القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلم حکمران کے خلاف خروج کی ضمن نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک مومن کے لئے شاندار رہنمائی فرمائی ہے، ہم یہاں وہ اقول پیش کریں گے تاکہ جو لوگ اس مسئلے پر افراط و تفریط یا غلو کا شکار ہیں ، ان کی رہنمائی ہو سکے کہ آئمہ سلف کا منہج حق کیا تھا اور آج کل جو روش چل نکلی ہے ، آئمہ سلف اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔امام ابن تیمیہ نے اس ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج کی بحث کوبھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے۔
اور جو لوگ اس آیت:
(فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)(الحجرات :٩9 )
(وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا)(الحجرات :9٩ )
کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ اس آیت میں ظالم و فاسق حکمران کے خلاف قتال کی دلیل موجود ہے، یا تو وہ فہم سلف صالحین سے بالکل لاعلم ہیں یہ کسی نفسانی و دنیائی مفادات پر مشتمل اہداف رکھتے ہیں
اس آیت سے یہ استدلال بالکل درست نہیں کہ اس میں " ہر ظالم" کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں اس آیت:
(وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا)(الحجرات : 9٩)
کہ جن دو گروہوں کی لڑائی ہوئی ہے' ان میں سے بھی تو کوئی ایک ظلم و زیادتی کر رہا تھا لیکن اس سے بوجوہ ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا اور فرمایا کہ ان کے مابین صلح کروا دو۔ امام صاحب اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ ہر ظالم' کہ جس کا ظلم اجتماعی بھی ہو' اس سے قتال کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ مختلف حالات کے تحت مختلف حکم ہو گا۔ ظالم حکمران سے قتال کی صورت میں جو ظلم پیدا ہو گا' اس کے بارے میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ اس ظالم حکمران کے ابتدائی ظلم سے بڑھ کر ہوگا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلے میں صرف فکری بحث نہیں کرتے بلکہ وہ تاریخ اسلام کے حوالے دے دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس امت میں فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی خروج ہوئے ہیں' ان سے ظلم ختم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہی ہے۔''ولھذا کان المشھور من مذھب أھل السنة أنھم لا یرون الخروج علی الأئمة وقتالھم بالسیف وان کان فیھم ظلم کما دلت علی ذلک الأحادیث الصحیحة المستفیضة عن النبیۖ لأن الفساد فی القتال والفتنة أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنة فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفة خرجت علی ذی سلطان الا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی ازالتہ واللہ تعالی لم یأمر بقتال کل ظالم وکل باغ کیفما کان و الا أمر بقتال الباغین ابتداء بل قال ( وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الأخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی أمر اللہ فان فاء ت فأصلحوا بینھما بالعدل) فلم یأمر بقتال الباغیة ابتداء فکیف یأمر بقتال ولاة الأمر ابتداء...فقد أخبر النبیۖ أن الأمراء یظلمون ویفعلون أمورا منکرة ومع ھذا فأمرنا أن نؤتیھم الحق الذی لھم ونسأل اللہ الحق الذی لنا ولم یأذن فی أخذ الحق بالقتال ولم یرخص فی ترک الحق الذی لھم.''(منھاج السنة النبویة : ٢٣٠جلد۳ ص ۲۳۰ تا ۲۳۱' مؤسسة قرطبة)
'' اسی وجہ سے اہل سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کے ساتھ تلوار سے قتال کوجائز نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ وہ حکمران ظالم ہی کیوں نہ ہو' جیسا کہ اس مسئلے میں صحیح اور معروف روایات آپﷺ سے مروی ہیں۔ کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جوفساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم سے حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔ پس دو فسادوں میں سے أدنی فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ( تاریخ اسلامی میں) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو کہ اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر ظالم اور باغی سے ہر حال میں قتال کا حکم نہیں دیاہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے باغیوں سے بھی ابتدا قتال کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ یہ کہا ہے :
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سےکوئی ایک دوسرے پر پھر بھی ظلم کرے تو اس سے قتال کرو جو ظلم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم (یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ دوسرا گروہ واپس لوٹ آئے تو ان دونوں کے مابین عدل کے ساتھ صلح کروادو۔ پس اللہ تعالی نے باغی گروہ سے بھی ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا تو حکمرانوں سے ابتداء ہی قتال کا حکم کیسے ہو گا؟...آپۖنے یہ بھی خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور کچھ منکرات کا ارتکاب کریں گے لیکن اس کے باوجود آپۖ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کو ان کا حق دیں اور اللہ سے اپنے حق کا سوال کریں۔ اورآپۖ نے ہمیں حکمرانوں سے اپنا حق لینے کے لیے قتال کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہمیں یہ رخصت دی ہے کہ ہم حکمرانوں کو ان کا حق نہ دیں۔''
وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان' حضرت علی ' حضرت عائشہ' حضرت طلحہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور بنواُمیہ کے زمانے میں مسلمانوں میں خروج کے نتیجے میں جو باہمی قتل و غارت ہوئی ہے'
