• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عام مسلمان قادیانیوں کوتو کافر کہہ سکتا ہے،مگردوسرےکفریہ اعمال و عقائد کے حاملین کو نہیں۔ آخر کیوں؟

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں نے فورم پر کچھ بہن اور بھائیوں کو دیکھا جو تکفیر مسلم کے مسئلے پر ایک نہایت حساس اور خطرناک مغالطے کا شکار ہیں ۔

اور وہ یہ ہے کہ ایک ایسے گروہ یا شخص کہ جس کی تکفیر پر علماء کرام متفق ہوچکے ہیں اور ان کو اہل قضاء نے تکفیر معین کے قواعد و ضوابط سے گزار کر مرتد اور زندیق قرار دے چکے ہیں اور اب ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ انکو کفار میں شمار کرے اور بلائے ، کو عام مسلمانوں اور حکمرانوں اور اداروں جن میں کچھ کفریہ عقائد اور اعمال کا دعوی کیا جاتا ہے اور جن کی تکفیر پر نہ تو علماء اہل السنہ متفق ہیں اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں تکفیر المعین کے اصول ضوابط سے گزرا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے انکا ذہن ہے کہ ایسے اعمال کے مرتکب کو ہر کوئی معین کر کے کافر ومرتد قرار دے سکتا ہے اور اسکا پرچار کر سکتا ہے۔
اصل میں آپ ایک ایسے گروہ کی تکفیر یعنی قادیانی کو مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر سے خلط ملط کر رہے ہیں۔ان بہن بھائیوں ے درخواست ہے کہ آپ ضرور جس کو مرضی قادیانی کی طرح مرتد قرار دے دیں ، بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا، لیکن آپ قادیانی جیسی تکفیر کے لئے وہی راہ اختیار کرنا لازم ہے، جس سے گزر کر قادیانی مرتد بنے۔ تب ا

اس میں کچھ تفصیل ہے ، میں استفادہ عام کے لئے پیش کیٗے دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ

اہل السنۃ کے ہاں مسئلہ تکفیر میں اصول و ضوابط کا التزام اور اس مسئلہ میں کلام کے اہل لوگوں کی وضاحت اچھی طرح کر دی گئی ہے ۔
مگر آج کل تکفیری لوگ ( جو لوگوں کی بلا دلیل وغیر منصفانہ تکفیر کر تے ہیں ) دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی بھی معیّن تکفیر کر سکتا ہے ( یعنی کسی معیّن مسلمان کو کافر قرار دینا) اور تکفیر کرنے کے بعد اس کو معاشرہ میں واضح کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اور اس چیز کا انکار کرتے ہیں کہ تکفیر معیّن صرف جید علماءاور فقہاء کا کام ہے ۔
تکفیری یہ کیوں کہتے ہیں ؟اس لیے کہ جن کی وہ تکفیر کر رہے ہوتے ہیں مثلا معین حکمران وغیرہ علماء اہل السنۃ ( جن سے خود تکفیری حضرا ت عقیدہ ، تفسیر اور فقہ لیتے ہیں ) وہ ان حکمرانوں کی معین تکفیر نہیں کر رہے ہوتے ۔
یہاں سے یہ مسئلہ تکفیر فتنہ کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اگر آجکل علماء اہل السنۃ حکمرانوں کی تکفیر معین نہیں کرتے تو یہ تکفیر ی حضرات اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اب یہ کام ان پر اور ہر عام آدمی پر لازم ہے کہ چاہے وہ تکفیر معین کے اصول وضوابط جانے یا نہ جانے وہ اس کا مکلف ہو یا نہ ہو ( یقیناً مکلف تو اہل علم ہی ہیں ) وہ لوگوں کو کافر قرار دے گا خاص طور پر حکمرانوں کو معین کر کے ،لہذا بغیر علم اور آگاہی کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا انکا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا !!
کسی خاص شخص کی تکفیر کو ن کرے گا اور کن شروط و قیود پر کرے گا ؟ ایک قابل و ضاحت مسئلہ ہے مگر تکفیری حضرات اس مسئلہ کو کبھی واضح نہیں کرتے مقصد صاف ہے تاکہ وہ اس پر خطر کام کو اس طرح مسخ کریں کہ لوگ انہیں حق پر اور اہل السنہ کے علماءکو حقیر و گمراہ جانیں ۔
یہ عام عادت ہے کہ تکفیری حضرات لوگوں کی نظر میں اہل علم کی اتنی تحقیر کر دیتے ہیں کہ لوگ اس مسئلہ میں الجھ جاتے ہیں ۔

وہ لوگ جن کی تکفیر کی جا سکتی ہے وہ مختلف ہیں اسی طرح جو تکفیر کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ بھی مختلف ہیں ۔
یہ بات ہم آنے والی سطورمیں سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں واضح کریں گے انشا ءاللہ ۔

تکفیر کے لحاظ سے لوگوں کی اقسام:
1۔ کچھ لوگ وہ ہیں کہ جن کی تکفیر کا حق صرف اور صرف علماء کو ہے اور کسی عامی کو یادینی علم و حکمت سے کورے شخص کو نہیں ۔
2۔ اور کچھ لوگ وہ ہیں جن کی ہر مسلمان تکفیر کر سکتا ہے بلکہ ہر مسلمان پر انکی تکفیر کرنا لازم ہے ۔
آئیے ہم اس مسئلہ کو تفصیلاً واضح کرتے ہیں ۔
تکفیر کے لحاظ سے لوگ دو گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں
اول: اصل کافر
دوم : اسلام سے ارتدار اختیار کرنے والا

اول : اصل کافر:۔
انکو بھی دو گرو ہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
(۱)۔ ایسے لوگوں کی تکفیر جن کا کوئی مذہب نہ ہو :
ان کی مثال دہریے لوگ ہیں ( جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کےہی انکاری ہیں ) یا وہ لوگ (جو اللہ کو تو مانتے ہیں یعنی وجود کے قائل ہیں مگر دین بشمول اسلام کے نہیں )تمام مسلمان ( عام آدمی ، داعی ، طلباء اور علماء اکرام ) ایسے لوگوں کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی واجب ہے اور اس گروہ کے ہر شخص کی بھی، جو ان جیسا عقیدہ اور اعمال رکھتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اور اعمال کفر اکبر ہیں ( ایسا کفر جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے )
اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد ﷺ نے ان لوگوں کی تکفیر فرمائی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے کہ یہ گروہ کافر ہیں ۔
الشیخ عبید الجبری فرماتے ہیں :۔
'' یہ کفار ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کا کلمہ قبول ہی نہیں کیا ''
پھر فرمایا :۔
'' ہر مسلمان کو جان لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث اور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دین صرف دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اللہ کا کلمہ قبول کرتا ہے اور یہ مسلمان ہیں اور دوسرا وہ جو اللہ کے کلمہ کا انکار کرتا ہے یہ کفار ہیں ۔''
(ب) ایسے شخص کی تکفیر کرنا جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان مثلا عیسائیت ،بدھ مت ،سکھ ازم، اور یہودیت وغیرہ کو مانتے ہیں ،تمام مسلمان (عام آدمی ،داعی ، طلباءاور علماء اکرام )ان کی تکفیر کر سکتے ہیں بلکہ کرنی چاہئے ہراس شخص کی جو ان گروہوں میں سے ہے کیونکہ ان کے عقائد اور اعمال کفر اکبر ہیں اور ان کے کفر کا بیان قرآن و حدیث اور اجماع اہل علم سے واضح ہے کہ یہ لوگ محمد ﷺ اور اسلام پر ایمان نہیں لائے ۔

