عام
تعریف: لغت میں عام شامل کو کہتےہیں۔ اور عموم کہتے ہیں مطلق طور پر ایک چیز کا دوسری چیز میں شامل ہونا۔
اصطلاح میں اس لفظ کو عام کہتے ہیں جو اپنے اندران تمام چیزوں کو سمو لے جن کا اس عام کے اندر بغیر حصر کے ایک ہی وضع اور ایک ہی مرتبہ میں سمویا جانا صحیح ہو۔
تو ہماری اس بات «دفعة» سے اثبات کے سیاق میں’رِجل‘ (ٹانگ یا پاؤں) جیسے الفاظ نکل گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ لفظ ان چیزوں کو اپنے اندر سمولینے والا ہے جو اس کے اندر شامل ہوجانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن یہ شمولیت بدلیت کے اعتبار سے ہوتی ہے نہ کہ ایک ہی مرتبہ۔
اسی طرح ہماری اس بات «بوضع واحد» سے مشترک المعنی قسم کے الفاظ نکل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر «القرء والعين» ان میں سے ہر ایک وضع دو یا دوسے زیادہ معانی کےلیے ہے۔
اور ہماری اس بات «في غير حصر» سے اسماء الاعداد نکل گئے ہیں، جیسے کہ دس اور سو ہے۔
یہ آخری بات ان لوگوں کے نزدیک ہے جو اعداد کو عام کے صیغوں میں شمار نہیں کرتے۔
عام کے صیغے:
عام پر دلالت کرنے والے چند الفاظ ہیں جن کو عموم کے صیغ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں چند حسبِ ذیل ہیں:
1۔ کل۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: ” ﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ﴾ [الأنبياء:35] “ ہر جان موت کو چکھنے والی ہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان: ” ﴿ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ ﴾ [البقرة:285] “ (رسولوں اور مؤمنوں میں سے )ہر ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لایا ہے۔
2۔ جمیع۔جیسا کہ : ” جاء القوم جميعهم “ ساری کی ساری قوم آئی۔
3۔ جمع کا وہ صیغہ جو معرف باللام ہو لیکن عہد(ذہنی یاخارجی)کےلیےنہ ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ [المؤمنون:1] “ یقیناً مؤمن کامیاب ہوگئے۔
اسی طرح جمع کا وہ صیغہ جو اضافت کی وجہ سے معرفہ بن جائے۔ جیسا کہ : ” ﴿ يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ ﴾ [النساء:11] “ اللہ رب العزت تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتے ہیں۔
4۔ وہ مفرد لفظ جو معرف باللام ہو لیکن عہد(ذہنی یا خارجی) کےلیے نہ ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ وَالْعَصْرِ (1) إنَّ الإنسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ [العصر:1ـ3] “زمانے کی قسم(1)بیشک (بالیقین) انسان سرتا سر نقصان میں ہے(2)سوائے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی (3)
اسی طرح وہ مفرد لفظ جو اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گیا ہو۔ جیسا کہ: ” ﴿ وَإن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا ﴾ [النحل:18] “ اگرتم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔
5۔ تثنیہ کا وہ صیغہ جو معرف باللام ہو۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ” «إذا التقى المسلمان بسيفيهما...» “ جب دو مسلمان آپس تلواریں لے کر ملاقات کریں۔۔۔الخ
تو یہاں پر ” المسلمان “ تمام مسلمانوں کو شامل ہے۔
6۔ ’ما‘۔ یہ غیر عاقل کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بطور موصولہ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ مَا عِندَكُمْ ينفَدُ وَمَا عِندَ اللَّهِ بَاقٍ ﴾ [النحل:96] “ جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے ، وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔
بطور شرطیہ اس کی مثال اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيرٍ يعْلَمْهُ اللَّهُ ﴾ [البقرة:197] “ تم جو بھی بھلائی کا کام کروگے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے جان لیں گے۔
7۔ ’من‘۔ یہ عاقل کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ موصولہ کے طور پر اس کی مثال یہ فرمان الہٰی ہے: ” ﴿ وَلا تُؤْمِنُوا إلاَّ لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ ﴾ [آل عمران:73] “ تم صرف اسی کی بات مانو جو تمہارے دین کی پیروی کرتا ہے۔
بطور شرطیہ اس کی مثال اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے: ” ﴿ فَمَن يعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يرَهُ ﴾ [الزلزلة:7] “ تو جو کوئی ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا ، اسے دیکھ لے گا۔
8۔ مَتٰی۔مبہم زمانہ کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بطور شرطیہ اس کی مثال: ” «متى زرتني أكرمك» “ جب بھی آپ مجھے ملنے آئیں گے ، میں آپ کی عزت وتوقیر کروں گا۔
9۔ اَیْنَ۔ مبہم جگہ کےلیے استعمال ہوتا ہے۔بطور شرطیہ اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” ﴿ أَينَمَا تَكُونُوا يدْرِككُّمُ الْمَوْتُ ﴾ [النساء:78] “ تم جہاں بھی ہوں گے ، موت تمہیں تلاش پالے گی۔
10۔ نفی کے سیاق میں نکرہ۔ یہ عموم میں نص اور ظاہر ہوتا ہے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر