امام طبرانی المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
إذا مات أحد من إخوانکم، فنثرتم عليه التراب، فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع، ولکن لا يجيبثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنا رحمک اﷲ، ولکن لا تشعرونثم ليقل : أذکر ما خرجت عليه من الدنيا، شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله، وأنک رضيت باﷲ ربا، وبمحمد نبيا، وبالإسلام دينا، وبالقرآن إمامافإنه إذا فعل ذلک، أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه، ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به، فقد لقن حجته، ولکن اﷲ لقنه حجته دونهمقال رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال: انسبه إلی حواء.
المعجم الکبير للطبرانی، 8 : 249، الرقم : 7979.
مجمع الزوائد للهيثمی، 2 : 324؛ 3 : 45.
کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، 15 : 256257، الرقم : 42406
’’جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی حجت تلقین کی نہ کہ ان لوگوں نے۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو ’تلخیص الحبیر (2 : 3536)‘ میں بیان کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے اور اس روایت کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں
ابن ملقن انصاری نے ’خلاصۃ البدر المنیر (1 : 274275)‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں
(4) امام سیوطی :
امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27: يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوة الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَة ﴿اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)﴾ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وأخرج سعيد بن منصور عن راشد بن سعد وضمرة بن حبيب وحکيم بن عمير قالوا : إذا سوی علی الميت قبره وانصرف الناس عنه، کان يستحب أن يقال للميت عند قبره : يا فلان! قل لا إله إلا اﷲ، ثلاث مرات، يا فلان! قل : ربی اﷲ ودينی الإسلام ونبيی محمد، ثم ينصرف.
’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کے تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے
اس کے ساتھ امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے:
وأخرج ابن منده عن أبی أمامة رضی الله عنه قال : إذا مت فدفنتمونی، فليقم إنسان عند رأسی، فليقل : ياصدی بن عجلان! اذکر ما کنت عليه فی الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ.
’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
یہی روایت امام علاؤ الدین ہندی کنز العمال میں ذرا تفصیل کے ساتھ لائے ہیں۔
(5) کنز العمال للہندی :
عن سعيد الأموی، قال : شهدت أبا أمامةوهو فی النزاع، فقال لی : يا سعيد! إذا أنا مت فافعلوا بی کما أمرنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. قال لنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إذا مات أحد من إخوانکم فسويتم عليه التراب فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع ولکنه لا يجيب، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنارحمک اﷲ. ثم ليقل : اذکر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله وأنک رضيت باﷲ ربا وبمحمد نبيا وبالإسلام دينا وبالقرآن إماما، فإنه إذا فعل ذلک أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به قد لقن حجته فيکون اﷲ حجيجه دونهما. فقال له رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال : انسبه إلی حواء.
(کنز العمال، 15 : 311312، الرقم : 42934)
’’سعید اُموی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھےانہوں نے مجھے فرمایا : اے سعید! جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
اِمام ہندی کہتے ہیں کہ اِس روایت کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
(6) ابن رجب الحنبلی :
حافظ ابن رجب الحنبلی أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور میں لکھتے ہیں :
حدثنی بعض إخوانی أن غانما جاء المعافی بن عمران بعد ما دفن، فسمعه وهو يلقن فی قبره، وهو يقول : لا إله إلا اﷲ. فيقول المعافی : لا إله إلا اﷲ.
’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا۔ پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی۔ تلقین کرنے والا کہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲاور معافی بن عمران بھی جواباً کہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ۔‘‘
علاوہ ازیں ابن رجب الحنبلی نے کئی اور روایات بھی بیان کی ہیں جن سے مردے کو دفن کرنے کے بعد تلقین کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ نیز امام ابن ابی الدنیا اور امام سیوطی نے اِس موضوع پر متعدد روایات اپنی کتب میں ذکر کی ہیں۔
(7) ابن عابدین شامی :
امام شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قد روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه أمر بالتلقين بعد الدفن، فيقول : يا فلان بن فلان! اذکر دينک الذی کنت عليه من شهادة أن لا إله اللہ وأن محمد رسول اللہ، وأن الجنة حق والنار حق، وأن البعث حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن اللہ يبعث من فی القبور وأنک رضيت باللہ ربا وبالاسلام دينا، وبحمد صلی الله عليه وآله وسلم نبيا وبالقرآن إماما وبالکعبة قبلة، وبالمؤمنين إخوانا.