مسلمان اس کے بارے میں یہ تمنا رکھتے ہیں کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔
باوجودیکہ یہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں اور اپنے مابعد کے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے باہمی جنگ و جدال کو کسی نے بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہی معاملہ صحابہ کے ما بعد آنے والے زمانوں کا بھی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وقل من خرج علی امام ذی سلطان لا کان ما تولد علی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر کالذین خرجوا علی یزید بالمدینة وکابن الأشعث الذی خرج علی عبد الملک بالعراق وکابن المھلب الذی خرج علی ابنہ بخراسان وکأبی مسلم صاحب الدعوة الذی خرج علیھم بخراسان أیضا وکالذین خرجواعلی المنصور بالمدینة و البصرة وأمثال ھؤلاء وغایة ھؤلاء ما أن یغلبوا و ما أن یغلبوا ثم یزول ملکھم فلا یکون لھم عاقبة فان عبد اللہ بن علی و أبا مسلم ھما اللذان قتلا خلقا کثیرا وکلاھما قتلہ أبو جعفر المنصور وأما أھل الحرة وابن الأشعث وابن المھلب وغیرھم فھزموا و ھزم أصحابھم فلا أقاموا دینا ولا أبقوا دنیا واللہ تعالی لا یأمر بأمر لا یحصل بہ صلاح الدین ولا صلاح الدنیا وان کان فاعل ذلک من أولیاء اللہ المتقین ومن أھل الجنة فلیسوا أفضل من علی وعائشة وطلحة والزبیر وغیرھم ومع ھذا لم یحمدوا ما فعلوہ من القتال وھم أعظم قدرا عند اللہ وأحسن نیة من غیرھم وکذلک أھل الحرة کان فیھم من أھل العلم والدین خلق وکذلک أصحاب ابن الأشعث کان فیھم خلق من أھل العلم والدین واللہ یغفر لھم کلھم.''(منھاج السنة النبویة : جلد۴، ص ٣١٣۔ ٣١٤' مؤسسة قرطبة)
''اور جس نے بھی کسی صاحب اختیار حکمران کے خلاف خروج کیا تو اس کےخروج سے پیدا ہونے والاشر' اس سے پیدا ہونے والے خیر سے بہت بڑھ کر تھا جیسا کہ وہ لوگ ، جنہوں نے مدینہ میں یزید کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن أشعث ،کہ جنہوں نے عراق میں مروان بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن مھلب کہ جس نے خراسان میں اپنے ہی بیٹے کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح أبو مسلم کہ جس نے خراسان میں حکمرانوں کے خلاف خروج کیا اور وہ لوگ کہ جنہوں نے مدینہ و بصرہ میں أبو جعفر منصور کے خلاف خروج کیا اور اس طرح کے اور لوگ بھی تھے۔ ان سب کے خروج کا نتیجہ یا تو یہ تھا کہ یہ لوگ مغلوب ہوگئے یا پھر وقتی طور پر غالب آ گئے لیکن جلد ہی ان کی حکمرانی ختم بھی ہو گئی۔ پس اس اعتبار سے ان کا انجام کچھ بھی نہ تھا۔ عبد اللہ بن علی اور أبو مسلم نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا اور ان دونوں کو أبو جعفر منصور نے قتل کر دیا۔ جہاں تک اہل مدینہ یاابن أشعث یا ابن مہلب وغیرہ کا معاملہ ہے تو انہوں نے اور ان کے پیروکاروں نے شکست کھائی۔ یہ لوگ نہ تو دین کو قائم کر سکے اور نہ ہی اپنی دنیا کو بچا سکے۔
اللہ سبحانہ و تعالی کبھی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتے کہ جس میں نہ تو دین کی اصلاح ہو اور نہ ہی دنیا کی' چاہےایسا کرنے والے اللہ کے ولی' جنتی اور متقی ہی کیوں نہ ہوں۔پس یہ (خروج کرنے والے) حضرت علی' عائشہ' طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے زیادہ أفضل نہیں ہو سکتے اور ان لوگوں کے جنتی' متقی اور ولی اللہ ہونے کے باوجود ان کے باہمی قتال کی تعریف نہیں کی گئی حالانکہ یہ صحابہ کرام اللہ کے ہاں بہت بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور ان کی نیت بھی دوسروں کی نسبت زیادہ خالص تھی۔ اسی طرح اہل مدینہ کے خروج اور ابن أشعث کے أصحاب میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو أصحاب علم و فضل میں سے تھے اور دین و اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے (لیکن جب ان صحابہ اور أئمہ سلف کا باہمی قتال اہل سنت کے ہاں قابل تعریف نہیں ہے تو بعد کے زمانوں میں یہ کیسے قابل تعریف ہو سکتا ہے؟) اللہ سبحانہ و تعالی ان سب سے درگز رفرمائے۔''
آسان فہم اختتامیہ کلمات
اس بات کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک تھانیدار نے ایک بے گناہ آدمی زید کو کسی جرم میں اندر کر دیا۔ اس بے گناہ نے جب تھانیدار سے اپنا جرم پوچھا تو اس نے اسے ایک تھپڑرسید کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس مثال میں تھانیدار ظالم ہے اور زید مظلوم ہے۔ اب زید کے تین دوست ہیں۔
ایک دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی کا فوراً بدلہ لیتے ہوئے تھانیدار کو بھی ایک تھپڑ رسید کر دینا چاہیے جبکہ
دوسرے دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس نے تھانیدار کو تھپڑ رسید کیا تو تھانیدار کی طرف سے اس کا جواب دس تھپڑوں' لاتوں' مکوں' گالیوں اور ڈنڈوں کی صورت میں ملے گا۔
تیسرا دوست اس بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔
زید پہلے دوست کی بات مان لیتا ہے اور جواباً تھانیدار کی طر ف سے وہی رد عمل سامنے آتا ہے جس کی پیشین گوئی دوسرے دوست نے کی تھی۔ زید رد عمل میں پھر تھانیدار کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے اور جواباً مسلسل تھانیدار کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ اب زید کا پہلا دوست اپنے گھر' محلے اور مسجد میں جا کر تھانیدار کے ظلم کی داستانیں عام کرتا ہے لیکن اس سے زید کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ نہیں ہوتا اور اس پر تھانیدار کا ظلم بڑھتا ہی رہتاہے۔
سوال یہ ہے کہ زید کا مخلص دوست کون ہے؟؟؟
اللہ ہمیں قرآن و سنت کا متبع اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
اللہ ہمیں قرآن و سنت کا متبع اور فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین