کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
ایک روایت میں آیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کو گالیاں دیتے تھے ۔
حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا علي بن المبارك الصنعاني، ثنا يزيد بن المبارك، ثنا عبد الملك بن عبد الرحمن الذماري، ثنا القاسم بن معن، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: " لما مات معاوية تثاقل عبد الله بن الزبير عن طاعة يزيد بن معاوية، وأشهر شتمه، فبلغ ذلك يزيد فأقسم لا يؤتى به إلا مغلولا، وإلا أرسل إليه، فقيل لابن الزبير: ألا نصنع لك غلا من فضة تلبس عليه الثوب وتبر قسمه، فالصلح أجمل بك؟ قال: لا أبر الله قسمه، ثم قال: "ولا ألين لغير الله أسأله ... حتى يلين لضرس الماضغ الحجر۔۔۔الخ [حلية الأولياء لأبي نعيم: 1/ 331]
یہ روایت کئی علتوں کی بناپر ضعیف ہے جن میں سے ایک علت یہ ہے کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عبدالرحمن الذماری ضعیف راوی ہے۔
اس پر ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کہ عبدالملک بن عبدالرحمن نام کا دو راوی ہے ۔ایک الذماری ہے اورایک الشامی ہے ۔
پھر معترض نے ابن حجررحمہ اللہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے ان دونوں کو الگ الگ راوی قراردیا ہے ۔
عرض ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ کے برخلاف امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک ہی راوی قراردیاہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ عبدالملک الشامی کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
والظاهر أنه عبد الملك بن عبد الرحمن الصنعاني الذمارى الا بناوي[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 657]
امام ابن عدی ،امام حبان اورامام عقیلی نے بھی ان دونوں کا الگ الگ ترجمہ ذکر نہیں کیا بلکہ ایک ہی ترجمہ ذکر کیا ہے دیکھیں:[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي ت عادل وعلي: 6/ 531، الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 386، الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 490]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محدثین کی نظر میں بھی یہ دونوں ایک ہی راوی ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی امام ذہبی رحمہ اللہ کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واستظهر الذهبي أنهما واحد، وهو الذي ينشرح له صدري لأن هذا الحديث مداره على عبد الملك بن عبد الرحمن، فوقع في طريق تمام أنه الذماري، وفي طريق العقيلي أنه الشامي، وفي الطريقين معا أن كنيته أبو العباس. وهذا ينافي تخصيص المضعف بهذه الكنية كما فعل الحافظ، فالظاهر أنه رجل واحد، وإنما اضطر الحافظ إلى جعلهما رجلين لاختلاف قول عمرو بن علي فيه. والخطب في مثله سهل، فقد يختلف اجتهاد الحافظ في الراوي حسب ما يبدو له ويرد إليه مما يحمله على التوثيق أو التضعيف[سلسلة الأحاديث الضعيفة 6/ 421 ]
معلوم ہوا کہ یہ دو راوی نہیں بلکہ ایک ہی ہے اور یہ ضعیف ہے جیساکہ محدثین نے کہا ہے رہی عمروبن علی کی توثیق تو خود ان سے اس کی تضعیف بھی مروی ہے اور رہی ابن حبان کی توثیق تو وہ متساہل ہیں۔
اوربالفرض مان لیں یہ دونوں الگ الگ راوی ہیں تو بھی اس سند میں جو الذماری ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ خاص اس نام سے محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے ، چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
أتيناه قبل أن يدخل صنعاء فإذا عنده عن سفيان , وإذا فيها خطأ كثير[المؤتلف والمختلف للدارقطني 2/ 559 واسنادہ صحیح]
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے کہا:
منكر الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 5/ 355 واسنادہ صحیح]
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
ليس بقوي[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 5/ 355]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ليس بقوي [سنن الدارقطني: 3/ 234]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الملك ضعيف[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 281]
ان پانچ محدثین کی اس واضح جرح کے برخلاف امام فلاس کی توثیق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورامام ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں۔
واضح رہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے عبدالملک الشامی اور عبدالملک الذماری میں فرق کرنے کے بعد ان سے متعلق ناقدین کے اقوال نقل کرنے میں وہم کے شکار ہوگئے ہیں چنانچہ امام ابوزرعہ کی جرح منکرا لحدیث اورامام ابوحاتم کی جرح لیس بقوی کو الشامی سے متعلق بتادیا جب کہ الجرح والتعدیل میں یہ دونوں جرح الذماری ہی کے ترجمہ میں ہے ۔
معترض نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابوحاتم نے الذماری کو شیخ کہا ہے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ امام ابوحاتم نے اسے لیس بقوی کہہ کر اس پر جرح کی ہے کمامضی ۔ اور جسے امام ابوحاتم نے شیخ کہا ہے اسے دوسرا راوی عبدالملک بن ھشام الذماری کہا ہے اوراس کا ترجمہ دوسری جگہ ذکرکیا ہے ۔
حنفیوں کے پسندیدہ محقق عوامہ صاحب نے بھی ابن حجرحمہ اللہ کے اس وہم پر گرفت کرتے ہوئے لکھا کہ :
وقع فی کلامه فی التھذیب خلط بین نقل اقوال السابقین فیتعین الرجوع الی مصادره ،
یعنی تھذیب میں ابن حجر نے ائمہ کے اقوال نقل کرنے میں خلط ملط کردیا ہے اس لئے اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے (الکاشف ، حاشیہ رقم 3460)