(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 : 191)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو، تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
لا نهی عن التلقين بعد الدفن لأنه لا ضرر فيه، بل فيه نفع، فإن الميت يستأنس بالذکر علی ما ورد فيه الآثار.
’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘
(8) امام ابو داؤد :
امام ابو داؤد السنن کی کتاب الجنائز کے باب الاستغفار عند القبر للميت فی وقت الانصراف (قبر کے پاس [دفن کے بعد] واپس مڑنے سے قبل میت کے لئے استغفار) میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيکُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ.
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘
علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(9) ملا علی قاری :
ملا علی قاری اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح (1 : 327) میں اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلی تلقين الميت بعد تمام دفنه وکيفيته مشهورة، وهو سنة علی المعتمد من مذهبنا خلافاً لمن زعم انه بدعة کيف. وفيه حديث صريح يعمل به فی الفضائل اتفاقاً بل اعتضد بشواهد يرتقی بها إلی درجة الحسن.
’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ہمارے مذہبِ (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے۔ بخلاف اِس قول کے کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
خلاصہ کلام
دنیاوی زندگی ختم ہونے پر اِنسان کے لیے دو وقت بڑے خطرناک ہیں : ایک حالتِ نزع کا؛ دوسرا تدفین کے بعد قبر میں ہونے والے سوالات کا۔ اگر مرتے وقت خاتمہ بالخیر نصیب نہ ہوا تو عمر بھر کا کیا دھرا سب برباد گیا اور اگر قبر کے امتحان میں ناکامی ہوئی تو اُخروی زندگی برباد ہوگئی۔ اِس لیے زندہ لوگوں کو چاہیے کہ ان کٹھن مراحل میں اپنے پیاروں کی بھرپور مدد کریں کہ مرتے وقت اس کے پاس کلمہ پڑھتے رہیں اور بعد اَز دفن بھی کلمہ پڑھتے رہیں تاکہ وہ اِس امتحان میں بھی کام یاب ہوجائے۔
آخر میں ہم صحیح بخاری میں مذکور روایت بیان کریں گے جس سے تلقین میت کے باب میں تمام اِشکالات اَز خود رفع ہو جائیں گے۔
صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل) میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اَمَرَ يوْمَ بَدْرٍ بِاَرْبَعَة وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيشٍ، فَقُذِفُوا فِي طَوِیٍّ مِنْ اَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ، وَکَانَ اِذَا ظَهرَ عَلَی قَوْمٍ اَقَامَ بِالْعَرْصَة ثَلَاثَ لَيالٍ. فَلَمَّا کَانَ بِبَدْرٍ الْيوْمَ الثَّالِثَ، اَمَرَ بِرَاحِلَتِه فَشُدَّ عَلَيها رَحْلُها، ثُمَّ مَشٰی وَاتَّبَعَه اَصْحَابُه، وَقَالُوا: مَا نُرٰی ينْطَلِقُ اِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِه حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَة الرَّکِيِّ، فَجَعَلَ ينَادِيهمْ بِاَسْمَائِهمْ وَاَسْمَائِ آبَائِهمْ: يا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! وَيا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! اَيسُرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمْ اﷲَ وَرَسُولَه. فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يا رَسُولَ اﷲِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ اَجْسَادٍ لَا اَرْوَاحَ لَها؟ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيدِه! مَا اَنْتُمْ باَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْهمْ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے روز کفارِ قریش کے چوبیس سرداروں کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا حکم فرمایا تھا۔ چنانچہ ان گندے لوگوں کو ایک گندے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کسی قوم پر غلبہ حاصل ہوتا تو تین راتیں وہاں قیام فرماتے تھے۔ جب میدان بدر میں تیسرا روز آیا تو اپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی پر کجاوہ کس دیا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پیچھے چل دیے اور ان حضرات کا بیان ہے کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ضرورت کے تحت جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کنوئیں کی منڈیر پر جا پہنچے (جہاں کفارِ قریش کو پھینکا گیا تھا) اور ان لوگوں کے نام مع ولدیت لے کر انہیں مخاطب فرمانے لگے : اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے۔ بے شک ہمارے رب نے ہم سے جس چیز کا وعدہ فرمایا تھا وہ ہمیں حاصل ہوگئی ہے۔ بتاؤ جس کا اس نے تمہارے لیے وعدہ کیا تھا وہ تمہیں ملی ہے یا نہیں؟ راوی کا بیان ہے کہ اس صورت حال پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم اِن سے زیادہ نہیں سنتے۔‘‘
صحیح بخاری اور دیگر متعدد کتب میں مذکور اِس روایت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ دفن کرنے کے بعد اگر میت کو مخاطب کرنا بے سود ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی کفار سے کلام نہ فرماتے۔ ان کفار کو وہی اَمر یاد دلایا گیا جس پر وہ اِس دنیا میں تھے، جب کہ بندۂ مومن کو اُس اَمر کی تذکیر کی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں ہوتا ہے، یعنی امر توحید و رسالت۔ پس ثابت ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد میت کو اُس کے عقائد کی تذکیر کرنا نہ صرف مستحب بلکہ ایک مسنون عمل ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے بھی بیان کیا تھا۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا :
مرنے والے مرتے ہیں، لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اُس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد فاروق رانا
تاریخ اشاعت: 2011-06-18
ان تمام دلائل کی حقیقت یہاں تفصیل سے پیش کی جا چکی ہے،
http://www.kitabosunnat.com/forum/بریلوی-156/محمد-طاہر-القادری-مردوں-کو-کلمہ-پڑھانے-لگا-5904/index2.html#post44585

اگر اس کے باوجود آپ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر مردے کو تلقین کرنی چاہئے تو اپنی کوئی ایک سب سے صحیح اور صریح دلیل پیش کریں!
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
ان تمام دلائل کی حقیقت یہاں تفصیل سے پیش کی جا چکی ہے،
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D...html#post44585

اگر اس کے باوجود آپ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر مردے کو تلقین کرنی چاہئے تو اپنی کوئی ایک سب سے صحیح اور صریح دلیل پیش کریں!
میرا مقصد صرف دوسری طرف کا نقطہ نظر پیش کرنا تھا۔
آپ نے ان دلائل کی حقیقت کا جو لنک دیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے اس کی حقیقت تو دوسرا فریق ہی بتا سکتا ہے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرا مقصد صرف دوسری طرف کا نقطہ نظر پیش کرنا تھا۔