الشیخ عبیدالجبری آگے پھر فرماتے ہیں :
وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی دعوت ( دعوت آخرالزمان محمدﷺ) سے اعراض کیا اور اسلام میں داخل نہیں ہوئے یعنی یہودی عیسائی اور ہندو وغیرہ ۔۔۔۔ یہ کفار ہیں اس پر قرآن و حدیث اور علماء کا اجماع دلیل ہے۔ حتی کہ ایسے لوگوں کی تکفیر نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے امام الدعوۃ محمد بن عبدالوہاب ؒ اپنے دس نواقض اسلام میں ان لوگوں کے بارے جو اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں فرماتے ہیں تیسرا ناقض یہ ہے :
''جو کسی مشرک و کافر کو کافر یامشرک نہ مانے یا وہ ان کے کفر میں شک رکھے یا انکے عقائد و نظریات کو درست تسلیم کر ے ، تو اس شخص نے کفر کیا ۔''
(مولفات الشیخ محمد بن عبدالوھابؒ 212,213)
اب ہم دوسری قسم کی طرف آتے ہیں
دوم: دین سے ارتداراختیار کرنے والے :۔
کسی معیّن فرد کی تکفیر یامسلمانوں میں سے معین مسلم حکمران کی تکفیرکرنا:
یہ کام صرف اور صرف متبحر فی العلم اور دین میں راسخ العلم کا حق ہے داعی یا دینی طالب علم کے لئے جائز نہیں بلکہ تمام طبقہ علماء بھی اس کے فیصلے کے مکلف نہیں ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ،ارکان اسلام اور ارکان ایمان کو تسلیم کرنے کا دعوے دار ہوتا ہے۔
قرآن و سنت میں ایسے شخص کی معین تکفیر نہیں کی گئی جیسا کہ گزشتہ بیان کردہ دو گروہوں کی گئی ہے ۔ اس کی وجہ ان کا اسلام کا اظہار اورمسلمان ہونے کا دعوی کرنا ہے ۔
لہذا ایسے شخص کی تکفیر صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے فعل کا کفر یہ یا شرکیہ ہونا قرآن و حدیث ، فہم سلف سے ثا بت ہو اور تکفیر معین کی تمام شروط پوری ہوں اور موانع ( کفر سے بچا نے والے اسباب) ختم ہو جائیں ان سب اصول و ضوابط کا جائزہ لینے کے بعد صرف اور صرف اہل علم کو حق ہے کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر معین کریں کیونکہ وہ اس کے مکلف ہیں نہ کہ ہماری گلیوں ، محلوں اور شہروں کے ''مفتیان''!
یعنی جس مسلمان کو علماء و اہل قضاء متفقہ طور پر مرتد قرار نہ دے چکے ہوں ، انکی تکفیر ہر عامی نہیں کرسکتا ، ہاں البتہ جن کی تکفیر علماء اور اہل قضہ کر چکے ہوں ، انہیں ب مسلمان کافر و مرتد قرار و پکار سکتے ہیں ، مثلا قادیانی وغیرہ
یہ کام محض اہل علم کا ہے ۔ ہم اس میں چھیڑ چھاڑ کے اہل نہیں ! یہ میدان ہمارا ( عوام الناس اور عام اہل علم کا ) نہیں ہے ۔


شیخ السلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
'' کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی شخص کو مسلمانوں میں سے کافر قرار دے ۔۔۔جب تک ثبوت پایہ تکمیل تک نہ پہنچ جائیں ''
( مجموع الفتاوٰی 12/466)
پھر مز ید فرمایا :
''یقینا ًکسی شخص کی تکفیر ( معین ) شروط اور موانع رکھتی ہے ۔ ''
( مجموعۃ الفتاوی 12/487 -488)
شیخ محمد عمر بذمل ،امام ابن تیمیہ ؒ کی اوپر بیان کردہ تکفیر معیّن کے بارے دونوں بیانات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
[/QUOTE]کوئی شخص معین (مسلمانوں میں سے ) علماءاہل السنہ کے ہاں کافر نہیں قرار دیا جاتا
ماسوائے مندرجہ ذیل وجوبات کی تکمیل کے بعد :

۱۔ ثبوت کا پایہ تکمیل کو پہنچنا ( قرآن و سنت اور اجماع سلف صالحین سے )

۲۔ شروط کی مکمل موجود گی
۱۔(علم) صحیح حصول علم​
۲۔(عمداً) کفر یہ فعل کو جان بوجھ کر کرنا​

۳۔موانع زائل ہونے پر جو کہ مندرجہ ذیل چار ہیں​
۱۔ جاہل نہ ہو​
۲۔ کفر یہ کام پر مجبورنہ کیا گیا ہو​
۳۔غیرارادی یا غلطی سے نہ چاہتے ہوئے کوئی کا م سرزد ہو جانا​
۴۔متاؤل یعنی کسی تاویل کی بنیاد پر کفر یہ کام کر رہا ہے ۔
[/QUOTE]

