دوسرے طبقے کی تین کتابیں
(سنن ثاثہ ،د،ت، س، اور مسند احمد)
اس کے بعد کچھ دوسری کتابیں ہیں، جو موطا اور صحیحین کے مرتبہ تک تو نہیں پہنچتیں؛ مگر وہ ان سے متصل اور پیچھے پیچھے ہیں۔ ان کے مصنف اعتماد، عدالت، حفظ اور علومِ حدیث میں تبحر میں معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے لیے جو شرائط (صحت واتصال) طے کی تھیں، ان میں سہل انگاری سے کام نہیں لیا۔ بعد والوں نے ان کی کتابوں کا قبولیت کے ساتھ استقبال کیا ہے اور ہر زمانہ میں محدثین وفقہاء نے ان کے ساتھ اعتناء برتا ہے اور وہ کتابیں لوگوں کے درمیان مشہور ہوئیں اور علماء نے ان کتابوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ کسی نے ان کے نامانوس الفاظ کی تشریح کی ہے، کسی نے ان کے رجال کا تتبع کیا ہے اور کسی نے ان کی حدیثوں سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور ان روایات پر عام طور پر علومِ دینیہ کا مدار ہے، جیسے امام ابوداؤد (م۲۷۵ھ) کی سنن، امام ابوعیسیٰ ترمذی (م۲۷۹ھ) کی جامع (سنن ترمذی) اور امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی (م۳۰۳ھ) کی مجتبیٰ جس کو سنن صغریٰ اور مطلق سنن بھی کہتے ہیں۔
چھٹی صدی ہجری کے محدث رزین بن معاویہ عبدری سرقُسطی (م۵۳۵ھ) نے طبقہٴ دوم کی یہ تین کتابیں اور طبقہٴ اولیٰ کی ماقبل مذکور تین کتابیں تجرید الصحاح الستہ میں ان کی حدیثوں کی اسناد حذف کرکے جمع کیا ہے۔ ان کے بعد ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے مذکورہ تجرید کی تہذیب و ترتیب کی ، جس کا نام جامع الاصول لاحادیث الرسول رکھا، جو مطبوعہ اور متداول ہے۔
(مسند امام احمد)
امام احمد کی مسند کو بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسی طبقہ سے منسلک کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں:
”وکان مسند أحمد یکون من جملة ہذہ الطبقة․ فان الامام أحمد جعلہ أصلاً یعرف بہ الصحیح من السقیم قال ما لیس فیہ فلا تقبلوہ“(۱۴)
(اور قریب ہے کہ مسند احمد کہ ہو وہ من جملہ اس طبقہ کی کتابوں کے بے شک امام احمد نے اس کتاب کو ایسی اصل (کسوٹی) بتایا ہے جس کے ذریعہ صحیح وسقیم روایات کو جانا جاسکتا ہے) آپ نے فرمایا کہ جو مسند میں نہیں ہے، اس کو قبول نہ کرو (یعنی صحیح روایات سب مسند میں جمع ہیں اور جو اس سے باہر ہیں وہ صحیح نہیں)؛ مگر اطلاق کے ساتھ امام احمد کی یہ بات علماء نے قبول نہیں کی)۔
کیونکہ مسند احمد ذخیرئہ حدیث کی مسند روایات کا بہت بڑا مجموعہ سہی؛ لیکن تمام روایات کا استیعاب نہیں؛ اس لیے کہ اس میں بہت سی روایات امام احمد سے نقل کرنے میں چھوٹ گئیں، مثلاً ترجمہ حضرت عائشہ میں قصہٴ ام ذرع والی حدیث اس میں نہیں۔ اسی طرح بقول علامہ سیوطی: تقریباً مختلف صحابہ کی دو سو روایات مسند میں درج ہونے سے رہ گئیں، جن سے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیثیں منقول ہیں(۱۵)۔ ہوسکتا ہے، یہ روایات انھیں دستیاب نہ ہوسکی ہوں اور وہ بعد کے ائمہ مثلاً بخاری ومسلم کو دستیاب ہوگئیں۔ بہرحال اس سے مسند میں درج روایات کی صحت پر فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی امام احمد کے دعویٰ کو سامنے رکھ کر اسے یہ درجہ دیا گیا؛ بلکہ یہ درجہ اس میں درج روایات کی صحت و شہرت کی بنیادپر عطا کیا۔
