ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 281
- ری ایکشن اسکور
- 21
- پوائنٹ
- 104
ظفر اقبال ظفر
قانون دان:قانون شکن اور دہشت گردی
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور پر امن مذہب ہے ۔ اسلامی تعلیمات امن و سلامتی کی مکمل ضامن ہیں ۔لفظ اسلام جس کا معنی ہی سلامتی اور امن کے ہیں ۔اس طرح مسلمان کی تعریف بھی جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
’’مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔‘‘
معاشروں میں دہنگا فساد کی بڑی وجہ زبان اور شرم گاہ کے غیر محفوظ ہونا اور ان کا ناجائز استعمال ہےجیسا کہ حدیث رسولﷺ ہے کہ بنی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو بندہ مجھے اپنی شرم گاہ اور زبان کی ضمانت دیتا ہے میں محمد ﷺ اس شخص کو جنت کی ضمانت دیتا ہو ۔‘‘
قارئین کرام : مذکورہ بالا دونوں احادیث سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ فساد اور بد امنی کی وجوہات میں حدیث میں مذکور 3 بنیادی وجوہات ہیں ’’زبان کا غلط استعمال‘‘’’شرم گاہ کی حفاظت نہ کرنا ‘‘’’ہاتھ کا غلط استعمال‘‘یعنی اگر ان 3 چیزوں کو کنٹرول میں رکھ لیا جائے فساد اور بد امنی اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرہ قبائلی تعصب کی وجہ سے صدیوں کی تا ریخ گواہ ہےکہ لاکھوں خاندانوں اور اربوں لوگوں کے قتل جیسے انسانوں کے خون سے معاشرہ سرخ اور ندی نالے خون کی روانی اور طغیانی سے بے نظیر اور قتل و غارت گری جیسے کالے دھندے سے عرب معاشرہ تاریک تر اور فضاء بدبودار ہو چکی تھی۔ نسلی تعصب اور علاقائی و لسانی بنیاد پر جاری ہونے والا قتل و غارت گری کا سیلاب لاکھوں خاندان اور اربوں انسان بہا کر لے گیا تھا جو ہنوض جاری تھا ۔نبی اکرم ﷺ کی بعث کامقصد بھی جہاں عرب معاشرے کو بت پرستی سے پاک کرنا اور ایک اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینا تھا ‘وہاں پر ہی عرب معاشرے کو امن و سلامتی اور عافیت کا گہوارہ بنانا تھا ‘جس میں احترام آدمیت اور احترام انسانیت سے معاشرے کو قتل و غارت جیسے طعفن سے پاک کر کے اخوت و محبت اور ایثار و قربانی سے معاشرے کو معطر کرنا تھا ۔تاریخ شاہد ہے کہ بہت کم عرصے میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اور قانون کی بالا دستی اور حدود کے نفاذ کی برکت سے بہت تھوڑے وقت میں عرب معاشرہ ایک مثالی اور پر امن معاشرہ بن گیا ۔لوگ ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کی کے جذبے سے احترام انسانیت اور احترا م آدمیت کی اعلیٰ مثال بن گئے ۔ بنی کریم ﷺ نے جو نظام زندگی ہمیں دیا اور طاقتور کے خلاف جس طرح قانون کی بالا دستی کو قائم کیا خدا شاہد ہے عرب کی سر زمین میں کوئی جرم باقی نہ رہا ۔
پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنا وہ شروع دن سے ہی بد امنی اور فتنہ و فساد اور شدت پسندی و دہشت گردی کی فضاء سے بدبودار اور یہ ناسور دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو کھائے جا رہا ہے ۔کبھی جاگ پنجابی جاگ‘کبھی سندی اور بلوچی کا جگڑا ‘کبھی فارسی اور سرائیکی کا جگڑا۔کبھی فرقہ ورایت اور شعیہ سنی اختلافات اور کبھی سیاسی مخالفین پر قاتلانا حملے ۔کبھی تکفیریت اور قادیانیت کا فتنہ تو کبھی ریاست کے خلاف نعرے بازی ۔ کبھی یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین میں تصادم۔ منظور پشتین کی صورت میں کبھی افواج پاکستان کے خلاف نعرے بازی ۔کبھی حکمرانوں کے خلاف خروج کے فتوے تو کبھی کالے کوٹ میں قانون دانوں کا ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج اور ہسپتالوں پر حملے کی وجہ سے قانون کے نام پر قانون شکنی کی صورت میں قانون کو ہاتھ میں لے کر دہشت گردی اور دہنگا فساد برپا کر کے قانون کا مذاق اوڑایا گیا ۔کل تک جو اسلام کو دہشت گردمذہب کہہ کر گالی نکالتے تھے اور پاکستان میں ہر نا خوشگوا ر واقع کا ذمہ دار مدا رس اسلامیہ کو ٹھہراتے تھے وقت نے مجرم اور مسیحا ‘دہشت گرد اور امن پسند‘ مدا رس کو دہشتی گردی کی آماج گاہ کہنے والوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔اغیار کے وضع کردہ قانون کی کتابیں پڑھنے والوں نے آج ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر حملے اور جان سے مارنے کی کوشش سےحکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اعلان بغاوت بلند کرنے کی کوشش‘ ریاست کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلے کرنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ۔