بچہ جمہورا اور مداری کے مابین ایک خاص رشتہ ہوتا ہے، جسے معلوم نہ ہو کہ یہ رشتہ کیا ہے تو جمشید صاحب اور ان کی تحریروں کے تعلق سے غور کر لے، یہ عقدہ فوری وا ہو جائے گا کہ لفظوں کی مداری دکھا کر حق کو باطل اور باطل کو حق کر دکھانا ہوتا کیا ہے۔
جب ہم علمائے کرام کی زبانی سنتے تھے کہ محدثین کے بغض میں احناف اندھے ہوتے ہیں، تو سمجھتے تھے کہ شاید پرائیویٹ محفلوں اور خفیہ مجالس میں مانند تقیہ برداروں کے ایسی راز کی باتیں کی جاتی ہوں گی، لیکن بھلا ہو جمشید صاحب کا، کہ انہوں نے ہماری اس معصوم سوچ کی جما کے دھجیاں بکھیریں ہیں۔
ماشاءاللہ، یہ حدیث اور محدثین سے محبت رکھنے والے فرماتے ہیں:
رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔
ہاں جی، محدثین بے چارے آج کے اہلحدیث کی طرح متشدد ہی تھے، معتدل تو فقط فقہائے کرام ، خصوصاً فقہائے احناف ہوا کرتے تھے جو قول امام کو رد کرنے والے پر لعنتیں برسانے کو ہمہ تن تیار ہوا کرتے تھے۔
جمشید صاحب، بے شرمی اور ڈھٹائی سے ایک ضعیف سند کی بنیاد پر ایک محدث کو مطعون کرتے ہیں کہ:
اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں پھول جھڑتے ہوئے:
اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے۔ جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں
یقیناً ہمیں جمشید صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے امام بخاری کے بارے میں "نرم الفاظ" استعمال کئے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں اگر مجھ سے بھی کچھ "نرم الفاظ" صادر ہو جائیں تو یقیناً قابل معافی ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے مابین یہ مکالمہ نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت کا مذاق اڑایا، بلکہ ن کی فقاہت کو جو پہاڑ بنا کر دور حاضر کے مقلدین پیش کرتے ہیں، اس کی حقیقت بھی طشت از بام ہو جاتی ہے۔
جمشید صاحب اپنی تحریر کو اِدھر اُدھر کے رطب و یابس اور فضول و غیر متعلقہ مباحث کو نقل کر کے طول دے کر قارئین کے ذہن کو الجھانے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی بالا پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں تسلیم ہے کہ یہ مکالمہ واقعی عبداللہ بن المبارک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے مابین ہوا ہے۔ لیکن چال یہ چلتے ہیں کہ مختلف اسناد لکھ کر ان کی صحت و ضعف کی بنیاد پر کسی سند کو ترجیح نہیں دیتے، بلکہ فقط اس بنیاد پر کہ چونکہ فلاں سند میں رواۃ کی تعداد کم ہے، لہٰذا اس میں غلطی کا امکان کم ہے، کہہ کر اسے ترجیح دیتے ہیں۔
قابل ترجیح روایت
اب سوال یہ ہے کہ ان تمام روایات میں سب سےز یادہ قابل قبول روایت کون سی ہوسکتی ہے۔
ایک بات تویہ ہے کہ ہم امام بخاری کی روایت کو ترجیح دیں لیکن امام بخاری کی عبداللہ بن المبارک سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔لہذا انہوں نے وکیع یاپھر اسحاق بن راہویہ یاپھر کسی دوسرے سے یہ بات سنی ہوگی۔اگروہ اپنے ماخذ اورمصدر کی صراحت کردیتے تو ہمارے لئے اندازہ کرناآسان تھا۔
دوسرے طرف اس کے علاوہ بقیہ دیگر محدثین ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل تین واسطوں سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔خطیب ابن حبان ،ابن عبدالبر اورزیادہ چارپانچ چھ واسطوں سے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔
ہاں صرف ابن قتیبہ ایسے ہیں جو اس کو صرف دواسطوں یعنی ابن اسحاق اوروکیع سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی ہی ہے۔اورواسطے جتنے زیادہ کم ہوتے ہیں اتنے ہی اس میں غلطیوں کا امکان کم ہوتاہے ورنہ واسطے جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں حذف واضافہ کاامکان مزید بڑھ جاتاہے۔
