- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے جنازے میں عورتوں کا صلٰوۃ المیت ادا کرنا
================================
ہمیں سخت حیرت ہوئی جب یہ معلوم چلا کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی صلوٰۃ المیت میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ جنازہ پڑھا۔ ابھی یہ حیرت ختم نہ ہوئی تھی کہ مزید صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب فیس بک پر علماء کے دو گروہوں کو اس بابت باہم دست و گریبان دیکھا۔ مقام افسوس یہ رہا کہ اس متعلق دونوں گروہ ہی افراط و تفریط کا شکار نظر آئے۔ پہلا گرووہ تو وہ ہے جس نے عاصمہ جہانگیر کی صلوٰۃ المیت سے متعلق خواتین کا مردوں کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر صف میں شامل ہوکر صلوٰۃ المیت ادا کرنے کو بالکل جائز فعل گردانا تو دوسری طرف علماء کا وہ گروہ موجود تھا جس نے یک مشت ہی بلا دلیل عورتوں کے صلوٰۃ المیت ادا کرنے کو بلا استثناء ناجائز فعل قرار دیدیا۔ جبکہ اس متعلق راجح قول یہی ہے کہ اگر کسی میت کی صلٰوۃ ایسی مسجد میں ادا کی جا تی ہے جہاں خواتین کے جمعہ یا تراویح کی صلٰوۃ ادا کے کرنا کا انتظام موجود ہے جیسا کہ ہمارے ہاں اہلحدیث مکتبہ فکر کی مساجد میں ہوتا ہے تو ایسی مساجد میں خواتین کو اجازت ہے کہ وہ صلٰوۃ المیت میں شرکت کرسکتی ہیں بلکہ انکو ایسا کرنا بھی چاہیئے کہ حدیث میں اس عمل کی کافی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ البتہ جس طور سے خواتین نے کھلے آسمان کے نیچے بے پردگی کی حالت میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی صلوٰۃ المیت ادا کی ہے وہ ایک مباح عمل کو ناجائز بنانے والا کام اور سخت گناہ ہے۔
اسلام نے خواتین کو صلٰوۃ المیت ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ کسی صریح حدیث میں اس طرح کی کوئی ممانعت موجود نہیں۔ چاروں آئمہ میں سے کسی نے اس فعل کو حرام یا مکروہ تحریمی قرار نہیں دیا۔ آئمہ اربعہ میں سے امام شافعی و احمد بن حنبل و مالک نے اسکو مباح قرار دیا ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ اس کے مکروہ تنزیہی ہونے کے قائل ہیں۔ اور ہمارے خیال میں ان چاروں ائمہ کے موقف اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ان میں بظاہر جو اختلاف نظر آتا ہے وہ تنفیذ کا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات جان لیں کہ خواتین کا صلٰوۃ المیت ادا کرنا آثار صحابہؓ سے ثابت ہے۔ صحیح مسلم ، کتاب الجنائز : باب الصلاۃ علی الجنازہ فی المسجد میں امام مسلم روایت لائے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ نے مسجد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کی صلٰوۃ المیت ادا فرمائی۔ اس حدیث کو امام مالک اپنی موطا میں جبکہ امام ترمذی اپنی جامع میں اور امام نسائی و ابن ماجہ اپنی سنن میں لیکر آئے ہیں ۔ بلکہ موطا میں تو امام مالک کی روایت میں یہاں تک تصریح موجود ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے حکم دیا تھا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی ان کی صلٰوۃ المیت ادا کرسکیں۔
جنازے سے متعلق مرد و عورت میں جو فرق ہے وہ صرف جنازے کے ساتھ چل کر جانے کا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے خواتین کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرمایا ہے جبکہ مرد حضرات کو جنازے کے ساتھ تدفین کے لئے جانے کی تاکید کی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری، ابن ماجہ اور مسند احمد کی روایت میں ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ہم (عورتوں کو) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع فرمادیاتھا۔ اب اللہ جانے کہ عاصمہ جہانگیر کی صلوٰۃ المیت ادا کرنے والی خواتین بعد میں جنازے کے ساتھ چل کر گئیں یا نہیں۔ واللہ اعلم۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ ا ئمہ کے مابین خواتین کے صلوٰۃ المیت ادا کرنے سے متعلق جو اختلاف در آیا کہ وہ تھا ہی اس وجہ سے کہ صلٰوۃ المیت کہاں ادا کی جائیگی۔ چونکہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک صلٰوۃ المیت کا مسجد میں ادا کرنا مکروہ ہے، اسی لئے اگر صلٰوۃ المیت مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائیگی تو خواتین کا جنازہ گاہ میں کھلی جگہ میں صلٰوۃ المیت ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اسی لئے امام ابو حنیفہؒ اس عمل کی کراہت کے قائل ہیں۔
جبکہ باقی ائمہ اس عمل کو مباح جانتے ہیں لیکن ساتھ میں وہ بھی یہی قید لگاتےتے ہیں کہ خواتین کو ایسا اس وقت کرنا چاہیئے جب کہ صلٰوۃ المیت مسجد میں ادا کی جائے تاکہ کھلی جگہ پر بے پردگی کا احتمال نہ ہو اور ایسا ہی کچھ سیدہ عائشہؓ کے طرز عمل سے بھی ثابت ہے جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے مفتی اعظم سعودی عربیہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اپنے فتاویٰ اسلامیہ جلد ۲ صفحہ ۱۸ پر سائل کے استفسار پر فرماتے ہیں کہ خواتین کے لئے صلٰوۃ المیت میں شرکت تو ثابت ہے البتہ وہ جنازوں کی تدفین کے لئے نہیں چلیں گی کیونکہ اس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
اب جبکہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے جنازے میں یہ تمام شرائط مفقود تھیں سو ان کے جنازے میں خواتین کا صلوٰۃ المیت ادا کرنے کا فعل سخت غیر مناسب و ازروئے شریعت ناجائز تھا۔ واللہ اعلم
نوٹ: اس تحریر میں اس بحث سے صرف نظر کیا گیا ہے کہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی صلوٰۃ المیت ادا کی جانی چاہیئے تھی یا نہیں۔ یہ ایک الگ مبحث ہے۔ سر دست ان کے جنازے میں شامل خواتین کے عمل کی مشروعیت کی بابت کلام کیا گیا ہے۔
تحریر: محمد فھد حارث
از مرسلہ @عدیل سلفی