lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
آج کل نوجوان لڑکیوں کی یہ خوسری اور گھر سے فرار ہو کر والدین کی اجازت اور مرضی خلاف اپنے خفیہ آشناؤں سے شادی رچا لینے کی وبا ہمارے معاشرہ میں روز افزوں ہے , اور بد قسمتی سے بعض علماء بھی ,اپنی فقہی موشگافیوں کی بنیاد پر , اس قسم کی شادیوں کے جواز کا فتوى دے دیتے ہیں اور عدالتوں کی کرسیوں پر براجمان بہت سے جج بھی مغرب زدگی کا شکار ہوکر ایسے نکاحوں کو صحیح قرار دے کر ان بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کرتے اور معزز اور شریف والدین کی بے عزتی اور بے بسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور نا عاقبت اندیشی میں کہ انکی بیٹیاں بھی یہی کر دار ادا کر سکتی ہیں , اس ظلم عدوان کے پاسبان بن بیٹھتے ہیں ۔ یوں یہ دونوں طبقے اس معاشرتی بے راہ روی , والدین سے بغاوت وسرکشی , اور اسلامی اقدار وروایات سے انحراف میں معاون بن کر کھلم کھلا تعاون على الاثم والعدوان کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے !!!۔
اورگو کہ ان بعض علماء و قضاۃ کے اس رویے سے ہمارے جذبات شدید مشتعل ہیں لیکن ان کی جلالت شان کھل کر اظہار رائے کرنے سے مانع ہے کیونکہ اس محفل کہ یہی دستور زباں بندی ہے کہ یہاں زبانیں کاٹ کر بیٹھنا ہوتا ہے اور انہیں بات کرنے کو ترسانا ہوتا ہے ۔ ہم بھی ان محافل کے آداب کی وجہ سے کچھ خاموش ہیں لیکن ہماری یہ خامشی بھی اک ادائے دلنواز رکھتی ہے کہ یہی کئی حکایتوں کو بیان کر جاتی ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالى کے نازل کردہ دین کی صریح مخالفت اور سنت نبویہ ﷺ کے خلاف واضح اعلان جنگ کیا جاچکا ہے ۔
دین اسلام نے زوجین کو ایکدوسرے کے لیے باعث سکون قرار دیا ہے , فرمان الہی ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا
(الأعراف :189)
لیکن اگر زوجین میں باہمی الفت ومحبت ختم ہو جائے اور نفرتوں اور کدورتوں فصل پکنے لگے تو اللہ تعالى نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے اور بیوی کو خلع کا حق دیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی شرعی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اجیرن بننے سے بچانے کے لیے اس بے مزہ نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے اور کوئی دوسرا مناسب رفیق زندگی تلاش کرے ۔ تاکہ نکاح کے مقاصد میں اسے ایک اہم مقصد " لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا" پورا ہو جائے ۔
اور جب نکاح سے قبل ہی فریقین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ چاہتا ہو یا دوسرے کی نفرت دل میں گھر کر چکی ہو تو شریعت اسلامیہ اس نکاح کا منعقد ہونا ہی حرام ٹھہراتی ہے ۔ اسی بناء پر اسلام نے نکاح کی صحت کے لیے فریقین یعنی مرد وعورت کی رضامندی کو شرط لازم قرار دیا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں فرماتے ہیں
لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ وَلَا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ
کنواری لڑکی سے اجازت لیے بغیر اور شوہر دیدہ عورت سے مشورہ کیے بغیر انکا نکاح نہ کیا جائے ۔
[صحیح بخاری کتاب الحیل باب فی النکاح (6968)]
لہذا والدین پر لازم ہے کہ وہ لڑکی کی خواہشات کو بھی ملحوظ رکھیں اور اسکے لیے معیاری رشتہ تلاش کریں جس پر وہ بھی راضی ہو جائے ۔ اگر ایک رشتہ بچی کو پسند نہیں ہے تو دوسرا , تیسرا , چوتھا , پانچواں اس سے بھی آگے تک رشتہ تلاش کیا جائے تا آنکہ وہ راضی ہو جائے ۔ والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کے کی قطعا اجازت نہیں ہے جہاں بچی شادی کرنا پسند نہیں کرتی ۔ حتى کہ اگر والدین کسی بچی کا نکاح جبرا کر دیں جہاں وہ راضی نہیں ہے تو شریعت اسلامیہ نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے , وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعہ ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو مسترد فرما دیا
سیدنا عبد الرحمن بن یزید بن جاریہ اور مجمع بن یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ یعنی خنساء بنت خذام انصاریہ رضی عنہا کا نکاح انکے والد نے کر دیا تھا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی تو
