• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبداللہ بن المبارک اوررفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مقلدین ابو حنیفہ کبھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، لیکن آج تک میں نے جمشید بھائی کو یا کسی بھی مقلد کو امام ابو حنیفہ کی ایک بھی غلطی کی نشادہی کراتے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کی واضح ترین غلطیوں کا بھی قرآن و حدیث کی طرح دفاع کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے آپ کو مقلد یعنی جاہل اور بقول تقی صاحب "بندر" ماننے کے باوجود اپنے سے کئی اونچے درجے والے مجتہدین کو ہی تنقید کا نشانہ بنانے کی جرات کرتے ہیں۔ بھلا آپ ہی کے بقول ایک مجتہد کے سامنے ایک جاہل کی کیا حیثیت جو اس کی بات پر بھی غور کیا جائے۔
جمشید بھائی، جس طرح آپ نے امام اوزاعی، حمیدی، اور بخاری وغیرہ کی بلادلیل غلطیوں کی نشاندہی فرمائی ہے اسی طرح آپ سے گذارش ہے کہ امام ابو حنیفہ کی بھی کم از کم دو چار بلادلیل غلطیاں بیان فرما دیں؟


فقہ حنفیہ کے اس اصول سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انہوں نے یہود ونصارى کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے احبارو رہبان کو اپنا رب بنا لیا ہے , اور یہ قرآن پر اس طرح ایمان نہیں لاتے جسطرح ایمان لانے کا حق ہے , یہ اپنے احبارو رہبان کے اقوال کو وحی الہی کا درجہ دیتے ہیں بلکہ وحی الہی سے بھی زیادہ , کیونکہ پہلے ایک چیز کو اصل متعین کیا جاتا ہے پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا اسکے مخالف ہے اور کیا موافق . احناف نے قرآن وحدیث کو اصل بناکر اپنے اصحاب کے اقوال کو اسکے مخالف قرار دینے کی بجائے اپنے اصحاب کے اقوال کو اصل قرار دیکرحدیث اور قرآن کی آیات کو انکے مخالف قرار دیا ہے , پھر ان مخالف آیات و احادیث کو رد کرنے کے لیے ان آیات و احادیث کے منسوخ ہونے کا بہانہ تراشنے کا منصوبہ بنایا ہے , اور جہاں یہ ممکن نہ ہو کہ حدیث یا قرآنی آیت کو منسوخ قرار دیا جاسکے وہاں قرآن کی آیات اور احادیث میں ہی تعارض باور کراکے انہیں معرض استدلال سے ہی غائب کر دیا جائے اور اگر کو اہل نظر گرفت کرنے والا موجود ہو تو ان آیات واحادیث کی ایسی تأویل کر لی جائے کہ ہمارے اصحاب کا قول سلامت رہ سکے ۔


ثبوت

قرآن وحدیث سے فرار کے راستے
قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے انکار کے لیے احناف کا وضع کردہ کفریہ وشرکیہ اصول​


ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہوگی اسے نسخ پر محمول کیا جائے گا یا مرجوح سمجھا جائے گا اور بہتر ہے کہ (ہمارے اصحاب کے قول اور آیت )دنوں کے درمیان تطبیق دینے کے لیے تأویل کر لی جائے ۔
ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو گی اسکو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا یا یہ کہ وہ اپنی ہی جیسی حدیث کے معارض ومخالف ہے پھر کسی دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا یا ایسے انداز میں اسے ترجیح دی جائے گی کہ جس سے ہمارے اصحاب کا قول سلامت رہ سکے یا پھر ان (احادیث اور ہمارے اصحاب کے قول ) کے درمیان تطبیق دی جائے گی,اور یہ کام حسب ضرورت کیا جائے گا , اگر نسخ کی دلیل مل جائے تو منسوخ مانا جائے گا اور اگر کسی اور طریقہ کار کی دلیل مل جائے تو وہی اختیار کر لیا جائے گا۔


اصول الکرخی صفحہ نمبر ٣٧٣






 

شادان

رکن
شمولیت
دسمبر 01، 2012
پیغامات
118
ری ایکشن اسکور
131
پوائنٹ
56
bhai ek osool hai k jhoot chupani ho to us baat ko khoob explain karo......kuch ek senior araqeen hai yaha jo apne post ki shuruaat kuch isi andaaz karte...
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
لولی آل ٹائم صاحب
اصول کرخی کی عبارت پر اعتراض کے تعلق سے ماضی میں ایک تحریر میں نے لکھی تھی پہلے اس کو پڑھ لیں پھراس کے بعد اصول کرخی پر کوئی اعتراض ہوتواس کو پیش کریں۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-155/امام-ابوالحسن-کرخی-کے-ایک-اصول-پر-اعتراض-کا-جواب-2883/

فیض صاحب یہ رہی آپ کی بات
ابن عبدالبر تمہید9/226میں لکھتے ہیں
وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ رَفْعَ الْيَدَيْنِ لَيْسَ بِوَاجِبٍ مَا أَخْبَرَ بِهِ الْحَسَنُ عَنِ الصَّحَابَةِ أَنَّ مَنْ رَفَعَ مِنْهُمْ لَمْ يَعِبْ عَلَى مَنْ تَرَكَهُ
والسلام
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
فیض صاحب یہ رہی آپ کی بات
ابن عبدالبر تمہید9/226میں لکھتے ہیں
وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ رَفْعَ الْيَدَيْنِ لَيْسَ بِوَاجِبٍ مَا أَخْبَرَ بِهِ الْحَسَنُ عَنِ الصَّحَابَةِ أَنَّ مَنْ رَفَعَ مِنْهُمْ لَمْ يَعِبْ عَلَى مَنْ تَرَكَهُ
والسلام
کوئی عالم اس پر تبصرہ کرنا چاہے گا
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
میں نے کس محدث کو اپنے کس جملہ سے ملعون قراردیاہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اوزاعی نے سفیان ثوری کوملاعنہ کاچیلنج کیاسفیان ثوری یہ سن کر مسکراکر رہ گئے۔ اس میں یہ کہاں مذکور ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے پر لعنت کی بھی؟
لعنت کا چیلینج بھی کرنا ایک جلیل القدر امام کی طرف ایسے ہی کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے؟

دورحاضر میں کچھ لوگوں نے عجیب وغریب طرز اوررویہ اختیار کیاہے۔وہ ہرمسئلہ میں اورہرکام میں ایک ہی طریقہ کارپر عمل کرتے ہیں جب کہ علماء وائمہ ماضین کاطریقہ کار اس کے برخلاف رہاہے۔
یہ بات تو حنفیہ پر فٹ نہیں ہوتی جو صرف ابو حنیفہ کے ہی طرز پر عمل کرتے ہیں جب کہ علماء کا طریقہ کار اس کے برخلاف رہا ہے!؟

اسی طرح کسی کے معایب کے بیان کیلئے تو قوی سند چاہئے لیکن کسی شخصیت کے فضائل کے باب میں بھی اتنی ہی مضبوط حدیث چاہئےیہ قابل تسلیم نہیں ہے۔کسی سے حسن ظن پر چاہے بغیر دلیل ہو یاغلط ہو اللہ پکڑ نہیں فرمائیں گے لیکن کسی سے بدظنی کیلئے دلیل چاہئے اورقوی عذر چاہئے۔
جرح و تعدیل کے میدان میں کسی کے لیے حسن ظن رکھنا بھی دین کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اسی لیے تو اس فن کو میزان سے مشابہت دی گئی ہے، جس میں ہر چیز برابر ہے۔ اب اگر آپ جھوٹوں اور حدیثیں گھڑنے والوں کی احادیث کو بھی حسن ظن کے طور پر پھیلانے لگیں گے تو آپ کیسے سوچ سکتے ہیں اس کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی؟؟ اور ویسے بھی بات صرف حسن ظن کی نہیں ہے، بات ہے کسی کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو اس نے کہی ہی نہیں، اور کسی پر جھوٹ باندھنے پر آپ کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی نے یہ واقعہ نقل کیاباوجود اس کے کہ اس میں ضعیف ترراوی موجود ہیں اوربعض پر کذب کی تہمت بھی لگی ہے لیکن اس واقعہ پر انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا۔ کیونکہ اس سے صرف ایک واقعہ کا اثبات ہورہاہے۔اورنہ ہی یہ سفیان ثوری اور اوزاعی کے مثالب کے باب میں ہے۔
کیا آپ کے مطابق امام بیہقی کا صرف نقل کرنا ہی ان کے نزدیک قابل حجت ہے؟ امام بیھقی نے اور بھی بہت کچھ نقل کیا ہے جس پر آپ یہ نہیں کہیں گے امام بیھقی نے اسی قابل حجت قرار دیا ہے؟

آپ کہیں گے کہ آپ نے اس کو اپنی بات کیلئے دلیل بنایاہے
توبعینہ یہی بات امام بیہقی نے بھی کی ہے
کہ انہوں نے اس واقعہ کو اوزاعی کے مقابلہ میں سفیان ثوری کے رفع یدین کے مسئلہ پرپیچھے ہٹ جانے کے طورپر ذکر کیاہے۔
توجوجواب آپ کا امام بیہقی کی جانب سے ہوگا وہی جواب میرابھی ہوگا
پہلے تو یہ ثابت کریں کہ یہ اثر امام بیھقی کے نزدیک بھی ضعیف ہے، پھر کہیں جا کر فیصلہ ہو گا کہ انہوں نے اسے ضعیف تسلیم کر کے حجت مانا ہے یا نہیں؟ پھر یہ ثابت کریں امام بیھقی باب باندھ کر جو کچھ بھی روایت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک قابل حجت ہے! صرف آپ کہ کہہ دینے سے تو ہم ماننے سے رہے!

اورجہاں تک آپ کی بات امام ابوحنیفہ کی غلطیوں کی ہے توہم بھی اسی طرز پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ابھی تک اپنے کسی مضمون میں امام بخاری کوئی غلطی بیان نہیں کی۔ ابن تیمیہ کی کسی غلطی کی جانب اشارہ نہیں کیا۔ابن قیم کے مسائل پر کوئی گرفت نہیں کی۔میاں نذیر حسین صاحب کی کسی غلطی کو واضح نہیں کیا۔
یہ تو میرے سوال کا جواب نہ ہوا! میں نے آپ سے سیدھا سا ایک سوال پوچھا تھا لیکن الٹا آپ نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا۔ ارے بھئی میرے سوال کا جواب دینے کے بعد جتنے مرضی سوال آپ مجھ سے پوچھ لیجیے گا۔
جہاں تک ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ کا سوال ہے تو نہ تو ہم نے کبھی ان تقلید کی حامی بھری اور نہ ہی ہم ان کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہیں، تو پھر اس سوال کا مطلب ہی نہیں بنتا، جبکہ الٹا آپ ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور آپ ان کی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں تو اس لیے اگر آپ ان کو بشر اور غیر نبی مانتے ہیں تو ان کی دو چار ایسی غلطیاں بیان کر دیں نہیں تو مان لیں کہ ابو حنیفہ ہمارا نبی ہے اور ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی!
ابن تیمیہ وغیرہ کی غلطیاں تو انگلیوں پے گنائی جا سکتی ہیں، لیکن سوال آپ سے ہے! لہٰذا ہم سے سوال کرنے کی بجائے پہلے آپ خود جواب دیں!

باقی علماء پر چھوڑتا ہوں!
جزاک اللہ خیرا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اہل حدیث نئے تناظر میں کفایت اللہ صاحب کے مراسلہ کا جواب لکھتے ہوئے اس موضوع پر بھی نگاہ پڑی اوراس تعلق سے کچھ مواد اکٹھاہوگیاتوسوچاگیاکہ جواب کاکام موخرکرکے پہلے اسی غلطی فہمی کے تعلق سے کچھ لکھاجائے جس میں اردو خواں کے علاوہ بزعم خود عالمین بھی مبتلانظرآتے ہیں۔ اگراس تحریر سے کسی کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو فبہااوراگرنہ بھی ہو تووماعلیناالاالبلاغ


عبداللہ بن المبارک اوررفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر



رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔جیساکہ حمیدی اوربعض دیگر روات سے منقول ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ
التمہید لابن عبدالبر9/226
اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کابھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیااس کی نماز فاسد یاناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اورخالی ہے کسی چیز کا مسنون ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا فرض وواجب ہوناالگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اورزور میں سنت کو فرض وواجب قراردے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔
اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کےد لائل ماقبل میں ذکرکئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قراردینا کسی چیز کوفرض قراردیناہے اورفرائض دلیل قطعی یاپھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یااس پر امت کا اجماع ہو ۔

اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "
سنن بیہقی 2/117

اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ
التمہید لابن عبدالبر9/228
اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیاہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیاہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔

اس تعلق سے عمومی طورپر ایک قصہ اورواقعہ ابن المبارک اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کابھی بیان کیاجاتاہے ۔ دورحاضر کے غیرمقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اورنمایاں کرتے ہیں اورایساسمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اورتعریض تھاحالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد وشاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !


واقعہ کیاہے؟


اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیاہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کوذراواضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اورکس طورپر نقل کیاہے۔

امام بخاری نقل کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ
قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ37

عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "
السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل276

ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ3 أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث1/106

ابن حبان نقل کرتے ہیں
- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى
الثقات لابن حبان8/45

امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
سنن بیہقی 2/117


خطیب بغدادی لکھتے ہیں
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا
15/530تاریخ بغداد

ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ
التمہید لابن عبدالبر9/299

ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیاہے اورہرایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔

واقعہ کا قدرمشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیااورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہاکہ اگر وہ اڑناہے تویہ بھی اڑناہے اوراگروہ اڑنانہیں ہے تویہ بھی اڑنانہیں ہے۔


اس واقعے سے امام ابو حنیفہ کا مقام ابن مبارک کے نزدیک کیا ہے باکل واضح ہو جاتا ہے

جس طرح ابن المبارک رحمہ اللہ کی طرف سے مسکت جواب پا کر امام ابوحنیفہ اس معاملہ میں خاموش و ساکت رہ گئے اسی طرح ان کی تقلید میں امام ابوحنیفہ کا دم بھرنے والوں کو بھی خاموش رہنا چاہئیے ۔ مگر مدعیان تقلید ابی حنیفہ اپنے دعوی تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں سچے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر وہ آئے دن اس سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے ہیں اور اس سنت نبویہ کے خلاف شدید جارحیت
اختیار کرتے ہیں ۔

اور اصل حقیقت یہ ہے اس کو کیوں بھول جاتے ہیں





کہ امام بن مبارک کے نزدک امام ابوحنیفہ ضعیف تھے !!




امام عبداللہ بن مبارک کا ابوحنیفہ پر تبصرہ




امام صاحب کے شاگرد رشید امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کان ابو احنیفۃ یتیما فیا الحدیث کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم ہیں (قیام اللیل ص١٢٣ ،بغدادی ص٤١٥ج١٣،الضعفائ لابن حبان ص٧١ج٣)وغیرہ بعض حضرات نے تفنن طبع کا ثبوت دیتے ہوئے ’’یتیمکے معنی یکتا زمانہ ‘‘کے کئے ہیں مگر کیا کیا جائے جب کہ اب کے یہ الفاظ بھی ہیں کان ابوحنیفٰۃ مسکینا فی الحدیث (الجرح والتعدیال ص٤٥٠ج٤،ق١ )کہ وہ حدیث میں مسکین تھے ۔




امام ابن حبان بسند متصل نقل کیا ہے کہ ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں میں نے امام ابن مبارک کو ثغر کے مقام میں دیکھا کہ وہ کتاب لوگوں پر پڑھ رہے تھے جبامام ابوحنیفہ کا ذکر آتا تو فرماتے اضربو ا علیہ ۔اس پر نشان لگا لو ۔اور یہ آخری کتاب تھی جوانھوں نے لوگوں کو سنائی تھی (الثقات ترجمہ ابراہیم بن شماس )السنۃ لابن احمد میں ہے کی یہ واقعہ امام ابن مبارک کی وفات سے بضعۃ عشر تیرہ چودہ دن پہلے کا ہے ۔ابراہیم بن شماس ثقہ ہے (تقریب ص٢٢)اور ابن حبان نے اب سے یہ روایت بواسطہ عمر بن محمد الجبیری یقول سمعت محمد بن سھل بن عسکر بیان کی ھے ۔اور محمد بن سھل بن ثقہ امام ھے۔ اور عمر بن محمدالجبیری حافظ حدیث اور ثقہ امام ھیں (تزٖکرہ ص؛٧١٩) ۔اور یہ قول ابراھیم سے مختلف اسانید کے ساتھ تاریخ بغداد ص٤١٤ج١٣ اور المجروحین لابن حبان (ص٧١ج٣)السنۃ لعبداللہ بن احمد (ص٢١١،٢١٤ج١)،العلل و معرفۃ الرجال(ج٢ص٢٤٢)میں بھی دیکھا جا سکتا ہے








امام عبداللہ بن مبارک مزید فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں نقل کی ہیں ۔جب میں واپس عرق جاوں گا توانھیں مسخ کر دوں گا ۔(بغدادی ص٤١٤ج١٣)




اور امام ابن عبدالبر بسند متصل معلی بن اسد سے نقل کرتے ہیں

قلت لابن المبارک کان الناس یقولون انک تذہبن الی قول ابی حنیفٰۃ قال لیس کل ما یقول الناس یصیبونم فیہ قد کنا ناتیہ زمانا و نحن لا نعرفہ فلما عرفناہ ترکناہ ۔

(الانتقاء ص١٥١)




یعنی میں نے ابن مبارک سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ تم ابو حنیفہ کے قول کی اقتدا کرتے ہو تو انھوں نے جواب دیا لوگوں کی ہر بات صحیح نہیں ہوتی ۔ہم ایک زمانہ تک ان کے پاس جاتے تھے مگر انھین پہچانتے نہ تھے لیکن جب ہمیں معلوم ہو گیا تو انھیں چھوڑ دیا ۔




امام ابن ابی حاتم غالبا انھیں اقوال کی روشنی میں لکھتے ہیں :ترکہ ابن امبارک بآخرہ ۔کہ ابن مبارک نے بالآخر انھی÷ں چھوڑ دیا تھا۔




علمائے احناف امام ابوحنیفہ کی تعریف میں امام ابن مبارک کا نام بڑے اچھوتے انداز میں کرتے ہیں اور ان کے غیر مستند قصائد اور اقوال شہ سرخیوں سے ذکر کرتے ہیں ۔حالانکہ مندرجہ بالا اقوال ان کے یکسر منافی ہیں ۔اگر ان اقوال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ان میں تطبیق کی صورت بالکل ظاہر ہے کہ آخری عمر میں امام ابن مبارک کی ابو حنیفہ سے عقیدت کافور ہو چکی تھی ۔جیسا کہ امام ابی حاتم نے کہا ہے بلکہ امام ابن مبارک کے شاگرد رشید ابراہیم بن شماس کے الفاظ بھی یہی ہیں کہ:ّّترکہ ابن المبارک فی آخر امری ٗٗ(المجروحین لابن حبان ص٧١ج٣ )




بحوالہ توضیح الکالام لشیخنا محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ص:933۔








قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ امام شیرازی کہتے ہیں




امام ابن مبارک نے امام مالک اور ثوری سے فقہ حاصل کی




اور ابتدائ وہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھے




پھرانھیں چھوڑ دیا اور ان کے مذہب سے رجوع کر لیا ۔ابن وضآع کہتے ہیں
کہ انھو
ں
اپنی کتابوں میں
امام ابو حنیفہ کی روایات کو قلم زد کر دیا تھا اور انھیں لوگوں کو نہیں سناتےتھے


(ترتیب المدارک ص300ج1)









 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بچہ جمہورا اور مداری کے مابین ایک خاص رشتہ ہوتا ہے، جسے معلوم نہ ہو کہ یہ رشتہ کیا ہے تو جمشید صاحب اور ان کی تحریروں کے تعلق سے غور کر لے، یہ عقدہ فوری وا ہو جائے گا کہ لفظوں کی مداری دکھا کر حق کو باطل اور باطل کو حق کر دکھانا ہوتا کیا ہے۔

جب ہم علمائے کرام کی زبانی سنتے تھے کہ محدثین کے بغض میں احناف اندھے ہوتے ہیں، تو سمجھتے تھے کہ شاید پرائیویٹ محفلوں اور خفیہ مجالس میں مانند تقیہ برداروں کے ایسی راز کی باتیں کی جاتی ہوں گی، لیکن بھلا ہو جمشید صاحب کا، کہ انہوں نے ہماری اس معصوم سوچ کی جما کے دھجیاں بکھیریں ہیں۔
ماشاءاللہ، یہ حدیث اور محدثین سے محبت رکھنے والے فرماتے ہیں:

رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔
ہاں جی، محدثین بے چارے آج کے اہلحدیث کی طرح متشدد ہی تھے، معتدل تو فقط فقہائے کرام ، خصوصاً فقہائے احناف ہوا کرتے تھے جو قول امام کو رد کرنے والے پر لعنتیں برسانے کو ہمہ تن تیار ہوا کرتے تھے۔

جمشید صاحب، بے شرمی اور ڈھٹائی سے ایک ضعیف سند کی بنیاد پر ایک محدث کو مطعون کرتے ہیں کہ:
اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں پھول جھڑتے ہوئے:
اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے۔ جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں
یقیناً ہمیں جمشید صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے امام بخاری کے بارے میں "نرم الفاظ" استعمال کئے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں اگر مجھ سے بھی کچھ "نرم الفاظ" صادر ہو جائیں تو یقیناً قابل معافی ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے مابین یہ مکالمہ نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت کا مذاق اڑایا، بلکہ ن کی فقاہت کو جو پہاڑ بنا کر دور حاضر کے مقلدین پیش کرتے ہیں، اس کی حقیقت بھی طشت از بام ہو جاتی ہے۔

جمشید صاحب اپنی تحریر کو اِدھر اُدھر کے رطب و یابس اور فضول و غیر متعلقہ مباحث کو نقل کر کے طول دے کر قارئین کے ذہن کو الجھانے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی بالا پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں تسلیم ہے کہ یہ مکالمہ واقعی عبداللہ بن المبارک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے مابین ہوا ہے۔ لیکن چال یہ چلتے ہیں کہ مختلف اسناد لکھ کر ان کی صحت و ضعف کی بنیاد پر کسی سند کو ترجیح نہیں دیتے، بلکہ فقط اس بنیاد پر کہ چونکہ فلاں سند میں رواۃ کی تعداد کم ہے، لہٰذا اس میں غلطی کا امکان کم ہے، کہہ کر اسے ترجیح دیتے ہیں۔

قابل ترجیح روایت

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام روایات میں سب سےز یادہ قابل قبول روایت کون سی ہوسکتی ہے۔
ایک بات تویہ ہے کہ ہم امام بخاری کی روایت کو ترجیح دیں لیکن امام بخاری کی عبداللہ بن المبارک سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔لہذا انہوں نے وکیع یاپھر اسحاق بن راہویہ یاپھر کسی دوسرے سے یہ بات سنی ہوگی۔اگروہ اپنے ماخذ اورمصدر کی صراحت کردیتے تو ہمارے لئے اندازہ کرناآسان تھا۔
دوسرے طرف اس کے علاوہ بقیہ دیگر محدثین ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل تین واسطوں سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔خطیب ابن حبان ،ابن عبدالبر اورزیادہ چارپانچ چھ واسطوں سے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔
ہاں صرف ابن قتیبہ ایسے ہیں جو اس کو صرف دواسطوں یعنی ابن اسحاق اوروکیع سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی ہی ہے۔اورواسطے جتنے زیادہ کم ہوتے ہیں اتنے ہی اس میں غلطیوں کا امکان کم ہوتاہے ورنہ واسطے جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں حذف واضافہ کاامکان مزید بڑھ جاتاہے۔
حالانکہ خودجس سند کو ترجیح دے رہے ہیں، اس میں ضعف کی جانب بھی اشارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ (غالباً ڈر ہوگا کہ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے تو چھوڑنا نہیں، خود ہی اس جانب اشارہ کر کے واپسی کا ایک راستہ کھلا رکھا جائے)۔
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی محبت میں غلو کی کیا شان ہے کہ امام بخاری پر بھی اعتماد نہیں کہ انہوں نے صحت سند کا خیال رکھا ہوگا۔ حالانکہ عین ممکن ہے کہ امام بخاری نے ایک ہی واسطہ سے سنا ہو یعنی وکیع سے۔

خیر، جمشید صاحب، اپنی مرضی کے مختصر واقعہ کو رواۃ کی کم تعداد کی بنا پر قابل ترجیح قرار دینے کی بجائے یہ کیوں نہیں کرتے کہ تمام اچھی اسناد کو جمع کر کے واقعہ کی مجموعی صورت متعین کی جائے؟ آخر دیگر اسناد بھی صحیح یا حسن موجود ہیں، ان میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس میں رواۃ پر بحث کئے بغیر، سند میں کمزوری ثابت کئے بغیر، فقط کم واسطوں کو بنیاد بنا کر ترجیح دینا کوئی انصاف کی بات تو نہیں۔ جیسے حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے اور قرآن کا بعض بعض کی تشریح کرتا ہے، ایسے ہی ثقہ راویوں سے ثابت ہونے والی واقعات کی مختلف کڑیاں جوڑ کر اصل واقعہ اخذ کرنا کیا مشکل ہے۔ لیکن کیا کریں کہ اس سے جو بھیانک تصویر سامنے آتی ہے، اسے قبول کرنے کے لئے دل گردہ نہیں چاہئے، انصاف کی رمق درکار ہے اور وہ دفاع ابو حنیفہ کی قربان گاہ پر کب کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔


ہماراکہنابھی یہی ہے کہ یہی خوش طبعی امام ابوحنیفہ اورعبداللہ بن المبارک کے سوال جواب میں بھی موجود ہے۔ اوراس کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ نے ترک رفع کے حق میں دلیل سے بات کہی اورنہ ہی ابن المبارک نے۔ امام ابوحنیفہ نے کثرت رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیاکہ بار بار ہاتھوں کو اٹھارہے ہیں ایسالگتاہے کہ پرواز کی کوشش کی جارہی ہے اس پر ابن مبارک نے جواب دیاکہ پرواز کی کوشش تواول مرتبہ کے رفع یدین سے ہی شروع ہوجاتی ہے اوربقیہ رفع یدین اسی پہلے رفع یدین کے اتمام کی کوشش اورتتمہ ہے۔
اور ہمارا کہنا بھی وہی ہے کہ آپ کو کس نے کہا کہ یہ خوش طبعی تھی اور دلیل نہیں تھی؟ کیا فقط اس لئے کہ ایسی بودی دلیل کی توقع امام ابو حنیفہ سے نہیں کی جا سکتی لہٰذا اسے خوش طبعی گردانا جائے۔ ہماری رائے میں تو امام ابو حنیفہ سے دلیل مل جانا ہی آپ کے لئے بڑی نعمت ہے، چاہے وہ "ایسی" ہی کیوں نہ ہو۔ آپ حضرات تو امام صاحب کے اقوال کو بلا دلیل حرز جان بنائے بیٹھے ہیں، اور یہاں امام صاحب دلیل دے رہے ہیں تو وہ آپ کو قبول نہیں۔ عجیب بات ہے۔

پھر یہ بھی فرمائیے کہ خوش طبعی کے لئے کیا فقط ایک سنت عمل ہی رہ گیا ہے؟ یہ کیسی خوش طبعی ہے کہ جس میں ایک سنت کا ٹھٹھا کیا جائے اور اسے پرندوں کی پرواز سے تشبیہ دی جائے؟ اور پھر وہ خوش طبعی اور دل لگی ہی رہے۔ آج احناف جہری نمازوں میں خلف الامام آمین اونچی آواز میں نہیں کہتے۔ اور کوئی فقط "ازراہ تفنن"، " خوش طبعی" اور "دل لگی" کے طور پر کہے کہ ان کی تو چوہوں کی طرح آواز ہی نہیں نکلتی تو آپ کے نزدیک یہ خوش طبعی کہلائے گی یا ایک سنت کا مذاق اڑانا ٹھہرے گا؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو اتنی محبت نہیں کہ ان کی ایک سنت کا مذاق اڑانے والے کو اس کی غلطی مان لیا جائے ہاں، ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اتنی محبت ضرور ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، تاویلات کے دفتر کے دفتر خود سے گھڑ گھڑ کر پھیلانے پڑیں، ایک سیدھے سادے عام سے واقعہ کو عمرو عیار کی زنبیل بنا کر اس میں قیل و قال اور اگر مگر، چونکہ چنانچہ کرتے کرتے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور ہاتھ جھاڑ کر داد سمیٹنے کو منتظر۔ اب جو بھی غیر مقلد اعتراض کرے اسے جہالت کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں تھما دیا۔

اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیاتھاجیساکہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر(کتاب السنۃ)
تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ(جزء رفع الیدین)
مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ (تاویل مختلف الحدیث)
انہوں نے مطلقارفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہرتکبیر کے ساتھ رفع کیاجارہاہے اورہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہورہاہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ایسالگتاہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہرمقام پر رفع یدین شروع کیاتھاجس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔
دیکھا آپ نے ۔ اسے کہتے ہیں منہ توڑ جواب۔ "شاید"اور "ایسا لگتا ہے" دو بڑے دلائل ہیں، جو احناف کے مؤقف کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ غیرمقلدین حضرات اب ان کا توڑ کر کے دکھائیں۔

جمشید صاحب کا زور اس بات پر ہے کہ کثرت رفع یدین پر طیر کا لفظ کہا جائے تو قابل قبول ہونا چاہئے۔ فقط رفع یدین پر طیر کا اطلاق ہی قابل مذمت ہے۔ تھوڑی دیر کو فرض کر لیجئے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے جو شخص ہر ہر تکبیر پر رفع الیدین کر بھی رہا تھا، مثلاً رکوع کے ساتھ سجدوں کی تکبیرات میں بھی رفع الیدین کر رہا تھا، تو کیا اس سے امام صاحب کو مطلق رفع الیدین کے بارے میں "خوش طبعی" کا پروانہ مل جاتا ہے؟ کیا امام صاحب کو تب معلوم نہ تھا کہ سجدوں کو چھوڑ کر باقی کی تکبیرات پر رفع الیدین تو سنت رسول ہے، چاہے منسوخ ہی ہو، لہٰذا اس کا استہزاء نہیں کرنا چاہئے؟
ہمیں تو کثرت رفع الیدین کا مذاق اڑانے اور مطلق رفع الیدین کا مذاق اڑانے میں کوئی جوہری فرق محسوس نہیں ہوتا۔


امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتناتشنہ رہ جاتاہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایاپھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔

اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ
بسااوقات عوام الناس حدود شرعی کا خیال نہیں رکھتے۔اورجس چیز کی جتنی حدہے اس سے بڑھاکر اس کو کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کان سے لگاناضروری سمجھتے ہیں کچھ لوگ کاندھوں سے سرتک اونچاکرلیتے ہیں۔ہاتھ باندھنے میں بھی اسی قسم کی بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے کچھ لوگ ناف کے نیچے کو مزید نیچے کردیتے ہیں اورکچھ سیدھے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اورکچھ لوگ وفور جوش میں سینے سے آگے بھی پہنچ جاتے ہیں تواس قسم کی تمام باتیں حدود شرعی سے متجاوز ہیں اگرکوئی سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو یاپھر سینے سے بھی اوپر ہاتھ باندھنے کو کسی چیز سے تعبیر کرتاہے تویہ تعبیر حدود شرعی سے تجاوز کی ہوگی نہ کہ حدود شرعی کی۔ مثلاایک شخص انتہائی جلدی جلدی نماز پڑھارہاہے تواس کو نماز چور کہاجاسکتاہے تویہ جملہ نماز چور نماز کی توہین نہیں ہے بلکہ نمازی نے غیرشرعی طریقہ پر جونماز پڑھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ہے۔
----

یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرناچاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھاتواس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہاکہ یہ پرواز تواس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھاہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھاجائے تونہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اورنہ ہی کسی چھینٹاکشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائیدوتوثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔
محترم جمشید صاحب کے قلم کی جولانیاں ملاحظہ فرمائیں اور ان کی تحریروں کے شائقین اس پر انہیں داد دیتے اور عش عش کر اٹھتے ہوں گے کہ ماشاءاللہ احقاق باطل کا کیسا ملکہ پایا ہے۔
دفاع ابو حنیفہ کی بات ہو، تو عجیب عجیب سر تال جوڑے جاتے ہیں۔ اس پوری تقریر بلکہ ان کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اگر کثرت رفع یدین کو طیر سے تشبیہ نہیں دی ہوگی، تو پھر رفع یدین میں کسی بے اعتدالی کو ملحوظ رکھ کر "خوش طبعی" فرمائی ہوگی۔

نہایت ادب و احترام سے ہم پوچھنا چاہیں گے کہ اگر واقعی یہ بات اتنی ہی واضح ہے، اور امام صاحب نے رفع الیدین کی سنت پر نہیں، بلکہ سنت میں کسی بے اعتدالی (یا کثرت رفع الیدین) کو مذاق کا نشانہ بنایا تو اس تاویل کے تحت عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا جواب میں پہلی رفع الیدین کی سنت کو نشانہ بنانا کیسے درست ٹھہرے گا؟ امام صاحب تو بے اعتدالی کو نشانہ بنائیں، اور جواب میں عبداللہ ابن مبارک سنت ہی کو نشانہ بنا ڈالیں اور اس پر امام صاحب ساکت و خاموش ہو جائیں اور کوئی جواب ان سے نہ بن پڑے؟

اور اگر بالفرض عبداللہ بن المبارک کو امام ابو حنیفہ کے اصل مقصود سے آگاہی حاصل نہ ہو پائی تھی کہ رفع الیدین کو طیر سے تشبیہ دے رہے ہیں یا رفع الیدین میں کسی بے اعتدالی کے بارے میں بات کر رہے ہیں، تو امام ابو حنیفہ نے جواباً اپنے شاگرد کو کیوں نہیں سمجھایا کہ میں تو رفع الیدین کا استہزاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، میرا اشارہ تو فلاں قسم کی بے اعتدالی کی جانب تھا (چاہے وہ کثرت رفع یدین کی بے اعتدالی ہو یا دیگر کسی غیر شرعی طریقہ سے رفع یدین کی جانب اشارہ ہو)۔

لہٰذا امام ابو حنیفہ کا رفع الیدین کی سنت پر اعتراض کرنا، اپنے سادہ حقیقی معنوں سے موڑ کر بے ہودہ تاویلات کے ذریعے کثرت رفع الیدین یا رفع الیدین کے تعلق سے کسی عوامی غلطی کی جانب مان بھی لیا جائے، تو اس پر عبداللہ بن المبارک کا جواب دینا فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص رکوع کے بعد کھڑے ہو کر سینے پر ہاتھ باندھنے کے بجائے اپنی گردن پر ہاتھ باندھ لے اور کوئی دوسرا شخص اس سے خوش طبعی کرے کہ یہ شخص خود کشی کرنا چاہتا ہے۔ اور جواب میں کوئی تیسرا شخص اس دوسرے شخص کو کہے کہ اگر یہ گردن دبانا ہے تو رکوع سے قبل ہاتھ سینے پر باندھنا بھی گردن دبانا ہے۔ بھلا اس ڈائیلاگ کی کوئی تک بنتی ہے؟

جمشید صاحب بھی کچھ ایسی ہی تُک بندی فرما کر خوشی سے بغلیں بجاتے پھرتے ہوں گے۔ ان کی تکنیک یہ ہے کہ واقعہ کے مختلف پہلوؤں کو الگ ذکر کرتے ہیں، ان کی الگ الگ دور از کار اور ایک دوسرے کے مخالف تاویلات فرماتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ فقط ان مختلف تاویلات کو ساتھ ملا کر ہی رکھ دیا جائے تو ان کی ساری تک بندیاں ہباً منثورا ہو جاتی ہیں۔

رضا میاں بھائی نے بھی خوب پکڑا۔ جمشید صاحب خود تو من گھڑت سند سے حجت پکڑ کر محدثین کی جانب لعنت کی نسبت کرنے سے بھی نہیں شرماتے اور دوسری جانب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب صحیح سند سے ثابت واقعہ کو اس لئے ترجیح نہیں دیتے کہ جی راویوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ پتہ نہیں منافقت کسے کہتے ہیں۔

ہمارے آفس کے پاس کی مسجد میں ایک بوڑھا نابینا آیا کرتا ہے، اسے جب بھی دیکھتا ہوں، ترس آتا ہے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں آنکھوں والا بنایا۔ جمشید صاحب کے ایسے احقاق باطل کے لئے لکھے گئے مضامین پڑھ کر جانے کیوں وہ بوڑھا نابینا یاد آ جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ ظاہری آنکھوں سے نابینا ہے اور جمشید صاحب کی بصارت ان کے اپنے ہی غرور علم اور پندار انانیت نے چھین رکھی ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ انہیں بھی اور ہمیں بھی ہدایت دے۔ آمین۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
لعنت کا چیلینج بھی کرنا ایک جلیل القدر امام کی طرف ایسے ہی کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے؟
آپ اپنی بات کا اپنے پہلے کہے ہوئے جملہ سے تقابل کریں۔ پہلے آپ نے کہاکہ ایک محدث کو ملعون قراردیا۔جب میں نے کہاکہ ایسی بات نہیں ہے توبجائے غلطی کے اعتراف کے اب آپ دوسری بات پر گرفت کررہے ہیں۔ اگرآپ کا مطلب یہی تھا جو اب فرمارہے ہیں توشروع میں ہی یہ بات کہنی چاہئے تھی۔لعنت کا چیلنج کرنے والا واقعہ کی ہم اس سے بہترتاویل کرسکتے ہیں جیساکہ معلمی نے تاریخ بغداد میں ایک لاکھ مسائل امام ابوحنیفہ سے پوچھنے کیلئے آنے والے شخص کے واقعہ کی تاویل کی ہے۔ امام اوزاعی رفع یدین کو رفع یدین کو ثابت شدہ سنت سمجھنے پر کامل یقین تھا اورترک رفع یدین کو وہ حضور سے غیرثابت شدہ مانتے تھے کامل یقین کی حد تک ۔لہذا اپنے اسی یقین کی بناء پر انہوں نے سفیان ثوری کو لعنت کا چیلنج کیا۔

ایک انسان اگرنیک نیتی اوراخلاص کے ساتھ کسی چیز کو درست سمجھے اوراس میں اصرار کرے توباوجود یہ کہ اس کی رائے غلط ہو لیکن اس کی نیک نیتی اور اوراخلاص کی بناء پر اس کو معذور سمجھاجاتاہے ۔جیسے حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بعض مسائل میں جمہور صحابہ سے الگ رائے رکھتے تھے اوراپنی رائے پر ان کواصرار بھی تھالیکن اس کے باوجود ان کے اخلاص نیک نیتی پر کوئی شک کی انگلی نہیں اٹھاسکتا اوران کو اس باب میں مجتہد مخطی کہہ کر معذور سمجھاجاتاہے۔ یہی توجیہہ ہم اوزاعی والے واقعہ میں بھی کرسکتے ہیں کہ ان کواپنی رائے پر اصرار اورشدت نے لعنت کے مقابلے پر آمادہ کردیا۔
یہ بات تو حنفیہ پر فٹ نہیں ہوتی جو صرف ابو حنیفہ کے ہی طرز پر عمل کرتے ہیں جب کہ علماء کا طریقہ کار اس کے برخلاف رہا ہے!؟
آپ نے طرز اورمسلک دونوں کو ایک کردیاہے۔براہ کرم فرق سمجھنے کی کوشش کریں۔ مجھے امید ہے کہ یہ فرق بہت جلد آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔ جب کہ اس کے قرائن میری تحریر میں بہت واضح تھے میں نے بخاری کی الجامع الصحیح اورالادب المفرد کا حوالہ دیاتھا۔حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر کا حوالہ دیاتھا اس کے باوجود آپ کو میری بات سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہے تو ہم صرف دعاہی کرسکتے ہیں۔

اسی طرح کسی کے معایب کے بیان کیلئے تو قوی سند چاہئے لیکن کسی شخصیت کے فضائل کے باب میں بھی اتنی ہی مضبوط حدیث چاہئےیہ قابل تسلیم نہیں ہے۔کسی سے حسن ظن پر چاہے بغیر دلیل ہو یاغلط ہو اللہ پکڑ نہیں فرمائیں گے لیکن کسی سے بدظنی کیلئے دلیل چاہئے اورقوی عذر چاہئے۔

جرح و تعدیل کے میدان میں کسی کے لیے حسن ظن رکھنا بھی دین کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اسی لیے تو اس فن کو میزان سے مشابہت دی گئی ہے، جس میں ہر چیز برابر ہے۔ اب اگر آپ جھوٹوں اور حدیثیں گھڑنے والوں کی احادیث کو بھی حسن ظن کے طور پر پھیلانے لگیں گے تو آپ کیسے سوچ سکتے ہیں اس کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی؟؟ اور ویسے بھی بات صرف حسن ظن کی نہیں ہے، بات ہے کسی کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو اس نے کہی ہی نہیں، اور کسی پر جھوٹ باندھنے پر آپ کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے۔
حسن ظن کی بات میں نے صرف ایک فائدہ کے طورپر بیان کی تھی جب کہ میں نے اس مسئلہ میں علماء کا طریقہ کار بیان کیاتھا جس کی جانب آپ نے قطعاتوجہ نہیں دی۔ امام بخاری نے ،حافظ ذہبی،حافظ ابن حجر اوردیگر بہت سارے علماء ،مورخین محدثین نے جو طرز تالیف وتصنیف میں اپنایاہے۔ اس سے میں نے استدلال کیاتھا۔ حسن ظن کی بات اضافی تھی کہ ہمیں اپنی زندگی میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کرناپڑتاہے۔کسی سے ہم بدظنی رکھیں تو دلیل چاہئے اگرکسی سے نیک گمان رکھیں تواس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح علماء فقہاء اورمحدثین کا طرز عمل رہاہے کہ شخصیات کے باب میں فضائل اورعام واقعات کو توگڑے پڑے راویوں سے بھی قبول کرلیتے ہیں مگر کسی اہم شخصیت کے بارے میں مثالب اورمعائب کے طورپر کوئی بات ہو تواس میں جانچ پڑتال اورتحقیق وتفتیش کرتے ہیں۔یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس کو مثالوں سے گرانبار کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا۔


کیا آپ کے مطابق امام بیہقی کا صرف نقل کرنا ہی ان کے نزدیک قابل حجت ہے؟ امام بیھقی نے اور بھی بہت کچھ نقل کیا ہے جس پر آپ یہ نہیں کہیں گے امام بیھقی نے اسی قابل حجت قرار دیا ہے؟
پھر آپ ہی بتادیں کہ انہوں نے اس واقعہ کو رفع الیدین کے باب میں کیوں نقل کیاہے؟یوں ہی بلامقصد!محض کتاب کو بوجھل بنانے کیلئے؟اورقارئین کو پریشان کرنے کیلئے۔


