• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آج کل نوجوان لڑکیوں کی یہ خوسری اور گھر سے فرار ہو کر والدین کی اجازت اور مرضی خلاف اپنے خفیہ آشناؤں سے شادی رچا لینے کی وبا ہمارے معاشرہ میں روز افزوں ہے , اور بد قسمتی سے بعض علماء بھی ,اپنی فقہی موشگافیوں کی بنیاد پر , اس قسم کی شادیوں کے جواز کا فتوى دے دیتے ہیں اور عدالتوں کی کرسیوں پر براجمان بہت سے جج بھی مغرب زدگی کا شکار ہوکر ایسے نکاحوں کو صحیح قرار دے کر ان بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کرتے اور معزز اور شریف والدین کی بے عزتی اور بے بسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور نا عاقبت اندیشی میں کہ انکی بیٹیاں بھی یہی کر دار ادا کر سکتی ہیں , اس ظلم عدوان کے پاسبان بن بیٹھتے ہیں ۔ یوں یہ دونوں طبقے اس معاشرتی بے راہ روی , والدین سے بغاوت وسرکشی , اور اسلامی اقدار وروایات سے انحراف میں معاون بن کر کھلم کھلا تعاون على الاثم والعدوان کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے !!!۔


اورگو کہ ان بعض علماء و قضاۃ کے اس رویے سے ہمارے جذبات شدید مشتعل ہیں لیکن ان کی جلالت شان کھل کر اظہار رائے کرنے سے مانع ہے کیونکہ اس محفل کہ یہی دستور زباں بندی ہے کہ یہاں زبانیں کاٹ کر بیٹھنا ہوتا ہے اور انہیں بات کرنے کو ترسانا ہوتا ہے ۔ ہم بھی ان محافل کے آداب کی وجہ سے کچھ خاموش ہیں لیکن ہماری یہ خامشی بھی اک ادائے دلنواز رکھتی ہے کہ یہی کئی حکایتوں کو بیان کر جاتی ہے ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالى کے نازل کردہ دین کی صریح مخالفت اور سنت نبویہ ﷺ کے خلاف واضح اعلان جنگ کیا جاچکا ہے ۔


دین اسلام نے زوجین کو ایکدوسرے کے لیے باعث سکون قرار دیا ہے , فرمان الہی ہے

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا

(الأعراف :189)


لیکن اگر زوجین میں باہمی الفت ومحبت ختم ہو جائے اور نفرتوں اور کدورتوں فصل پکنے لگے تو اللہ تعالى نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے اور بیوی کو خلع کا حق دیا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی شرعی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کو اجیرن بننے سے بچانے کے لیے اس بے مزہ نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جائے اور کوئی دوسرا مناسب رفیق زندگی تلاش کرے ۔ تاکہ نکاح کے مقاصد میں اسے ایک اہم مقصد " لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا" پورا ہو جائے ۔


اور جب نکاح سے قبل ہی فریقین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو نہ چاہتا ہو یا دوسرے کی نفرت دل میں گھر کر چکی ہو تو شریعت اسلامیہ اس نکاح کا منعقد ہونا ہی حرام ٹھہراتی ہے ۔ اسی بناء پر اسلام نے نکاح کی صحت کے لیے فریقین یعنی مرد وعورت کی رضامندی کو شرط لازم قرار دیا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں فرماتے ہیں


لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ وَلَا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ


کنواری لڑکی سے اجازت لیے بغیر اور شوہر دیدہ عورت سے مشورہ کیے بغیر انکا نکاح نہ کیا جائے ۔



[صحیح بخاری کتاب الحیل باب فی النکاح (6968)]