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا تھا
[صحیح بخاری کتاب الحیل باب النکاح (6969)]
اور پھر جس طرح سے لڑکی کی رضامندی نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے بالکل ا سی طرح والدین کی اجازت و رضا بھی صحت نکاح کے لیے شرط ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ
[ جامع الترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لانکاح إلا بولی (1101)]
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔
اور اسلام کی ان تعلیمات میں بہت اعتدال اور توازن ہے کہ لڑکی کو تعلیم دی گئی ہے کہ والدین نے اسے پالا پوساہے , اسکی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ہے , اور وہ اسکے ہر لحاظ سے خیر خواہ ہیں , لہذا انہوں نے اپنی بچی کے روشن مستقبل کی خاطر شفقت وہمدردی سے فیصلہ کیا ہے لہذا وہ والدین کے فیصلہ کو رضامندی سے قبول کر لے , اور دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی شاد ی کرنے سے منع کیا ہے ۔ اور اگر کوئی ولی بالجبر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شریعت اسلامیہ ایسے ولی سے حق ولایت سلب کر لیتی ہے اور کسی دور والے ولی کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے ۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ
[ سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی (2083)]
جو بھی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے گی اسکا نکاح باطل ہو گا , یہ بات آپ ﷺ نےتین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر فرمایا کہ اگر کوئی عورت ایسا قدم اٹھالے اور وہ دونوں ازدواجی تعلقات بھی قائم کر بیٹھیں تو لڑکی کو اسکا حق مہر ادا کیا جائے گا ۔ اور اگر اولیاء جھگڑا کریں تو سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے جسکا ولی نہ ہو ۔
یعنی اگر اولیاء کسی لڑکی کا نکاح کرنے سے انکار دیتے ہیں , یا اس پر جبر ا کوئی شخص مسلط کرنا چاہتے ہیں , تو شریعت اسلامیہ ایسے اولیاء کو اولیاء ہی نہیں مانتی , اور انکا معاملہ سلطان کے سپرد کر دیتی ہے ۔ کہ سلطان اسکا ولی بن جائے اور اسکے لیے مناسب رشتہ تلاش کرے ۔
اور سلطان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اولیاء کو لڑکی کا نکاح کرنے پر رضامند یا مجبور کرے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو سلطان خود اسکا نکاح کروا دے ۔ اور اگر والدین بچی کا رشتہ کسی ایسی جگہ کر رہے ہوں جسے وہ نہ پسند کرتی ہے تو صورت حال کا جائزہ لے کہ آیا وہ رشتہ واقعتا اس بچی کے لیے بہتر ہے یا نہیں , کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی ناقص عقل کی بناء پر بلاو جہ خوسری کا مظاہرہ کرتی ہے یا جذبات میں آکر والدین کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیتی ہے جبکہ والدین کا فیصلہ خیر خواہی اور دور اندیشی پر مبنی ہوتا ہے ۔ اور ایسے موقع پر والدین کو اپنی بیٹی کو سمجھانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے , بلکہ بعض دفعہ تو اپنے اختیارات بھی بروئے کار لانا پڑتے ہیں ۔ اور یہ جبر نہیں ہوتا بلکہ خیر خواہی اور حق ولایت کا ناگزیر کا تقاضا ہوتا ہے ۔
جبر در اصل یہ ہے کہ اولیاء اپنے مفادات کی خاطر نوجوان بچی کے مفادات اور اسکے مستقبل کو نظر انداز کرنے پر اصرار کریں , یا پیسے کے لالچ میں بے جوڑ شادی کرنا چاہیں , یا اور اس قسم کی کوئی صورت ہو جو بچی کے لیے ناپسندیدہ ہو ۔ ان صورتوں میں والدین یا اولیاء کو جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
