• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظالم مسلم حکمران کے خلاف خروج امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
مسلم حکمران کے خلاف خروج کی ضمن نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک مومن کے لئے شاندار رہنمائی فرمائی ہے، ہم یہاں وہ اقول پیش کریں گے تاکہ جو لوگ اس مسئلے پر افراط و تفریط یا غلو کا شکار ہیں ، ان کی رہنمائی ہو سکے کہ آئمہ سلف کا منہج حق کیا تھا اور آج کل جو روش چل نکلی ہے ، آئمہ سلف اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔

امام ابن تیمیہ نے اس ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج کی بحث کوبھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے۔
اور جو لوگ اس آیت:
(فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)(الحجرات :٩9 )
(وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا)(الحجرات :9٩ )
کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ اس آیت میں ظالم و فاسق حکمران کے خلاف قتال کی دلیل موجود ہے، یا تو وہ فہم سلف صالحین سے بالکل لاعلم ہیں یہ کسی نفسانی و دنیائی مفادات پر مشتمل اہداف رکھتے ہیں
اس آیت سے یہ استدلال بالکل درست نہیں کہ اس میں " ہر ظالم" کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں اس آیت:
(وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا)(الحجرات : 9٩)
کہ جن دو گروہوں کی لڑائی ہوئی ہے' ان میں سے بھی تو کوئی ایک ظلم و زیادتی کر رہا تھا لیکن اس سے بوجوہ ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا اور فرمایا کہ ان کے مابین صلح کروا دو۔ امام صاحب اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ ہر ظالم' کہ جس کا ظلم اجتماعی بھی ہو' اس سے قتال کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ مختلف حالات کے تحت مختلف حکم ہو گا۔ ظالم حکمران سے قتال کی صورت میں جو ظلم پیدا ہو گا' اس کے بارے میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ اس ظالم حکمران کے ابتدائی ظلم سے بڑھ کر ہوگا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''ولھذا کان المشھور من مذھب أھل السنة أنھم لا یرون الخروج علی الأئمة وقتالھم بالسیف وان کان فیھم ظلم کما دلت علی ذلک الأحادیث الصحیحة المستفیضة عن النبیۖ لأن الفساد فی القتال والفتنة أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنة فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفة خرجت علی ذی سلطان الا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی ازالتہ واللہ تعالی لم یأمر بقتال کل ظالم وکل باغ کیفما کان و الا أمر بقتال الباغین ابتداء بل قال ( وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الأخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی أمر اللہ فان فاء ت فأصلحوا بینھما بالعدل) فلم یأمر بقتال الباغیة ابتداء فکیف یأمر بقتال ولاة الأمر ابتداء...فقد أخبر النبیۖ أن الأمراء یظلمون ویفعلون أمورا منکرة ومع ھذا فأمرنا أن نؤتیھم الحق الذی لھم ونسأل اللہ الحق الذی لنا ولم یأذن فی أخذ الحق بالقتال ولم یرخص فی ترک الحق الذی لھم.''(منھاج السنة النبویة : ٢٣٠جلد۳ ص ۲۳۰ تا ۲۳۱' مؤسسة قرطبة)
'' اسی وجہ سے اہل سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کے ساتھ تلوار سے قتال کوجائز نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ وہ حکمران ظالم ہی کیوں نہ ہو' جیسا کہ اس مسئلے میں صحیح اور معروف روایات آپﷺ سے مروی ہیں۔ کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جوفساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم سے حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔ پس دو فسادوں میں سے أدنی فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ( تاریخ اسلامی میں) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو کہ اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر ظالم اور باغی سے ہر حال میں قتال کا حکم نہیں دیاہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے باغیوں سے بھی ابتدا قتال کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ یہ کہا ہے :