پہلے تو یہ ثابت کریں کہ یہ اثر امام بیھقی کے نزدیک بھی ضعیف ہے، پھر کہیں جا کر فیصلہ ہو گا کہ انہوں نے اسے ضعیف تسلیم کر کے حجت مانا ہے یا نہیں؟ پھر یہ ثابت کریں امام بیھقی باب باندھ کر جو کچھ بھی روایت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک قابل حجت ہے! صرف آپ کہ کہہ دینے سے تو ہم ماننے سے رہے!
یہ توآپ نے ایسی بات کہی ہے کہ گویم مشکل نہ گویم مشکل ۔بہترہے کہ اس سوال کا جواب بھی آپ سے ہی حاصل کرلوں اورجوآپ جواب دیں گے اسی پر عمل ہوگا۔
بیہقی نے جن روایات کو اس کتاب میں ذکر کیاہے اوران کی سند پر کلام نہیں کیاہے اورسند میں راوی اورروات ضعیف ہیں توکیاان کی اسناد کو بیہقی کے نقطہ نگاہ سے مضبوط ماناجائے کہ انہوں نے ان کی سند پر کلام نہیں کیاہے؟اگرآپ کا جواب اثبات میں ہے تو براہ کرم وضاحت کے ساتھ تحریر فرمادیں۔ ایک نئے نقطہ نظر کا اضافہ ہوگا۔اوراگرنفی میں ہے تومیرامدعاثابت ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تویاتوامام بیہقی اس واقعہ کی سند کو درست سمجھتے ہیں یادرست نہیں سمجھتے ہیں۔
اگردرست سمجھتے ہیں توبقول آپ کے امام بیہقی جیسامحدث اس کو درست سمجھ رہاہے تومیں نے جواقعہ نقل کیاہے اس کو ایک بڑامحدث درست سمجھ رہاہے۔ یہ تومیرے لئے اوربھی تقویت کا ذریعہ بن جائے گی اورآپ کے خلاف جائے گی کیونکہ آپ سند کو ضعیف ترین موضوع ومن گھڑت بتارہے ہیں۔
اگرامام بیہقی واقعہ کی سند کو غیردرست سمجھتے ہیں اس کے باوجود واقعہ نقل کرتے ہیں توبھی میرامدعا ثابت ہے۔

یہ تو میرے سوال کا جواب نہ ہوا! میں نے آپ سے سیدھا سا ایک سوال پوچھا تھا لیکن الٹا آپ نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا۔ ارے بھئی میرے سوال کا جواب دینے کے بعد جتنے مرضی سوال آپ مجھ سے پوچھ لیجیے گا۔جہاں تک ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ کا سوال ہے تو نہ تو ہم نے کبھی ان تقلید کی حامی بھری اور نہ ہی ہم ان کی ہر بات کو تسلیم کرتے ہیں، تو پھر اس سوال کا مطلب ہی نہیں بنتا، جبکہ الٹا آپ ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور آپ ان کی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں تو اس لیے اگر آپ ان کو بشر اور غیر نبی مانتے ہیں تو ان کی دو چار ایسی غلطیاں بیان کر دیں نہیں تو مان لیں کہ ابو حنیفہ ہمارا نبی ہے اور ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی!ابن تیمیہ وغیرہ کی غلطیاں تو انگلیوں پے گنائی جا سکتی ہیں، لیکن سوال آپ سے ہے! لہٰذا ہم سے سوال کرنے کی بجائے پہلے آپ خود جواب دیں!
میراسوال بھی سیدھاسادھااوراردو میں ہی لکھاہواتھا۔جرمن اورچینی زبان میں قطعانہیں تھا۔
یہی بات توہمیں کھٹکتی ہے اوربری لگتی ہے کہ زبان پر نعرہ یہی رہتاہےکہ ہم کسی کے مقلد نہیں لیکن عملی اورتحریری طورپر ان کی غلطیوں کی تغلیط نہیں کی جاتی۔ احناف سے توتقریباہرلکھاڑی یہی مطالبہ کرتانظرآتاہے کہ فقہ حنفی میں فلاں فلاں غلط باتیں لکھی ہوئی ہیں اوراحناف یافلاں فلاں نے ان کی تردید نہیں کی ہے لہذا وہ بھی اس کے ماننے والے ٹھہرے۔لیکن خود کا عمل اس کے برعکس ہوتاہے۔

ایک واضح مثال ابن قیم کی لے لیں۔ انہوں نے تقلید کے باب میں بہت وسیع وعریض کلام کیاہے اورتقلید کے خلاف تیغ بے نیام ہیں لیکن ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی محبت میں اتنے سرشار اورغرق ہیں کہ ان کی کوئی غلطی انہیں غلطی نظرنہیں آتی ۔ابن تیمیہ کے شاذ اورجمہور امت سے الگ مسائل پر طرفداری اورجانبداری کی پوری طاقت خرچ کردیتے ہیں اوراس وقت کا نمونہ یہ نظرآتاہے

"ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں"​

اس تھریڈ میں بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہم ابن تیمیہ اورابن قیم کے مقلد نہیں ہیں تواب تک آپ کو اپنی تحقیق سے ان کے جومسائل غلط معلوم ہوئے ہووہ لکھ کربھیج دیں۔اورصرف ابن تیمیہ اورابن قیم ہی کیوں بلکہ اپنے تمام علماء سلفاوخلفا کی جن باتوں کو غلط مانتے ہوں ان کی نشاندہی کرناضروری ہوگیاہے ورنہ اگرکسی عالم کی دوچارغلطیاں آپ کے ذہن میں نہ ہوں تو پھر وہی بات صادق آئی گی جو آپ نے میرے لئے لکھاہے تھوڑی ترمیم کے ساتھ

اس لیے اگر آپ ان کو بشر اور غیر نبی مانتے ہیں تو ان کی دو چار ایسی غلطیاں بیان کر دیں نہیں تو مان لیں فلاں اورفلاں ہمارا نبی ہے اور ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی۔
والسلام
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کسی مسئلہ کو زیادہ کھینچ نہیں سکتا، اور نہ ہی میرے پاس اتنا وقت ہے۔ اس لیے باقی تمام باتوں کو سائڈ پر رکھتے ہوئے صرف اپنا مین سوال پوچھتا ہوں۔
میراسوال بھی سیدھاسادھااوراردو میں ہی لکھاہواتھا۔جرمن اورچینی زبان میں قطعانہیں تھا۔
پھر آپ نے اپنی عادت کے مطابق سوال ہی کیا ہے اور جواب کا نام و نشان نہیں۔ میں نے جب آپ سے وعدہ کر دیا ہے کہ اپنا جواب حاصل کرنے کے بعد آپ کو تمام سوالوں کے جواب، اگر مجھے آئیں گے، تو ضرور دوں گا۔ تو پھر بار بار آپ کیوں سوال پر سوال پوچھی جا رہے ہیں۔ اگر کوئی سائل آپ سے سوال کرے تو کیا آپ اسے جواب دینے کی بجائے سوال ہی پوچھتے ہیں کیا؟ اور میرا علم اتنا نہیں کہ آپ سے مباحثہ کروں اس لیے آپ مجھے سائل سمجھ کر ہی جواب دیں۔
 
Top