• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادت کے لیے شادی نہ کرنا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عبادت کے لیے شادی نہ کرنا !


کیا ایسی عورت پر شادی کرنا واجب ہے جو ساری زندگی اپنے آپ کو فحاشی اورغلط کاموں سے بچانے کی استطاعت رکھتی ہو اسے دینی رغبت ہے کہ وہ ازواجی زندگی کے مشاغل سے ہٹ کرعبادت میں مشغول رہے ؟

الحمد للہ :

اللہ عزوجل نے نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :

{ اورتم اپنے میں سے بے نکاح صالح اورنیک مرد وعوت کا نکاح کردو اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا } ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نکاح کرنے کا حکم دیا ہے ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جوبھی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، کیونکہ یہ اس کے آنکھوں کو نیچا کرنے کا باعث اورشرمگاہ کو بچانے کا باعث ہے اورجس میں نکاح کی طاقت نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس سے ڈھال بنیں گے )

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔

اوران تین صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کے قصہ میں بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارہ میں پوچھنے کے لیے گھر آئے تو انہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارہ میں بتایا گيا تو انہوں نے اپنی عبادت کو کم سمجھا ۔

اس قصہ میں ہے کہ ایک صحابی کہنے لگا : میں عورتوں سے علیحدگي اختیار کرتے ہوئے کبھی بھی شادی نہیں کرونگا ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اورباقی دونوں صحابیوں پر رد کرتے ہوئے کہا : کہ وہ توروزہ بھی رکھتے ہیں اورافطار بھی کرتے ہیں اورنماز پڑھتے ہیں اورسوتے بھی ہیں ، اورعورتوں سے شادی بھی کی ہے ۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : توجوشخص بھی میری سنت اورطریقہ سے بے رغبتی کرتے ہوئے دور ہٹے گا وہ مجھ میں سے نہیں ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5063 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1401 )
تو اس قصہ مین اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یھود ونصاری میں سے عورتوں اورمردوں کے فعل رھبانیت اورعورتوں سے علیحدگی سے بچنے کا حکم دیا ۔

تواس عورت کے لائق نہيں کہ وہ خاوند کے بغیر ہی زندگی بسر کرے .

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 18 / 17 ) ۔
 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
عبادت کے لیے شادی نہ کرنا !!!!


کیا ایسی عورت پر شادی کرنا واجب ہے جو ساری زندگی اپنے آپ کو فحاشی اورغلط کاموں سے بچانے کی استطاعت رکھتی ہو اسے دینی رغبت ہے کہ وہ ازواجی زندگی کے مشاغل سے ہٹ کرعبادت میں مشغول رہے ؟

الحمد للہ :

اللہ عزوجل نے نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :

{ اورتم اپنے میں سے بے نکاح صالح اورنیک مرد وعوت کا نکاح کردو اگر وہ فقیر ہیں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا } ۔






تو اس قصہ مین اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یھود ونصاری میں سے عورتوں اورمردوں کے فعل رھبانیت اورعورتوں سے علیحدگی سے بچنے کا حکم دیا ۔

تواس عورت کے لائق نہيں کہ وہ خاوند کے بغیر ہی زندگی بسر کرے .

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 18 / 17 ) ۔
السلام علیکم ! جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس سے '' نکاح '' کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ اس آیت سے صرف '' استحباب '' کا جواز ملتا ہے۔ اور اگر اس آیت کا وہی مطلب ہے جو آپ نے سمجھا ہے تو خود نکاح کرنے والا لڑکا اور کرانے والی لڑکی کا مقام کیا ہے اگر وہ نکاح پر راضی نہیں ہوتے۔ کیوں کہ نکاح میں مرد اور عورت دونوں کی مرضی لازمی ہے۔ ہاں اگر کوئی مرد یا عورت نکاح کی خواہش نہ رکھتا ہو اور معاشرے کے لیے کسی فتنہ و فساد کا موجب نہ بنے تو نکاح نہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور شائد سوال بھی اسی کیفیت کے متعلق تھا۔
پہلی حدیث کا مفہوم جہاں تک میں سمجھتا ہوں درج ذیل ہے:-
اگر کوئی مالی استطاعت کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی رکھتا ہے تو بلا شبہ نکاح اس کے لیے سنت ہے۔
اگر کوئی مالی استطاعت تو رکھے مگر جسمانی قوت نہ ہو تو نکاح نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرط کہ فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔
اگر کوئی مالی استطاعت نہ رکھے مگر جسمانی قوت ہو تو اس کا روزے رکھنا سنت کا قائم مقام ہو جائے گا۔
اگر کوئی مالی استطاعت اور جسمانی قوت کے ہوتے ہوئے بھی نکاح نہیں کرتا تو وہ یقینا فتنہ و فساد کا موجب بن کر رہیگا۔
مالی استطاعت سے مراد بیوی کا نان و نفقہ کا انتظام ہے۔
جہاں تک دوسری حدیث کا تعلق ہے اس میں بھی صحابہ کو نکاح کی خواہش کے ہوتے ہوئے کوئی اور طرزِ عمل جو ان کے لحاظ سے بہتر ہو اپنانے سے منع کیا گیا ہے کیوں کے وہ مسنون عمل کے مقابلے میں اپنی خواہش کے عمل کو ترجیح دینے والے تھے۔ لہٰذا اس حدیث کا نکاح کی خواہش نہ رکھنے والوں سے کوئی تعلق نہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بعض فقہا نے نکاح کی وجوبیت کے پانچ درجے بیان کئے ہیں
  1. فرض نکاح: اگر یہ بات یقینی ہو کہ نکاح نہ کرنے صورت میں فرد زنا میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسے فرد پر نکاح فرض ہے۔
  2. واجب نکاح: اگر اس بات کا خدشہ ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوسکتا ہے تو ایسے فرد پر نکاح واجب ہے۔
  3. سنت نکاح: دونوں بالائی اور ذیل کی دونوں صورتوں کی عدم موجودگی میں، یعنی عام حالات میں نکاح کرنا سنت ہے۔
  4. مکروہ نکاح: اگر فرد کو اس بات کا خدشہ ہو کہ وہ بعد از نکاح اپنے زوج کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکے گا تو ایسے فرد کے لئے نکاح کرنا مکروہ ہے۔
  5. حرام نکاح: اگر فرد کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ بعد از نکاح، اپنے زوج کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکے گا تو ایسے فرد کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔
واضح ہو کہ آخری دو صورتیں تو شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ جبکہ پہلی دو صورتیں مخصوص معاشرتی و سماجی پس منظر میں ہی ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بعض فقہا نے نکاح کی وجوبیت کے پانچ درجے بیان کئے ہیں
  1. فرض نکاح: اگر یہ بات یقینی ہو کہ نکاح نہ کرنے صورت میں فرد زنا میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسے فرد پر نکاح فرض ہے۔
  2. واجب نکاح: اگر اس بات کا خدشہ ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوسکتا ہے تو ایسے فرد پر نکاح واجب ہے۔
  3. سنت نکاح: دونوں بالائی اور ذیل کی دونوں صورتوں کی عدم موجودگی میں، یعنی عام حالات میں نکاح کرنا سنت ہے۔
  4. مکروہ نکاح: اگر فرد کو اس بات کا خدشہ ہو کہ وہ بعد از نکاح اپنے زوج کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکے گا تو ایسے فرد کے لئے نکاح کرنا مکروہ ہے۔
  5. حرام نکاح: اگر فرد کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ بعد از نکاح، اپنے زوج کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکے گا تو ایسے فرد کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔
واضح ہو کہ آخری دو صورتیں تو شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ جبکہ پہلی دو صورتیں مخصوص معاشرتی و سماجی پس منظر میں ہی ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آج کل لوگ نکاح محض معاشرتی رسم کے طور پر کرتے ہیں اور اس پر مہر''سنت '' کی لگاتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر لوگ نماز تو کیا دینِ اسلام کے متعلق سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کے وہ اسلام سے وہ چیزیں لیتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہو اور جو ان کی طبعیت کے خلاف ہو اس کو جان بوجھ کے ترک کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسے لوگوں کو محض نکاح کرنے کی وجہ سے سنت کا پیروکار کہا جائے کیوں کہ جو فرض کو ترک کرے بھلا اس کو سنت سے کیا لینا دینا۔ میری نظر میں وہ سنت کےنہیں بلکہ اپنی خواہش کے پیروکار ہوتے ہیں۔ ہاں ! جو فرائض کو ادا کریں اور پھر نکاح کی سنت کو اپنائیں وہی سنت کے پیروکار کہلانے کے حقدار ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آج کل لوگ نکاح محض معاشرتی رسم کے طور پر کرتے ہیں اور اس پر مہر''سنت '' کی لگاتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر لوگ نماز تو کیا دینِ اسلام کے متعلق سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کے وہ اسلام سے وہ چیزیں لیتے ہیں جو ان کی خواہش کے مطابق ہو اور جو ان کی طبعیت کے خلاف ہو اس کو جان بوجھ کے ترک کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسے لوگوں کو محض نکاح کرنے کی وجہ سے سنت کا پیروکار کہا جائے کیوں کہ جو فرض کو ترک کرے بھلا اس کو سنت سے کیا لینا دینا۔ میری نظر میں وہ سنت کےنہیں بلکہ اپنی خواہش کے پیروکار ہوتے ہیں۔ ہاں ! جو فرائض کو ادا کریں اور پھر نکاح کی سنت کو اپنائیں وہی سنت کے پیروکار کہلانے کے حقدار ہیں۔
کسی ایک فریضہ کو کسی دوسرے فریضہ سے بلاوجہ منسلک کرکے یہ رائے قائم کرنا کہ فلاں چونکہ فلاں فلاں اہم فریضہ انجام نہیں دیتا، لہٰذا اس کا کوئی بھی ادا شدہ فریضہ قابل قبول نہیں کیونکہ یہ تو ”محض رسم دنیا“ کے تحت ادا کیا گیا ہے، اس انداز فکر کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ مثلاً
  1. ایک شخص ایمانداری سے حلال روزی کماتا ہے۔ اور حصول رزق میں کوئی غیر قانونی اور غیر شرعی طریقہ اختیار نہیں کرتا۔ لیکن وہ نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ نماز کی پابندی نہ کرنے کا گناہ اپنی جگہ، لیکن اس باعث اس کے رزق حلال کو ”مردود“ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ تو محض کیریئر بنانے اور ترقیاں حاصل کرنے کے لئے ایمانداری سے کام کرتا ہے۔
  2. اسی طرح اگر کوئی شخص جنسی بے راہ روی کی آسان تر زندگی گذارنے کی بجائے بنیادی شرعی اصولوں کے مطابق نکاح کرکے اپنی ضرورت و آسائش کو پورا کرتا ہے، لیکن نماز نہیں پڑھتا، تب بھی اس پر ترک نماز کا وبال تو اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ لیکن اس کے نکاح کو ”مردود“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
  3. اسلام میں ہر فریضہ کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ جس جس فریضہ کو آپ نیک نیتی سے ادا کریں گے اس کا اجر آپ کو ملے گا۔ اور جس جس فریضہ میں کوتاہی برتیں گے، اس گناہ بھی آپ کے سر ہوگا۔ کراماً کاتبین دونوں اقسام کے اعمال کو علیحدہ علیحدہ لکھتے ہیں، جو روز حشر میزان میں تولا جائے گا کہ نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا بدیوں کا۔ اور اسی بنیاد پر کسی فرد کی کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار ہوگا۔
واللہ اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کسی ایک فریضہ کو کسی دوسرے فریضہ سے بلاوجہ منسلک کرکے یہ رائے قائم کرنا کہ فلاں چونکہ فلاں فلاں اہم فریضہ انجام نہیں دیتا، لہٰذا اس کا کوئی بھی ادا شدہ فریضہ قابل قبول نہیں کیونکہ یہ تو ”محض رسم دنیا“ کے تحت ادا کیا گیا ہے، اس انداز فکر کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ مثلاً
  1. ایک شخص ایمانداری سے حلال روزی کماتا ہے۔ اور حصول رزق میں کوئی غیر قانونی اور غیر شرعی طریقہ اختیار نہیں کرتا۔ لیکن وہ نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ نماز کی پابندی نہ کرنے کا گناہ اپنی جگہ، لیکن اس باعث اس کے رزق حلال کو ”مردود“ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ تو محض کیریئر بنانے اور ترقیاں حاصل کرنے کے لئے ایمانداری سے کام کرتا ہے۔
  2. اسی طرح اگر کوئی شخص جنسی بے راہ روی کی آسان تر زندگی گذارنے کی بجائے بنیادی شرعی اصولوں کے مطابق نکاح کرکے اپنی ضرورت و آسائش کو پورا کرتا ہے، لیکن نماز نہیں پڑھتا، تب بھی اس پر ترک نماز کا وبال تو اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ لیکن اس کے نکاح کو ”مردود“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
  3. اسلام میں ہر فریضہ کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ جس جس فریضہ کو آپ نیک نیتی سے ادا کریں گے اس کا اجر آپ کو ملے گا۔ اور جس جس فریضہ میں کوتاہی برتیں گے، اس گناہ بھی آپ کے سر ہوگا۔ کراماً کاتبین دونوں اقسام کے اعمال کو علیحدہ علیحدہ لکھتے ہیں، جو روز حشر میزان میں تولا جائے گا کہ نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا بدیوں کا۔ اور اسی بنیاد پر کسی فرد کی کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار ہوگا۔
واللہ اعلم
میرا کہنے کا مطلب یہ پرگز نہیں ہے کہ فرائض ادا نہ کرنے والے کا نکاح ''مردود '' ہے یا اسکی روزی '' ناجائز '' ہے۔ بلکہ یہ تھا کہ ہمیں اپنے تمام فرائض انجام دینے چاہیے ورنہ اسلام کےکسی ایک پہلو پر عمل کرنے اور دوسرے پہلو سے اعراض کرنے پر ہم کسی شخص کو صحیح معنوں میں متبع سنت نہیں کہ سکتے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اگر کوئی شخص محض شہوت کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نکاح کرے اور اس کا مقصد نہ اولاد کا حصول ہو اور نہ سنت کا اتباع تو کیا ایسے شخص کو متبع سنت کہا جا سکتا ہے ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بعض فقہا نے نکاح کی وجوبیت کے پانچ درجے بیان کئے ہیں
  1. فرض نکاح: اگر یہ بات یقینی ہو کہ نکاح نہ کرنے صورت میں فرد زنا میں مبتلا ہوجائے گا تو ایسے فرد پر نکاح فرض ہے۔
  2. واجب نکاح: اگر اس بات کا خدشہ ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوسکتا ہے تو ایسے فرد پر نکاح واجب ہے۔
یہ فرض اور واجب کا فرق کہاں سے لیا گیا ہے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یہ فرض اور واجب کا فرق کہاں سے لیا گیا ہے؟
میں نے پہلے ہی لکھا ہے کہ ”بعض فقہا“ کے مطابق ۔ اور جو فقہا فرض اور واجب کے فرق کو روا نہیں رکھتے، وہ ان دونوں صورتوں میں نکاح کو فرض سمجھتے ہیں۔
ہمارا ”المیہ“ یہ ہے کہ ہم بال کی کھال نکالنے کے اتنے ”ماہر“ ہیں کہ اصل موضوع کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ بات شادی کرنے، نہ کرنے کی ہورہی تھی۔ اور یہ سوال اٹھا کہ یہ فرض ہے یا سنت۔ نکاح کو بالعموم ”سنت“ قرار دیا جاتا ہے۔ اگرنکاح ”فرض عین“ ہوتا تو یقیناً سو فیصد صحابہ نکاح کرتے۔

لیکن فقہائے کرام نے نکاح کے تفصیلی بیان میں فرض، سنت اور حرام نکاح کو بھی ”ڈیفائن“ کردیا ہے۔ تاکہ استثنائی صورتوں کی بھی وضاحت ہوجائے۔ بس بات اتنی سی تھی۔ اسی تین حالت کو کوئی پانچ میں بیان کردے تو تین پانچ میں پڑنے کی بجائے اصل بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ”نکاح گو کہ سنت ہے۔ مگر استثنائی صورتوں میں یہ فرض یا حرام بھی ہوجاتا ہے۔“
واللہ اعلم
 
Top