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سےکوئی ایک دوسرے پر پھر بھی ظلم کرے تو اس سے قتال کرو جو ظلم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم (یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ دوسرا گروہ واپس لوٹ آئے تو ان دونوں کے مابین عدل کے ساتھ صلح کروادو۔ پس اللہ تعالی نے باغی گروہ سے بھی ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا تو حکمرانوں سے ابتداء ہی قتال کا حکم کیسے ہو گا؟...آپۖنے یہ بھی خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور کچھ منکرات کا ارتکاب کریں گے لیکن اس کے باوجود آپۖ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کو ان کا حق دیں اور اللہ سے اپنے حق کا سوال کریں۔ اورآپۖ نے ہمیں حکمرانوں سے اپنا حق لینے کے لیے قتال کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہمیں یہ رخصت دی ہے کہ ہم حکمرانوں کو ان کا حق نہ دیں۔''
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلے میں صرف فکری بحث نہیں کرتے بلکہ وہ تاریخ اسلام کے حوالے دے دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس امت میں فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی خروج ہوئے ہیں' ان سے ظلم ختم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہی ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان' حضرت علی ' حضرت عائشہ' حضرت طلحہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور بنواُمیہ کے زمانے میں مسلمانوں میں خروج کے نتیجے میں جو باہمی قتل و غارت ہوئی ہے'
مسلمان اس کے بارے میں یہ تمنا رکھتے ہیں کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔
باوجودیکہ یہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں اور اپنے مابعد کے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے باہمی جنگ و جدال کو کسی نے بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہی معاملہ صحابہ کے ما بعد آنے والے زمانوں کا بھی ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وقل من خرج علی امام ذی سلطان لا کان ما تولد علی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر کالذین خرجوا علی یزید بالمدینة وکابن الأشعث الذی خرج علی عبد الملک بالعراق وکابن المھلب الذی خرج علی ابنہ بخراسان وکأبی مسلم صاحب الدعوة الذی خرج علیھم بخراسان أیضا وکالذین خرجواعلی المنصور بالمدینة و البصرة وأمثال ھؤلاء وغایة ھؤلاء ما أن یغلبوا و ما أن یغلبوا ثم یزول ملکھم فلا یکون لھم عاقبة فان عبد اللہ بن علی و أبا مسلم ھما اللذان قتلا خلقا کثیرا وکلاھما قتلہ أبو جعفر المنصور وأما أھل الحرة وابن الأشعث وابن المھلب وغیرھم فھزموا و ھزم أصحابھم فلا أقاموا دینا ولا أبقوا دنیا واللہ تعالی لا یأمر بأمر لا یحصل بہ صلاح الدین ولا صلاح الدنیا وان کان فاعل ذلک من أولیاء اللہ المتقین ومن أھل الجنة فلیسوا أفضل من علی وعائشة وطلحة والزبیر وغیرھم ومع ھذا لم یحمدوا ما فعلوہ من القتال وھم أعظم قدرا عند اللہ وأحسن نیة من غیرھم وکذلک أھل الحرة کان فیھم من أھل العلم والدین خلق وکذلک أصحاب ابن الأشعث کان فیھم خلق من أھل العلم والدین واللہ یغفر لھم کلھم.''(منھاج السنة النبویة : جلد۴، ص ٣١٣۔ ٣١٤' مؤسسة قرطبة)
''اور جس نے بھی کسی صاحب اختیار حکمران کے خلاف خروج کیا تو اس کےخروج سے پیدا ہونے والاشر' اس سے پیدا ہونے والے خیر سے بہت بڑھ کر تھا جیسا کہ وہ لوگ ، جنہوں نے مدینہ میں یزید کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن أشعث ،کہ جنہوں نے عراق میں مروان بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن مھلب کہ جس نے خراسان میں اپنے ہی بیٹے کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح أبو مسلم کہ جس نے خراسان میں حکمرانوں کے خلاف خروج کیا اور وہ لوگ کہ جنہوں نے مدینہ و بصرہ میں أبو جعفر منصور کے خلاف خروج کیا اور اس طرح کے اور لوگ بھی تھے۔ ان سب کے خروج کا نتیجہ یا تو یہ تھا کہ یہ لوگ مغلوب ہوگئے یا پھر وقتی طور پر غالب آ گئے لیکن جلد ہی ان کی حکمرانی ختم بھی ہو گئی۔ پس اس اعتبار سے ان کا انجام کچھ بھی نہ تھا۔ عبد اللہ بن علی اور أبو مسلم نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا اور ان دونوں کو أبو جعفر منصور نے قتل کر دیا۔ جہاں تک اہل مدینہ یاابن أشعث یا ابن مہلب وغیرہ کا معاملہ ہے تو انہوں نے اور ان کے پیروکاروں نے شکست کھائی۔ یہ لوگ نہ تو دین کو قائم کر سکے اور نہ ہی اپنی دنیا کو بچا سکے۔