لہذا والدین پر لازم ہے کہ وہ لڑکی کی خواہشات کو بھی ملحوظ رکھیں اور اسکے لیے معیاری رشتہ تلاش کریں جس پر وہ بھی راضی ہو جائے ۔ اگر ایک رشتہ بچی کو پسند نہیں ہے تو دوسرا , تیسرا , چوتھا , پانچواں اس سے بھی آگے تک رشتہ تلاش کیا جائے تا آنکہ وہ راضی ہو جائے ۔ والدین کو ایسی جگہ شادی کرنے کے کی قطعا اجازت نہیں ہے جہاں بچی شادی کرنا پسند نہیں کرتی ۔ حتى کہ اگر والدین کسی بچی کا نکاح جبرا کر دیں جہاں وہ راضی نہیں ہے تو شریعت اسلامیہ نے نوجوان لڑکی کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے , وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعہ ایسا نکاح فسخ کرا سکتی ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تو آپ ﷺ نے اس نکاح کو مسترد فرما دیا
سیدنا عبد الرحمن بن یزید بن جاریہ اور مجمع بن یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :


فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ یعنی خنساء بنت خذام انصاریہ رضی عنہا کا نکاح انکے والد نے کر دیا تھا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی تو
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا تھا

[صحیح بخاری کتاب الحیل باب النکاح (6969)]


اور پھر جس طرح سے لڑکی کی رضامندی نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے بالکل ا سی طرح والدین کی اجازت و رضا بھی صحت نکاح کے لیے شرط ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں


لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ


[ جامع الترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لانکاح إلا بولی (1101)]


ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔


اور اسلام کی ان تعلیمات میں بہت اعتدال اور توازن ہے کہ لڑکی کو تعلیم دی گئی ہے کہ والدین نے اسے پالا پوساہے , اسکی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا ہے , اور وہ اسکے ہر لحاظ سے خیر خواہ ہیں , لہذا انہوں نے اپنی بچی کے روشن مستقبل کی خاطر شفقت وہمدردی سے فیصلہ کیا ہے لہذا وہ والدین کے فیصلہ کو رضامندی سے قبول کر لے , اور دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی شاد ی کرنے سے منع کیا ہے ۔ اور اگر کوئی ولی بالجبر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شریعت اسلامیہ ایسے ولی سے حق ولایت سلب کر لیتی ہے اور کسی دور والے ولی کو اس بات کا اختیار دیتی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے ۔


چنانچہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :


أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ

[ سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی (2083)]

جو بھی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے گی اسکا نکاح باطل ہو گا , یہ بات آپ ﷺ نےتین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر فرمایا کہ اگر کوئی عورت ایسا قدم اٹھالے اور وہ دونوں ازدواجی تعلقات بھی قائم کر بیٹھیں تو لڑکی کو اسکا حق مہر ادا کیا جائے گا ۔ اور اگر اولیاء جھگڑا کریں تو سلطان ہر اس عورت کا ولی ہے جسکا ولی نہ ہو ۔

یعنی اگر اولیاء کسی لڑکی کا نکاح کرنے سے انکار دیتے ہیں , یا اس پر جبر ا کوئی شخص مسلط کرنا چاہتے ہیں , تو شریعت اسلامیہ ایسے اولیاء کو اولیاء ہی نہیں مانتی , اور انکا معاملہ سلطان کے سپرد کر دیتی ہے ۔ کہ سلطان اسکا ولی بن جائے اور اسکے لیے مناسب رشتہ تلاش کرے ۔
اور سلطان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اولیاء کو لڑکی کا نکاح کرنے پر رضامند یا مجبور کرے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو سلطان خود اسکا نکاح کروا دے ۔ اور اگر والدین بچی کا رشتہ کسی ایسی جگہ کر رہے ہوں جسے وہ نہ پسند کرتی ہے تو صورت حال کا جائزہ لے کہ آیا وہ رشتہ واقعتا اس بچی کے لیے بہتر ہے یا نہیں , کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی ناقص عقل کی بناء پر بلاو جہ خوسری کا مظاہرہ کرتی ہے یا جذبات میں آکر والدین کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیتی ہے جبکہ والدین کا فیصلہ خیر خواہی اور دور اندیشی پر مبنی ہوتا ہے ۔ اور ایسے موقع پر والدین کو اپنی بیٹی کو سمجھانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے , بلکہ بعض دفعہ تو اپنے اختیارات بھی بروئے کار لانا پڑتے ہیں ۔ اور یہ جبر نہیں ہوتا بلکہ خیر خواہی اور حق ولایت کا ناگزیر کا تقاضا ہوتا ہے ۔