حالانکہ خودجس سند کو ترجیح دے رہے ہیں، اس میں ضعف کی جانب بھی اشارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ (غالباً ڈر ہوگا کہ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے تو چھوڑنا نہیں، خود ہی اس جانب اشارہ کر کے واپسی کا ایک راستہ کھلا رکھا جائے)۔
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی محبت میں غلو کی کیا شان ہے کہ امام بخاری پر بھی اعتماد نہیں کہ انہوں نے صحت سند کا خیال رکھا ہوگا۔ حالانکہ عین ممکن ہے کہ امام بخاری نے ایک ہی واسطہ سے سنا ہو یعنی وکیع سے۔
خیر، جمشید صاحب، اپنی مرضی کے مختصر واقعہ کو رواۃ کی کم تعداد کی بنا پر قابل ترجیح قرار دینے کی بجائے یہ کیوں نہیں کرتے کہ تمام اچھی اسناد کو جمع کر کے واقعہ کی مجموعی صورت متعین کی جائے؟ آخر دیگر اسناد بھی صحیح یا حسن موجود ہیں، ان میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس میں رواۃ پر بحث کئے بغیر، سند میں کمزوری ثابت کئے بغیر، فقط کم واسطوں کو بنیاد بنا کر ترجیح دینا کوئی انصاف کی بات تو نہیں۔ جیسے حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے اور قرآن کا بعض بعض کی تشریح کرتا ہے، ایسے ہی ثقہ راویوں سے ثابت ہونے والی واقعات کی مختلف کڑیاں جوڑ کر اصل واقعہ اخذ کرنا کیا مشکل ہے۔ لیکن کیا کریں کہ اس سے جو بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، اسے قبول کرنے کے لئے دل گردہ نہیں چاہئے، انصاف کی رمق درکار ہے اور وہ دفاع ابو حنیفہ کی قربان گاہ پر کب کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔
ہماراکہنابھی یہی ہے کہ یہی خوش طبعی امام ابوحنیفہ اورعبداللہ بن المبارک کے سوال جواب میں بھی موجود ہے۔ اوراس کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ نے ترک رفع کے حق میں دلیل سے بات کہی اورنہ ہی ابن المبارک نے۔ امام ابوحنیفہ نے کثرت رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیاکہ بار بار ہاتھوں کو اٹھارہے ہیں ایسالگتاہے کہ پرواز کی کوشش کی جارہی ہے اس پر ابن مبارک نے جواب دیاکہ پرواز کی کوشش تواول مرتبہ کے رفع یدین سے ہی شروع ہوجاتی ہے اوربقیہ رفع یدین اسی پہلے رفع یدین کے اتمام کی کوشش اورتتمہ ہے۔
اور ہمارا کہنا بھی وہی ہے کہ آپ کو کس نے کہا کہ یہ خوش طبعی تھی اور دلیل نہیں تھی؟ کیا فقط اس لئے کہ ایسی بودی دلیل کی توقع امام ابو حنیفہ سے نہیں کی جا سکتی لہٰذا اسے خوش طبعی گردانا جائے۔ ہماری رائے میں تو امام ابو حنیفہ سے دلیل مل جانا ہی آپ کے لئے بڑی نعمت ہے، چاہے وہ "ایسی" ہی کیوں نہ ہو۔ آپ حضرات تو امام صاحب کے اقوال کو بلا دلیل حرز جان بنائے بیٹھے ہیں، اور یہاں امام صاحب دلیل دے رہے ہیں تو وہ آپ کو قبول نہیں۔ عجیب بات ہے۔
پھر یہ بھی فرمائیے کہ خوش طبعی کے لئے کیا فقط ایک سنت عمل ہی رہ گیا ہے؟ یہ کیسی خوش طبعی ہے کہ جس میں ایک سنت کا ٹھٹھا کیا جائے اور اسے پرندوں کی پرواز سے تشبیہ دی جائے؟ اور پھر وہ خوش طبعی اور دل لگی ہی رہے۔ آج احناف جہری نمازوں میں خلف الامام آمین اونچی آواز میں نہیں کہتے۔ اور کوئی فقط "ازراہ تفنن"، " خوش طبعی" اور "دل لگی" کے طور پر کہے کہ ان کی تو چوہوں کی طرح آواز ہی نہیں نکلتی تو آپ کے نزدیک یہ خوش طبعی کہلائے گی یا ایک سنت کا مذاق اڑانا ٹھہرے گا؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو اتنی محبت نہیں کہ ان کی ایک سنت کا مذاق اڑانے والے کو اس کی غلطی مان لیا جائے ہاں، ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اتنی محبت ضرور ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، تاویلات کے دفتر کے دفتر خود سے گھڑ گھڑ کر پھیلانے پڑیں، ایک سیدھے سادے عام سے واقعہ کو عمرو عیار کی زنبیل بنا کر اس میں قیل و قال اور اگر مگر، چونکہ چنانچہ کرتے کرتے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور ہاتھ جھاڑ کر داد سمیٹنے کو منتظر۔ اب جو بھی غیر مقلد اعتراض کرے اسے جہالت کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھما دیا۔
اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیاتھاجیساکہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر(کتاب السنۃ)
تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ(جزء رفع الیدین)
مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ (تاویل مختلف الحدیث)
انہوں نے مطلقارفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہرتکبیر کے ساتھ رفع کیاجارہاہے اورہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہورہاہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ایسالگتاہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہرمقام پر رفع یدین شروع کیاتھاجس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔
دیکھا آپ نے ۔ اسے کہتے ہیں منہ توڑ جواب۔ "شاید"اور "ایسا لگتا ہے" دو بڑے دلائل ہیں، جو احناف کے مؤقف کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ غیرمقلدین حضرات اب ان کا توڑ کر کے دکھائیں۔
جمشید صاحب کا زور اس بات پر ہے کہ کثرت رفع یدین پر طیر کا لفظ کہا جائے تو قابل قبول ہونا چاہئے۔ فقط رفع یدین پر طیر کا اطلاق ہی قابل مذمت ہے۔ تھوڑی دیر کو فرض کر لیجئے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے جو شخص ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کر بھی رہا تھا، مثلاً رکوع کے ساتھ سجدوں کی تکبیرات میں بھی رفع الیدین کر رہا تھا، تو کیا اس سے امام صاحب کو مطلق رفع الیدین کے بارے میں "خوش طبعی" کا پروانہ مل جاتا ہے؟ کیا امام صاحب کو تب معلوم نہ تھا کہ سجدوں کو چھوڑ کر باقی کی تکبیرات پر رفع الیدین تو سنت رسول ہے، چاہے منسوخ ہی ہو، لہٰذا اس کا استہزاء نہیں کرنا چاہئے؟
ہمیں تو کثرت رفع الیدین کا مذاق اڑانے اور مطلق رفع الیدین کا مذاق اڑانے میں کوئی جوہری فرق محسوس نہیں ہوتا۔
امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتناتشنہ رہ جاتاہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایاپھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔
اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ
بسااوقات عوام الناس حدود شرعی کا خیال نہیں رکھتے۔اورجس چیز کی جتنی حدہے اس سے بڑھاکر اس کو کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کان سے لگاناضروری سمجھتے ہیں کچھ لوگ کاندھوں سے سرتک اونچاکرلیتے ہیں۔ہاتھ باندھنے میں بھی اسی قسم کی بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے کچھ لوگ ناف کے نیچے کو مزید نیچے کردیتے ہیں اورکچھ سیدھے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اورکچھ لوگ وفور جوش میں سینے سے آگے بھی پہنچ جاتے ہیں تواس قسم کی تمام باتیں حدود شرعی سے متجاوز ہیں اگرکوئی سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو یاپھر سینے سے بھی اوپر ہاتھ باندھنے کو کسی چیز سے تعبیر کرتاہے تویہ تعبیر حدود شرعی سے تجاوز کی ہوگی نہ کہ حدود شرعی کی۔ مثلاایک شخص انتہائی جلدی جلدی نماز پڑھارہاہے تواس کو نماز چور کہاجاسکتاہے تویہ جملہ نماز چور نماز کی توہین نہیں ہے بلکہ نمازی نے غیرشرعی طریقہ پر جونماز پڑھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ہے۔
----
یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرناچاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھاتواس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہاکہ یہ پرواز تواس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھاہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھاجائے تونہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اورنہ ہی کسی چھینٹاکشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائیدوتوثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔
محترم جمشید صاحب کے قلم کی جولانیاں ملاحظہ فرمائیں اور ان کی تحریروں کے شائقین اس پر انہیں داد دیتے اور عش عش کر اٹھتے ہوں گے کہ ماشاءاللہ احقاق باطل کا کیسا ملکہ پایا ہے۔
دفاع ابو حنیفہ کی بات ہو، تو عجیب عجیب سر تال جوڑے جاتے ہیں۔ اس پوری تقریر بلکہ ان کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اگر کثرت رفع یدین کو طیر سے تشبیہ نہیں دی ہوگی، تو پھر رفع یدین میں کسی بے اعتدالی کو ملحوظ رکھ کر "خوش طبعی" فرمائی ہوگی۔
نہایت ادب و احترام سے ہم پوچھنا چاہیں گے کہ اگر واقعی یہ بات اتنی ہی واضح ہے، اور امام صاحب نے رفع الیدین کی سنت پر نہیں، بلکہ سنت میں کسی بے اعتدالی (یا کثرت رفع الیدین) کو مذاق کا نشانہ بنایا تو اس تاویل کے تحت عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا جواب میں پہلی رفع الیدین کی سنت کو نشانہ بنانا کیسے درست ٹھہرے گا؟ امام صاحب تو بے اعتدالی کو نشانہ بنائیں، اور جواب میں عبداللہ ابن مبارک سنت ہی کو نشانہ بنا ڈالیں اور اس پر امام صاحب ساکت و خاموش ہو جائیں اور کوئی جواب ان سے نہ بن پڑے؟
اور اگر بالفرض عبداللہ بن المبارک کو امام ابو حنیفہ کے اصل مقصود سے آگاہی حاصل نہ ہو پائی تھی کہ رفع الیدین کو طیر سے تشبیہ دے رہے ہیں یا رفع الیدین میں کسی بے اعتدالی کے بارے میں بات کر رہے ہیں، تو امام ابو حنیفہ نے جواباً اپنے شاگرد کو کیوں نہیں سمجھایا کہ میں تو رفع الیدین کا استہزاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، میرا اشارہ تو فلاں قسم کی بے اعتدالی کی جانب تھا (چاہے وہ کثرت رفع یدین کی بے اعتدالی ہو یا دیگر کسی غیر شرعی طریقہ سے رفع یدین کی جانب اشارہ ہو)۔
لہٰذا امام ابو حنیفہ کا رفع الیدین کی سنت پر اعتراض کرنا، اپنے سادہ حقیقی معنوں سے موڑ کر بے ہودہ تاویلات کے ذریعے کثرت رفع الیدین یا رفع الیدین کے تعلق سے کسی عوامی غلطی کی جانب مان بھی لیا جائے، تو اس پر عبداللہ بن المبارک کا جواب دینا فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص رکوع کے بعد کھڑے ہو کر سینے پر ہاتھ باندھنے کے بجائے اپنی گردن پر ہاتھ باندھ لے اور کوئی دوسرا شخص اس سے خوش طبعی کرے کہ یہ شخص خود کشی کرنا چاہتا ہے۔ اور جواب میں کوئی تیسرا شخص اس دوسرے شخص کو کہے کہ اگر یہ گردن دبانا ہے تو رکوع سے قبل ہاتھ
سینے پر باندھنا بھی گردن دبانا ہے۔ بھلا اس ڈائیلاگ کی کوئی تک بنتی ہے؟
جمشید صاحب بھی کچھ ایسی ہی تُک بندی فرما کر خوشی سے بغلیں بجاتے پھرتے ہوں گے۔ ان کی تکنیک یہ ہے کہ واقعہ کے مختلف پہلوؤں کو الگ ذکر کرتے ہیں، ان کی الگ الگ دور از کار اور ایک دوسرے کے مخالف تاویلات فرماتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ فقط ان مختلف تاویلات کو ساتھ ملا کر ہی رکھ دیا جائے تو ان کی ساری تک بندیاں ہباً منثورا ہو جاتی ہیں۔
رضا میاں بھائی نے بھی خوب پکڑا۔ جمشید صاحب خود تو من گھڑت سند سے حجت پکڑ کر محدثین کی جانب لعنت کی نسبت کرنے سے بھی نہیں شرماتے اور دوسری جانب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب صحیح سند سے ثابت واقعہ کو اس لئے ترجیح نہیں دیتے کہ جی راویوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ پتہ نہیں منافقت کسے کہتے ہیں۔
ہمارے آفس کے پاس کی مسجد میں ایک بوڑھا نابینا آیا کرتا ہے، اسے جب بھی دیکھتا ہوں، ترس آتا ہے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں آنکھوں والا بنایا۔ جمشید صاحب کے ایسے احقاق باطل کے لئے لکھے گئے مضامین پڑھ کر جانے کیوں وہ بوڑھا نابینا یاد آ جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ ظاہری آنکھوں سے نابینا ہے اور جمشید صاحب کی بصارت ان کے اپنے ہی غرور علم اور پندار انانیت نے چھین رکھی ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ انہیں بھی اور ہمیں بھی ہدایت دے۔ آمین۔