بہت خوب یعنی نقطہ نظر چاہے جس حیثیت وحالت کا ہو اس کو بتانا وپیش ضرور کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام الناس کے سامنے یہ پول بھی کھل جائے کہ کس فریق کا نقطہ نظر کس طرح کےدلائل پر مبنی ہے۔ بہت اچھا کیا آپ نے۔اور پھر یہی فتویٰ جو آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے۔عاصم محمود بھائی نے بھی یہاں پیش کیاتھا۔جس کاجواب یہاں پر دیکھا جاسکتا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جس فتوے کا ایک بار تفصیل سے علمائے سلف جواب دے چکے ہیں اس کو بعد میں پیش ہی نہ کیاجائے یا اگر اس فتوے کے جواب میں آپ لوگوں کو اعتراضات ہیں تو پیش کریں۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ ایک مسلک بریلوی سے تعلق رکھنے والا آتا ہے اور وہ وہی فتویٰ پیش کردیتا ہے۔اس کو جواب دیئے جانے کے بعد پھر ایک اور آتا ہے اور وہ بھی وہی فتویٰ پیش کردیتا ہے۔ جناب من جس بات کا ایک بار جواب دیا جاچکا ہو اس کو اصولاً دوبارہ پیش ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی نئی بات ہوتی ہےتو اس کو پیش کرتےہیں۔امید ہے کہ اب احتیاط کریں گے۔ ان شاءاللہ
آپ نے ان دلائل کی حقیقت کا جو لنک دیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے اس کی حقیقت تو دوسرا فریق ہی بتا سکتا ہے۔
آپ بھی دوسرے فریق سے تعلق رکھتے ہیں۔ چلیں آپ ہی بتادیں۔چلیں دوسرے فریق کو چھوڑیں آپ ہی بتادیں کہ آپ اس بارے کیاکہتے ہیں۔؟
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
بہت خوب یعنی نقطہ نظر چاہے جس حیثیت وحالت کا ہو اس کو بتانا وپیش ضرور کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام الناس کے سامنے یہ پول بھی کھل جائے کہ کس فریق کا نقطہ نظر کس طرح کےدلائل پر مبنی ہے۔ بہت اچھا کیا آپ نے۔اور پھر یہی فتویٰ جو آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے۔عاصم محمود بھائی نے بھی یہاں پیش کیاتھا۔جس کاجواب یہاں پر دیکھا جاسکتا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جس فتوے کا ایک بار تفصیل سے علمائے سلف جواب دے چکے ہیں اس کو بعد میں پیش ہی نہ کیاجائے یا اگر اس فتوے کے جواب میں آپ لوگوں کو اعتراضات ہیں تو پیش کریں۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ ایک مسلک بریلوی سے تعلق رکھنے والا آتا ہے اور وہ وہی فتویٰ پیش کردیتا ہے۔اس کو جواب دیئے جانے کے بعد پھر ایک اور آتا ہے اور وہ بھی وہی فتویٰ پیش کردیتا ہے۔ جناب من جس بات کا ایک بار جواب دیا جاچکا ہو اس کو اصولاً دوبارہ پیش ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی نئی بات ہوتی ہےتو اس کو پیش کرتےہیں۔امید ہے کہ اب احتیاط کریں گے۔ ان شاءاللہ
بات دراصل یہ کہ اس ٹاپک پر ایک سے زائد تھریڈ موجود ہیں میں نے اتفاق سے جو تھریڈ کھولا اس میں یہ فتوی موجود نہیں تھا اس لئے میں نے یہ فتوی
یہاں پیسٹ کر دیا اور یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ دوسری جگہ یہ فتوی پیسٹ کیا جا چکا ہے ۔بہرحال ٓپ کو جو سخت تکلیف پہنچی اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
آپ بھی دوسرے فریق سے تعلق رکھتے ہیں۔ چلیں آپ ہی بتادیں۔چلیں دوسرے فریق کو چھوڑیں آپ ہی بتادیں کہ آپ اس بارے کیاکہتے ہیں۔؟
ٓٓٓٓاپ نے یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ دی کہ میرا تعلق دوسرے فریق سے ہے؟
بدگمانی اچھی بات نہیں ہوتی۔خاطر جمع رکھیے میرا کوئی تعلق دوسرے فریق سے نہیں۔
باقی رہی میری رائے تو میں نے تلقین میت پر کبھی عمل تو نہیں کیا لیکن اگر کوئی کرتا ہے تو کوئی حرج بھی نہیں سمجھتا۔
کیونکہ اس کے جواز میں ماڑی یا چنگی کوئی نہ کوئی دلیل بہرحال موجود ہے،بہت سے علما، بھی اس کے قائل نظر ٓتے ہیں۔
