- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
ہمارے پاس نبی کریمﷺ کی سنتِ ترکیہ موجود ہے کہ آپﷺ نے اپنی پوری نبوی زندگی میں کبھی کسی مردے کو قبر میں کلمہ کی تلقین نہ کی، نہ ہی کسی صحابی نے اور نہ ہی کسی تابعی نے۔اپ کی پیش کردہ دلیل پر بھی بات ہو سکتی ہے مگر اس کو فی الحال اگنور کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ زیر بحث مسئلہ میں ہمارے پاس کم از کم چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو دلیل موجود ہے جبکہ اس کی مخالفت میں کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود نہیں۔
ویسے بھی احادیث مبارکہ میں صراحت موجود ہے کہ حدیث مبارکہ لقنوا موتاكم لا إله إلا الله میں موتاکم سے مراد قریب المرگ لوگ ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
« لقنوا موتاكم لا إله إلا الله، فإن من كان آخر كلامه لا إله إلا الله عند الموت دخل الجنة يوما الدهر، وإن أصابه قبل ذلك ما أصابه » ۔۔۔ صحيح الجامع: 5150
اپنے مردوں (قریب المرگ لوگوں) کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو، پس جس شخص کی بھی آخری کلام موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ ہوئی وہ ایک دن جنت میں داخل ہوگا ۔۔۔ الحدیث
من لقن عند الموت شهادة أن لا إله إلا الله دخل الجنة ۔۔۔ المعجم الكبير للطبراني
جسے اس کی موت کے وقت کلمہ شہادت لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کی گئی (اور اس نے اسے پڑھ لیا) وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اس سے مزید صراحت کیا ہوگی کہ موتاکم سے مراد قریب الموت شخص ہے۔ لہٰذا اس کے بالمقابل کوئی موضوع یا ضعیف حدیث کسی طور قابل استدلال نہیں ہے۔
چلیں آپ مزید تحقیق کرلیں، مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔مجھے اس وقت علم نہیں کہ کس کس نے اس حدیث کا یہ مطلب سمجھا ہے ۔ ہاں متاخرین میں سے علامہ شامی نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔
ویسے بھی جب نبی کریمﷺ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس سے مراد عند الموت لیا ہے۔ تو پھر باقی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے؟
نبی کریمﷺ نے بذاتِ خود موتاکم سے مراد قریب الموت شخص (مجازی معنیٰ) مراد لیا ہے، جیسے اوپر گزرابہرحال حدیث کے الفاظ ہمارے سامنے ہیں اور ان کو حقیقی معنوں میں استعمال نہ کر سکنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ۔اور ایسی بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان الفاظ کو لازما مجازی معنوں میں ہی استعمال کیا جائے۔
اور پھر سلف صالحین (صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام وغیرہ) میں سے کسی نے بھی اسے حقیقی معنوں میں نہیں لیا۔
تو پھر ہم کیوں اسے حقیقی معنوں میں لینے میں کوشش کر رہے ہیں؟؟؟
جی بھائی! یہی تو ہمارا کہنا ہے کہ سنت پر عمل کیجئے اور مردے کو دفنانے کے بعد سنت کے مطابق اس کے کیلئے دُعا کیجئے!پھر ابو داود کی یہ روایت کہ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘
جب آپ میت کے لئے استغفار اور ثابت قدمی کی دعا مانگیں گے تو اس میں یقینا ایسے الفاظ آ جا ئیں گے جن اللہ رسول اور اسلام کا ذکر آئے گا تو اس سے میت کو سوالات کا جواب دینے میں آسانی ہو گی۔اس میں بھی تلقین کا اشارہ پایا جاتا ہے۔
نہ کہ دفنانے کے بعد اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کریں کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
مردے کو قبر میں تلقین کا فائدہ تب ہو سکتا ہے، جب وہ ہماری بات سن سکتا ہو، حالانکہ کتاب وسنت کے مطابق قبر والے سن نہیں سکتے، نبی کریمﷺ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر انہیں نہیں سنا سکتے۔
إن الله يسمع من يشاء وما أنت بمسمع من في القبور ۔۔۔ سورة فاطر
یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہے۔اس کے علاوہ بخاری یا مسلم کی روایت میں صحابی حضرت عمرو بن عاص کی وصیت بھی موجود ہے جس میں انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بعد از دفن اتنی دیر رکنے کو کہا تھا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم ہوتا ہے اور اس کی وجہ انھوں یہ بتائی تاکہ وہ مانوس ہو جائیں اور دیکھ لیں کہ وہ منکر نکیر کو کیا جواب دیتے ہیں۔
اب ظاہر ہے جو لوگ ڈیڑھ دو گھنٹے قبر کے پاس بھیٹیں گے وہ بالکل خاموش تو نہیں رہیں گے یقینا کسی نہ کسی ذکر اذکار میں مشغول رہیں گے اس سے میت کو سوالوں کے جوابات میں آسانی رہی گی۔
سیدنا عمرو بن عاص کی اس وصیت سے بھی مردے کو قبر میں کلمہ کی تلقین ثابت نہیں ہوتی۔
میرے بھائی! پہلی پوسٹ میں موجود طاہر القادری صاحب کا عمل ملاحظہ کریں اور پھر یہ احادیث!!
کیا ان میں کوئی کَل مشترک ہے؟؟؟