• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ»

حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ، جبکہ آپ ﷺ اپنا پاؤں مبارک رکاب میں رکھ چکے تھے : کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ۔‘‘


[سنن النسائي، حدیث نمبر: 4214]

اعتراض : اس حدیث شریف میں ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہنے کو جہاد بلکہ سب سے افضل جہاد قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے زبان سے حق بات کہنا بھی جہاد ہے لہٰذا جہاد کا معنی صرف قتال ہی کو قرار دینا درست نہیں۔

جواب نمبر ۱ : محدِّثین کرام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اس وقت ہی جہاد کہلاتا ہے جب کلمہ حق کہنے کی پاداش میں سر قلم ہو جانے کا خدشہ بلکہ یقین ہو۔

اس حدیث کے اردو فوائد و مسائل میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں یہی بیان ہوا ہے کہ یہ اس لیے افضل جہاد ہے کیونکہ ظالم بادشاہ کلمۂ حق کہنے والے کو برداشت نہیں کرتا ۔ اس میں جان کا جانا یقینی ہوتا ہے، پھر میدان جنگ میں تو آدمی اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے جبکہ یہاں وہ بھی ممکن نہیں۔ ہر لحاظ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اور پھر برے طریقے سے مارا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

IMG_20220903_101028_740.jpg


سچ یہ ہے اِظہارِ حق سلطانِ جابر کے خلاف
خدشہ ہائے جان کی خاطر ہوا افضل جہاد

اس تشریح کے مطابق تو یہ حدیث بھی قتال ہی کا مصداق بن گئی کیو نکہ قتال میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں قتل کرنا اور قتل ہونا ۔

جواب نمبر ۲ : زبان سے ادا ہونے والی ایسی تقریر جو قتال ہی کی معاون ہو وہ قتال ہی کا حصہ شمار ہوتی ہے اور اس حدیث شریف میں بھی بالکل یہی صورت ہے ۔

امام انور العلوقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

یقینا اس گئے گذرے دور میں بھی کہیں نہ کہیں ایسے علمائے حق ضرورموجود ہیں جو ہمیشہ سچ بات کرتے ہیں ۔ایسے علماء کوتلاش کرکے ان کی ہمت افزائی کرنی چاہیے کہ باطل قوتوں کا ذرا خوف نہ کھائیں اور جہاد اور مجاہدین کی حمایت میں فتاویٰ جاری کرکے جہاد اسلامی میں شامل ہوجائیں ۔اور پھر ان علماء کے فتاویٰ وسیع پیمانے پر پھیلائے جائیں ۔ہمارے بہت سے بھائی بہن دل میں مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں لیکن جہاد میں کھڑا ہونے کے لیے وہ انہی علماء کی رائے جاننے کے منتظر ہیں ۔بعض مفتی حضرات بھی اپنی نجی محفلوں میں جہاد کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ اپنے شیوخ اور بزرگ علماء کے رائے کے احترام میں خود خاموش ہیں ۔ ان مفتی حضرات کو اپنے بزرگوں کے احترام کے ساتھ اس مسئلے کی اہمیت سمجھانا چاہیے اوربزرگ علماء کو اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ امت مسلمہ کی رہنمائی کریں ۔کیوں کہ امت کی اکثریت علماء ہی کے فیصلے کو قبول کرتی ہے ۔ لیکن اگر ان کے بزرگ اس پر راضی نہیں تو پھر اللہ کے بھروسے پر خود سے آگے بڑھ کر فتاویٰ جاری کردینے چاہیے ۔ اللہ کی عدالت میں یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا کہ ہم اپنے بزرگوں کے احترام میں خاموش تھے ۔ بلکہ وہاں تو آپ سے یہ سوال ہوگا کہ اللہ کے دین کو جس وقت آپ کے علم کی ضرورت تھی جو اللہ نے آپ کو دیا تھا تو اسے لوگوں سے کیوں چھپاکر رکھا؟؟؟

[جہاد میں شرکت کے 44 طریقے، ترجمہ وتسہیل:عمران بشیر]

جواب نمبر ۳ : بسا اوقات کفار کے سامنے زبان کے الفاظ تیر و تلوار سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں اور وہ جہاد ہی کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کفار کے حوصلے پست کرکے یا کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال کر کفار کو جنگ کرنے سے باز رکھتے ہیں یا مسلمانوں کے حو صلے بلند اور انکے دلوں کو مضبوط کر کے مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ تَقُولُ الشِّعْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّزَّاقِ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَعْبُ بْنُ مَالِكٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ قُتِلَ يَوْمَ مُؤْتَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَتْ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ بَعْدَ ذَلِكَ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» ”اے کفار کی اولاد! اس کے ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی“ عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”انہیں کہنے دو، عمر! یہ اشعار ان ( کفار و مشرکین ) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں ( یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے) “۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے ( اس وقت ) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے ۱؎۔

[سنن الترمذي، حدیث نمبر: 2847]
 
Top