لہذا جہاں والدین اور نوجوان بچی کے درمیان شادی کے مسئلہ میں اختلاف ہو , یا نوجوان بچی گھر سے فرار ہو کر عدالتی نکاح کر لے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بچی کا یہ اقدام واقعی والدین کے ناجائز جبر یاعضل کا نتیجہ ہے یا بچی کی ناسمجھی , بے وقوفی , خود سری اور بغاوت کی علامت ہے ۔ اگر پہلی صورت ہے تو یقینا اسے والدین کے ظلم وجبر سے بچا کر اسکی شادی کا , اور اگر شادی کر چکی ہے تو اسکے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ لیکن دوسری صورت میں وہ قطعا کسی امداد و تعاون کی مستحق نہیں ہے , بلکہ ایسی صورت میں والدین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرہ انتشار سے محفوظ رہے ۔ اور اگر اس نے والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی سے نکاح کر لیا ہے , جبکہ والدین اسکے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں تو ایسے نکاح کو باطل قرار دے کر ایسی لڑکی کو والدین کے سپرد کیا جائے ۔
اورگو کہ ان بعض علماء و قضاۃ کے اس رویے سے ہمارے جذبات شدید مشتعل ہیں لیکن ان کی جلالت شان کھل کر اظہار رائے کرنے سے مانع ہے کیونکہ اس محفل کہ یہی دستور زباں بندی ہے کہ یہاں زبانیں کاٹ کر بیٹھنا ہوتا ہے اور انہیں بات کرنے کو ترسانا ہوتا ہے ۔ ہم بھی ان محافل کے آداب کی وجہ سے کچھ خاموش ہیں لیکن ہماری یہ خامشی بھی اک ادائے دلنواز رکھتی ہے کہ یہی کئی حکایتوں کو بیان کر جاتی ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالى کے نازل کردہ دین کی صریح مخالفت اور سنت نبویہ ﷺ کے خلاف واضح اعلان جنگ کیا جاچکا ہے ۔
دین اسلام نے زوجین کو ایکدوسرے کے لیے باعث سکون قرار دیا ہے , فرمان الہی ہے
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا
(الأعراف :189)
لیکن اگر زوجین میں باہمی الفت ومحبت ختم ہو جائے اور نفرتوں اور کدورتوں فصل پکنے لگے تو اللہ تعالى نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے اور بیوی کو خلع کا حق دیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی شرعی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اجیرن بننے سے بچانے کے لیے اس بے مزہ نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے اور کوئی دوسرا مناسب رفیق زندگی تلاش کرے ۔ تاکہ نکاح کے مقاصد میں اسے ایک اہم مقصد " لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا" پورا ہو جائے ۔
اور جب نکاح سے قبل ہی فریقین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ چاہتا ہو یا دوسرے کی نفرت دل میں گھر کر چکی ہو تو شریعت اسلامیہ اس نکاح کا منعقد ہونا ہی حرام ٹھہراتی ہے ۔ اسی بناء پر اسلام نے نکاح کی صحت کے لیے فریقین یعنی مرد وعورت کی رضامندی کو شرط لازم قرار دیا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں فرماتے ہیں
لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ وَلَا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ
کنواری لڑکی سے اجازت لیے بغیر اور شوہر دیدہ عورت سے مشورہ کیے بغیر انکا نکاح نہ کیا جائے ۔
[صحیح بخاری کتاب الحیل باب فی النکاح (6968)]
لہذا والدین پر لازم ہے کہ وہ لڑکی کی خواہشات کو بھی ملحوظ رکھیں اور اسکے لیے معیاری رشتہ تلاش کریں جس پر وہ بھی راضی ہو جائے ۔ اگر ایک رشتہ بچی کو پسند نہیں ہے تو دوسرا , تیسرا , چوتھا , پانچواں اس سے بھی آگے تک رشتہ تلاش کیا جائے تا آنکہ وہ راضی ہو جائے ۔ والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کے کی قطعا اجازت نہیں ہے جہاں بچی شادی کرنا پسند نہیں کرتی ۔ حتى کہ اگر والدین کسی بچی کا نکاح جبرا کر دیں جہاں وہ راضی نہیں ہے تو شریعت اسلامیہ نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے , وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعہ ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو مسترد فرما دیا
سیدنا عبد الرحمن بن یزید بن جاریہ اور مجمع بن یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ یعنی خنساء بنت خذام انصاریہ رضی عنہا کا نکاح انکے والد نے کر دیا تھا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی تو
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا تھا
[صحیح بخاری کتاب الحیل باب النکاح (6969)]
اور پھر جس طرح سے لڑکی کی رضامندی نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے بالکل ا سی طرح والدین کی اجازت و رضا بھی صحت نکاح کے لیے شرط ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ
[ جامع الترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لانکاح إلا بولی (1101)]