جبر در اصل یہ ہے کہ اولیاء اپنے مفادات کی خاطر نوجوان بچی کے مفادات اور اسکے مستقبل کو نظر انداز کرنے پر اصرار کریں , یا پیسے کے لالچ میں بے جوڑ شادی کرنا چاہیں , یا اور اس قسم کی کوئی صورت ہو جو بچی کے لیے ناپسندیدہ ہو ۔ ان صورتوں میں والدین یا اولیاء کو جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔


لہذا جہاں والدین اور نوجوان بچی کے درمیان شادی کے مسئلہ میں اختلاف ہو , یا نوجوان بچی گھر سے فرار ہو کر عدالتی نکاح کر لے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بچی کا یہ اقدام واقعی والدین کے ناجائز جبر یاعضل کا نتیجہ ہے یا بچی کی ناسمجھی , بے وقوفی , خود سری اور بغاوت کی علامت ہے ۔ اگر پہلی صورت ہے تو یقینا اسے والدین کے ظلم وجبر سے بچا کر اسکی شادی کا , اور اگر شادی کر چکی ہے تو اسکے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ لیکن دوسری صورت میں وہ قطعا کسی امداد و تعاون کی مستحق نہیں ہے , بلکہ ایسی صورت میں والدین کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرہ انتشار سے محفوظ رہے ۔ اور اگر اس نے والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی سے نکاح کر لیا ہے , جبکہ والدین اسکے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں تو ایسے نکاح کو باطل قرار دے کر ایسی لڑکی کو والدین کے سپرد کیا جائے ۔

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

کیونکہ دین اسلام نے لڑکی کے لیے ولی کا ہونا لازم قرار دیا ہے خواہ وہ اسکے والدین یا قریبی رشتہ ہوں یا سلطان ! , مگر ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کے نکاح کو بہر صورت باطل ہی قرار دیا ہے ۔
اور ولی کے لیے بھی عاقل وبالغ مرد ہونا شرط ہے , یعنی کوئی عورت کسی عورت کے لیے ولی نہیں بن سکتی !


اللہ تعالى نے قرآن مجید میں جابجا مردوں کو ہی عورتوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا ہے


وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ


(النور:32)
اور بے شوہر عورتوں کا نکاح کروا دو۔


وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا


(البقرۃ:221)


اور مشرک مردوں سے (مؤمنہ عورتوں کا)نکاح نہ کرو حتى کہ وہ مؤمن ہو جائیں ۔


اسی طرح نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے


لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزوَّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَها، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُنْكِحُ نَفْسَهَا

[سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب لانکاح إلا بولی (1882)]

کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کروائے اور نہ ہی کوئی عورت اپنا نکاح خود کر لے , کیونکہ زانیہ ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے ۔

بعض لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ولی کی قید صرف اور صرف کنواری لڑکی کے لیے ہے شوہر دیدہ عورت اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے ۔ لیکن انکی یہ بات قطعا غلط ہے ۔ کیونکہ شوہر دیدہ عورت کے لیے بھی اللہ تعالى نے ولی کی شرط رکھی ہے ۔


اللہ تعالى کا فرمان ہے

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَا للَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

(البقرة:232)

اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور انکی عدت ختم ہو جائے تو انہیں انکے سابقہ خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو بشرطیکہ وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہوں ۔ یہ نصیحت ہر اس شخص کو کی جارہی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ۔ اور یہ کا م تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ اور بہتر ہے , اور اللہ تعالى ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے عورتوں کے اولیاء کو مخاطب کرکے انہیں منع کیا ہے کہ وہ مطلقہ عورتوں کو عدت ختم ہو جانے کے بعد اپنے سابقہ خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکیں ۔ اولیاء کو منع اسی لیے کیا گیا ہے کہ اولیاء روکنے کا اختیار رکھتے ہیں , اگر انکے پاس اختیار ہی نہ ہو تا تو کہا جاتا کہ تمہارے روکنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ خود یہ کام سر انجام دے سکتی ہیں ۔


