• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدالت ميں حنفى مسلك كے مطابق ولى كے بغير عقد نكاح كيا گيا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عدالت ميں حنفى مسلك كے مطابق ولى كے بغير عقد نكاح كيا گيا
ميں عراق سے تعلق ركھتا ہوں اور چھ برس قبل شادى ہوئى ميرا ايك بچہ بھى ہے، عراق ميں حنفى مسلك كے مطابق عدالت ميں كيا جاتا ہے، عقد نكاح كے وقت لڑكى كا والد وہاں موجود تھا ليكن جج كے سامنے صرف ميں اور لڑكى ہى گئے كيونكہ كسى اور كو جانے كى اجازت نہيں، ليكن لڑكى اور ميرے والد نے بطور گواہ نكاح نامہ پر دستخط كيے، كيا ہمارى شادى صحيح ہے، اور كيا مجھ پر كچھ لازم آتا ہے ؟

جواب ::

الحمد للہ:
اول:

اللہ تعالى آپ كو دينى امور ميں حرص ركھنے پر جزائے خير عطا فرمائے، ليكن آپ نے يہ كام بہت دير سے كيا ہے آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اس حادثہ كے فورا بعد تاخير كيے بغير دريافت كيا ہوتا تو بہتر تھا، ليكن لگتا ہے كہ آپ كو علم نہيں تھا كہ اس طريقہ سے نكاح غلط ہوتا ہے.

دوم:

بعض ممالك ميں عقد نكاح حنفى مسلك كے مطابق شرعى عدالت ميں كئے جاتے ہيں، آپ ديكھيں كے وہاں نكاح خوان بلند آواز سے كہتا ہے كہ عقد نكاح كتاب و سنت اور امام ابو حنيفہ كے مسلك كے مطابق كيا جا رہا ہے!

جو كہ شريعت كے مخالفت ہے، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى عبادت معاملات ميں كسى معين مسلك پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اور ملكوں كو بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے مذاہب ميں شريعت كے مخالف بھى ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس سے زيادہ صحيح پايا جاتا ہو، تو پھر سب معاملات ميں كسى ايك معين مذہب پر اعتماد كيسے كيا جا سكتا ہے؟!

اس طريقہ كے مطابق عقد نكاح كرنے والے شخص كا رد كرنے كا آسان طريقہ يہ ہے كہ اسے كہا جائيگا: امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ سے پہلے كس طريقہ پر عقد نكاح كيا جاتا تھا ؟!

عقلمند شخص جانتا ہے كہ يہ عبارت صحيح نہيں بلكہ باطل ہے، اور وہ يہ بھى علم ركھتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى كا بھى يہ عبارت بول كر نكاح نہيں كيا، اور عقلمند شخص يہ بھى جانتا ہے كہ آئمہ كرام نے بھى اس طرح شادياں نہيں كيں، ان آئمہ كرام ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ خود بھى شامل ہيں !

بلكہ يہ چيز تو صرف متعصب قسم كے لوگوں سے معلوم ہوا ہے، اور ان لوگوں كا تعصب يہاں تك جا پہنچا ہے كہ وہ گمان كرنے اور كہنے لگے ہيں كہ جب عيسى عليہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھى فقہ حنفى كے مطابق فيصلے كيا كريں گے!!

حنفى مسلك ميں عقد نكاح كے وقت ولى كى شرط نہيں ہے بلكہ عورت خود اپنا نكاح كر سكتى ہے، جو كہ قرآن مجيد اور سنت صحيحہ كے مخالف ہے.

جب عورت كا ولى كے بغير نكاح ہو تو يہ نكاح باطل ہو گا كيونكہ حديث ميں اسے باطل قرار ديا گيا ہے، آپ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 7989 ) كا مطالعہ كريں.

اكثر طور پر عدالتميں جانے سے قبل ہى عقد نكاح ہوجاتا ہے، اس طرح آدمى عورت كے ولى سے موافقت طلب كر كے مہر كى تحديد كرتا ہے اور دونوں خاندانوں كے كچھ افراد كى موجودگى ميں عقد نكاح كيا جاتا ہے، اور پھر بعد ميں عقد نكاح كى توثيق شرعى عدالت يا دوسرے محكمہ سے كرائى جاتى ہے، اس طرح عدالت يا نكاح رجسٹرار كا كام تو صرف نكاح كى توثيق ہوا جس ميں كوئى حرج كى بات نہيں.

