محمد عاصم حفیظ
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 13، 2011
- پیغامات
- 25
- ری ایکشن اسکور
- 142
- پوائنٹ
- 0
تیزرفتار صنعتی ترقی کے باعث دنیا بھر میں عالمی مالیاتی اداروں کا کردار دن بدن اہم ہوتا جا رہا ہے۔ امیر ممالک کے زیر اثر کام کرنیوالے یہ ادارے قرضوں اور سرمایہ کاری کی صورت میں غیریب ممالک کی معیشتوں پر اثر انداز ہو رہےہیں۔عالمی مالیاتی ادارے اور امیر ممالک امداد کے نام پر بھاری شرح سود پر قرضے جاری کرتے ہیں . قرض فراہم کرنیوالے اداروں اور ممالک کے گہناونے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ڈالرفراہم کر کےغریب ممالک سے کم از کم تیرہ ڈالر وصول کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کےمطابق دنیا بھر کے ساٹھ کے قریب غریب ممالک تیس سال کے دوران پانچ سو چالیس ارب ڈالر کا قرض لے چکے ہیں۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ سود اور اصل رقم کی مد میں پانچ سو پچاس ڈالر ادا کر دینے کے باوجود ابھی تک انکے ذمے پانچ سو تیئس ارب ڈالرواجب الاداہیں۔دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق دنیا بھر میں غربت اور قرضوں کے باعث ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ا?ج مقروض ممالک کی نہ صرف معیشت بلکہ کلچر اور سیاست بھی عالمی مالیاتی اداروں کی مرہون منت ہو چکی ہے۔ یہ ادارے حکمران طبقے کی ا?شیر باد سے من پسند شرح سود پر قرضے دیتے ہیں اور قومی وسائل کو خوب جی بھر کر لوٹتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مقروض ممالک زمبابوے ہے جسے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو سو فیصد قرض ادا کرنا ہے۔ لبنان کے ذمے قرض کی رقم جی ڈی پی کا ایک سو نوے فیصد ، جاپان ایک سو بیاسی فیصد ، بنگلہ دیش سینتیس فیصد جبکہ انڈیا کو مجموعی قومی پیداوار کا اٹھاون فیصد دوسروں کو دینا ہے۔قرضے کی رقم کے حوالے سے امریکہ کا دنیا میں پہلا نمبر ہے کیونکہ اس نے دنیا بھر کی دولت پر قبضہ جما رکھا ہے امریکہ کو دنیا کے بارہ ہزار ا?ٹھ سو ستاون ارب ڈالر دینے ہیں۔جبکہ برونائی اور اومان ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہیں کہ جنکے ذمے ایک پائی بھی قرض موجود نہیں۔ پاکستان اپنے قیام سے ہی ایک مقروض ملک ہے کیونکہ بھارت نے تقیسم کے وقت وسائل میں تو ہمیں کوئی حصہ نہیں دیا تھا البتہ متحدہ ہندوستان کے ذمے قرض کی ایک بھاری رقم پاکستان کو منتقل کر دی تھی۔ جسکے بعد سے ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرض لیے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے ذمے ساٹھ ارب ڈالر کے قریب قرضہ ہے جوکہ ہماری مجموعی پیداوار کا پچپن فیصد بنتا ہے۔ ملکی ترقی اور اندرونی معاملات میں بیرونی عمل دخل روکنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت جلد از جلد بیرونی قرضوں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کرےتا کہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے رقم دستیاب ہو سکے۔
بنکوں کا منافع
انیس سو ننانونے سے مالی سال دو ہزار سات آٹھ تک بنکوں نے مجموعی طور پر تین کھرب چون ارب سے زائد منافع کمایا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بنکوں کی شرح سود سب سے زیادہ ہے۔ سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اکتالیس شیڈولڈ بنک، چھ ڈویلپمنٹ فنانس انسٹیٹوشن اور دو مائیکرو فنانس بنک ہیں۔ پاکستان میں بینکنگ شعبے میں بڑھتے ہوئے منافع کے پیش نظر غیر ملکی اور پرائیوٹ سیکٹر کے بنک بھی قائم ہو رہےہیں پرائیوٹ بنکوں کی تعداد پندرہ ہے جبکہ چودہ غیر ملکی بنک کام کر رہے ہیں۔ بینکنگ سیکٹر کی تیز رفتار ترقی کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سن دو ہزار میں سات ارب سالانہ نفع کمانے والا یہ سیکٹر مالی سال دو ہزار سات آٹھ میں ایک سو تیئس ارب سے زائد منافع کما چکا۔ گزشتہ سات سال کےدوران پاکستانی بنکوں نے تین کھرب چون ارب سے زائد منافع بتیس لاکھ، گیارہ ہزار اور ایک سو سترہ صارفین کو قرض کی سہولت فراہم کر کے حاصل کیا۔ اس وقت بنکوں نے چالیس فیصد رقم انفرادی قرضوں کی مد میں، تیس فیصد اٹو فنانسنگ ، سولہ فیصد جائیداد کے لیے اور تیرہ فیصد رقم کریڈٹ کارڈز کی صورت میں صارفین کو فراہم کر رکھی ہے۔ پچھلے سال بنکوں نے قرضوں کے عوض شرح سود کی مد میں ایک سو انسٹھ ارب، مارک اپ کی صورت میں دو سو نو ارب جبکہ سرمایہ کاری کےعوض انسٹھ ارب روپے کمائے۔ کنزیومر رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی بنک سالانہ چھہتر فیصد سے زائد منافع کما تے ہیں اور اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر بینکوں کی جانب سے ا?ٹو فنانسنگ اور کنزیومر فنانسنگ کے باعث ملک میں افراط زر کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب بنک سالانہ چھیاسی ارب روپے سےزائد رقم اپنے ایڈمنسٹریٹو اخراجات پر خرچ کرتے ہیں جس کا زیادہ تر حصہ اعلٰی افسران کی مراعات پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران کئی بینکار اربوں کی جائیداد کے مالک بن چکے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ملک کے پانچ بڑے بنک پورے سیکٹر کے اسی فیصد کاروبار پر قابض ہیں اور اپنے ڈپازٹس سے ستر فیصد کے قریب منافع کماتےہیں جبکہ صارفین کو صرف دس فیصد ادائیگی کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے بنکوں نے کارٹل بنا رکھے ہیں اورتیرہ سے زائد اقسام کے چارجز صارفین سے چھپائے جاتےہیں۔ دوسری جانب اس قدر بھاری نفع کے باوجود بنکوں کی سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا اور اسی فیصد بنک صارفین اے ٹی ایم مشینوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ سٹیٹ بنک کو چاہیے کہ اس صورتحال کا جائزہ لے اور بنکوں کے نفع کو محدود کرنے کے علاوہ انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے کا پابند بنائے۔
بنکوں کا منافع
انیس سو ننانونے سے مالی سال دو ہزار سات آٹھ تک بنکوں نے مجموعی طور پر تین کھرب چون ارب سے زائد منافع کمایا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بنکوں کی شرح سود سب سے زیادہ ہے۔ سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں اکتالیس شیڈولڈ بنک، چھ ڈویلپمنٹ فنانس انسٹیٹوشن اور دو مائیکرو فنانس بنک ہیں۔ پاکستان میں بینکنگ شعبے میں بڑھتے ہوئے منافع کے پیش نظر غیر ملکی اور پرائیوٹ سیکٹر کے بنک بھی قائم ہو رہےہیں پرائیوٹ بنکوں کی تعداد پندرہ ہے جبکہ چودہ غیر ملکی بنک کام کر رہے ہیں۔ بینکنگ سیکٹر کی تیز رفتار ترقی کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سن دو ہزار میں سات ارب سالانہ نفع کمانے والا یہ سیکٹر مالی سال دو ہزار سات آٹھ میں ایک سو تیئس ارب سے زائد منافع کما چکا۔ گزشتہ سات سال کےدوران پاکستانی بنکوں نے تین کھرب چون ارب سے زائد منافع بتیس لاکھ، گیارہ ہزار اور ایک سو سترہ صارفین کو قرض کی سہولت فراہم کر کے حاصل کیا۔ اس وقت بنکوں نے چالیس فیصد رقم انفرادی قرضوں کی مد میں، تیس فیصد اٹو فنانسنگ ، سولہ فیصد جائیداد کے لیے اور تیرہ فیصد رقم کریڈٹ کارڈز کی صورت میں صارفین کو فراہم کر رکھی ہے۔ پچھلے سال بنکوں نے قرضوں کے عوض شرح سود کی مد میں ایک سو انسٹھ ارب، مارک اپ کی صورت میں دو سو نو ارب جبکہ سرمایہ کاری کےعوض انسٹھ ارب روپے کمائے۔ کنزیومر رائٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی بنک سالانہ چھہتر فیصد سے زائد منافع کما تے ہیں اور اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر بینکوں کی جانب سے ا?ٹو فنانسنگ اور کنزیومر فنانسنگ کے باعث ملک میں افراط زر کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب بنک سالانہ چھیاسی ارب روپے سےزائد رقم اپنے ایڈمنسٹریٹو اخراجات پر خرچ کرتے ہیں جس کا زیادہ تر حصہ اعلٰی افسران کی مراعات پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران کئی بینکار اربوں کی جائیداد کے مالک بن چکے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ ملک کے پانچ بڑے بنک پورے سیکٹر کے اسی فیصد کاروبار پر قابض ہیں اور اپنے ڈپازٹس سے ستر فیصد کے قریب منافع کماتےہیں جبکہ صارفین کو صرف دس فیصد ادائیگی کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے بنکوں نے کارٹل بنا رکھے ہیں اورتیرہ سے زائد اقسام کے چارجز صارفین سے چھپائے جاتےہیں۔ دوسری جانب اس قدر بھاری نفع کے باوجود بنکوں کی سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا اور اسی فیصد بنک صارفین اے ٹی ایم مشینوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ سٹیٹ بنک کو چاہیے کہ اس صورتحال کا جائزہ لے اور بنکوں کے نفع کو محدود کرنے کے علاوہ انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے کا پابند بنائے۔