اور یہ آیت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے بارہ میں نازل ہوئی تھی وہ فرماتے ہیں

أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ قَالَ زَوَّجْتُ أُخْتًا لِي مِنْ رَجُلٍ فَطَلَّقَهَا حَتَّى إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا جَاءَ يَخْطُبُهَا فَقُلْتُ لَهُ زَوَّجْتُكَ وَفَرَشْتُكَ وَأَكْرَمْتُكَ فَطَلَّقْتَهَا ثُمَّ جِئْتَ تَخْطُبُهَا لَا وَاللَّهِ لَا تَعُودُ إِلَيْكَ أَبَدًا وَكَانَ رَجُلًا لَا بَأْسَ بِهِ وَكَانَتْ الْمَرْأَةُ تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَةَ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ فَقُلْتُ الْآنَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ

[صحیح بخاری کتاب النکاح باب من قال لا نکاح إلا بولی (5130)]


یہ آیت میرے بارہ میں نازل ہوئی , میں نے اپنی بہن کی شادی ایک آدمی سے کی تو اس نے اسے طلاق دے دی حتى کہ عدت ختم ہوگئی (اور اس نے رجوع بھی نہ کیا) پھر (عدت ختم ہونے کے بعد) اس نے نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے کہا کہ میں نے (پہلے) تیری شادی کر دی تھی اور تیری عزت وتکریم کی تھی تو تونے اسے طلاق دے دی اور پھر تو دوبارہ اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیج رہا ہے , نہیں , اللہ کی قسم وہ تیرے پاس دوبارہ کبھی نہیں آئے گی ! , جبکہ اس آدمی میں کوئی عیب نہ تھا , اور عورت بھی دوبارہ اسی کے پاس جانے کی خواہاں تھی تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی " فلا تعضلوھن" تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اب میں یہ کام کردوں گا تو پھر اسی کے ساتھ اسکی شادی کردی۔


اس آیت اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شوہر دیدہ عورتیں بھی اپنے نکاح میں خود مختار نہیں ہیں بلکہ انکے لیے بھی ولی کا ہونا ضروری ہے ۔


اسی طرح ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک , امام شافعی , اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ صحت نکاح کے لیے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیتے ہیں ۔اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس بارہ میں کچھ تسامح مروی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو وہ بھی شرط نکاح کے لیے ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیتے ہیں , اور ہمارے علم کے مطابق تو فقہ حنفی میں بھی ولی کی اجازت ضروری ہے بس صرف ایک صورت میں ولی کی اجازت کے بغیر کیے گئے نکاح کو درست قرار دیا گیا اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی بالغ لڑکی ایسے لڑکے سے نکاح کرے جو اسکا کفو ہو یعنی ہر لحاظ سے ہمہ رتبہ ہو اور مہر بھی کم نہ ہو بلکہ اسکے خاندان کی دوسری عورتوں کے برابر ہو ۔ اور اگر مہر کم ہو , یا لڑکی غیر کفو سے نکاح کرے تو اس میں چونکہ اسکے خاندان کی توہین وتذلیل ہے اس لیے ایسا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا , اگر وہ اسے ناپسند کرے تو عدالت کے ذریعہ اسے فسخ کراسکے گا, اگر خاموش رہے تو صحیح قرار پائے گا ۔ اور ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ایسا نکاح سرے سے ہی باطل ہوگا اور اسے عدالت کے ذریعہ فسخ کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ یہ روایت علامہ انور شاہ کاشمیر نے بھی صحیح بخاری کی شرح فیض الباری میں نقل کی ہے

لو نكحت في غير كفء بغير إذن الولي , بطل نكاحها في رواية الحسن بن زياد عن أبي حنيفة

"اگر عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر , غیر کفو سے نکاح کر لیا تو امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ بیان کیا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔"

[فیض الباری جلد ۵ صفحہ ۱۴]


اسی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری مزید لکھتے ہیں

ومذهب أبي حنيفة أن رضى المُولّية مقدَّم عند تعارض الرِّضاءين، مع كونِها مأمورةً بتحصيل رِضى الولي، وكذا المُولَّى مأمورٌ بتحصيل رضائها، فلم يستبدَّ به واحدٌ منها، فإِنه أَمْرٌ خطيرٌ لا بد فيه من اجتماع الرضاءين.

"امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے کہ دونوں (ولی اور لڑکی) کی پسند میں اختلاف کی صورت میں لڑکی کی پسند مقدم ہوگی , تاہم عورت بھی اس امر کی پابند ہے کہ وہ ولی کی رضامندی حاصل کرے , اسی طرح ولی کے لیے بھی عورت کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے , ان دونوں میں سے کسی کو بھی صرف اپنی ہی رائے منوانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے , اس لیے کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے , جس میں دونوں کی رضا مندی کا اجتماع ضروری ہے ۔"

[فیض الباری جلد ۵ صفحہ ۱۵]


لہذا علمائے احناف کا مطلق طور پر لڑکی کے بغیر ولی نکاح کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے اور انکے اپنے امام صاحب کے موقف کے بھی خلاف ہے ۔ جیسا کہ ہم احناف کے عظیم محقق ومحدث علامہ انور شاہ کاشمیری سے یہ بات نقل کر آئے ہیں ۔ تو علمائے احناف جو کہ اپنے لیے تقلید امام کو واجب کہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس مسئلہ میں بھی اپنے امام کی ہی تقلید کر لیں , اور امت میں اختلاف کا باعث نہ بنیں , کیونکہ امام صاحب کہ موقف جسے ہم نے نقل کیا ہے ائمہ ثلاثہ کے موقف کے بالکل قریب ہے ۔ کیونکہ اگر لڑکی کسی کفء سے نکاح کا ارادہ رکھے تو عموما والدین اس پر ارضی ہو جاتے ہیں اور کوئی مانع اور روکاوٹ باقی نہیں رہتی ۔بلکہ والدین خود ایسے نکا پر نہ صرف راضی ہوتے ہیں بلکہ ایسے نکاح کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کرتے ہیں ۔ والدین اپنی بچی سے اختلاف صرف اسی صورت کرتے ہیں جب بچی خودسری کا مظاہرہ کرے اور کسی نامناسب رشتے میں سے خود کو منسلک کرنا چاہے ۔

اور اگر غور کیا جائے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف سب سے زیادہ قرین انصاف اور متوازن معلوم ہوتا ہے , کیونکہ اس میں لڑکی اور اسکے ولی دونوں کی رائے کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ اور اسی بنیاد پر علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری نے امام صاحب کا مذہب یہ بیان کیا ہے کہ نکاح میں لڑکی اور اسکے ولی دونوں کی رضا کا اکٹھا ہونا ضروری ہے اور یہ بات انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے ۔

کاش کہ آج کل کے علماء اور ہماری عدالتوں کے فاضل جج صاحبان کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق بات سمجھ آجائے جو امام ابو حنیفہ , امام مالک , امام شافعی , امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ اجمعین کا متفقہ موقف ہے اور اللہ تعالى کی کتاب اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان وسنت میں بیان شدہ ہے


 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ایک سوال ذہن میں آیا سوچا کے پوچھتا چلوں۔۔۔
اگر سلطان نے یہ اختیارقاضی کو ہی دے دیا ہو۔۔۔
مثال کے طور پر ایسا قانون بنادیا ہو۔۔۔
کے لڑکا اورلڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں تو اس صورتحال میں سلطان نے قاضی یعنی عدالت میں موجود جج کو یہ اختیار دے دیا۔۔۔ کے وہ لڑکا اور لڑکی کا نکاح کروادے۔۔۔
تو ایسی صورت میں کیا یہ نکاح جائز قرار پائے گا یانہیں؟؟؟۔۔۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
ایک سوال ذہن میں آیا سوچا کے پوچھتا چلوں۔۔۔
اگر سلطان نے یہ اختیارقاضی کو ہی دے دیا ہو۔۔۔
مثال کے طور پر ایسا قانون بنادیا ہو۔۔۔
کے لڑکا اورلڑکی اپنی مرضی سے شادی کرسکتے ہیں تو اس صورتحال میں سلطان نے قاضی یعنی عدالت میں موجود جج کو یہ اختیار دے دیا۔۔۔ کے وہ لڑکا اور لڑکی کا نکاح کروادے۔۔۔
تو ایسی صورت میں کیا یہ نکاح جائز قرار پائے گا یانہیں؟؟؟۔۔۔
ظاہر سی بات ہے کہ میرا فتوى چوری کرکے یہاں پیسٹ کیا گیا ہے اور وہ بھی بغیر حوالہ دیے ، تو ان سوالوں کا جواب کہاں سے آئے گا ؟؟؟!
میرا یہ تفصیلی فتوى جسے یہاں نقل کیا گیا ہے میرے بلاگ :
فتاوى اہل الحدیث المعروف فتاوى طاہریہ: سوال: والدین کی اجازت ورضا کے بغیر عدالتی نکاح کر لینے والی لڑکیوں کا شریعت اسلامیہ میں کیا حکم ہے ؟ کیا ایسا نکاح درست ہے ؟
میری سائیٹ دین خالص :
دين خالص - الدين الخالص - deenekhalis || والدین کی اجازت کے بغیر عدالتی نکاح کا حکم ؟
اسی طرح میری دوسری سائیٹ اہل الحدیث ڈاٹ کام:
عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت - اہل الحدیث ڈاٹ کام
پر اک عرصہ سے موجود ہے ۔

خیر

رہا یہ سوال تو اسکا جواب یہ ہے کہ سلطان کے پاس اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ خود ولی بنے یا کسی کو بنائے ، ہاں جب جن صورتوں میں سلطان کے پاس حق ولایت چلا جاتا ہے ان صورتوں میں وہ کسی کو بھی نائب بنا سکتا ہے یا خود نکاح کا ولی بن سکتا ہے ۔
اور ایسی صورت میں وہ نکاح درست ہو گا ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ظاہر سی بات ہے کہ میرا فتوى چوری کرکے یہاں پیسٹ کیا گیا ہے اور وہ بھی بغیر حوالہ دیے ، تو ان سوالوں کا جواب کہاں سے آئے گا ؟؟؟!
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
سلطان والی بات اس لئے پوچھی کے اگر سلطان کو اختیار نہیں کسی لڑکی کی شادی کروانے کا۔۔۔
تو سلطان کو کیا یہ اختیار حاصل ہے وہ کسی لڑکی کے رشتے پر جس کی اس کے ولی راضی ہوں قانون سازی کی بنیاد پر ایسی پابندی عائد کردے جس بناء پر لڑکی اس لڑکے سے شادی نہ کرسکے جس پر اس کا ولی راضی ہوجائے؟؟؟۔۔۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
سلطان والی بات اس لئے پوچھی کے اگر سلطان کو اختیار نہیں کسی لڑکی کی شادی کروانے کا۔۔۔
تو سلطان کو کیا یہ اختیار حاصل ہے وہ کسی لڑکی کے رشتے پر جس کی اس کے ولی راضی ہوں قانون سازی کی بنیاد پر ایسی پابندی عائد کردے جس بناء پر لڑکی اس لڑکے سے شادی نہ کرسکے جس پر اس کا ولی راضی ہوجائے؟؟؟۔۔۔
لڑکی کے والدین اسکے اقرب ولی ہیں ، اور سلطان ابعد ترین ولی ہے ۔ یعنی جب تمام تر قریبی اولیاء نہ ہوں یا انکا حق ولایت کسی وجہ سے معدوم ہو جائے تو تب جا کر سلطان ولی بنتا ہے ۔
لہذا جب اقرب ولی کے لیے لڑکی پر کسی قسم کی زبردستی جائز نہیں تو ابعد ولی کے لیے بطریق اولى جائز نہیں ۔ سلطان ایسی کوئی قانون سازی نہیں کرسکتا جس سے لڑکی رشتہ کرنے یا نہ کرنے پر مجبور ہو جائے ۔
لیکن
یہاں یہ بات یاد رہے کہ لڑکے کے اولیاء اگر لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح کر دیں ، اور وہ لڑکی مجبورا مجلس نکاح میں اس نکاح کا اقرار کر لے تو نکاح صحیح ہوگا ۔ ہاں اس لڑکی کو نکاح کے بعد اختیار حاصل رہے گا ۔
خوب سمجھ لیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لیکن
یہاں یہ بات یاد رہے کہ لڑکے کے اولیاء اگر لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح کر دیں ، اور وہ لڑکی مجبورا مجلس نکاح میں اس نکاح کا اقرار کر لے تو نکاح صحیح ہوگا ۔ ہاں اس لڑکی کو نکاح کے بعد اختیار حاصل رہے گا ۔خوب سمجھ لیں۔

السلام علیکم!۔
شیخ! بڑی معذرت کے ساتھ سب سے پہلے میری گزارش ہے میرے سوالوں کو کسی بھی قسم کے الجھاؤ سے تعبیر نہ کیا جائے۔۔۔ کیونکہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے آپ نے کہا کے زبردسی نکاح کا اقرار کرلے تو نکاح جائز ہوگا۔۔۔ اور دوسری طرف ہم نے پڑھا ہے کے دین نے جبر اور زبردستی کرنے سے منع کیا ہے۔۔۔ کیا زبردسی دین میں جائز ہے؟؟؟۔۔۔

یا نکاح کے معاملے میں شریعت نے لڑکی کے ولی کو اخیتار دے رکھا ہے کہ وہ جس سے چاہے زبردستی لڑکی کا نکاح کرنے پر قادر ہے؟؟؟۔۔۔
کیا نکاح کے لئے شریعت نے لڑکی کی رضامندی یا اُس کی اپنی پسند سے شادی پر کوئی واضح اُصول بیان فرمایا ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ آپ نے کہا ملاحظہ کیجئے!۔

ہاں اس لڑکی کو نکاح کے بعد اختیار حاصل رہے گا
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کس چیز کا اختیار؟؟؟۔۔۔
اگر تو یہ اختیار نکاح کو ختم کروانے کے لئے ہے تو پھر ولی کو کس بنیاد پر زور زبردستی کی اجازت دی گئی؟؟؟۔۔۔

شکریہ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کورٹ میں نکاح صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عرب ممالک کی شرعی کورٹ میں بھی ایسے ہی ہوتا ھے جیسے پاکستان میں۔ اس پر سعودی عرب سے شائد شداد بھائی کو اگر معلوم ہو تو وہ بہتر بتا سکتے ہیں یا کوئی اور ممبر جو اس پر جانتا ہو تو وہ بتا سکتا ھے اگر میرا آئیڈیا غلط نہیں تو شداد بھائی کا اشارہ شائد اسی طرف ہی تھا جسے وہ اپنے طریقہ سے جاننا چاہتے تھے۔ الامارات سے اس پر میں ہر قسم کی معلومات فراہم کر سکتا ہوں۔ الامارات میں بہت سے پاکستانیوں نے فلپائن لڑکیاں بدفعلی کے لئے رکھی ہوئی ہیں جس پر اسے لیگل کرنے کے لئے شرعی کورٹ سے نکاح کروا کر نکاح نامہ حاصل کیا جاتا ھے۔ پہلے اس پر ٥٠٠ درھم کا خرچہ آتا تھا اب شائد کچھ زیادہ ہو گیا ہو۔ فلپائن لڑکی اور ساتھ کچھ دوست شرعی کورٹ لے جائیں کورٹ کی فیس ادا کریں نکاح پڑھوا لیں۔ یہاں فلپائن لڑکی کا ولی فلپائن سے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ جو بھی گواہ ہوتے ہیں اس کا بندوبست لڑکے نے ہی کیا ہوتا ھے۔

کورٹ کے لئے ولی کو اہمیت دے پر ان کے پاس اس پر کوئی نہ کوئی شرعی فتوٰی ہو گا جس سے وہ نکاح کے لئے ولی کی ضرورت پر اہمیت نہیں دیتے۔

والسلام
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323

السلام علیکم!۔
شیخ! بڑی معذرت کے ساتھ سب سے پہلے میری گزارش ہے میرے سوالوں کو کسی بھی قسم کے الجھاؤ سے تعبیر نہ کیا جائے۔۔۔ کیونکہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے آپ نے کہا کے زبردسی نکاح کا اقرار کرلے تو نکاح جائز ہوگا۔۔۔ اور دوسری طرف ہم نے پڑھا ہے کے دین نے جبر اور زبردستی کرنے سے منع کیا ہے۔۔۔ کیا زبردسی دین میں جائز ہے؟؟؟۔۔۔

یا نکاح کے معاملے میں شریعت نے لڑکی کے ولی کو اخیتار دے رکھا ہے کہ وہ جس سے چاہے زبردستی لڑکی کا نکاح کرنے پر قادر ہے؟؟؟۔۔۔
کیا نکاح کے لئے شریعت نے لڑکی کی رضامندی یا اُس کی اپنی پسند سے شادی پر کوئی واضح اُصول بیان فرمایا ہے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ آپ نے کہا ملاحظہ کیجئے!۔


میں یہ جاننا چاہتا ہوں کس چیز کا اختیار؟؟؟۔۔۔
اگر تو یہ اختیار نکاح کو ختم کروانے کے لئے ہے تو پھر ولی کو کس بنیاد پر زور زبردستی کی اجازت دی گئی؟؟؟۔۔۔

شکریہ۔
دین زبردستی کی اجازت نہیں دیتا ، لیکن اگر کسی پر زبردستی ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے گا ، اس بارہ میں ضرور رہنمائی کرتا ہے ۔
ایسے ہی اس معاملہ یعنی نکاح میں اسلام اولیاء کو زبردستی کی اجازت نہیں دیتا ، لیکن اگر وہ زبردستی کر ہی لیں تو کیا وہ نکاح صحیح ہوگا یا میاں بیوی کا ملاپ حرام اور ناجائز تصور کیا جائے ؟
اس بارہ میں شریعت کہتی ہے کہ نکاح درست ہے ، دونوں کا ملاپ صحیح ہے ۔ لیکن عورت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ نکاح فسخ کروا سکتی ہے ۔
ایسا ہی ایک معاملہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آیا کہ عورت نے مقدمہ دائر کر دیا کہ میرے باپ نے میرا نکاح کر دیا ہے جبکہ میں نا پسند کرتی ہوں ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا ۔
یعنی رہنا چاہتی ہے تو رہ لے اور اگر چھوڑنا چاہتی ہے تو چھوڑ دے
اسی حدیث سے دونوں مسئلے ثابت ہو جاتے ہیں
۱۔ عورت کی مرضی کے بغیر کیا گیا نکاح درست ہے : کیونکہ آپ نے ا سے اختیار دیا ہے رہنے کا بھی ! ، اگر وہ نکاح درست نہ ہوتا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ یہ تو نکاح ہی نہیں ہے ۔ خوب سمجھ لیں
۲۔ عورت کی مرضی کے بغیر اگر نکاح کر دیا جائے تو عورت کو نکاح ختم کرنےکے اختیار حاصل ہے اور اسکے لیے وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہے : یہ بات تو واضح طور پر اس حدیث میں سمجھ آ رہی ہے ۔
 
Top