السلام علیکم ۔۔
میرا سوال ہے کہ اگر مرد طلاق دے دے اور فریقین اک ماہ بعد آپس میں صلح کرنی چاہیں۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی نے پہلی طلاق دے دی ہو اور ایک ماہ تک رجوع نہ کرے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی نے اپنی بیوی کو صرف ایک ہی طلاق دی ہو تو عدت کے اندر اندر وہ آدمی اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے۔اور عدت کی مدت تین حیض یا تین طہر ہو ،جو عموما تین ماہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔اگر ایک ماہ گزر جائے تو بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔لیکن اگر عدت کی مدت گزر جائے تو پھر رجوع نہیں ہوسکتا بلکہ نکاح جدید کرنا پڑے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
____________________
زید نے ایک سال ہوا اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور پھر جلد رجوع کر لیا تھا اب ایک ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے دوبارہ طلاق دے دی ہے اب پھر رجوع پر آمادہ ہو گیا ہے کیا زید اب دوسری طلاق کے بعد پھر رجوع کر سکتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں زید عدت کے اندر اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے اور عدت گذر جانے کے بعد نیا نکاح اسی بیوی کے ساتھ کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ الآیة﴾--بقرة229 ’’طلاق (رجعی) دوبار ہے‘‘ یاد رہے کہ اگر زید اس دوسری طلاق کے بعد اپنی بیوی کو بذریعہ رجوع یا نکاح جدید بیوی بنا لینے کے بعد طلاق دے گا تو پھر وہ بیوی اس کے لیے حلال نہ رہے گی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُۥۗ﴾--بقرة230
’’اب اگر پھر (تیسری بار) اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس پر حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے‘‘
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
طلاق کے مسائل ج1ص 349
محدث فتویٰ
__________________________
اگر کسی نے پہلی طلاق دے دی ہو اور ایک ماہ تک رجوع نہ کرے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی نے اپنی بیوی کو صرف ایک ہی طلاق دی ہو تو عدت کے اندر اندر وہ آدمی اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے۔اور عدت کی مدت تین حیض یا تین طہر ہو ،جو عموما تین ماہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔اگر ایک ماہ گزر جائے تو بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔لیکن اگر عدت کی مدت گزر جائے تو پھر رجوع نہیں ہوسکتا بلکہ نکاح جدید کرنا پڑے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرا سوال
اور مرد قسم اٹھائے کہ میں نے طلاق نہیں دی تھی لیکن عورت بھی بضد ہو کہ طلاق دی تھی مرد نے تو اس صورت حال میں کیا کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ طلاق فون کال سے دی گئی اور گواہ کوئی نہیں ان دو کے علاوہ۔ اور
تین بار طلاق کا لفظ بولا گیا۔۔
امام ابن قدامہ المقدسی ؒ (المتوفى: 620هـ)
اپنی کتاب المغنی میں فرماتے ہيں:
قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (7/387) : " إذا ادعت المرأة أن زوجها طلقها فأنكرها فالقول قوله ; لأن الأصل بقاء النكاح ، وعدم الطلاق ، إلا أن يكون لها بما ادعته بينة ، ولا يقبل فيه إلا عدلان ...
فإن لم تكن بينة فهل يستحلف ؟ فيه روايتان ; نقل أبو الخطاب أنه يستحلف وهو الصحيح ; لقول النبي صلى الله عليه وسلم : (ولكن اليمين على المدعى عليه) وقوله : (اليمين على من أنكر) ...
فإذا طلق ثلاثا وسمعت ذلك وأنكر أو ثبت ذلك عندها بقول عدلين لم يحل لها تمكينه من نفسها ، وعليها أن تفر منه ما استطاعت ، وتمتنع منه إذا أرادها ، وتفتدي منه إن قدرت، قال أحمد : لا يسعها أن تقيم معه ، وقال أيضا : تفتدي منه بما تقدر عليه , فإن أجبرت على ذلك فلا تزين له ولا تقربه وتهرب إن قدرت ، وإن شهد عندها عدلان غير متهمين فلا تقيم معه . وهذا قول أكثر أهل العلم " انتهى .