اللہ سبحانہ و تعالی کبھی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتے کہ جس میں نہ تو دین کی اصلاح ہو اور نہ ہی دنیا کی' چاہےایسا کرنے والے اللہ کے ولی' جنتی اور متقی ہی کیوں نہ ہوں۔پس یہ (خروج کرنے والے) حضرت علی' عائشہ' طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے زیادہ أفضل نہیں ہو سکتے اور ان لوگوں کے جنتی' متقی اور ولی اللہ ہونے کے باوجود ان کے باہمی قتال کی تعریف نہیں کی گئی حالانکہ یہ صحابہ کرام اللہ کے ہاں بہت بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور ان کی نیت بھی دوسروں کی نسبت زیادہ خالص تھی۔ اسی طرح اہل مدینہ کے خروج اور ابن أشعث کے أصحاب میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو أصحاب علم و فضل میں سے تھے اور دین و اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے (لیکن جب ان صحابہ اور أئمہ سلف کا باہمی قتال اہل سنت کے ہاں قابل تعریف نہیں ہے تو بعد کے زمانوں میں یہ کیسے قابل تعریف ہو سکتا ہے؟) اللہ سبحانہ و تعالی ان سب سے درگز رفرمائے۔''
آسان فہم اختتامیہ کلمات

اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک تھانیدار نے ایک بے گناہ آدمی زید کو کسی جرم میں اندر کر دیا۔ اس بے گناہ نے جب تھانیدار سے اپنا جرم پوچھا تو اس نے اسے ایک تھپڑرسید کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس مثال میں تھانیدار ظالم ہے اور زید مظلوم ہے۔ اب زید کے تین دوست ہیں۔
ایک دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی کا فوراً بدلہ لیتے ہوئے تھانیدار کو بھی ایک تھپڑ رسید کر دینا چاہیے جبکہ
دوسرے دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس نے تھانیدار کو تھپڑ رسید کیا تو تھانیدار کی طرف سے اس کا جواب دس تھپڑوں' لاتوں' مکوں' گالیوں اور ڈنڈوں کی صورت میں ملے گا۔
تیسرا دوست اس بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔
زید پہلے دوست کی بات مان لیتا ہے اور جواباً تھانیدار کی طر ف سے وہی رد عمل سامنے آتا ہے جس کی پیشین گوئی دوسرے دوست نے کی تھی۔ زید رد عمل میں پھر تھانیدار کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے اور جواباً مسلسل تھانیدار کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ اب زید کا پہلا دوست اپنے گھر' محلے اور مسجد میں جا کر تھانیدار کے ظلم کی داستانیں عام کرتا ہے لیکن اس سے زید کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ نہیں ہوتا اور اس پر تھانیدار کا ظلم بڑھتا ہی رہتاہے۔

سوال یہ ہے کہ زید کا مخلص دوست کون ہے؟؟؟
اللہ ہمیں قرآن و سنت کا متبع اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین​
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جب آپ خود ہی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ تھانیدار نے ظلم کیا تو باقی کیا بچتا ہے؟؟؟۔۔۔
دوسری بات کیا ہمیں نہیں معلوم ہمارے تھانیدار ہی آج کل بیشتر جرائم کی پشت پناہی کررہے ہیں۔۔۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے اُن تمام تھانیداروں کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔۔۔
جس کی بنیاد پر اُن تمام تھانیدراوں کو معطل بھی کردیا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی جرم میں ملوث تھے۔۔۔
اسی طرح سرے عام کی ٹیم پر پولیس نے حملہ کیا ایک ٹریگر چلا تھوڑی دیر بعد اس علاقے کا ایس پی، ایس ایچ او، اے ایس آئی، سب معطل۔۔۔
دیکھیں بھائی پرانی کہاوت ہے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔۔۔
ہم جس دور سے گذررہے ہیں یا جن حالات کا سامنا ہمیں ہے۔۔۔
اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟ یہ ہے بنیادی سوال۔۔۔
ہمیں اُن علاقوں کے بے گناہ افراد کی شہادت پر کیوں افسوس نہیں ہوتا جو وزیرستان میں ڈران حملوں میں شہد ہوتے ہیں۔۔۔
اگر ہم دین کے سچے داعی ہیں۔۔۔ جو امن وسلامتی کا مذہب ہے۔۔۔
تو کیا ہماری پہلی ترجیح ڈران حملوں کی بندش ہونی چاہئے تھی یا نیٹو سپلائی لائن کو بندکروانا؟؟؟۔۔۔
نیویارک ٹائم کی خبر کے مطابق کے امریکہ نے جنوری سے ڈران حملے نہیں کئے۔۔۔
تو جنوری سے لیکر پچھلے دنوں تک یہ کام کون کررہا ہے؟؟؟۔۔۔
العین بالعین۔۔۔۔

ایک گتھی جس کا سلجھنا بےحد ضروری ہے!۔ سوال کہ طور پر پیش کرتا ہوں!۔