جبکہ اس کی مخالفت میں کوئی بھی دلیل موجود نہیں۔(میرے علم کی حد تک)۔
دوسری بات یہ کہ جن احادیث میں یہ الفاظ ہیں کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.ان الفاظ کو حقیقی معنوں میں بھی استمعال کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
باقی رہی میری رائے تو میں نے تلقین میت پر کبھی عمل تو نہیں کیا لیکن اگر کوئی کرتا ہے تو کوئی حرج بھی نہیں سمجھتا۔
کیونکہ اس کے جواز میں ماڑی یا چنگی کوئی نہ کوئی دلیل بہرحال موجود ہے،بہت سے علما، بھی اس کے قائل نظر ٓتے ہیں۔
ضعیف اور موضوع روایات سے استدلال کرنا جائز نہیں۔
اور ذرا یہ بھی واضح کردیجئے کون سے بہت صحابہ کرام﷢ اور تابعین عظام اور ائمہ کرام﷭ اس کے قائل ہیں؟؟؟

جبکہ اس کی مخالفت میں کوئی بھی دلیل موجود نہیں۔(میرے علم کی حد تک)۔
نبی کریمﷺ نے اگر کوئی عمل مستقل طور پر نہ کیا ہو تو وہ بھی دلیل ہوتا ہے، جسے اصطلاح میں ’سنتِ ترکیہ‘ کہتے ہیں۔
مثلاً اگر کوئی آذان سے پہلے سورۃ الفاتحۃ کو اپنا معمول بنا لے اور دلیل یہ دے کہ اس کی مخالفت میں کوئی دلیل موجود نہیں تو یہ صحیح نہ ہوگا۔

دوسری بات یہ کہ جن احادیث میں یہ الفاظ ہیں کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.ان الفاظ کو حقیقی معنوں میں بھی استمعال کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں
سلف صالحین میں سے کس نے اس حدیث مبارکہ کا یہ معنیٰ سمجھا ہے؟؟؟
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
ضعیف اور موضوع روایات سے استدلال کرنا جائز نہیں۔
اور ذرا یہ بھی واضح کردیجئے کون سے بہت صحابہ کرام﷢ اور تابعین عظام اور ائمہ کرام﷭ اس کے قائل ہیں؟؟؟
انس صاحب!
میں نے گڈ مسلم صاحب کو جواب دیا تھا اور ان ہی سے جواب کی توقع تھی۔بہرحال یہ اوپن فورم ہے کوئی بھی کسی کو جواب دے سکتا ہے۔
میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ بہت سے علما، بھی اس کے قائل نظر ٓتے ہیں مگر ٓپ میری طرف منسوب کر رہے ہیں کہ جیسے میں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ بہت سے صحابہ کرام،تابعین اور ٓئمہ کرام اس کے قائل نظر ٓتے ہیں ۔برائے مہربانی الفاظ کو غور سے پڑھ کر سوال اٹھایا کریں۔
موضوع روایت کی حد تک تو ٓپ کی بات درست ہے کہ ان سے استدلال جائز نہیں بشرطیکہ پیش کردہ روایت موضوع ثابت ہو جائے جو کہ ثابت کرنا بھی اتنا ٓسان کام نہیں۔
جہاں تک بات ہے ضعیف روایات کی تو ان پر عمل کرنا یا ان سے استدلال کرنے کے حوالے سے بہت اختلاف ہے اور مختلف ٓرا، ہیں۔
پھر ضعیف کے بھی کئی درجات ہیں اور وجوہات ضعف بھی چیک کرنی پڑتی ہے۔
نبی کریمﷺ نے اگر کوئی عمل مستقل طور پر نہ کیا ہو تو وہ بھی دلیل ہوتا ہے، جسے اصطلاح میں ’سنتِ ترکیہ‘ کہتے ہیں۔
مثلاً اگر کوئی آذان سے پہلے سورۃ الفاتحۃ کو اپنا معمول بنا لے اور دلیل یہ دے کہ اس کی مخالفت میں کوئی دلیل موجود نہیں تو یہ صحیح نہ ہوگا۔
اپ کی پیش کردہ دلیل پر بھی بات ہو سکتی ہے مگر اس کو فی الحال اگنور کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ زیر بحث مسئلہ میں ہمارے پاس کم از کم چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو دلیل موجود ہے جبکہ اس کی مخالفت میں کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود نہیں۔
سلف صالحین میں سے کس نے اس حدیث مبارکہ کا یہ معنیٰ سمجھا ہے؟؟؟
مجھے اس وقت علم نہیں کہ کس کس نے اس حدیث کا یہ مطلب سمجھا ہے ۔ ہاں متاخرین میں سے علامہ شامی نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔
بہرحال حدیث کے الفاظ ہمارے سامنے ہیں اور ان کو حقیقی معنوں میں استعمال نہ کر سکنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ۔اور ایسی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان الفاظ کو لازما مجازی معنوں میں ہی استعمال کیا جائے۔
پھر ابو داود کی یہ روایت کہ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘
جب آپ میت کے لئے استغفار اور ثابت قدمی کی دعا مانگیں گے تو اس میں یقینا ایسے الفاظ آ جا ئیں گے جن اللہ رسول اور اسلام کا ذکر آئے گا تو اس سے میت کو سوالات کا جواب دینے میں آسانی ہو گی۔اس میں بھی تلقین کا اشارہ پایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بخاری یا مسلم کی روایت میں صحابی حضرت عمرو بن عاص کی وصیت بھی موجود ہے جس میں انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بعد از دفن اتنی دیر رکنے کو کہا تھا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم ہوتا ہے اور اس کی وجہ انھوں یہ بتائی تاکہ وہ مانوس ہو جائیں اور دیکھ لیں کہ وہ منکر نکیر کو کیا جواب دیتے ہیں۔
اب ظاہر ہے جو لوگ ڈیڑھ دو گھنٹے قبر کے پاس بھیٹیں گے وہ بالکل خاموش تو نہیں رہیں گے یقینا کسی نہ کسی ذکر اذکار میں مشغول رہیں گے اس سے میت کو سوالوں کے جوابات میں آسانی رہی گی۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ بہت سے علما، بھی اس کے قائل نظر ٓتے ہیں مگر ٓپ میری طرف منسوب کر رہے ہیں کہ جیسے میں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ بہت سے صحابہ کرام،تابعین اور ٓئمہ کرام اس کے قائل نظر ٓتے ہیں ۔برائے مہربانی الفاظ کو غور سے پڑھ کر سوال اٹھایا کریں۔
میرے بھائی! اگر آپ متاخر علماء کی بات کریں گے اور اپنے کچھ علماء کا حوالہ پیش کریں گے اور پھر میں بھی اپنے کچھ علماء کا حوالہ اس کے مخالف پیش کر دوں گا، جسے آپ تسلیم نہ کریں گے لہٰذا اختلاف ختم نہ ہوگا۔ البتہ سلف صالحین﷭ پر ہمارا سب کا اتفاق ہے۔ نبی کریمﷺ خلفائے راشدین کی سنت کو اپنانے « عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين » اور صحابہ کرام﷜ کی پیروی « ما أنا عليه وأصحابي » کا حکم دیا ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان بھی ہے:
« خير القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم» ۔۔۔ صحيح بخاري ومسلم
تو کیا بہتر نہیں کہ اس بارے میں ان کا موقف کیا تھا؟ اس کو ملاحظہ کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔
ہمارے نزدیک یہی منہج سلف ہے، اسی کا نام سلفیت ہے۔ اور یہی ہمارے محدث فورم کا ماٹو بھی ہے ۔۔۔ وللہ الحمد والمنۃ

اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ میت کو قبر میں تلقین کا موقف صحابہ کرام﷢، تابعین عظام اور ائمہ کرام﷭ میں کس کس کا ہے؟؟؟
جس کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔

موضوع روایت کی حد تک تو آپ کی بات درست ہے کہ ان سے استدلال جائز نہیں بشرطیکہ پیش کردہ روایت موضوع ثابت ہو جائے جو کہ ثابت کرنا بھی اتنا ٓسان کام نہیں۔
جہاں تک بات ہے ضعیف روایات کی تو ان پر عمل کرنا یا ان سے استدلال کرنے کے حوالے سے بہت اختلاف ہے اور مختلف ٓرا، ہیں۔
پھر ضعیف کے بھی کئی درجات ہیں اور وجوہات ضعف بھی چیک کرنی پڑتی ہے۔
میرے بھائی! موضوع روایت کی طرح ضعیف حدیث سے بھی استدلال نہیں ہو سکتا۔

اور پھر ہمارا پیش نظر مسئلہ تو ہے بھی عقیدے کا جس کے بارے میں احناف کا کہنا ہے کہ عقیدے میں تو خبر واحد بھی - اگرچہ وہ صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر ہی کیوں نہ ہو - حجت نہیں۔ کجا یہ کہ ضعیف حدیث؟؟؟
 
Top