لہذا کسی معین شخص کو اس وقت تک کا فر قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک اوپر بیان کردہ معاملات سے اس کو توثیق نہ ہو جائے ،جو کہ تکفیر مطلق کے بر عکس ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :
یقیناً تکفیر مطلق کی وجہ سے تکفیر معین لازم نہیں آتی حتی کہ ( ثبوت ایک خاص یا معین فرد میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ) شروط ( تکفیر معین) پوری ہوں جائیں اور موانع ختم ہو جائیں ۔
(مجموع الفتاوٰی 12/487 -88)
یعنی ہم گزشتہ حصے میں یہ جاننے میں کامیاب رہے ہیں کہ کن لازمی اصولوں پر تکفیر کی جاتی ہے اوپر بیان کردہ صورتیں یہ تھیں :
۱۔ ثبوت کی موجودگی
۲۔ تکفیر معین کی شروط
۳۔ موانع تکفیر معین
یہ صرف کسی مسلمان کی تکفیر کے لیے ہے نہ کہ کسی کافر معین کے لیے کیونکہ وہ تو منکر اسلام ہیں۔

قاضی عیاض ؒفرماتے ہیں :
ہم ( تمام مسلمان ) اس شخص کو کا فر سمجھتے ہیں جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ دوسرے ادیان کے پیروکار ہیں ۔
(الشفاء تعریفہ حقوق المصطفی 2/1671)
کیونکہ کسی معین مسلمان کو کافر قرار دینے کے لیے کچھ صورتیں درکار ہیں ( مثلا کفریہ عمل کاہونا شروط کا موجود ہونا ،موانع زائل ہونا ) لہذا عہدہ تکفیر صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو اسلام کا بھر پور علم رکھتے ہوں، علوم قرآن و تفاسیر کے اصولوں ، حدیث نبوی کے علوم اور استدلال فقہ پر دسترس رکھتے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ شروط پوری ہیں یا موانع زائل ہیں یا یہ کہ کس کا کام کفریہ ہے اور کس کا نہیں ۔بجائےیہ کہ گلی محلوں کے مفتیان جو کہ ان علوم اور قواعد سے کورے ہیں اور ایمان و کفر پر فیصلے کرتے پھر یں ۔۔۔۔!

اس بنیاد پر الشیخ صالح الفوزان ﷾فرماتے ہیں :۔
'' کسی شخص پر ارتداد کا حکم لگانا یا کسی شخص کو دین سے خارج قرار دینا صرف اہل علم کو زیب دیتا ہے اور وہ اہل علم جو راسخ العلم ہیں اور وہ شرعی قضا ء کے عہدے پر ہو ں یا مفتیان کرام ہو ں ۔یہ بالکل دوسرے معاملات کی طرح ہی ہے ۔اور ہر کسی شخص کو ،طالب علم کو اور انکو جو علم کے لیے مقرر ہیں اختیار نہیں لیکن جو ان میں نا سمجھ ہیں۔
یہ ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی کے ارتداد کے بارے میں فیصلہ کریں چونکہ اس سے فساد پیدا ہو گا اور بعض اوقات ایسا ہو گا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دیں مگر وہ ( حقیقت میں ) نہ ہو لہذا کسی مسلمان کی تکفیر کرنا اگرچہ اس میں نواقص میں سے کوئی موجود بھی ہو تو یہ ایک انتہائی خطرناک کام ہے''
'' جس نے بھی اپنے بھائی کو کہا اے کافر، اے فاسق اور وہ نہ ہوتو الفاظ اسی کہنے والے پر لوٹ آتے ہیں ۔''
لہذا وہ لوگ جو کسی شخص کے ارتداد کا فیصلہ کریں گے یا تو وہ قاضی ہوں گے جو فتوی دینے کے اہل بھی ہیں یا وہ جو ان کےفیصلوں کو نافذ کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کے حکمران ہیں اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ محض بوکھلا پن ہے ''
( مراجعان فی فقد الوافقی )
شیخ حفظہ اللہ اس بارے میں مز ید فرماتے ہیں :
'' یہ جہلاء پر لازم ہے کہ وہ خاموش رہیں ،زبان مت کھولیں اور اللہ سے ڈریں جو غالب اور جلال والاہے اور علم کے بغیر کلام مت کریں۔ ''
اللہ فرماتا ہے:
[[وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ]]​
''اور یہ کہ تم اللہ پر وہ بات کہو جو تم نہیں جانتے ۔ ''
( الاعراف : 33 )​
پس کسی جاہل شخص کے لیےجائز نہیں کہ وہ علمی معاملات پر کلام کرے ،خاص طور پر ایسے معاملات جن کا تعلق ایمان وکفر ، جہاد وقتال اور الولا ءوالبراء سے ہوجہاں تک اہل علم کی عزت و حرمت پر طعنہ زنی اور غیبت کا تعلق ہے تو یہ غیبت کی شدید ترین قسم ہے اوریہ کوئی جائزصورت نہیں ۔
اور جہاں تک موجود ہ حالات ہیں جو گز ر گئے ہیں یا گزر رہے ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس کے بارے میں مکمل تصدیق اور باہمی مشورے کے بغیر اہل علم کی خدمت میں پیش کریں تاکہ وہ جائزہ لیں اور اس کے بارے میں شرعی فتویٰ جاری کریں نہ کہ خود مدعی ، خود گواہ ،خود قاضی اور خود ہی جلاد ۔۔۔۔۔!
جہاں تک عام مسلمانوں کا اور طالب علموں کا تعلق ہے تو گزارش ہے کہ یہ انکا مسئلہ نہیں ۔۔ خاص طور پر کفر و ایمان کے فیصلے کرنا ۔
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا 83؀
اللہ رب العزت کا فرمان ہے اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹا تے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں ۔
( سورہ النساء : 83)​
کہیں ایسے تمام لوگ اس سلسلے میں مغالطہ کھا کر خود ہی اس حکم کے مصداق ٹھہر جائیں گے جو وہ کسی پر لگا رہے تھے'' ۔
لہذا ایسے مسئلے میں زبان پر قابورکھنا لازم ہے ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے !
یہ بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے تو اس میں اللہ سے ڈرنا چاہیے زبان کھولنے سے بچنا چایئے ماسوائے انکے جو ان مسائل میں اختیار دیے گے یا ذمہ داری دیے گے ہیں !
( مراجعان فی فقد الوافقی )
آخر میں اس مضمون سے جو نتیجہ اخذہوا وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
۱۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جولا دین ہیں یعنی دہرئیے ،ہر مسلمان پر بلا تفریق ،مطلق یا معین دونوں طرح لازم ہے ۔
۲۔ ایسے لوگوں کی تکفیر کرنا جو دوسرے ادیان کے پیروکارہیں عیسائی ، یہودی ،ہندو وغیرہ ہر مسلمان پر بلا تفریق مطلق اور معین دونوں طرح لازم آتا ہے ۔
۳۔ کسی مسلمان کی تکفیر کرنا :
صرف اور صرف راسخ العلم ، اہل قضاء لوگ ہی اس عہدہ پر فائز ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ کام جائز نہیں چاہے مطلق ہو یا معین !
اک شبہ :
تکفیر ی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح وہ ایسے شخص کو جو لا دین و باطل ادیان پر ہو اسکی تکفیر کر سکتے ہیں ایسے ہی انکے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اگر کسی مسلمان کو کفریہ کام کرتا دیکھیں تو اس کی بھی تکفیر کرنا اپنا حق و فرض سمجھیں ۔
لیکن یہ کوئی سادہ وجہ نہیں ، وہ لوگ جن کا کوئی مذہب نہیں یا جو دوسرے ادیان کے پیرو کار ہیں اور اسلام اور ایمان کی جزئیات کے منکرہیں ان کی تکفیر ہر مسلمان پر بلا تفریق فرض و لازم ہے اس کے لیے شائد کثیر علم بھی درکار نہیں ہے ۔حتی کے ایک نو مسلم خود بخود یہ سمجھ جاتا ہے کہ پہلے وہ کافر کیوں تھا؟
جبکہ دوسری طرف کسی مسلمان شخص کو کافر قرار دینا چاہے عام مسلمان ہو یا حکمران یہ راسخ العلم افراد کا کام ہے اس وجہ سے کہ یہ ایک بہت ہی زیادہ احتیاط کا کام ہے کیونکہ وہ شخص اسلام کے اراکین اور ایمان کی جزئیات پر ایمان رکھنے کا دعویدار ہے اور خود کو مسلمان گردانتاہے ۔
لہذا جو اہل علم اس کام کے مکلف ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل چیزوں کا راسخ علم رکھتے ہوں ۔
۱۔ جانتے ہوں کہ کفر کی کتنی اقسام ہیں ۔
۲۔ تکفیر کے قواعد و ضوابط سے مکمل آشنا ہو ں یعنی (عمل کے کفریہ ہونے یا نہ ہونے ،ثبوت کی صحت ، شروط و موانع کے بارے راسخ العلم ہوں )
۳۔ وہ علوم قرآن و تفاسیر ، شرو حات احادیث و استدلال ، علم حدیث ، فقہ اور عربی لغت سمیت دوسرے دینی علوم پر بھرپور دسترس رکھتے ہوں اور بالخصوص وہ اس تکفیر مطلق اور معین کے بارے پورا علم رکھتے ہوں ۔
عام مسلمان کو اس مسئلہ میں زبان کھولنے سے بچناا چاہئے اور اس کام میں الجھنے کی بجائے فائدہ مند علم اور نیک اعمال میں رغبت رکھنی چاہیے یہ اس کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والی چیزیں ہیں اور اس مسئلہ کو انہی پر چھوڑ دیں جو اس کے ذمہ دار ہیں ۔
[/QUOTE]

میں امید کرتا ہوں جو اہل ایمان اس مسئلے پریشان تھےانکی پریشانی ختم ہوجائے گی ان شاء اللہ
 

علی ولی

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
81
پوائنٹ
21
میں نے یہ جواب ایک مراسلے پر تحریر کیا تھا ، مگر پھر اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے ایک الگ مراسلے کی شکل میں فورم پر لگایا ہے۔

اس پر جہاں میں نے ایک دوسرے مراسلے کے جواب میں تحریر کیا تھا ، وہاں اس پر ایک سوال اٹھایا گیا ، میں وہ سوال اور اسکا جواب یہاں پیش کر رہا ہوں ، تاکہ اس موضوع پر علیحدہ کھل کر بات ہوسکے اور ہر رکن اور مہمان استفادہ کر سکے اور حق بات واضح ہو جائے ان شاء اللہ

محترمہ ام کشف صاحبہ کا اعتراض:

تو ہم علماء کے انتظار میں کیوں ہیں جب عدالت نے تمام شروط زائل کردیئے ہیں عجیب بات کی آپ نے یا دوسرے لفظوں میں اچھی ڈنڈی ماری یعنی عدالت میں بیٹھے جج صاحبان وہ کس بنیاد پر فیصلہ زائل کررہے ہیں بات کو آسان لفظوں میں کیجئے یعنی وہ کس دارلعلوم کے فارغ ہیں جنہوں نے تکفیر المعین کی تمام شروط وموانع دیکھنے کے بعد قادیانی کو کافر قرار دیا
جواب از علی ولی:
ڈنڈی تکفیری حضرات مارتے ہیں ضوابط تکفیر میں ، میں نہیں محترمہ!
محترمہ یہاں ججوں کی قابلیت کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا ، بلکہ انکے کردار کی بات کی جا رہی ہے۔
یعنی ریاستی ادارے کا کیا کردار ہونا چاہیٗے اس مسئلے میں اور ہاں ایک بات واضح رہے اگر علماء اہل السنہ کی جماعت کسی گروہ یا شخص کے کفر متفق ہوجائے اور متفقہ فتوی جاری کر دیں تو وہ گروہ یا شخص مرتد و کافر قرار دیا جائے گا اور بلایا جائے گا۔
باقی رہی پاکستانی عدالتوں کی بات ، تو وہ دونوں طرف کے دلائل اور براہین سن کر اس علماء کےفتوی کی توثیق یا تردیدکرنے کی مجاز ہیں۔
یعنی جن افراد کا یہ عہدہ ہے ، وہ بلا شبہ اہل علم اور اہل قضہ ہیں۔ اور محترمہ جب قادیانیوں کا کیس چلا تھا تو عدالت کے ججوں نے تکفیر مسلم کا خوب مطالعہ کر کے ہی کیس چلایا تھا اور علماء کے متفقہ فیصلے کی تائید میں حکم جاری کیا تھا۔ قادیانیوں کے خلاف عدالتی کاروائی کی ساری روداد کتابی شکل میں موجود ہے، پڑھ لیں ، افاقہ ہوگا انشاء اللہ
جزاک اللہ خیرا
 
Top