آپ لوگ میرا سوال سمجھے جب اللہ ہر ایک کی پکار کو سنتا ہے تو پھر حضرت عمر نے خود دعا کیوں نہیں کی؟؟؟کیوں حضرت عباس سے کروائی؟کیا اللہ نے ان کی سننی نہیں تھی؟
اور جہاں تک بات طالب علم بھائی کے جواب کی تو ان کے بقول کہ نیک آدمی سے دعا اس کے نیک اعمال کی وجہ سے کروائی جاتی ہے تو جب کسی کے نیک اعمال دعا کی قبولیت کے چانسس بڑھا سکتے ہیں تو خود وہ اعمال کرنے والا کیوں نہیں؟
اور یہاں میں کم یا زیادہ فضیلت کی بات نہیں نیک اور بد کی بات کی ہے۔
آپ نے طالب علم بھائی ک اس جواب کو نظر انداز کر دیا حالانکہ اس میں آپ کی بات کا جواب ہے اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ نیک کی سنتا ہے دوسرے کی نہیں تو کیا عمرؓ خود نیک نہیں تھے؟اور اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نیک کی زیادہ سنتا ہے تو اس حدیث میں تو خود رسول اللہﷺ نے دعا کرنے کو کہا کیا رسول اللہﷺ سے زیادہ بھی کوئی نیک ہو سکتا ہے!!اصل بات یہ ہے کہ ہمیں جس طرح تعلیم دی گئی ہم ویسے ہی کرنے کے پابند ہیں کسی نیک زندہ بزگ شخص سے دعا کرنے کا طریقہ خود رسول اللہﷺ سے ثابت ہے اور ان کے صحابہ سے تو اس کا انکار کون کرے گا مگر کبھی کسی قبر والے سے یا غائب شخص سے دعا کروانے کی کوئی حدیث نہیں ہے اس لئے اسے جائز بھی نہیں کہا جا سکتا۔۔۔عمرؓ نے تو حجر اسود تک کو مخاطب کر کے کہ دیا تھا کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا اسی طرح آج ہم کہتے ہیں زندہ نیک شخص سے دعا کی تعلیم تو ملتی ہے اس لئے وہ جائز ہے اور مردہ سے کروانے کی کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ نا جائز ہے۔۔اور نہ ہی کسی غائب شخص کو پکارنے کی تعلیم کسی آیت یا حدیث سے ملتی ہے۔ جو آپ نے نذر انداز کی وہ حدیث یہ ہے
عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ
اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کر لینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔
(ابو داؤد،ترمذی )