خلاصہ یہ کہ اس سند میں موجود عبدالملک الذماری ہرحال میں ضعیف ہے۔
حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا علي بن المبارك الصنعاني، ثنا يزيد بن المبارك، ثنا عبد الملك بن عبد الرحمن الذماري، ثنا القاسم بن معن، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: " لما مات معاوية تثاقل عبد الله بن الزبير عن طاعة يزيد بن معاوية، وأشهر شتمه، فبلغ ذلك يزيد فأقسم لا يؤتى به إلا مغلولا، وإلا أرسل إليه، فقيل لابن الزبير: ألا نصنع لك غلا من فضة تلبس عليه الثوب وتبر قسمه، فالصلح أجمل بك؟ قال: لا أبر الله قسمه، ثم قال: "ولا ألين لغير الله أسأله ... حتى يلين لضرس الماضغ الحجر۔۔۔الخ [حلية الأولياء لأبي نعيم: 1/ 331]
یہ روایت کئی علتوں کی بناپر ضعیف ہے جن میں سے ایک علت یہ ہے کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عبدالرحمن الذماری ضعیف راوی ہے۔
اس پر ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کہ عبدالملک بن عبدالرحمن نام کا دو راوی ہے ۔ایک الذماری ہے اورایک الشامی ہے ۔
پھر معترض نے ابن حجررحمہ اللہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے ان دونوں کو الگ الگ راوی قراردیا ہے ۔
عرض ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ کے برخلاف امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک ہی راوی قراردیاہے چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ عبدالملک الشامی کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
والظاهر أنه عبد الملك بن عبد الرحمن الصنعاني الذمارى الا بناوي[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 657]
امام ابن عدی ،امام حبان اورامام عقیلی نے بھی ان دونوں کا الگ الگ ترجمہ ذکر نہیں کیا بلکہ ایک ہی ترجمہ ذکر کیا ہے دیکھیں:[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي ت عادل وعلي: 6/ 531، الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 386، الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 490]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محدثین کی نظر میں بھی یہ دونوں ایک ہی راوی ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی امام ذہبی رحمہ اللہ کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واستظهر الذهبي أنهما واحد، وهو الذي ينشرح له صدري لأن هذا الحديث مداره على عبد الملك بن عبد الرحمن، فوقع في طريق تمام أنه الذماري، وفي طريق العقيلي أنه الشامي، وفي الطريقين معا أن كنيته أبو العباس. وهذا ينافي تخصيص المضعف بهذه الكنية كما فعل الحافظ، فالظاهر أنه رجل واحد، وإنما اضطر الحافظ إلى جعلهما رجلين لاختلاف قول عمرو بن علي فيه. والخطب في مثله سهل، فقد يختلف اجتهاد الحافظ في الراوي حسب ما يبدو له ويرد إليه مما يحمله على التوثيق أو التضعيف[سلسلة الأحاديث الضعيفة 6/ 421 ]
معلوم ہوا کہ یہ دو راوی نہیں بلکہ ایک ہی ہے اور یہ ضعیف ہے جیساکہ محدثین نے کہا ہے رہی عمروبن علی کی توثیق تو خود ان سے اس کی تضعیف بھی مروی ہے اور رہی ابن حبان کی توثیق تو وہ متساہل ہیں۔
اوربالفرض مان لیں یہ دونوں الگ الگ راوی ہیں تو بھی اس سند میں جو الذماری ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ خاص اس نام سے محدثین نے اس کی تضعیف کی ہے ، چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
أتيناه قبل أن يدخل صنعاء فإذا عنده عن سفيان , وإذا فيها خطأ كثير[المؤتلف والمختلف للدارقطني 2/ 559 واسنادہ صحیح]
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے کہا:
منكر الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 5/ 355 واسنادہ صحیح]
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
ليس بقوي[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 5/ 355]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ليس بقوي [سنن الدارقطني: 3/ 234]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الملك ضعيف[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 281]
ان پانچ محدثین کی اس واضح جرح کے برخلاف امام فلاس کی توثیق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورامام ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں۔
واضح رہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے عبدالملک الشامی اور عبدالملک الذماری میں فرق کرنے کے بعد ان سے متعلق ناقدین کے اقوال نقل کرنے میں وہم کے شکار ہوگئے ہیں چنانچہ امام ابوزرعہ کی جرح منکرا لحدیث اورامام ابوحاتم کی جرح لیس بقوی کو الشامی سے متعلق بتادیا جب کہ الجرح والتعدیل میں یہ دونوں جرح الذماری ہی کے ترجمہ میں ہے ۔
معترض نے یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابوحاتم نے الذماری کو شیخ کہا ہے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ امام ابوحاتم نے اسے لیس بقوی کہہ کر اس پر جرح کی ہے کمامضی ۔ اور جسے امام ابوحاتم نے شیخ کہا ہے اسے دوسرا راوی عبدالملک بن ھشام الذماری کہا ہے اوراس کا ترجمہ دوسری جگہ ذکرکیا ہے ۔
حنفیوں کے پسندیدہ محقق عوامہ صاحب نے بھی ابن حجرحمہ اللہ کے اس وہم پر گرفت کرتے ہوئے لکھا کہ :
وقع فی کلامه فی التھذیب خلط بین نقل اقوال السابقین فیتعین الرجوع الی مصادره ،
یعنی تھذیب میں ابن حجر نے ائمہ کے اقوال نقل کرنے میں خلط ملط کردیا ہے اس لئے اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے (الکاشف ، حاشیہ رقم 3460)
خلاصہ یہ کہ اس سند میں موجود عبدالملک الذماری ہرحال میں ضعیف ہے۔