وعلى هذا ؛ فما دمت لا تذكر تلك الطلقة ، فإنها لا تحتسب عليك ، فأمام القضاء وأمام الناس أنت لم تطلق امرأتك إلا طلقة واحدة .
ولكن .. إذا كانت الزوجة متأكدة من حصول تلك الطلقة ، فإنها تبني عليها ، فإذا ما حصل وطلقتها طلقة أخرى ، فهذه الطلقة عند القضاء هي الثانية ، وعند زوجتك هي الثالثة ، فيجب عليها أن تفتدي نفسها منك بما استطاعت ، ويحرم عليها بقاؤها معك ، كما سبق في كلام الإمام أحمد رحمه الله .
والله أعلم .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ
" جب بيوى دعوىٰ كرے كہ اس كے خاوند نے اسے طلاق دے دى ہے اور خاوند اس سے انكار كرے تو خاوند كا قول معتبر ہوگا، كيونكہ اصل ميں نكاح باقى ہے اور طلاق نہيں ہوئى، الا يہ كہ اگر بيوى اپنے اس دعوى كى كوئى دليل پيش كرے اور اس ميں بھى دو عادل گواہوں كى گواہى ہى قبول كى جائيگى ...۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر اس كے پاس دليل نہ ہو تو كيا قسم اٹھائے ؟
اس ميں دو روايتيں ہيں؛ ابو الخطاب سے منقول ہے كہ قسم اٹھوائى جائيگى اور صحيح بھى يہى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ليكن مدعى عليہ پر قسم ہو گى "
اور ايك روايت ميں ہے:
" جو انكار كرے اس پر قسم ہے "
اس ليے اگر تين طلاق دے ديں اور بيوى نے سن ليا اور خاوند اس سے انكار كرے يا پھر بيوى كے نزديك دو عادل گواہوں كى بنا پر يہ ثابت ہو جائے تو پھر بيوى كے ليے حلال نہيں كہ وہ اسے اپنے نزديك آنے دے، اور عورت كو حسب استطاعت اس سے دور رہنا چاہيے اور جب بھى وہ اس كے پاس آنا چاہے تو وہ اس سے انكار كر دے، اگر اس كے پاس استطاعت ہو تو وہ فديہ دے كر آزاد ہو جائے.
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے ليے خاوند كے ساتھ رہنا صحيح نہيں.
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
جتنى قدرت ركھتى ہو اسے فديہ دے كر اپنے آپ كو آزاد كرائے، اور اگر اسے مجبور كيا جائے تو وہ اس كے ليے زينت مت اختيار كرے اور نہ ہى اس كے قريب آئے بلكہ اگر استطاعت ركھتى ہو تو وہ بھاگ جائے.
اور اگر عورت كے پاس دو عادل شخص اس كى گواہى ديں تو وہ خاوند كے ساتھ مت رہے، اكثر اہل علم كا يہى قول ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 387 ).
اس بنا پر جب آپ كو يہ طلاق ياد نہيں تو يہ آپ پر شمار نہيں ہوگى، .. عدالت اور لوگوں كے سامنے تو آپ نے اپنى بيوى كو ايك ہى طلاق دى ہے.
ليكن ... جب بيوى كو يقين ہے كہ آپ نے اسے طلاق دى تھى تو وہ اس پر اعتماد كرے، اور جب كچھ ہو اور آپ اسے ايك اور طلاق دے ديں تو قضاء كے ہاں يہ دوسرى طلاق ہو گى اور آپ كى بيوى كے نزديك تيسرى طلاق ہو، اس ليے آپ كى بيوى پر واجب ہوگا كہ وہ حسب استطاعت آپ سے چھٹكارا پانے كے ليے فديہ دے، اور اس كے ليے آپ كے ساتھ رہنا حرام ہو جائيگا؛ جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ كى كلام بيان كى جا چكى ہے.
واللہ اعلم .
https://islamqa.info/ar/116641