دوسری بات یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں براہِ راست نہ ہوکر اس کے ”قریب“ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ مسانید میں احادیث کی تخریج میں ہر صحابی کی تمام روایات کو بلا ترتیبِ عنوان ایک جگہ جمع کردیا جاتاہے۔ اس میں صرف صحیح روایات کوجمع کرنے پر اکتفا نہیں کیاجاتا۔ حافظ ابن صلاح مسانید میں درج روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فَہٰذِہ عَادَتُہُمْ فِیْہَا أنْ یَخْرُجُوا فِيْ مُسْنَدِ کُلِّ صَحَابِيٍ مَا رَوَوْہُ مِنْ حَدِیْثِہ غَیْرِ لَتَقَیِّدِیْنَ فِأنْ یَکُوْنَ حَدِیْثًا مُحْتَجًّا بِہ “(۱۶)
(مسند میں احادیث کی تخریج کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ہر صحابی کی تمام روایات کو ایک جگہ جمع کردیا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کی قید نہیں ہوتی کہ تمام احادیث قابلِ احتجاج ہوں)۔
مسانید اور فقہی ابواب کے مطابق ترتیب دی جانے والی کتابوں میں جو فرق ہے، اس کو واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فرمایا:
”وضع التصنیف للحدیث علی الأبواب أن یقتصر فیہ علی ما یصلح للاحتجاج أو الاستشہاد بخلاف من رتب علی المسانید فان أصل رفعہ“(۱۷)
(ابواب کی ترتیب پر تصنیفات (جوامع) میں صرف انھیں روایات کو جمع کیاجاتاہے، جو احتجاج اور استشہاد کی صلاحیت رکھتی ہوں، بخلاف مسانید کے جن کے لکھنے کا مقصد صرف جمعِ حدیث ہوتا ہے)۔
اسی وجہ سے شیخ طاہر الجزائری لکھتے ہیں:
”أما کتب المسانید دون کتب السنن فی الرتبہ“(۱۸)
(کتب مسانید مرتبہ میں کتبِ سنن سے کم تر ہوتی ہیں)۔
لیکن مسانید میں مسند احمد سب سے افضل ہے، اس کی روایات دوسری تمام مسانید کے مقابلہ میں صحیح تر ہیں۔ امام شوکانی نے اسے ان تمام کتابوں میں اصح بتایا ہے، جن کتب (مسانید) میں روایات راوی کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔(۱۹)
علامہ سیوطی نے مام ہیثمی (م۸۰۷ھ) کے واسطے سے فرمایا: مسند أحمد أصح صحیحا من غیرہ(۲۰) (مسند احمد تمام مسانید میں سب سے صحیح ہے)۔
حاصل یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں چوتھی اور من جملہ کتبِ حدیث میں چھٹی مستند ترین کتاب ہے؛ اسی لیے یہ ہرزمانے کے محدثین کے لیے قابلِ اعتماد ومرجع رہی ہے۔
سنن ابن ماجہ:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سنن ابن ماجہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، طبقاتِ کتب حدیث بیان کرتے ہوئے، اس کا ذکر نہ طبقہٴ دوم میں کیا اور نہ سوم وچہارم میں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجودضعیف روایات کی کثرت کی وجہ سے امام ولی اللہ نے اسے طبقہٴ دوم کی کتب میں شامل نہیں کیا۔
روایات سنن ابن ماجہ کی نوعیت:
سنن ابن ماجہ میں ایک بڑی تعداد ان روایات کی ہے، جو کتبِ خمسہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) میں نہیں پائی جاتیں۔ امام ابن ماجہ ان احادیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں بہت سی ضعیف الاسناد احادیث بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: ”وفیہ احادیث کثیرة منکرة“(۲۱)(اس میں منکر روایات بہ کثرت ہیں)۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے کتاب مرتب کرکے ابوزرعہ پر پیش کی۔ انھوں نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ شاید اس میں تیس سے زیادہ ایسی حدیثیں نہیں، جن کی اسناد میں ضعف ہے، سیراعلام النبلاء میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ابوزرعہ کا قول کہ اس میں تیس سے زیادہ ضعیف حدیثیں نہیں، اگر یہ قول صحیح ہے تو اس سے مراد تیس ایسی حدیثیں ہیں جو مردود (المطرحہ الساقطہ) ہیں؛ لیکن ایسی روایات جو احتجاج کے قابل نہیں، وہ ہزار کے قریب ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ امام ابن ماجہ حافظ الحدیث، بہترین ناقد حدیث، صادق القول اور وسیع العلم ہیں۔ ان کی کتاب سنن کے مرتبہ سے کم تر ہے؛ اس لیے کہ اس میں منکر اور کچھ موضوع روایتیں بھی ہیں۔(۲۲)
سنن ابن ماجہ کی ۴ہزار روایات میں سے ایک بڑی تعداد (ہزار کے قریب) روایت ناقابلِ استدلال ہونے کی وجہ سے یہ جملہ مشہور ہوا ”کل ما انفرد بہ ابن ماجہ فہو ضعیف“ (ہر وہ روایت جسے امام ماجہ بیان کرنے میں منفرد ہوں وہ ضعیف ہے)؛ لیکن اس جملہ میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ سے کام لیاگیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس جملہ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لیس الأمر فی ذلک علی اطلاقہ فاستقرائی وفی الجملة ففیہ أحادیث کثیرة منکرة“(۲۳) (میرے استقراء وعلم کے مطابق یہ حکم علی الاطلاق درست نہیں، تاہم اس سے انکار نہیں کہ اس میں منکر احادیث کی تعداد زیادہ ہے)۔ علامہ ابن جوزی نے اس کی تیس روایات کو موضوع کہاہے۔
ابن ماجہ میں بڑی تعداد میں روایات کا ضعیف ہونا اور علامہ ابن جوزی اور حافظ ذہبی اور دوسرے ائمہ کی طرف سے اس کی ایک معتدبہ روایات پر موضوع ہونے کے الزام کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسے دوسرے طبقہ کی کتب میں شامل نہیں گردانا۔ حافظ ذہبی نے یہ بات صاف طور پر بیان کی کہ اس کا مرتبہ سنن (ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) سے کم تر ہے(۲۴)۔ یہی رائے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی بھی ہے اور صحیح ہے؛ کیونکہ کتبِ خمسہ میں کوئی بھی ایسی کتاب نہیں، جس میں اتنی بڑی تعداد میں روایات ضعیف ہوں۔
ابن ماجہ اور صحاح ستہ:
چوتھی صدی ہجری کے وسط میں موجودہ کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کے تصور کی طرح کتبِ اربعہ کا تصور پیدا ہوا، جس میں صرف صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی تھیں۔ حافظ ابن السکن اور حافظ مندہ نے فقط اِنھیں چارکتابوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے(۲۵)۔ یہ ائمہٴ سنن ترمذی اور ابن ماجہ کو اس پایہ کی کتب نہیں تسلیم کرتے تھے، بعد میں حافظ ابوطاہر سلفی نے پانچویں صدی ہجری میں سنن/جامع ترمذی کو بھی مذکورہ کتبِ اربعہ کے ساتھ ملحق کیا۔ اسی دوران محمد بن طاہر مقدسی (م۵۰۷ھ) نے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اربعہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی؛ لیکن امام حازمی (۵۸۴ھ) اور ابن جوزی (م۵۹۷ھ) جیسے ائمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا؛ لیکن ترمذی کو کتبِ خمسہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیاگیا۔ اس کے بعد حافظ عبدالغنی (م۶۰۰ھ) نے اس کی حسنِ ترتیب اور فقہی ابواب کی منفعت کی بنیاد پر ابن ماجہ کو اصولِ خمسہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ اس کے بعد ابن النجار (م۶۴۳ھ) ابن تیمیہ (م۶۵۲ھ)، امام جزری (م۷۱۱ھ) اوراکثر اہل علم نے ابن ماجہ کو کتبِ ستہ کی حیثیت سے قبول کرلیا؛ لیکن اسی زمانے کے شیخ ابن صلاح (م۶۴۳ھ)، امام نووی(م۶۷۶ھ) اور ابن خلدون (۸۰۸ھ) نے ابن ماجہ کو چھٹی کتاب کی حیثیت سے کبھی نہیں تسلیم کیا۔ یہ ائمہ اور امام حازمی اور علامہ ابن جوزی صرف اصولِ خمسہ ہی کا ذکر کرتے ہیں۔
جس دوران ابن ماجہ کو کتبِ ستہ میں شامل کرنے کی پہلی کوشش کی گئی، اس وقت علامہ رزین مالکی نے (م۵۲۵ھ) التجرید للصحاح والسنن میں اور ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے جامع الاصول میں ودیگر علماء مغرب نے موطا کو کتب ستہ میں شامل تسلیم کرلیا(۲۷)۔ اس کے بعد یہ امر طے ہوگیاکہ علماء مغرب کے نزدیک موطا اور بقیہ سہ جانب ائمہ کے یہاں ابن ماجہ شامل صحاح ستہ ہے۔
ابن ماجہ حسن ترتیب اور اختصار میں بے نظیر ہے۔ اس کتاب کو جس چیز نے عوام وخواص میں پذیرائی اور قبولیت عطا کی وہ اس کا شاندار اسلوب اور روایات کا حسنِ انتخاب ہے۔ ابواب کی فقہی ترتیب سے مسائل کا واضح استنباط اور تراجمِ ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی اور الجھن کے مطابقت نے سننِ ابن ماجہ کے حسن کو نکھاراہے۔ اس کی ایک اہم انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ امام ابن ماجہ اپنی سنن میں کوئی حدیث مکرر نہیں لائے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جو بقیہ کتبِ اصول کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سنن ابن ماجہ میں دیگر کتب سنن کی بہ نسبت بہت زیادہ اختصار سے کام لیاگیا ہے، اس کے باوجود یہ کتاب ضروری مسائل اور احکام کی جامع ہے۔ زیادہ تر اس کتاب میں مسائل اوراحکام سے متعلق احادیث ہیں۔ فضائل ومناقب کی روایات اس کتاب میں نہیں ہیں۔ ابن ماجہ کی ان ہی فنی خصوصیات کے پیش نظر درس وتدریس کے طلبا اور عام قارئین کے لیے مفید سمجھتے ہوئے ائمہٴ حدیث نے اسے کتبِ ستہ سے ملحق کیا ورنہ نفس روایات اور اس کے رواة کا حال دیکھتے ہوئے سننِ دارمی اور دسری کتب، جیسے صحیح ابن حبان، دارقطنی اور کئی دیگر کتب ابن ماجہ سے برتر ہیں؛ لیکن ان کتب کو وہ قبول عام حاصل نہ ہوسکا جو سنن ابن ماجہ کو نصیب ہوا۔ علامہ سخاوی حافظ علائی (م۷۷۱ھ) کے واسطے سے فرماتے ہیں: ”ینبغی أن یکون کتاب الدارمی سادسہا للخمسة بدلہ فانہ قلیل الرجال الضعفاء نادر الأحادیث المنکرة والشاذة“(۲۸) (کتب ستہ میں سنن ابن ماجہ کے بدلے سنن دارمی زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ سننِ دارمی میں ضعیف روایات کم ہیں اور منکر وشاذ روایات بھی نادر ہیں)۔
اسی طرح علامہ سیوطی نے فرمایاکہ دارمی کی کتاب مرتبہ میں سنن اربعہ سے کم نہیں؛ بلکہ اگر اس کو کتب خمسہ سے ملحق کیا جائے تو ابن ماجہ کی بہ نسبت یہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ وہ سنن ابن ماجہ سے کہیں فائق ہے۔(۲۹)