ليكن ... اس عقد نكاح كے صحيح ہونے ميں علماء كرام كے اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جائيگا كہ جب حاكم اور قاضى و جج اس نكاح كے صحيح ہونے كا حكم لگائے تو اس حكم كو توڑا نہيں جائيگا، اس صورت ميں اس نكاح كا صحيح كہا جائيگا تا كہ لوگ پريشانى ميں مبتلا نہ ہوں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ ولى كے بغير عقد نكاح كے بارہ ميں كہتے ہيں:

" اگر حاكم اس عقد نكاح كے صحيح ہونے كا حكم دے يا پھر حاكم عقد نكاح كا ولى ہو تو اس كے حكم كو نہيں توڑا جائيگا، اور اسى طرح باقى فاسد نكاح بھى.

بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اس كے حكم كو توڑا جائيگا كيونكہ يہ نص كے خلاف ہے، ليكن پہلا قول اولى ہے؛ كيونكہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں اجتھاد جائز ہے " انتہى بتصرف

ديكھيں: المغنى ( 9 / 346 ).

اور جب آپ احتياط چاہتے ہيں تو آپ بيوى كے ولى سے كہيں كہ وہ عقد نكاح دوبارہ كر دے، اس طرح وہ آپ سے كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور اسے قبول كر ليں، نكاح كى پہلى توثيق ہى كافى ہے، عقد نكاح ميں احتياط كا تقاضہ يہى ہے اور اولى بھى تا كہ بغير كسى شبہ كے عقد نكاح صحيح ہو.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب ۔۔(http://islamqa.info/ur/104148 )
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

عرب ممالک میں نکاح شریعہ کورٹ میں ہی ہوتے ہیں۔ اس مسئلہ کو پڑھ کر ایک حالیہ واقعہ پیش کرتا ہوں۔

1 اگست دو دن پہلے ہمارے یہاں ایک شادی تھی اور ہم لڑکی کی طرف سے تھے۔ لڑکے کا باپ عالم فاضل ھے اور ایک دینی مدرسہ چلا رہا ھے، نکاح اس کے داماد نے پڑھایا، نکاح نامہ پر دلہا اور دلہن کے دستخط کروائے گئے مگر کسی گواہاں کے دستخط نہیں کروائے گئے۔ لڑکی کے باپ نے لڑکے کے باپ کو کہاں کہ دو + دو گواہان کے دستخط بھی کروائیں تو دلہا کے والد نے کہا وہ ہو جائیں گے۔ پھر لڑکی کا باپ ادھر ادھر لوگوں کو پوچھنے لگ گیا کہ گواہان کے دستخط نہیں کروائے اور بہت پریشان تھا۔ واللہ اعلم یہ کیا معاملہ تھا۔

والسلام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم کنعان بھائی!
شرعی طور پر جن لوگوں کی موجودگی میں بشمول آپ کے، نکاح منعقد ہوا وہ سب اس نکاح کے گواہ ہیں۔ قانونی کاروائی پوری کرنے کے لیے کسی بھی چار بندوں کے دستخط جو کہ موقع پر موجود تھے کروائے جاسکتے ہیں۔ اور اگر مخصوص بندوں کے نام نکاح نامے پر بطور گواہ پہلے سے ہی لکھے ہوئے تھے تو ان سے بعد میں بھی دستخط کروائے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے بعد مطلوبہ گواہ کسی کام کی وجہ سے ادھر ادھر ہو گئے ہوں۔.اللہ تعالی نئے شادی شدہ جھوڑے کو ایک دوسرے کے لیے باعث برکت بنائے۔ اور ان کو خیر پر جمع کرے۔ آمین!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
نعیم بھائی کی بات درست ہے۔ شرعاً گواہوں کا بلکہ دلہا دلہن کا بھی نکاح کی کسی دستاویز پر بوقت نکاح دستخط کرنا لازمی نہیں ہے۔ (نکاح نامہ ریاستی ضرورت ہے، شرعی ضرورت نہیں) مجلس میں دلہا دلہن کا ایجاب و قبول کرنا اور اس ایجاب و قبول کے وقت کم از کم دو مرد گواہان کی موجودگی ہی کافی ہے (حق مہر کے تعین اور لڑکی کے ولی کی رضامندی کے ساتھ ساتھ )
واللہ اعلم بالصواب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عقد نكاح كے وقت لڑكى كا والد وہاں موجود تھا
راضی ہی تھا نا، کہیں نکاح کی مخالفت میں ''چودھری صاحب'' کا کردار تو ادا نہیں کر رہا تھا، ولی کی رضا مندی تو شامل ہے، پھر مسئلہ کیا ہو گیا ہے!!
غالباً سائل کو دوسری بار نکاح کرنا ہے، دوسری نہیں مل رہی تو تجدید نکاح ہی سہی! ( از راہ مزاح رقم کیا ہے، اگر اخوان کو برا نہ لگے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
Top