ایک کافر نے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمان کے قتل اور جان ومال کو حلال تسلیم کرلیا۔۔۔ یہ مسلمان جو کافر کا ساتھی بن گیا اس کے ہر طرح کی مدد مہیا کی جس کو بنیاد بنا کر کافر نے اسی کے مسلمان بھائی کے گھر والوں میں بیوی بچوں، بوڑھے والدین، بہن بھائیوں، یہاں تک کے جس محلے میں وہ رہائشی تھا وہاں پر بے قتل وغارتگری کا بازار گرم رکھا۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مثال میں وہ مسلمان جو کافر کے ساتھ دے رہا ہے وہ ظالم ہے کیونکہ وہ بلاواسطہ اس سارے فساد میں ملوث ہے جس سے اسی کے دوسرے مسلمان بھائی کو جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔۔۔اب اس مسلمان کے تین دوست ہیں۔۔۔
ایک دوست کا کہنا یہ ہے کہ جس مسلمان پر ظلم ہوا اُس کو صبر کرنا چاہئے کیونکہ اگر اِس نے اُس معاون کے خلاف آواز بلند کی کے تم نے کافر کی مدد کیوں کی تو اس کے جواب میں وہ اس کافر کے ساتھ مل کر مزید مظالم ڈھائے گا اور پوری شہر میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کروادے گا۔۔۔ تاتاریوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی مثال تاریخ میں موجود ہے۔۔۔
دوسرا دوست!۔
وہ یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جھگڑا ہو تو ان میں صلاح کروا دو لیکن اگر وہ دوبارہ لڑین تو جو جماعت زیادتی پر ہو اس سے لڑو یہاں تک کے وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرلیں۔۔۔
تیسرا دوست یعنی میں خود۔۔۔
خاموش تماشائی بن کر پوری صورتحال کا جائزہ لے رہا ہوں۔۔۔
کہ کون صحیح بے اور کون غلط۔۔۔


اب میرا سوال یہ ہے کہ زید کو تھپڑ پڑا تھا۔۔۔
لیکن جس مسلمان نے کافر کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمان کے پورے گھر، خاندان، اور قبیلے کو بےگناہ قتل کروایا اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟۔۔۔ اور اس پورے فساد کے عیوض اُس مسلمان نے کافر سے بھاری معاوضہ بھی لیا ہو۔۔۔ اور خود یہ فساد شروع کروا کے اپنے پیچھے آنے والے حریص حکمرانوں کے لئےبھی موقع کو فراہم کیا وہ بھی اس قتل وغارتگری میں اس کافر کے معاون ثابت ہوں اور پیسہ مراعات اور انعام اکرام سے نوازے گئے۔۔۔
لیکن میں یہاں یہ جاننا چاہتا ہوں کے اُس بیچارے مسلمان کا کیا قصور تھا؟؟؟۔۔۔ جس کے خلاف اس کے اپنے بھائی کافروں کی گود میں جاکر بیٹھ گئے؟؟؟۔۔۔ اُس پر ظلم کے یہ پہاڑ توڑے؟؟؟۔۔۔
لال مسجد والوں کا کیا قصور تھا؟؟؟۔۔۔ اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بغاوت ہے تو پھر ان کو شہادت کےدرجوں پر کیوں فائز کیا گیاَ؟؟؟۔۔۔
اللہ ہمیں قرآن و سنت کا متبع اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ظالم اور فاسق حکمران کے خلاف خروج کے مخالفین سے ابن حزم رحمہ اللہ کا سوال

۔ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس حکمران کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنے اختیارات نصاری کے حوالے کردیئے ہیں نصاری ہی اس کے ساتھی اور فوج ہیں اورمسلمانوں پر جزیہ لگادیا ہے مسلمان بچوں پر تلواریں نکال لی ہیں مسلم عورتوں سے زناکو جائز کردیا ہے ۔جو بھی مسلمان مرد،عورت اوربچہ انہیں نظر آتا ہے اس کو مارتے ہیں جبکہ یہ حکمران خاموش تماشائی ہے اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتا ہے نماز پڑھتا ہے ؟اگر یہ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف خروج پھر بھی جائز نہیں ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ اس طرح تو یہ تمام مسلمانوں کو ختم کردے گا اوراکیلا ہی رہ جائے گا اور ا س کے ساتھی کافر رہ جائیں گے ؟اگر یہ لوگ اس صورت میں بھی صبر کو جائز کہتے ہیں تو یہ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اس سے خارج ہوتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے تو ہم کہیں گے کہ اگر نوے فی صد مسلمان مارے جاتے ہیں ان کی عورتیں پکڑ لی جاتی ہیں ان کا مال لوٹا جاتا ہے تو؟اگر یہ خروج سے پھر بھی منع کرتے ہیں تو اپنی بات کی مخالفت کرتے ہیں اوراگر خروج کو واجب کرتے ہیں تو ہم ان سے مزید کم کے بارے میں سوال کریں گے یہاں تک کہ ہم ان سے پوچھیں گے کہ ایک مسلمان مارا جائے اور ایک مسلمان عورت پکڑلی جائے یا ایک آدمی کا مال زبردستی لیا جائے تو؟