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔
اور اسلام کی ان تعلیمات میں بہت اعتدال اور توازن ہے کہ لڑکی کو تعلیم دی گئی ہے کہ والدین نے اسے پالا پوساہے , اسکی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ہے , اور وہ اسکے ہر لحاظ سے خیر خواہ ہیں , لہذا انہوں نے اپنی بچی کے روشن مستقبل کی خاطر شفقت وہمدردی سے فیصلہ کیا ہے لہذا وہ والدین کے فیصلہ کو رضامندی سے قبول کر لے , اور دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی شاد ی کرنے سے منع کیا ہے ۔ اور اگر کوئی ولی بالجبر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شریعت اسلامیہ ایسے ولی سے حق ولایت سلب کر لیتی ہے اور کسی دور والے ولی کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے ۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ
[ سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی (2083)]
جو بھی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے گی اسکا نکاح باطل ہو گا , یہ بات آپ ﷺ نےتین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر فرمایا کہ اگر کوئی عورت ایسا قدم اٹھالے اور وہ دونوں ازدواجی تعلقات بھی قائم کر بیٹھیں تو لڑکی کو اسکا حق مہر ادا کیا جائے گا ۔ اور اگر اولیاء جھگڑا کریں تو سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے جسکا ولی نہ ہو ۔
یعنی اگر اولیاء کسی لڑکی کا نکاح کرنے سے انکار دیتے ہیں , یا اس پر جبر ا کوئی شخص مسلط کرنا چاہتے ہیں , تو شریعت اسلامیہ ایسے اولیاء کو اولیاء ہی نہیں مانتی , اور انکا معاملہ سلطان کے سپرد کر دیتی ہے ۔ کہ سلطان اسکا ولی بن جائے اور اسکے لیے مناسب رشتہ تلاش کرے ۔
اور سلطان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اولیاء کو لڑکی کا نکاح کرنے پر رضامند یا مجبور کرے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو سلطان خود اسکا نکاح کروا دے ۔ اور اگر والدین بچی کا رشتہ کسی ایسی جگہ کر رہے ہوں جسے وہ نہ پسند کرتی ہے تو صورت حال کا جائزہ لے کہ آیا وہ رشتہ واقعتا اس بچی کے لیے بہتر ہے یا نہیں , کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی ناقص عقل کی بناء پر بلاو جہ خوسری کا مظاہرہ کرتی ہے یا جذبات میں آکر والدین کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیتی ہے جبکہ والدین کا فیصلہ خیر خواہی اور دور اندیشی پر مبنی ہوتا ہے ۔ اور ایسے موقع پر والدین کو اپنی بیٹی کو سمجھانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے , بلکہ بعض دفعہ تو اپنے اختیارات بھی بروئے کار لانا پڑتے ہیں ۔ اور یہ جبر نہیں ہوتا بلکہ خیر خواہی اور حق ولایت کا ناگزیر کا تقاضا ہوتا ہے ۔
جبر در اصل یہ ہے کہ اولیاء اپنے مفادات کی خاطر نوجوان بچی کے مفادات اور اسکے مستقبل کو نظر انداز کرنے پر اصرار کریں , یا پیسے کے لالچ میں بے جوڑ شادی کرنا چاہیں , یا اور اس قسم کی کوئی صورت ہو جو بچی کے لیے ناپسندیدہ ہو ۔ ان صورتوں میں والدین یا اولیاء کو جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
لہذا جہاں والدین اور نوجوان بچی کے درمیان شادی کے مسئلہ میں اختلاف ہو , یا نوجوان بچی گھر سے فرار ہو کر عدالتی نکاح کر لے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بچی کا یہ اقدام واقعی والدین کے ناجائز جبر یاعضل کا نتیجہ ہے یا بچی کی ناسمجھی , بے وقوفی , خود سری اور بغاوت کی علامت ہے ۔ اگر پہلی صورت ہے تو یقینا اسے والدین کے ظلم وجبر سے بچا کر اسکی شادی کا , اور اگر شادی کر چکی ہے تو اسکے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ لیکن دوسری صورت میں وہ قطعا کسی امداد و تعاون کی مستحق نہیں ہے , بلکہ ایسی صورت میں والدین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرہ انتشار سے محفوظ رہے ۔ اور اگر اس نے والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی سے نکاح کر لیا ہے , جبکہ والدین اسکے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں تو ایسے نکاح کو باطل قرار دے کر ایسی لڑکی کو والدین کے سپرد کیا جائے ۔