وکالت جو بہت ہی پاکیزہ اور اہم شعبہ ہے آج اس شعبے پر کالے کوٹ‘کالے جوتے‘کالے دل‘کالے کرتوت والوں کی طرف سے ایسی کالک ملی گئی ہے کہ اللہ میری توبہ۔وکیل گردی کی وجہ سے معاشرے کا امن شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ عدالتوں کے اندر پیشی پر آئے لوگوں کا مخالفین کے ہاتھوں قتل‘پیشی سے واپس جاتے ہوئے لوگوں کا مخالفین کی طرف سے تعاقب اور قتل ‘ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ روکنے پر ٹریفک وارڈن کو مار پیٹ ‘ پولیس پر دہشت گردانہ حملے ‘ مقدمے کی پیروی کرنے پر پولیس پر مخالفین کے وکیل کا ایس ایچ او یا ڈی ایس پی اور تفتیشی وغیرہ پر کمرہ عدالت میں جج کے سامنے مکوں اورگونسوں سے حملہ وکیلوں کامعمول بن چکا ہے ۔عدم برداشت‘عنا پسندی اور بےصبری‘علاقائی و لسانی اورشعبہ جاتی تقسیم اور سیاسی و مذہبی گروہ بندی کاجن آئے روز قانون کے چنگل سے نکل کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے چیلنج بن چکا ہے۔ لاہور وکیل گردی کے واقعات آئے روز معمول بنتے جا رہے ہیں ۔پولیس ہے کہ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر ڈوبتا جیسے تنکے کا سہارا لیتا ہے ویسے معاملے کو کنٹرول کرنے میں ناکام و نا مراد ہو جاتی ہے اور آخر کار حکومت کو حالات کنٹرول کرنے کےلیے رینجرز طلب کرنا پڑھتی ہے ۔کئی دن پہلے کا واقع جو ابھی تک حل نہیں ہوا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں ہونے کے باوجود اس ہجوم اور اتحاد و احتجاج کو پہلے ہی کنٹرول کیوں نہ کر لیا گیا۔اگر معاملے کو ہر وقت کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز طلب کرنا پڑھتی ہے تو پولیس کے محکمے کو ختم کر دیا جائے تاکہ ان پر کھربوں روپے کا عوامی پیسہ امن اور سلامتی کے لیے رینجرز پر خرچ کیا جا سکے ۔اپریشن کی ناکامی پر رینجرز طلب کرنا گویا پنجاب پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
’’مسلمان ہوتا ہی وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔‘‘
معاشروں میں دہنگا فساد کی بڑی وجہ زبان اور شرم گاہ کے غیر محفوظ ہونا اور ان کا ناجائز استعمال ہےجیسا کہ حدیث رسولﷺ ہے کہ بنی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو بندہ مجھے اپنی شرم گاہ اور زبان کی ضمانت دیتا ہے میں محمد ﷺ اس شخص کو جنت کی ضمانت دیتا ہو ۔‘‘
قارئین کرام : مذکورہ بالا دونوں احادیث سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ فساد اور بد امنی کی وجوہات میں حدیث میں مذکور 3 بنیادی وجوہات ہیں ’’زبان کا غلط استعمال‘‘’’شرم گاہ کی حفاظت نہ کرنا ‘‘’’ہاتھ کا غلط استعمال‘‘یعنی اگر ان 3 چیزوں کو کنٹرول میں رکھ لیا جائے فساد اور بد امنی اپنی موت آپ مر جاتی ہے ۔نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرہ قبائلی تعصب کی وجہ سے صدیوں کی تا ریخ گواہ ہےکہ لاکھوں خاندانوں اور اربوں لوگوں کے قتل جیسے انسانوں کے خون سے معاشرہ سرخ اور ندی نالے خون کی روانی اور طغیانی سے بے نظیر اور قتل و غارت گری جیسے کالے دھندے سے عرب معاشرہ تاریک تر اور فضاء بدبودار ہو چکی تھی۔ نسلی تعصب اور علاقائی و لسانی بنیاد پر جاری ہونے والا قتل و غارت گری کا سیلاب لاکھوں خاندان اور اربوں انسان بہا کر لے گیا تھا جو ہنوض جاری تھا ۔نبی اکرم ﷺ کی بعث کامقصد بھی جہاں عرب معاشرے کو بت پرستی سے پاک کرنا اور ایک اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینا تھا ‘وہاں پر ہی عرب معاشرے کو امن و سلامتی اور عافیت کا گہوارہ بنانا تھا ‘جس میں احترام آدمیت اور احترام انسانیت سے معاشرے کو قتل و غارت جیسے طعفن سے پاک کر کے اخوت و محبت اور ایثار و قربانی سے معاشرے کو معطر کرنا تھا ۔تاریخ شاہد ہے کہ بہت کم عرصے میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اور قانون کی بالا دستی اور حدود کے نفاذ کی برکت سے بہت تھوڑے وقت میں عرب معاشرہ ایک مثالی اور پر امن معاشرہ بن گیا ۔لوگ ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کی کے جذبے سے احترام انسانیت اور احترا م آدمیت کی اعلیٰ مثال بن گئے ۔ بنی کریم ﷺ نے جو نظام زندگی ہمیں دیا اور طاقتور کے خلاف جس طرح قانون کی بالا دستی کو قائم کیا خدا شاہد ہے عرب کی سر زمین میں کوئی جرم باقی نہ رہا ۔
پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنا وہ شروع دن سے ہی بد امنی اور فتنہ و فساد اور شدت پسندی و دہشت گردی کی فضاء سے بدبودار اور یہ ناسور دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو کھائے جا رہا ہے ۔کبھی جاگ پنجابی جاگ‘کبھی سندی اور بلوچی کا جگڑا ‘کبھی فارسی اور سرائیکی کا جگڑا۔کبھی فرقہ ورایت اور شعیہ سنی اختلافات اور کبھی سیاسی مخالفین پر قاتلانا حملے ۔کبھی تکفیریت اور قادیانیت کا فتنہ تو کبھی ریاست کے خلاف نعرے بازی ۔ کبھی یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین میں تصادم۔ منظور پشتین کی صورت میں کبھی افواج پاکستان کے خلاف نعرے بازی ۔کبھی حکمرانوں کے خلاف خروج کے فتوے تو کبھی کالے کوٹ میں قانون دانوں کا ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج اور ہسپتالوں پر حملے کی وجہ سے قانون کے نام پر قانون شکنی کی صورت میں قانون کو ہاتھ میں لے کر دہشت گردی اور دہنگا فساد برپا کر کے قانون کا مذاق اوڑایا گیا ۔کل تک جو اسلام کو دہشت گردمذہب کہہ کر گالی نکالتے تھے اور پاکستان میں ہر نا خوشگوا ر واقع کا ذمہ دار مدا رس اسلامیہ کو ٹھہراتے تھے وقت نے مجرم اور مسیحا ‘دہشت گرد اور امن پسند‘ مدا رس کو دہشتی گردی کی آماج گاہ کہنے والوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ۔اغیار کے وضع کردہ قانون کی کتابیں پڑھنے والوں نے آج ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر حملے اور جان سے مارنے کی کوشش سےحکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اعلان بغاوت بلند کرنے کی کوشش‘ ریاست کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلے کرنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ۔وکالت جو بہت ہی پاکیزہ اور اہم شعبہ ہے آج اس شعبے پر کالے کوٹ‘کالے جوتے‘کالے دل‘کالے کرتوت والوں کی طرف سے ایسی کالک ملی گئی ہے کہ اللہ میری توبہ۔وکیل گردی کی وجہ سے معاشرے کا امن شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ عدالتوں کے اندر پیشی پر آئے لوگوں کا مخالفین کے ہاتھوں قتل‘پیشی سے واپس جاتے ہوئے لوگوں کا مخالفین کی طرف سے تعاقب اور قتل ‘ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ روکنے پر ٹریفک وارڈن کو مار پیٹ ‘ پولیس پر دہشت گردانہ حملے ‘ مقدمے کی پیروی کرنے پر پولیس پر مخالفین کے وکیل کا ایس ایچ او یا ڈی ایس پی اور تفتیشی وغیرہ پر کمرہ عدالت میں جج کے سامنے مکوں اورگونسوں سے حملہ وکیلوں کامعمول بن چکا ہے ۔عدم برداشت‘عنا پسندی اور بےصبری‘علاقائی و لسانی اورشعبہ جاتی تقسیم اور سیاسی و مذہبی گروہ بندی کاجن آئے روز قانون کے چنگل سے نکل کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے چیلنج بن چکا ہے۔ لاہور وکیل گردی کے واقعات آئے روز معمول بنتے جا رہے ہیں ۔پولیس ہے کہ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر ڈوبتا جیسے تنکے کا سہارا لیتا ہے ویسے معاملے کو کنٹرول کرنے میں ناکام و نا مراد ہو جاتی ہے اور آخر کار حکومت کو حالات کنٹرول کرنے کےلیے رینجرز طلب کرنا پڑھتی ہے ۔کئی دن پہلے کا واقع جو ابھی تک حل نہیں ہوا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں ہونے کے باوجود اس ہجوم اور اتحاد و احتجاج کو پہلے ہی کنٹرول کیوں نہ کر لیا گیا۔اگر معاملے کو ہر وقت کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز طلب کرنا پڑھتی ہے تو پولیس کے محکمے کو ختم کر دیا جائے تاکہ ان پر کھربوں روپے کا عوامی پیسہ امن اور سلامتی کے لیے رینجرز پر خرچ کیا جا سکے ۔اپریشن کی ناکامی پر رینجرز طلب کرنا گویا پنجاب پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