اگر یہ فرق کرتے ہیں تو ان کی بات میں تضاد ہے اور یہ بات ان کی بلادلیل ہے جو جائز نہیں اور اگر یہ خروج کو لازم قرار دیتے ہیں تو تب یہ حق کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر ایک ظالم حکمران کسی شخص کی بیوی بیٹی اور بیٹے کو زبردستی اپنے قبضے میں لے کر ان سے غلط اور فسق کے کام کروانا چاہے توکیا ایسے آدمی کو صرف اپنی جان بچانی چاہیے تو یہ ایسی بات ہے جو کوئی مسلمان نہیں کرسکتا اور اگر یہ کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کو بچانے کے لیے لڑنا چاہیے تو یہ ہے حق اور صحیح بات اس طرح دیگر مسلمانوں کے مال وجان کے تحفظ کے لیے بھی حکمرانوں کے مقابلے پر آناچاہیے ۔ابومحمدکہتے ہیں :اگر معمولی سابھی ظلم ہوتو امام سے اس بارے میں بات کرنا واجب ہے اور اسے روکنا چاہیے اگر وہ رک جاتا ہے اور حق کی طرف رجوع کرتا ہے اور زناچوری وغیرہ کے حدود کے تیار ہوتا ہے تو اس کی اطاعت سے نکلنا نہیں چاہیے اور اگر ان واجبات کے نفاذ سے انکار کرتا ہے تواس کو ہٹاکر کسی اور کو اس کی جگہ امام مقرر کرنا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:اور تعاون کرو نیکی اور تقوی پر اورگناہ وزیادتی پر تعاون مت کرو۔شریعت کے واجبات میں سے کسی کوضائع نہیں کرنا چاہیے ۔(الملل والاھواء والنحل لابن حزم :۴/۱۳۲-۱۳۵)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جب امام کا تقرر ہوجائے اور اس کے بعد وہ فسق کرے تو جمہور کہتے ہیں اس کی امامت فسخ ہوجائے گی اس کو ہٹاکر کسی اور کو امام بنایاجائے گا اگر اس نے فسق ظاہری اور معلوم کا ارتکاب کیا ہو۔اس لیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امام کا تقرر مقصد کے لیے ہوتا ہے حدود کا نفاذ اور حقوق کی ادائیگی وتحفظ یتامی کے مال کی حفاظت مجرموں پر نظر رکھنا وغیرہ مگر جب وہ خود فاسق ہوگا تو ان امور کی انجام دہی نہیں کرسکے گا ۔اگر ہم فاسق کے لیے امام برقرار رکھناجائز قرار دیدیں تو جس مقصد کے لیے امام بنایا جاتا ہے وہ مقصد باطل ہوجائے گا اسی لیے تو ابتدائً ہی فاسق کا امام کے لیے تقرر جائز نہیں ہے کہ مقصد امامت فوت ہوجاتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کاکام ترک کردے جیسا عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:الَّایہ کہ تم اما م میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔دوسری حدیث میں ہے جب تک نماز قائم کرتا رہے ۔ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے تم پر امیر مقرر کیے جائیں گے جن کی کچھ باتیں تمہیں پسند ہوں گی کچھ ناپسند ہوں گی جس نے ناپسند کیا وہ بری ہوا جس نے انکار کیا وہ محفوظ رہا جس نے تابعداری کی اور راضی ہوا ۔لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا :نہیں جب تک کہ نماز قائم کرتے رہیں ۔دل سے ناپسند کرنا مراد ہے ۔(قرطبی :۱/۲۸۶-۲۸۷)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا اس آیت کی تفسیر میں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن خویزمنداد رحمہ اللہ نے کہا ہے جو بھی ظالم ہوتا ہے وہ نہ نبی بنتا ہے نہ خلیفہ نہ حاکم نہ مفتی نہ نماز کے امام نہ اس کی روایت قبول کی جاتی ہے نہ احکام میں اس کی گواہی قبول کی جاتی ہے ۔جب تک اپنے فسق کی وجہ سے معزول نہ کردیاجائے اہل حل وعقد اس کو معزول کردیں۔(قرطبی:۲/۱۱۵-۱۱۶)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اشعری کہتے ہیں ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج بعض اہل سنت کا مذہب ہے جبکہ اہل سنت کی ایک جماعت اور خوارج ،معتزلہ زیدیہ اور بہت سے مرجئہ کہتے ہیں کہ فاسق امام کے خلاف خروج اور قوت کا استعمال واجب ہے۔(مقالات الاسلامیین:۱۴۵)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہ امراءِ ظلم کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے اس کو ہٹانا ممکن ہوتو ضروری اور واجب ہے ورنہ صبر واجب ہے بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں ہے اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔(فتح الباری:۱۳/۸)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے جیسا کہ ابواسحاق الفزاری نے امام ابوحنیفہ سے کہا کہ آپ کو اللہ کا ڈر نہیں ہے کہ میرے بھائی کو ابراہیم (ابراہیم بن عبداللہ بن الحسن ہیں )کی معیت میں بغاوت پر اکسایا ،آمادہ کیا؟امام صاحب نے کہا کہ اگر وہ بدر میں مارا جاتا تو؟اللہ کی قسم میرے نزدیک یہ بدر صغری ہے۔(شذرات الذہب:۱/۴۴،تاریخ بغداد:۱۳/۳۸۴)
جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام ابوحنیفہ کا مذہب مشہور ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قتال کرنا چاہیے ۔(احکام القرآن:۱/۸۶)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں علماء کے اقوال

ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج وبغاوت تابعین کے بعد بھی ایک مذہب کی شکل میں باقی رہا جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے احمد بن نصر الخزاعی شہیدرحمہ اللہ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ احمد بن نصر رحمہ اللہ عالم تھا ،دیانتدار ،عمل صالح کرنے والا ، مجتہد تھاان ائمہ سنت میں سے تھا جو امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے قرآن کو مخلوق کہنے والے واثق باللہ کے خلاف خروج کیا ۔

ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں امام غزالی رحمہ اللہ کا قول۔
غزالی فرماتے ہیں :ظالم حکمران کو اختیارات کے استعمال سے روک لینا چاہیے وہ معزول کیے جانے کے لائق ہے حکمران بنائے جانے کے نہیں(احیاء العلوم:۲/۱۱۱) ۔ابوالوزیر رحمہ اللہ حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے بارے میں کہتے ہیں :(فقہاء کے کلام میں )اس بات کی تحسین ہے جو حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے ساتھ اور جو ابن الاشعت نے حجاج کے ساتھ کیا جمہور فقہ نے خروج کو مخصوص کردیا ہے یزید وحجاج کی طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کہ ان جیسا ظالم وجابر ہو تو خروج ہوسکتا ہے (الروض الباسم عن سنۃ ابی القاسم:۲/۳۴)۔مزید فرماتے ہیں :ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج جو ممنوع ہے اس منع سے وہ حکمران مستثنیٰ ہے جس کا ظلم اور فساد بہت بڑھ گیا ہو جیسے یزید بن معاویہ اور حجاج بن یوسف ایسے حالات میں کوئی بھی اس طرح کے اشخاص کی امامت کا قائل نہیں (ایضاً)۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن الوزیر رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن الوزیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ابوبکر بن مجاہد پر ردّ کیا ہے اس بات پر کہ اس نے ظالموں کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے ابن حزم aنے اس کو ردّ کیا ہے اور دلیل کے طور پر یزید کے خلاف حسین رضی اللہ عنہ کے خروج اور حجاج کے خلاف ابن الاشعت کے خروج کو دلیل بنایا ہے جبکہ ابن الاشعت کے ساتھ کبار تابعین بھی تھے ۔(الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم لابن الوزیر:۲/۳۴)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے کبار صحابہ وتابعین کے نام۔
۔عبداللہ بن زبیر ۔محمد ۔حسن بن علی ودیگر مہاجروانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے جو یوم الحرہ قائم رہے تھے ۔ان صحابہ کا بھی قول ہے جو حجاج کے مقابلہ پر تھے جیسے انس بن مالک اور دیگر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا اور تابعین جیسے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ۔سعید بن جبیر ۔ابن البختری الطائی ۔عطاء السلمی الازدی ،حسن بصری ۔مالک بن دینار۔مسلم بن بشار ۔ابوالھوراء۔شعبی ۔عبداللہ بن غالب۔عقبہ بن عبدالغافر ۔عقبہ بن صہبان۔ماھان۔مطرف بن المغیرہ بن شعبہ۔ابی المعد۔حنظلہ بن عبداللہ۔ابی سح الہنائی ۔۔طلق بن حبیب۔مطرف بن عبداللہ بن السخیر،نصر بن انس۔عطاء بن السائب۔ابراہیم بن یزیدالتیمی۔ابوالحوساء ۔جبلہ بن زحر وغیرہ ۔ان کے بعد تابعین میں سے جیسے :عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر۔عبداللہ بن عمر۔محمد بن عجلان۔اور محمد بن عبداللہ بن الحسن اور ہاشم بن بشیر۔مطرکے ساتھی اور ابراہیم بن عبداللہ کے ساتھی
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے فقہاء کا قول ۔
فقہاء میں سے یہی قول ابوحنیفہ ،حسن بن حییٔ۔شریک ۔مالک۔شافعی۔داؤد وغیرہ ۔ہم نے قدیم وجدید افراد کی رائے نقل کی ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے منکر کے خلاف فتوے دیئے اور کچھ ایسے ہیں جو باقاعدہ تلواریں لیکر منکر کے خلاف نکلے تھے ۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے ۔علماء کا مذہب یہ ہے کہ اگر ظالم حکمران کو بغیر ظلم وفتنہ کے ہٹایا جاسکتا ہو تو معزول کردینا واجب ہے ورنہ صبر کرنا واجب ہے۔(فتح الباری :۳/۸)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارےابو محمد امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
بومحمد کہتے ہیں :مذکورہ گروہ نے پہلے احادیث سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کے رسول کیا ہم ان سے جنگ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا:نہیں جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔یایہ کہ جب تک تم ظاہر اور صریح کفر نہ دیکھ لو،یا وہ حدیثیں جن میں صبر کو واجب کیا گیا ہے یا وہ کہ جس میں کہا گیا ہے مقتول بن جاؤ قاتل نہ بنو۔(طبرانی)اللہ کافرمان ہے کہ آدم کے دوبیٹوں کا واقعہ انہیں سنادو جب دونوں نے قربانی کی ایک کی قبول ہوئی دوسرے کی نہیں ہوئی ۔ابومحمد کہتے ہیں :ان سب دلائل میں ان کے کام کی کوئی چیز نہیں ہے ہم نے ان میں سے ایک ایک حدیث کی اچھی طرح تحقیق کی ہے اور اپنی کتاب الاتصال الی فہم معرفۃ الخصال میں اسے لکھا ہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کررہے ہیں:
صبر کرنے اور پیٹھ پر مار کھانے کا جو حکم ہے یہ تب ہے جب امام برحق ہو یعنی امام بننے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہو ایسے امام کے دور میں صبر کرنا واجب ہے اور اگر ایک شخص صبر نہیں کرے گا تو وہ فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے ۔اور اگر امام برحق نہ ہو بلکہ باطل ہو تو رسول ﷺایسے امام کے لیے صبر کا حکم نہیں دے سکتے اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے ۔نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور سرکشی پر تعاون مت کرو۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول ﷺکا کلام اللہ کے کلام کے خلاف نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے اور (محمدﷺ)اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ صرف وحی ہے جو اس کی طرف کی گئی ہے ۔دوسری جگہ فرمان ہے:اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ۔ثابت ہوا کہ جو کچھ اللہ کے رسول ﷺکہتے ہیں :وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی ہے لہٰذا اس میں تعارض وتناقض نہیں ہوسکتا ۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ کسی بھی شخص کا مال ناحق طور پر لینا یاکسی کو ناحق مارنا پیٹنا گناہ اور زیادتی ہے حرام ہے ۔رسول ﷺنے فرمایاہے:تمہارا خون ،مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد۔ترمذی۔احمد) ۔جب اس میں اختلاف اور شک نہیں کہ کسی مسلمان کا مال ناحق لینا اور اس کومارنا پیٹنا ظلم ہے اور وہ اس ظلم کو روکنے پر قادر ہو تو کسی بھی ممکن طریقے سے اس ظلم اور گناہ میں تعاون کرنا یہ قرآن کی رو سے حرام ہے ۔اس کے علاوہ دیگر احادیث اور ابنی آدم کا قصہ بھی دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ قصہ ابنی آدم الگ شریعت تھی ہماری نہیں تھی اللہ کا فرمان ہے:تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت اورطریقہ بنایاہےجبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ جو تم میں سے منکر دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے ورنہ دل سے اور یہ کمزور ایمان ہے اس کے بعدایمان کاکوئی درجہ نہیں ہے ۔آپ eکا فرمان ہے :معصیت میں اطاعت نہیں ہے اطاعت میں اطاعت ہے ۔فرمان ہے:جو اپنے مال، دین اور عزت کی حفاظت میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے(احمد۔طبرانی)۔فرمان ہے:تم ضرور معروف کاحکم کروگے منکرسے روکو گے ورنہ سب پر اللہ کاعذاب آئے گا ۔بظاہر احادیث (صبر اور امر بالمعروف وغیرہ )باہم معارض ہیں مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ناسخ اور کچھ منسوخ ہیں یعنی ایک حکم ناسخ دوسرا منسوخ ہے ۔ ناسخ کون سا ہے منسوخ کون سا تو معلوم ہوتا ہے کہ جن احادیث میں قتال کی نفی ہے وہ منسوخ ہیں اس لیے کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا اور ان کو ماننے سے شریعت میں اضافہ لازم آتاہے کہ شریعت میں قتال کا حکم ہے ۔لہٰذا منسوخ کو لینا اور ناسخ کو ترک کرنا۔شک کو لینا اور یقین کو چھوڑ دینا محال ہے ۔اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ یہ احادیث یا حکم منسوخ ہوگیا تھا مگر اب پھر ناسخ بن گیا تویہ دعوی باطل ہے یہ کوئی بے علم ہی کرسکتا ہے اللہ پر لاعلمی میں بات کی ہے جو جائز نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اللہ اس کو بغیر دلیل وبرہان کے نہ چھوڑتا اس لیے کہ قرآن تبیان لکل شییٔ ہے۔دوسری دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے :اگر مومنوں میں سے دوگروہ باہم قتال کریں تو تم ان میں صلح کردیا کرو اگر ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ قتال کرو جب تک وہ باز نہ آئے ۔کسی مسلمان نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا ہے کہ فرقہ باغیہ سے قتال کا حکم دینے والی یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے یہ آیت مذکورہ احادیث کا فیصلہ کررہی ہے جو حدیثیں اس آیت کے موافق ہیں وہ ناسخ او رجو مخالف ہیں وہ منسوخ ہیں ۔بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ آیت اور اس کے موافق مذکورہ احادیث چوروں کے بارے میں سلطان کے بارے میں نہیں ہیں ۔یہ بات بھی غلط اور باطل ہے اس لیے کہ بغیر دلیل کے کہی گئی ہے یہ دعوی کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ احادیث ایک گروہ کے بارے میں ہیں دوسرے کے بارے میں نہیں ہیں یا ایک دوسرے کے لیے ہیں دوسرے کے لیے نہیں ہے۔ایک شخص نے رسول ﷺسے پوچھا کہ ایک آدمی مجھ سے ناحق میرا مال مانگ رہا ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا :اسے نہ دو ۔اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑائی کرے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :تم بھی اس سے لڑو ۔اس نے کہا اگر وہ میرے ہاتھوں مارا جائے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :وہ جہنم میں جائے گا۔اس نے کہا اگر میں مارا گیا؟آپﷺنے فرمایا :تم جنت میں جاؤگے ۔(بخاری۔مسلم۔ترمذی۔الفاظ کچھ اور ہیں )ایک اورحدیث میں ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس کا مال نہیں چھینتا اس پر ظلم نہیں کرتا۔ایک حدیث میں ہے جس نے (زکاۃ)صحیح طریقے سے مانگی اسے دیدو او رجو صحیح طریقے سے نہ مانگے اسے نہ دو۔(بخاری)۔یہ حدیث صحیح ہے ثقات سے ثابت ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں یہ احادیث ان لوگوں کی اس تاویل کوباطل ثابت کرتی ہیں کہ یہ صرف چوروں سے متعلق ہیں اس لیے کہ چور زکاۃ نہیں مانگتے یہ سلطان کا کام ہے اس لیے فرمایااگر غلط طریقے سے زکاۃ وصول کرے (ناحق وغیر شرعی)۔اگر اہل حق متفق ہوجائیں تو اہل باطل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرتے ہیں تو اس میں محاصرہ ہے قتل کا نہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ قتال امام عادل کے جائزنہیں ہے اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خروج وبغاوت کریں گے توخون خرابہ ہوگا ۔عزتیں پامال ہوں گی انتشار پھیل جائے گا ۔یہ بات بھی غلط ہے اس لیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والا کبھی عزتیں پامال نہیں کرتا نہ ہی کسی کامال ناحق لیتا ہے نہ اس شخص کو کچھ کہتا ہے جو اس کے ساتھ نہیں لڑتا اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو اس کے خلاف بھی خروج وبغاوت اور حملہ ہوگا۔اگر مراد یہ ہے منکرات کرنے والے یہ کام کریں گے تو اس لیے تو ان کے خلاف کاروائی کرنی ہے ان خرابیوں کو ہی تو تبدیل کرنا ہے ۔اگر یہ باتیں بغاوت کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر یہ باتیں جہاد کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوں گی؟حالانکہ کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں کہتا اگر یہی سوچ لیں کہ جہاد کریں گے تو نصاری مسلمان عورتوں اوربچوں کوغلام بنالیں گے ان کا مال اور ان کی جانیں تلف کردیں گے ان کی عزتیں پامال کرلیں گے ۔اس کے باوجود مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد واجب ہے ۔ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں جہاد ہیں اور قرآن وسنت کی طرف دعوت ہے ۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
خلیفۃ المسلمین زرد آری جیسے اولی الامر کے خلاف واقعی خروج جائز نہیں ہے . اور ہم دل و جان سے اس کے ہر حکم کی اطاعت کے پابند ہیں .

اگرچہ وہ سود کو ، زنا بالرضا کو ، اور دوسری حدود اللہ میں علی الاعلان دخل اندازی کرے تو وہ مدینہ ثانی کا شرعی ذمہ دار ہونے کے ناطے اس کا حق ہے !

اگر وہ کفار و مشرکین کی ہر ممکن مدد اپنے پیشرو عطیم جرنیل اسلام ، عصر حاضر کے صلاح الدین مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر طرح سے جاری رکھے ...... یہ تو اس کے ڈر اور خوف سے فطری طور پر لغزش سرزد ہورہی ہے .... آخر اتنی بڑی طاقت سے تو فطری طور پر انسان خوفزدہ ہو ہی جاتا ہے ، اس لیے اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

ہم اس کی اطاعت سے بالشت بھر بھی باہر نکلنے کو جاہلیت کی موت خیال کرتے ہیں .

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
 
Top